حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (3) (قسط نمبر 10)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(قسط نمبر 9 کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل شمارہ 14؍جنوری 2022ء)

دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں۔ مثلاً انجیل کو لیں تو اس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے:

’’شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں۔ اس نے ان سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جنہیں یہ قدرت دی گئی ہے۔ کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا۔ اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا۔ جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے‘‘۔(متی باب 19آیت 10تا12 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء)

گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ خوجہ بن جائے۔ مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے۔ ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کر لے اسی طرح 1۔ کرنتھیوں باب 7میں لکھا ہے:

’’مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے‘‘۔ (کرنتھیوں 1۔ باب 7آیت 2تا3 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء)

’’میں بے بیاہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسا میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کر سکیں تو بیاہ کر لیں‘‘۔(کرنتھیوں 1۔ باب 7آیت 8تا9 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء)گویا عورت مرد اگر بن بیاہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے۔

یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں۔ تورات میں صرف یہ لکھا ہے کہ:

’’خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا۔ اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی۔ اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا۔ اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے۔ اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی۔ کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی۔ اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔‘‘(پیدائش باب 2آیت 21تا24 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1922ء)

ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہو جائے گا۔ اور مرد کو طبعاً عورت کی طرف رغبت رہے گی۔ یہ کہ ان کا مل کر رہنا اچھا ہو گا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے۔

ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا۔ صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے۔ مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادت کرے۔ منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارا رہنا چاہئے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے۔ لیکن وید اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوئوں کی اصل مقدس کتاب ہے۔ شادی کی ضرورت۔ اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں۔ بدھ مذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خادمان مذہب کے لئے شادی کو منع کیا ہے۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد۔ یہی جَین مذہب کی تعلیم ہے۔

اب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اس نے کس طرح نہایت اعلیٰ مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے

اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کا تعلق ہونا چاہئے۔ اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے۔ نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں ان کی بھی شادی کر دینی چاہئے۔ اور شادی کرنے کی دلیل یہ دیتا ہے کہ

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (النساء:2)

یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی قسم کا جوڑا بنایا۔

اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ انسانیت ایک جوہر ہے۔ یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے۔ انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے۔ وہ نفسِ واحدہ ہے اس کے دو ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت۔ جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہو گی۔ وہ تبھی کامل ہو گی جب اس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے۔

یہ اسلام نے عورت اور مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں۔ اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا پڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہو گی۔ اور جب انسانیت مکمل نہ ہو گی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا۔

حوا کی پیدائش

آدم علیہ السلام کی پسلی سے نہیں ہوئی

اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی جیسا کہ بائیبل میں ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(الذّٰریٰت:50)

یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے۔ تو کیا انسان کا جوڑا بنانا

نَعُوْذُبِاللّٰہِ

اسے یاد نہ رہا تھا کہ آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا گیا؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں، عقلیات ہوں، احساسات ہوں، ارادے ہوں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ کوئی ارادہ،کوئی احساس، کوئی جذبہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو مقابل کے ارادے اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں۔ اسی طرح کوئی جسم مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو جسم نہ ملیں۔ کوئی حیوان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو حیوان نہ ملیں۔ کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو انسان نہ ملیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اداس دیکھ کر اس کی پسلی سے حوا کو بنایا۔ قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں۔ اس لئے جب خدا نے پہلا ذرہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا۔ پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے

وَخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا (النبا:9)

ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے۔ پھر آدم کس طرح اکیلا پیدا ہوا۔ اس کا جوڑا کہاں تھا؟ دوسرے یہی الفاظ کہ

خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا

تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا اور اس میں سے تمہارا جوڑا بنایا سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنے نہیں کئے جاتے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا(النحل:73)

کہ اے بنی نوع انسان! اللہ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں۔ اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان کا جوڑا اس میں سے پیدا کیا گیا۔ اسی طرح سورۃ شوریٰ رکوع 2 میں آتا ہے

جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا(الشوریٰ:12)

تمہارے نفسوں سے تمہارا جوڑا اور چوپایوں میں سے ان کا جوڑا بنایا گیا۔ اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا پیدا کی گئی تھی تو چاہئے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی۔ اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آتا اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنا دیتا۔ مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے؟ تیسرے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا(الاعراف:190)

وہ خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا

وَجَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا

اور اس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہے

لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا

تاکہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے۔

وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پسلی سے بنایا گیا ہے وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا کو بنایا گیا۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ حوا کی پسلی سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا۔ لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زَوۡجَہَا کی ضمیر نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کی طرف جاتی ہے جو مؤنث ہے۔ اسی طرح منھامیں بھی ضمیر مؤنث استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ سے اس کا زوج بنایا اور زوج کے لِیَسۡکُنَ میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا۔ پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مرد عورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔

ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں۔ الگ الگ رہیں تو مکمل مرد نہیں ہو سکتے۔ مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں۔ اب دیکھو! یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی۔ اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہو سکتی۔ پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کاٹتا ہے۔ اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گذارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے۔

٭…٭( جاری ہے)٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button