تاریخ احمدیت

سو سال قبل ایک نومبائع کے خط بیعت پر حضرت مصلح موعودؓ کا بصیرت افروز جواب

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے ایک نو مبائع کو ان کے خط بیعت کے جواب میں حسبِ ذیل خط لکھایا۔(ایڈیٹر)

آپ کا خط پہنچا ۔اُن کوائف کا حال معلوم ہوا جن میں سے گزرتے ہوئے آپ کو صداقت سلسلہ احمدیہ معلوم ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ وہ انسان کے گرد و پیش ایسے حالات پیدا کردیتا ہے کہ وہ کھنچا کھنچا حق کی طرف چلا آتا ہے۔ ورنہ لاکھوں انسان ہیں جن کے دروازہ پر حق پہنچتا ہے اور ان کے لئے دروازہ نہیں کھولا جاتا مگر جس طرح حق کا ملنا فضل الٰہی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس پر ثابت رہنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ناممکن ہوتا ہے۔ حق کے معنی مضبوط اور پختہ چیز کے ہیں۔ جو قائم رہنے والی ہو۔ اور صدمہ کو برداشت کرسکے اور یہ ظاہر ہے کہ پختگی اور مضبوطی تب معلوم ہوتی ہے جب تشدد اور سختی کے مقابلہ میں کوئی چیز پوری اترے۔ عربی زبان الہامی زبان ہے۔ اس میں سچائی کا نام حق رکھ کے اس امر کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ کوئی سچائی ایسی نہیں جس کا مقابلہ نہ ہو۔ اور پھر کوئی سچائی ایسی نہیں جو مقابلہ میں پوری اترے۔ سچائی کے نام میں ہی ان دونوں باتوں کا ذکر کر دیا ہے۔ جو سچائی کے ساتھ لازم اور ملازم کا تعلق رکھتی ہیں ۔

اوّل تو یہ کہ اس کے تباہ کرنے اور مٹانے کی پورے طور پر کوشش کی جاتی ہے۔اور دوم با وجود ہرقسم کی کوششوں اورمخالفتوں کے حق قائم رہتا ہے۔اور مٹتا نہیں۔پس سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ انسان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ کئی قسم کی تکالیف میں سے گزرے گا۔ اورکئی قسم کے مقابلے اسے کرنے پڑیںگے ۔ ان میں ثابت قدم رہےگا۔توتب وہ بھی ظلی طورپر حق بن جاوے گا۔ جیسا حضرت منصور کی نسبت آیا ہے کہ وہ کہتے تھے اناالحق۔اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ خدائی کا دعویٰ کرتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پران کے ثبات اور مضبوطی کا ذکر جاری کردیا تھا۔ اور گویا ان سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ دنیا کے سامنے یہ دعوے کریں کہ میں ایسے مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ اب باطل اور جھوٹ مجھے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا اور کوئی شیطانی وسوسہ میرے قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھیر نہیں سکتا۔ اور کسی دشمن کا حملہ مجھے مٹا نہیں سکتا۔چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک دشمن کو ظاہری طور پر تسلّط دے کر ثابت کردیا کہ وہی بات درست تھی ۔ وہ سُولی پر چڑھ گئے مگر آج کوئی نہیں جا نتا کہ سولی دینے والے کون تھے۔مگریہ سب جانتے ہیں کہ منصور کون تھے۔وہ مر کے بھی قائم رہے۔ اور ان کا دشمن زندہ رہ کر بھی مٹ گیا۔پس وہ حق تھے۔اور حق میں ہوکر انہوں نے یہ درجہ حاصل کیا تھا۔

پس ہرشخص جو حق قبول کرتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے صرف زبان تک نہ رکھے ۔ بلکہ اسے اپنا جامہ بنانے کی کوشش کرے تاکہ وہ بھی ثابت رہے اور دوسروں کو بھی ثابت اور قائم رکھنے میں ممد ہو۔ پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سچائی کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔مَیں آپ کو نصیحت کروںگا کہ آپ سچے دل سے اس کی قدر کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کریں۔ اسلام کی تعلیم پر عمل کریں اور لوگوں تک پہنچانے میں کوشاں رہیں اور مرکز سلسلہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کو کوشش کریں۔ والسلام

15 دسمبر 1921ء

(الفضل قادیان 5؍جنوری 1922ءصفحہ 7)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button