متفرق مضامین

سندھ کی احمدیہ اسٹیٹس (قسط دوم)

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی بصیرت افروز راہ نمائی اور حسنِ انتظام کا شاہکار منصوبہ

خلفائے کرام کی سندھ میں تشریف آوری، سفروں کا احوال اوروزرائے اعلیٰ سندھ کی مہمان نوازی

دریائے سندھ جسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہےاس کا منبع چین کے مغربی علاقہ تبت کی ایک جھیل مانسرور میں واقع ہے۔ بھارت اور کشمیر سے گزرتا ہوا جب یہ دریا پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں داخل ہوتا ہے تو اسے ’’اباسین‘‘ یعنی دریاؤں کے باپ کے نام سے پکارا جاتاہے۔ اس طرح یہ دریاسینکڑوں میل کا سفر طے کرنے اورکئی پہاڑی سلسلوں کو کاٹنے کے بعد نشیب و فرازسے گزرتا ہوا کالا باغ کے مقام پر میدانی علاقے میں داخل ہوجاتا ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں کو سیراب کرتے ہوئے بالآخر یہ دریاسندھ میں گرتاہے۔ سندھ میں سکھر بیراج یعنی دنیا کےسب سے بڑے نہری آب پاشی منصوبے کے ذریعہ دریائے سندھ کا نہایت قیمتی پانی کئی نہروں سے ہوتے ہوئے دور دراز کی زمینوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ کہاں دنیا کی چھت کہلانے والا علاقہ تبت اور کہاں صحرائے تھر کے کناروں کو چھونے والے دور دراز دیہات جنہیں انگریزی میں Tailاور مقامی زبان میں پُوچھڑی کا علاقہ کہا جاتا ہےاسی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔

1932ء میں لائیڈ بیراج جسے اب سکھر بیراج کہا جاتا ہے کی تعمیر کے ذریعے قدرت نے ایک طرف تو یہ انتظام و انصرام فرمادیا کہ سندھ کے دور دراز علاقوں کی بنجر زمینیں سیراب ہونا شروع ہوئیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے تشنہ روحوں کی سیرابی کے لیے راہیں آسان فرمادیں اور امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے جا نشین کی توجہ اس علاقے کی طرف پھیر دی۔ سکھر بیراج کی تعمیر کے ساتھ ہی یعنی 1932ء میں احمد آباد اسٹیٹ اور محمود آباد اسٹیٹ کا قیام عمل میں آگیا اورجلد ہی ربیع وخریف کی فصلیں ان مقامات پر کاشت کی جانے لگیں اور صدیوں سے ویران پڑی ہوئی زمینوں پر گندم کے خوشے لہلہانے شروع ہوگئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور یہ مقدر تھا کہ اسلام کی نشأة ثانیہ کے دَور میں نہ صرف یہ کہ سرزمینِ سندھ اسلام احمدیت کے نور سے منور ہو بلکہ ایک ایسے مضبوط مرکز کی حیثیت اختیار کر جائے کہ اس نور کی کرنیں دنیا کے طول وعرض کو روشن کرنے والی ہوں۔

یہی وہ دَور ہے جب قادیان اور گرد و نواح میں احرارکی شورش زوروں پر تھی، مخالف طاقتیں نہایت زور سے احمدیت پر حملہ آور تھیں، نہایت سفلی ہتھیاروں سے جماعت کو دکھ پہنچانے اوراحمدیت کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی کوششیں کی جارہی تھیں، لیکن تحریک جدید کے اجرا نے اسلام احمدیت کی عالمگیر اشاعت کی راہیں کھول دیں ۔ سندھ میں احمدیہ اسٹیٹس کے قیام سے قادیان سے 1200؍کلو میٹر دور صحرائے ریگستان گلشن احمدیت میں تبدیل ہونے کا سلسلہ بھی قریباً اسی وقت شروع ہوا۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہمہ قسم کے طوفانوں اور مخالفانہ ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے احمدیت کے قافلے کو ترقی کی شاہراہ پر دوڑاتے ہوئے اتنا دور لے آئے کہ جس تک پہنچنا یُورشِ احرارکے لیے ناممکن نظر آنے لگا۔

احمدیہ اسٹیٹس کے قیام کے بعد 1935ء کا سال تاریخ احمدیت سندھ کے لیے ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کہ اس سال پہلی مرتبہ سر زمین سندھ نے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کی اور اس کے بعدآنے والے سالوں میں تو گویا ایک نہرِ جاری کی طرح یہ علاقہ حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانیؓ کے علم و عرفان اور پاکیزہ صحبت سے فیضیاب ہونے لگا۔ حضورؓ کے مسلسل دوروں اور ہر سال کئی ہفتے تک اس علاقے میں رونق افروز رہنے کے نتیجے میں ہندوستان کے طول وعرض سے احمدی احباب اس علاقے کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوگئے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صاحب حیثیت احمدیوں نے جماعت کی اراضی کے نواح میں ذاتی زمینیں خرید کر پنجاب سے سندھ کے علاقوں کی طرف ہجرت شروع کردی۔ زمیندار احباب کا اس علاقےکی طرف رجوع ہونے لگا اور احمدی مخلصین دُور و نزدیک سے احمدیہ اسٹیٹس میں فروکش ہونے لگے یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقے آباد ہونا شروع ہوگئے۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس علاقے کی طرف تو جہ آپ کے اسفارِ سندھ کی مندرجہ ذیل فہرست سے مترشح ہے۔ آپ کم و بیش بیس مرتبہ احمدیہ اسٹیٹس کے دوروں پر تشریف لےگئے۔ آپ سندھ تشریف لاتے ہوئے بذریعہ ریل سفر کرتے اور کراچی یا حیدر آباد کے اسٹیشنوں پر نزول فرماتے۔

1935ء میں پہلا سفر سندھ

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سندھ کی زمینوں کے معائنے کی غرض سے مورخہ 9؍مئی 1935ء کو بعد از نماز عصر قادیان سے روانہ ہوئے اور ایک ہفتہ احمدیہ اسٹیٹس میں رونق افروز رہنے کے بعد مورخہ 19؍مئی1935ء کو واپس قادیان پہنچے۔ اس سفر میں حضورؓ زیادہ تر وقت احمدآباد اسٹیٹ میں فروکش رہے۔ (روزنامہ الفضل 24,18,13؍مئی 1935ء)

1937ء کا سفرسندھ

حضورؓ مورخہ 3؍اکتوبر 1937ء کو قادیان سے روانہ ہو کر کراچی میل کے ذریعہ کراچی پہنچے۔ اس سفر کے دوران زیادہ تر قیام ناصرآباد اسٹیٹ میں رہا۔ مورخہ 13؍اکتوبر 1937ء کو ناصر آباد سے واپسی کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے کراچی تشریف لائے اور کراچی سے بذریعہ بحری جہاز بمبئی تشریف لے گئے۔ (روزنامہ الفضل 16، 19، 20؍اکتوبر1937ء)

1938ءکا سفرسندھ

مورخہ30؍اپریل 1938ء کو حضورؓ مع قافلہ لاہور سے عازمِ سندھ ہوئے۔ اس سفر کے دوران آپ زیادہ تر وقت ناصر آباد اسٹیٹ میں مقیم رہے۔ مورخہ 29؍مئی 1938ء کو حضورؓ کراچی سے قادیان کے لیے روانہ ہوئے اور اگلے دن رات ساڑھے بارہ بجے بخیر وعافیت قادیان واپس پہنچے۔ (روزنامہ الفضل 3، 15، 25، 28؍مئی اور یکم جون 1938ء)

1940ء کاسفر سندھ

حضورؓ مورخہ 26؍جنوری 1940ء کو کراچی پہنچے۔ اس سفر کے دوران مورخہ یکم مارچ 1940ء کو نماز جمعہ پڑھانے کے ساتھ آپ نے مسجد ناصر آباد کا افتتاح فرمایا۔ واپسی کے وقت حضورؓ کنجے جی سے بذریعہ ریل روانہ ہوئے اور مورخہ 11؍مارچ 1940ء کو قادیان دارالامان میں رونق افروز ہوئے۔ (روزنامہ الفضل 28؍جنوری، 8؍فروری، 13؍ مارچ 1940ء)

1941ء کا سفر سندھ

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ مورخہ21؍اپریل کو بذریعہ ریل لاہور سے روانہ ہوکر 23؍اپریل 1941ء کو کنجے جی پہنچے اور ناصر آباد میں فروکش ہوئے۔ مورخہ 4؍مئی کو واپسی کے وقت پتھورو کے راستہ میں آپ کی کار پھسل کر سڑک سے نیچے اُتر گئی مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ بخیر وعافیت رہے۔ (روزنامہ الفضل23، 25؍اپریل، 7، 23؍مئی 1941ء)

1946ء کا سفرِسندھ

حضورؓ مورخہ 9؍مارچ1946ء کو قادیان سے عازمِ سندھ ہوئے اور 13؍اپریل کو واپس قادیان تشریف لائے۔ نور نگر کا نام پہلے رکھا جاچکا تھا جبکہ اس سفر کے دوران حضورؓ نے محمد آباد کی نواحی گوٹھوں کے نام برہان نگر، لطیف نگر، روشن نگر، کریم نگر اور اسحاق نگر تجویز فرمائے۔ حضورؓ حضرت نواب عبد اللہ خان صاحبؓ کی دعوت پر نصرت آباد اسٹیٹ بھی تشریف لے گئے۔ (روزنامہ الفضل12، 25؍مارچ1946ء)

1947ء کا سفر سندھ

متحدہ ہندوستان سے یہ آخری سفر سندھ تھا۔ حضورؓ مورخہ9؍مارچ 1947ء کو ناصرآباد پہنچے۔ حضورؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور احمد آباد، کنری، محمد آباد، محمود آباد، روشن نگر، لطیف نگر اور کریم نگر میں واقع زمینوں کا معائنہ فرمایا۔ واپسی پر سکھر میں بھی مختصر قیام فرمایااور 31؍مارچ کو بذریعہ سندھ ایکسپریس لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ (روزنامہ الفضل 14، 15، 17، 21، 24؍مارچ، 3، 11، 22؍اپریل1947ء)

1948ء کا سفر سندھ

قیامِ پاکستان کے بعد یہ پہلا سفر سند ھ تھا۔ 14؍فروری کو حیدرآباد پہنچے۔ میرپورخاص جیل تشریف لے جاکر مائی بختاور کیس کے سلسلے میں اسیر احمدی احباب کو شرف ملاقات بخشا اور نصائح فرمائیں۔ 7؍مارچ 1948ء کونور نگر کی فصل پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور کچھ دیر نور نگر میں مقیم رہے۔ احمدیہ اسٹیٹس کا معائنہ فرمایا اور کام کا جائزہ لے کر ہدایات ارشاد فرمائیں۔ (الفضل24، 27؍فروری3، 4، 7، 8، 11، 16 24،18 ؍مارچ 1948ء)

1949ء کا سفر سندھ

پچاس نفوس پر مشتمل قافلے کے ہمراہ حضوؓر مورخہ21؍مئی کو عازم سفر ہوئے۔ مورخہ 8؍جون کو نور نگر کی فصلوں کا معائنہ فرمایا اور ایک نئی بستی صادق پور کی بنیاد رکھی۔ حضورؓ کی خدمت میں محمد آباد، محمود آباد، ناصرآباد، احمد آباد اور دیگر اراضیات کے بجٹ پیش کیے گئے۔ ایک ماہ احمدیہ اسٹیٹس میں رونق افروز رہنے کے بعدحضورؓ 21؍جون1949ء کنجے جی سے کوئٹہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ (روزنامہ الفضل22؍مئی، 11، 12، 14، 16، 19، 21، 23؍جون، یکم جولائی، 1949ء)

1950ء کا سفر سندھ

خطبات محمود کے ریکارڈ کے مطابق حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مورخہ10؍اور 17؍مارچ 1950ء کےدو خطبات جمعہ ناصرآباد اسٹیٹ میں ارشاد فرمائےجس سے مترشح ہے کہ آپ مارچ 1950ء میں احمدیہ اسٹیٹس سندھ میں رونق افروز ہوئے۔ ( روزنامہ الفضل 28؍مارچ 1950ء)

1950ءکا دوسرا سفر سندھ

حضورؓ مورخہ 9؍اگست 1950ء کو کوئٹہ سے سندھ کے لیے عازمِ سفر ہوئے اور تین ہفتے احمدیہ اسٹیٹس میں رونق افروز رہنے کے بعد 31؍اگست کو ناصرآباد سے کراچی تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کے علاوہ حضرت اماں جانؓ بھی ہمراہ تھیں۔ (الفضل 17، 26؍اگست1950ء)

1951ء کا سفر سندھ

حضورؓ مورخہ22؍فروری 1951ء کوناصر آباد اسٹیٹ پہنچے۔ 25؍فروری کو بیل گاڑی پر سوار ہوکر فصل کا معائنہ فرمایا۔ سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ہدایت فرمائی۔ تین ہفتے احمدیہ اسٹیٹس میں رونق افروز رہنے، کارکنان کو ہدایات سے نوازنے اورفصلوں کا معائنہ فرمانے کے بعد مورخہ 12؍مارچ کو بخیر وعافیت ربوہ پہنچ گئے۔ (روزنامہ الفضل 22، 24، 28؍فروری، 9، 10، 13، 14؍مارچ 1951ء)

1952ء کا سفر سندھ

حضورؓ مورخہ25؍فروری 1952ء کو بذریعہ چناب ایکسپریس روانہ ہو کر مورخہ 26؍فروری کو بشیر آباد اسٹیٹ پہنچے۔ حضورؓ نے اس سفر کے ووران اسٹیٹس کے بجٹ ملاحظہ فرمائے، فصلوں کا معائنہ فرمایا اور نہایت بیش قیمت ہدایات سے نوازا۔ واپسی سے قبل 25؍مارچ کو حیدر آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور اتحاد المسلمین کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ (روزنامہ الفضل9، 13، 18، 20، 22، 27، 30؍مارچ، یکم اپریل 1952ء)

1953ء کا سفر سندھ

حضورؓ مورخہ 27؍جون کو ربوہ سے ناصر آباد سندھ کے لیے عازم سفرہوئے اور احمدآباد، محمد آباد، میرپورخاص اور حیدر آباد سے ہوتے ہوئے کراچی میں رونق افروز ہوئے۔ اس دورہ کے دوران آپ نے جماعت کی علمی و عملی اصلاح کے لیے نہایت بیش قیمت خطابات ارشاد فرمائے۔ (سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان 1953۔ 1954ء)

1954ء کا دورہ سندھ

حضورؓ جون 1954ء کے اوائل میں بذریعہ چناب ایکسپریس کراچی تشریف لائے اور 6؍جولائی تک کراچی میں قیام فرما رہے۔ بعد ازاں ناصر آباد، محمود آباد اور محمد آباد میں فروکش ہوئے۔ اس سفر کے دوران جماعت کو تبلیغ اسلام اور محنت کی خاص تلقین فرمائی۔ تقریباً دو ماہ سندھ میں مقیم رہنے کے بعد آپ یکم ستمبر کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے۔ (روزنامہ الفضل 8؍جون، 2، 8، 14، 29؍ستمبر 1954ء)

1957ء کا سفر سندھ

9؍فروری کو حضورؓ ربوہ سے روانہ ہوکر 10؍فروری کو حیدر آباد پہنچے۔ 17؍فروری کو احمد آباد میں پیداوار کا معیار بلند کرنے والے مینیجر صاحبان اور منشی حضرات کو نقد انعامات عطا فرمائے۔ 19؍فروری کو کنجے جی سے میرپورخاص تشریف لائے۔ رات کا کھانا جماعت میرپورخاص نے ٹرین میں پیش کیاجس کے بعد حضورؓ حیدر آباد کے لیے روانہ ہوگئے۔

(روزنامہ الفضل 26؍فروری، 8، 9؍مارچ 1957ء)

1958ء کا دورہ سندھ

17؍فروری کو حضورؓ ربوہ سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ دو ہفتہ کراچی میں رونق افروز رہنے کے بعد احمدیہ اسٹیٹس میں جلوہ گر ہوئے۔ 14؍مارچ کا جمعہ حال ہی میں تعمیر ہونے والی مسجد محمد آباد میں ادا فرمایا۔ یہاں سے بذریعہ ٹرین روانگی تھی، ٹرین کا وقت چونکہ پونے ایک بجے تھا لہٰذا حضورؓ خطبہ جمعہ کے لیے ساڑھے گیارہ بجے تشریف لائے۔ محمد آباد مسجد میں پہلی مرتبہ لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کیا گیا۔ (الفضل 23؍فروری، 13، 15، 18، 20؍مارچ 1958ء)

1959ء کا سفر سندھ

حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانیؓ کا یہ آخری سفر سندھ تھا۔ 22؍فروری کو حضورؓ بذریعہ تیزگام حیدر آباد وارد ہوئے۔ 25؍فروری کو بشیر آباد سے ناصرآباد اسٹیٹ جاتے ہوئے حضورؓ کی کار کو حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سےشدید چوٹیں آئیں۔ حضورؓ تین مارچ تک احمدیہ اسٹیٹس میں قیام فرمارہنے کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور وہاں سے مورخہ 12؍مارچ کو بذریعہ چناب ایکسپریس ربوہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ (روزنامہ الفضل 27، 28؍فروری، 5، 13؍مارچ 1959ء)

عجیب تصرفاتِ الٰہی

1932ء میں سکھر بیراج کی تعمیر کے ساتھ ہی ارضیات سندھ کی خرید محض اتفاقی واقعہ نہیں۔ اسی طرح 1935ء میں قادیان میں بجلی کی آمد بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ 1935ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلاسفر سندھ اختیار فرمایا اور یہی وہ سال ہے جب ضلع تھرپار کر میں میٹر گیج ریلوے جسے لوپ لائن ریلو ے بھی کہا جاتا ہے، کا 104کلومیٹر طویل ٹریک مکمل ہوا۔ میرپورخاص، جھڈو اور پتھورو جنکشن کے مابین لوپ لائن ریلوے کی تکمیل اس علاقے کے باسیوں کے لیے ایک نعمت عظمیٰ کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ریلوے ٹریک 1909ء سے فعال ہوچکا تھا مگر جھڈو تک لوپ لائن کی تکمیل نے احمدی احباب کے لیے غیر معمولی آسانیاں پیدا فرمادیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اپنے پہلے سفر سندھ کے دوران جھڈو میں ہی نزول فرمایا اور احمدیہ اسٹیٹس کے مابین آمد و رفت کے لیے اکثر اسی ریل کے ذریعہ سفر فرماتے رہے۔

ذرائع سفر کیا ہوتے؟

حضورؓ لاہور اورپھر ربوہ سے بذریعہ ریل عازم سفر ہوتے۔ جن ریلوں پر سفر کا ذکر ملتا ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کی تفصیل پیش خدمت ہے۔

آغاز میں حضورؓ بذریعہ کراچی میل لاہور سے سندھ تشریف لاتے۔ 1947ء میں بذریعہ سندھ ایکسپریس سفرکرنے کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان میل، تیزگام اور چناب ایکسرپریس کے ذریعہ آپ کراچی یا پھر حیدر آباد تشریف لاتے رہے۔

سندھ تشریف آوری کے بعد اراضیات کے معائنہ کے لیے آپ اکثر گھوڑے پر سوار ہو کرمیلوں میل پھیلے ہوئے مقامات اور فصلوں کا دورہ فرماتے۔ بسا اوقات بیل گاڑی پر سوار ہوکر فصلوں کا معائنہ فرماتے اور 1949ء میں کار خراب ہونے پرآپ ناصر آباد سے محمود آباد جاتے ہوئے ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعہ تشریف لے گئے۔ حضورؓ اپنے سفر سندھ کے دوران کراچی یا حیدر آباد سے اندرون سندھ تشریف لاتے ہوئے جھڈو ریلوے اسٹیشن پر اُترے او ر وہاں سے گھوڑوں پر سفر کرتے ہوئے مع اہل قافلہ احمدآباد اسٹیٹ رونق افروز ہوئے۔ ناصر آباد میں قیام کے دوران عموما ًکنجے جی ریلوے اسٹیشن سے سوار ہو کر بذریعہ میر پورخاص کراچی عازم سفر ہوتے۔

امامِ وقت کا استقبال اور احباب کا جوش و خروش

1935ء میں پہلے سفر سندھ کے بعد 1959ء تک حضورؓ سوائے چندبرس کے تقریبا ًہر سال سندھ تشریف لاتے رہے۔ حضورؓ کی آمد احباب کے لیے عید کا سا سماں ہوتی۔ لاہور سے روانہ ہوتے ہوئے ایک ہزار کلومیٹر سے زائد کے سفر کے دوران راستہ میں اسٹیشنوں پر احباب زیارت کے لیے اُمڈے چلے آتے۔ اس وقت کی کیفیات اور احباب کے جذبات کا اندازہ روزنامہ الفضل کی رپورٹس سے ہوتا ہے۔ چند ایک نمونے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں: ’’احمد آباد اسٹیٹ کے احباب کثیر تعداد میں اپنے پیارے آقا کا شرف زیارت حاصل کرنے کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ جماعت احمدیہ احمد آباد کی طرف سے شربت سے تواضع کی گئی۔ مکرم سردار عبد الرحمٰن صاحب، عبد الواحد صاحب اور منشی غلام احمد صاحب انتظام میں پیش پیش تھے۔ حضرت امیر المؤمنین نے سب کو شرف مصافحہ بخشا۔ گاڑی نبی سر روڈ سے روانہ ہوکر ڈھائی بجے دوپہر ٹاہلی اسٹیشن پہنچی۔ مکرم چوہدری صلاح الدین صاحب مینیجر محمدآباد اسٹیٹ، مکرم غلام احمد صاحب عطا ایم ایس سی انچارج تجرباتی فارم، مکرم سید مسعود مبارک صاحب اور چوہدری غلام احمد بسرا صاحب ڈپٹی مینیجر اپنے دیگر عملہ کے ساتھ اپنے پیارے آقا کو اھلاً وسھلاً کہنے کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ حضور کار پر تشریف لائے، مستورات اور قافلہ کا کچھ حصہ بیل گاڑیوں کے ذریعہ اور باقی قافلہ گھوڑوں پر سوار ہو کر محمد آباد پہنچا‘‘(روزنامہ الفضل لاہور 12؍جون1949ء)

حضورؓ اور اہل قافلہ کے لیے سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ بک کروالیا جاتا تھا جو پہلے سے اسٹیشن پر موجود ہوتا۔ چنانچہ 1952ء کے دورہ کا احوال اس طرح مذکور ہے: ’’گیارہ بجے کے قریب گاڑی کنجے جی اسٹیشن پر رکی اور کمپارٹمنٹ کو اس کے ساتھ لگا دیا گیا۔ ناصر آباد اسٹیٹ اور نسیم آباد اسٹیٹ کی جماعتوں کے احباب کثیر تعداد میں اپنے پیارے امام کو الوداع کے لئے موجود تھے…

روانگی سے قبل رستہ کے قریب کی جماعتوں کو بذریعہ ڈاک حضور کے اس سفر کی اطلاع دیدی گئی تھی۔ چنانچہ کنری، نبی سر روڈ، ٹاہلی، نوکوٹ جھڈو، ڈگری، میرپورخاص، ٹنڈو الہ یار، حیدرآباد سندھ، رحیم یار خاں، خان پور، سمہ سٹہ، بہاولپور ملتان چھاؤنی، لودھراں، خانیوال، عبدالحکیم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرہ، لائل پور، چک جھمرہ اور چنیوٹ کے اسٹیشنوں پر مقامی اور ارد گرد کی جماعتوں کے احباب حضور سے ملاقات حاصل کرنے کے لئے منتظر کھڑےتھے۔ عورتیں اور چھوٹےبچے بھی اشتیاقِ دید میں مردوں سے کچھ کم نہ تھے۔ ہر جگہ پر مقامی عہدیداروں نے آگے بڑھ کر جماعت کے افراد کا تعارف کرایا اور حضور سے مصافحہ کروایا۔ بعض جگہوں پر زائرین کا اتنا ہجوم تھا کہ باوجود کوشش کے بعض دوست شرف مصافحہ سے محروم رہے۔ لیکن وہ شوق مصافحہ میں اپنے ساتھیوں سے کم نہیں تھے…۔ مخلصین جماعت کے ساتھ ساتھ کئی غیر احمدی دوست بھی حضور کی زیارت اور شرف مصافحہ حاصل کرنے کے لئےمنتظر کھڑےتھے۔ گاڑی حرکت میں آجاتی لیکن زائرین کا شوق دیدار کم نہ ہوتا‘‘( روزنامہ الفضل یکم اپریل1952ء)

ان سفروں کے دوران حضورؓ جن مقامات پر تشریف لے جاتے وہاں اپنے خدام پرخصوصی شفقت اور عنایت فرماتے۔ مورخہ 7؍مارچ 1948ء کےایک سفر کا احول یوں مذکور ہے: ’’آج صبح دس بجے حضور گھوڑے پر سوار ہو کر فصل دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ راستے میں حضور نےنور نگر، لطیف نگر، اسحق نگر اور روشن نگر کے حلقہ کی فصل کے علاوہ تجارتی فارم بھی ملاحظہ فرمائے اور حلقہ نور نگر کی فصل پر حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور حلقہ کے منشی نور محمد صاحب واقف زندگی کو انعام عطا فرمایا۔ نور نگر کے مزارعین کی درخواست پر حضور وہاں ٹھہرے۔ دو بجے دوپہر واپس تشریف لائے۔‘‘ (روزنامہ الفضل 11؍مارچ 1948ء)

سندھ کے وزرائے اعلیٰ کی طرف سے حضورؓ کی مہمان نوازی

سر زمین سندھ صوفیوں اور ولیوں کی سر زمین کہلاتی ہے اسی طرح مہمان نوازی اور رواداری سندھی قوم کا خاصہ کہی جا سکتی ہے۔ اس دھرتی نے جس طرح جماعت اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو خوش آمدید کہا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب حضورؓ سندھ تشریف لاتے تو احمدی احباب کے ساتھ ساتھ غیر از جماعت احباب بھی حضورؓ سے ملاقات اور مہمان نوازی میں پیش پیش ہوتے۔ ڈاکٹر عبد الرحمٰن صدیقی صاحب کے ہاں قیام کے دوران بڑی تعداد میں غیر از جماعت احباب مدعو ہوتے، کھانا تناول فرماتے اور تبادلۂ خیال کے مواقع بہم ہوتے۔ سندھ کے بہت سے غیر از جماعت شرفاء اور معززین حضورؓ سے ذاتی تعلقات رکھتے اور حضورؓ کی آمد پر ملاقات کے لیے تشریف لاتے۔ سندھی سیاستدان حتی کہ سندھ کے وزرائے اعظم (سندھ کے وزیر اعلیٰ قیام پاکستان سے قبل وزیر اعظم کہلاتے تھے) بھی آپ سے شرف نیاز مندی رکھتے اور آپ کی سندھ تشریف آوری پر روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے۔

مورخہ 29؍فروری 1940ء کو خان بہادر اللہ بخش صاحب وزیر اعظم سندھ کی طرف سے کراچی میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے اعزاز میں پارٹی پیش کی گئی۔ اس دعوت میں سر غلام حسین ہدایت اللہ صاحب وزیر قانون، پیر الٰہی بخش صاحب وزیر تعلیم، حاتم علوی صاحب، مسٹر جمشید این آر مہتہ صاحب، حضرت نواب محمد اللہ خان صاحب آف مالیر کوٹلہ اور دیگر احمدی احباب نے شمولیت اختیار کی۔ (روزنامہ الفضل 6؍مارچ1940ءصفحہ2)

خان بہادر اللہ بخش سومرو صاحب سندھ کے ایک نہایت معزز اور معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے بھانجے الٰہی بخش سومرو سپیکر قومی اسمبلی جبکہ نواسے عبد الحفیظ شیخ پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

اسی طرح سندھ کے ایک اور نہایت معزز سیاستدان سر غلام حسین ہدایت اللہ جو سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ اور قیام پاکستان کے وقت بھی سندھ کی وزارت عظمی پر فائز تھے حضورؓ کے میزبانوں میں شامل ہوتے۔ متحدہ ہندوستان میں قیامِ پاکستان سے کچھ ماہ قبل جب حضورؓ سفر سندھ پر تشریف لے گئے تو مورخہ 2؍مارچ 1947ءکو سندھ کے وزیر اعظم سر غلام حسین ہدایت اللہ صاحب نے حضور کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔

حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ مسند خلافت پر فائز ہونے کے اگلے سال10؍نومبر 1966ء کو پہلے دورہ سندھ پر تشریف لےگئے۔ بشیر آباد رونق افرو ز ہوئے تو احباب نےباہر سڑکوں پر دورویہ کھڑے ہو کر حضورؒ کا استقبال کیا اور حضورؒکی آمد پر نعرہ ہائے تکبیر، امیرالمومنین زندہ باد، اسلام زندہ باد اور احمدیت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ احمدیہ اسٹیٹس میں دس دن رونق افروز رہنے کے بعد حضورؒ کراچی تشریف لے آئے۔ (روزنامہ الفضل 29؍نومبر 1966ء)

حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ دوسری مرتبہ 1980ء میں سندھ تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران محمود آباد میں حضورؒکی آمد کا احوال ان الفاظ میں مرقوم ہے: ’’حضور کی تشریف آوری کی خوشی میں نہر کے پل سے کوٹھی تک تین چار میل کے پورے راستہ کو دو طرفہ جھنڈیوں سے آراستہ اور استقبالیہ گیٹوں سے مزین کیا گیا تھا۔ کوٹھی کے گیٹ کو رنگا رنگ جھنڈیوں اور بجلی کے قمقمے لگا کر سجایا گیا تھا…اگلے روز جمعہ سے پہلے دور و نزدیک سے مہمانوں کا تانتا بندھا رہا۔ محمود آباد کی ٹریکٹر ٹرالیاں مہمانوں کو سہولت سے پہنچانے کے لئے بار بار کنری کے چکر لگاتی رہیں۔ علاوہ ازیں دوست موٹر سائیکلوں، موٹر کاروں، جیپوں اور بیل گاڑیوں میں تشریف لائے۔ محمودآباد کی چھوٹی سی بستی میں مہمانوں کی گہما گہمی تھی۔ بچے چہک رہے تھے۔ خدام کا جوش و خروش قابل دید تھا…سڑکوں پر چھڑکاؤ کیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس چھوٹی سی بستی کو غریب دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔‘‘

(روزنامہ الفضل 4؍مارچ 1980ء)

اس سفر کے دوران مورخہ18؍فروری 1980ء کو حضورؒ ناصر آباد میں رونق افروزتھے۔ ان شب و روز کی جھلک درج ذیل رپورٹ سے مترشح ہے: ’’حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب حضور کی ملاقات اور زیارت کے لئے تشریف لانے والے مہمانوں کی مہمانداری کا انتظام فرمارہے تھے۔ دن رات سینکڑوں مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا۔دوپہر کےکھانے پرجماعت ناصر آباد کی طرف سے حضور اور مہمانوں کی ضیافت کی گئی اس ضیافت میں چار سو مہمانان کرام شامل ہوئے۔ رات کی ضیافت میں مہمانوں کی تعداد سات سو کے قریب تھی۔ بہت گہما گہمی تھی۔ حضور کو خوش آمدید کہنے اور زیارت کے لئے بڑی تعداد میں غیر از جماعت سندھی احباب بھی موجود ہوتے اور اظہار کرتے کہ ہم نے ایسے استقبال کہیں نہیں دیکھے۔ عقائد کے اختلاف کے باوجود اس اظہار سے نہ رکتے کہ حضرت خلیفة المسیح کی شخصیت روحانی تاثیرات کی حامل ہے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل 6؍مارچ 1980ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد لندن ہجرت سے پہلے تین مرتبہ سندھ تشریف لائے۔ مورخہ20؍فروری کو حضورؒ کے استقبال کے وقت احباب کے جوش و خروش کا عالم دیدنی تھا۔ الفضل کی رپورٹ کے مطابق محترم مرزا رفیع احمد صاحب امیر جماعت کنری کی سرکردگی میں احباب جماعت نے دو رویہ سڑک پر حضورؒ کا استقبال کیا۔ سڑک کو دور دور تک جھنڈیوں اور استقبالیہ دروازوں سے سجا رکھا تھا۔ بارہ گھڑ سواروں کا ایک دستہ حضورؒ کی پیشوائی کے لیے موجود تھا…حضورؒ جب کار سے اترے تو دو بچوں نے حضور ؒکی خدمت میں گلدستے پیش کیے۔ حضورؒ کوٹھی سے باہر تشریف لائے اور نصف گھنٹہ تک احباب کو باری باری مصافحہ کا شرف بخشا اس اثنا میں احباب کا جذبہ فدائیت قابل دید تھا۔ (روزنامہ الفضل 15؍فروری 1983ء)

مورخہ 26؍فروری 1983ء کو محترم چودھری ناصر واہلہ صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ناصر آباد نے ایک خوبصورت گھوڑا حضور ؒکی خدمت میں پیش کیا۔ تصویر بنوائی اور پھر کچھ دیر کے لیے گھوڑے پر سواری فرمائی۔ حضورؒ نے گھوڑے کی چال درست کرنے اور پھر ربوہ بھجوانے کی ہدایت فرمائی۔ (روزنامہ الفضل 19؍فروری 1983ء)

حضورؒ ستمبر 1983ء کےبعد فروری 1984ء میں ہجرت سے معاً پہلے بھی سندھ تشریف لائے اور اس طرح احباب جماعت احمدیہ سندھ امامِ وقت کی زیارت اور صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ اپریل 1984ء میں خلیفہ وقت پاکستان سے ہجرت کرکے لندن تشریف لے گئے۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی مسند خلافت پر فائز ہونے سے قبل زمینوں کے معاملات کی نگرانی اور فصلوں کے معائنے کے لیے سندھ تشریف لاتے رہے۔ سندھ کی جماعتیں خصوصاً ناصر آباد کے احباب حضور کی موجودگی سے فیضیاب ہوتے رہے۔ انتخاب خلافت سے محض چند روز پہلے اپریل2003ء میں بھی آپ سندھ تشریف لے گئے۔

خلفاء کے دوروں، پاکیزہ صحبت اور ہر معاملے میں راہ نمائی کا نتیجہ تھا کہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں نہایت فعال جماعتیں قائم ہوگئیں اور اس علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں مخلصین، سلسلہ کو عطا ہوئے۔ اسی طرح خلفاء کی مقبول دعاؤں اور غیر معمولی توجہ کی برکت تھی کہ نہایت قلیل مدت میں صدیوں سےبنجر اور ویران پڑی ہوئی زمینیں سبزہ زاروں میں بدل گئیں اور احمدیہ اسٹیٹس کے فارمز جدید کاشتکاری کا نمونہ بن گئے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button