یادِ رفتگاں

ڈاکٹر مہدی علی شہید کی یاد میں

(پروفیسر محمد شریف خان۔ امریکہ)

اشکوں میں ڈھل رہی ہیں مرے خونِ دل کی بوندیں

غمِ ہجر سے ہوں گھائل، مرا دل ہے پارہ پارہ

( مہدی علی)

مہدی علی شہید ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ کی زندگی پا گیا۔ کلاس میں بیٹھا یہ خوش شکل، خوش مزاج، دھیما سا لڑکا، کسے پتہ تھا، ایک دن دنیا کا معروف ما ہرِامراضِ قلب بن کر افقِ طبابت پر ابھرے گا، اور پھر آناً فا ناً جامِ شہادت نوش کر کے زندہ جاوید ہو جا ئے گا۔ یہ درجہ ہے جسے خالق بخشے، نہ بخشے!

80-1978ءکے سیشن میں تعلیم الاسلام کالج میں مہدی علی ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم تھا۔ ربوہ شہر میں آتے جاتے ملاقات ہو تی۔ ’’ سر، السلام علیکم ‘‘۔ ’’مہدی علی کیا کر رہے ہو؟ ‘‘ ’’ سرامتحان کی تیاری کر رہا ہوں، دعا کریں۔ مجھے ایک دو چیزیں پو چھنا ہیں ‘‘۔ ’’ ٹھیک ہے کل عصر کی نماز کے بعدگھر آ جانا‘‘…یہ سالوں پرانی یادیں، چہرے پرکھلتی مخصوص شریفانہ مسکراہٹ، نشیلی آنکھیں، مہذب طور و اطوار، آج جواں مردمہدی علی کی یاد کو تازہ کر رہی ہیں۔

چند سال پہلے فون کیا، ’’ڈا کٹر مہدی علی، مجلس طلباء قدیم تعلیم الاسلام کالج امریکہ، اپنا ’’المنار‘‘ شروع کر رہی ہے، آپ اچھا شعر کہتے ہو، شاملِ اشاعت کے لیے اپنی کو ئی نظم بھیجیں‘‘۔ ’’جی سر، نظموں کا مجمو عہ بھیج رہا ہوں، جو پسند آئے۔‘‘ مجھے کو لمبس میں مکرم نورالحق خان صاحب کے فون کی تلاش تھی، ڈاکٹر مہدی کو فون کیا، دو سیکنڈ میں میرا مطلب حل ہو گیا! یہ تھا، ہمارا مہدی علی امریکہ کا مشہور کارڈیالو جسٹ ! اندازہ کیجیے یہ ڈاکٹر اپنے پیشے کے لحاظ سے کتنا مصروف ہو گا۔ جب بھی فون کیا ہمیشہ ڈاکٹر مہدی کو لائن پر مو جود پایا۔ اور جب تقدیر نے شہادت کےلیے کال کیا تومہدی علی کو موجود پایا، جس نے بڑھ کر آبِ حیات نوش کر لیا…مہدی علی! اب تم مجھے کس کس حوالے سے یاد آؤگے!

مہدی مجھے ایک اور حوالے سے یاد رہےگا۔ جب بھی کوئی سانپ ڈیرے پر مارا جاتا، میری ضرورت کا خیال رکھتے ہو ئے، عزیزم مجھے لا دیتا، اس طرح عزیزم ربوہ کے قیام کے دوران میری تحقیق میں اکثر اپنا حصہ ڈالتا رہا۔

تعلیم

مہدی علی شہید نے ابتدائی تعلیم فضل عمر ماڈل سکول دارالصدر ربوہ سے حاصل کی۔ میٹرک 1979ءمیں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور 1982ء میں ایف ایس سی پری میڈیکل کا امتحان تعلیم الاسلام کالج سے اور 1988ءمیں پنجاب میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ محکمہ صحت پنجاب میں کام کیا۔ دوسال فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمت بجا لا ئے، جہاں بلڈ بینک قائم کیا۔ 92۔1991ءمیں اپنے کزن ڈاکٹر لئیق طا ہرکے ہمراہ کینیڈا پہنچے وہاں سے امریکہ، جہاں فلا ڈلفیا سے دونوں نے ایم ڈی کیا۔ مہدی نے 1996ءمیں Maimonides Hospital in Brooklynسے ڈاکٹری کی تر بیت (residency training) حاصل کی۔ اور امراضِ قلب (Cardiology) میں دسترس حاصل کی، اوربطور board certified internist, cardiologist, and interventional cardiologist کےMaimonides Hospital of New York میں کام کر نا شروع کیا۔ اس کے ساتھOhio Universityمیں پڑھانا شروع کر دیا۔

ڈاکٹر مہدی علی کی تحقیقی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین اداکرتے ہو ئے امریکن کالج آف کارڈیالوجی نے آپ کو ’’ محقق امراضِ قلب ‘‘کا ایوارڈ برائے 2004-2003ء عطا کیا۔ اس کے علاوہ آپ مسلسل 2005ء سے 2012ء تک امریکہ کے قابل ترین ماہرِ امراضِ دل شمار ہو ئے۔ عزیز ڈاکٹرمہدی علی شہیدنے اپنی پرو فائل میں اپنے پیشہ ورانہ مقا صد کو یوں بیان کیا ہے:

( I believe in delivering the best possible patient care, maintaining the highest professional standards, contributing to the progress of the institutions I am affiliated with. My first priority is to deliver my professional responsibilities with competency, honesty and integrity.)

’’ میں مریض کی نگہداشت میں ممکنہ بہترین صلا حیتوں کے اظہار پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر، جس ادارے سے منسلک ہوں اس کی ترقی اور نیک نامی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں۔ میری اولین تر جیح میں اپنی بہترین صلاحیتوں، ایمانداری اورراست بازی کو برو ئے کار لا کر خدمت خلق ہے۔ ‘‘

عزیزم شہید طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ فضل عمرہسپتال کے لیے طبی سامان اور مشورے وغیرہ بھجواتے رہتے تھے۔

ڈاکٹر مہدی علی معروف سر جن کے علاوہ کہنہ مشق شاعر اور بہت اچھے کیلیگرافر تھے۔ موصوف کی اوہائیو کو لمبس کی مسجد میں قرآنی آیات کی دیدہ زیب کیلیگرافی موصوف کی یاد دلاتی رہے گی۔

خاندانی حالات

عزیزم ڈاکٹر مہدی 3؍ستمبر1963ء کو چودھری فرزندعلی صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ ماشاء اللہ تیرہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ بچپن ہی سے ذہین اور صاف ستھرا مزاج پایاتھا۔ شہید کے نانا ماسٹر ضیاء الدین ارشد ربوہ کے پہلے شہید تھے، جبکہ آپ کے ما موں راجہ نعیم احمد صاحب (نعیم جنرل سٹور، رحمت بازار، ربوہ) اور بھائی مکرم اشرف علی چودھری کو سر گو دھا جیل میں 1974ء کے احمدی دشمن فسادات کے دوران اسیرانِ راہِ مو لیٰ رہنے کا شرف حاصل رہاہے۔ مہدی علی ربوہ میں مجالس اطفال اور خدام کے سر گرم رکن رہے، تقاریر اور دوسری activities میں بھر پور حصہ لیتے اور انعام حاصل کرتے رہے۔

مہدی علی شہیدکا خمیر ربوہ کی مبارک بستی سے پہاڑوں کے سے محکم ارادے لیے اُٹھا، پروان چڑھا، سکول اور کالج کی تعلیم و تر بیت نے صیقل کیا، امتحانات کی بھٹی سے کندن بن کر پاکستان سے نکلا، امریکہ جیسے ملک میں، جہاں دنیا جہان کے بہترین دماغ بستے ہیں، سب کو پیچھے چھوڑتا ہوا، اپنے بزرگوں کی دعاؤں کے طفیل اور خدا داد صلاحیتوں کے بل بو تے پر مسلسل کئی سال اپنے پیشے پر حکمرانی کر تا رہا، اور پھر ایک ہی جست میں رضوانِ الٰہی حا صل کر گیا!

ہمیشہ جماعت کی خدمت کے لیے مواقع سو چتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر مہدی علی شہید اورڈاکٹر لئیق طاہردو نوں کا کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں moveکرنے اور وہاں احمدیہ بلڈنگ کے قریب جما عت کی خدمت کے لیے multi specialty poly clinic قائم کرنے کا منصوبہ تھا، جس کے لیے مہدی کی کینیڈا میں medical practice license حاصل کرنے کی درخواست process میں تھی، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا!

مہدی علی شہید نے جس خلوص اور رقت میں ڈوب کر یہ دعا کی ہوگی، سوائے خدائے عزّوجل کے اور کوئی نہیں جانتا: ’’اے ذوالمنن! اے مہرباں ! اس سے پہلے کہ میرے گناہ میری نیکیوں سے بڑھ جائیں اور ہو جائے یہ وجود میراتیری دھرتی پہ بوجھ کی مانند، اس سے پہلے کہ ہوکے بے بس میں کسی انساں کو سجدہ کرڈالوں، اس سے پہلے کہ تیرا فضل و عطامجھ سے ہونے لگے گریزاں تو پاس اپنے مجھے بلا لینااس جہاں سے مجھے اٹھا لینا اپنی بخشی ہوئی حیات خدا میری سانسوں سے تو چرا لینا! ‘‘

عزیز مہدی علی شہید مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کیے گئے شہداء کی صف میں شامل ہو نے کا شرف حاصل کر گیا، جس کے سر خیل حضرت سید عبداللطیف شہیدؓ 1903ءکے بعد ایک لمبا سلسلہ شہداء جس میں ڈاکٹر میجر محمود احمد شہید 1948ء، ڈاکٹر مظفر احمد شہید 1983ءڈاکٹر عبدالقادرشہید 1984ءڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر 1984ءاور ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی2008ءشامل ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےڈاکٹر مہدی علی کا ذکر خیر کر نے کے بعد فرمایا: ’’…یہ شہید تو اپنی زندگی میں بھی کامیابیاں دیکھتا رہا اور مخلوق خدا کی خدمت کرتا رہا اور موت بھی ایسی پائی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے دائمی زندگی دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس پیارے بھائی کو جنت میں اعلیٰ درجے عطا فرمائے۔ لمحہ لمحہ ان کے درجات کی بلندی ہوتی رہے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں اس کو جگہ دے۔ ان کے بیوی بچوں کو بھی اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ڈاکٹر صاحب شہید کی تمام نیک خواہشات اور دعائیں جو انہوں نے اپنے بچوں کے لئے کیں، انہیں قبول فرمائے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ30؍مئی2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍جون2014ءصفحہ9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button