حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عشق رسولﷺ کا صحیح اظہار

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ستمبر 2012ء)

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا(الاحزاب: 57-58)

ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ یقینا ًاللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی اُس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔ یقینا ًوہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اُس نے اُن کے لئے رُسوا کُن عذاب تیار کیا ہے۔

…وہ محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا، جس نے اپنی جان کو مخلوق کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے اس درد کا اظہار کیا اور اس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو نہیں پہچانتے، ہلاکت میں ڈال لے گا؟ …ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ادراک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خاتم الانبیاءؐ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریمؐ کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں۔ اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور اُن کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت توہین سے اُن کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے اُن کو یاد کرتے ہیں ‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں۔ اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے۔ مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بدزبانی میں ہی فتح ہے۔ مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’پاک زبان لوگ اپنی پاک کلام کی برکت سے انجام کار دلوں کو فتح کر لیتے ہیں۔ مگر گندی طبیعت کے لوگ اس سے زیادہ کوئی ہنر نہیں رکھتے کہ ملک میں مفسدانہ رنگ میں تفرقہ اور پھوٹ پیدا کرتے ہیں …‘‘۔ فرمایا کہ ’’تجربہ بھی شہادت دیتا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی غیرت اُس کے اُن پیاروں کے لئے آخر کوئی کام دکھلا دیتی ہے‘‘۔

(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ385تا387)

اس زمانے میں اخباروں اور اشتہاروں کے ساتھ میڈیا کے دوسرے ذرائع کو بھی اس بیہودہ چیز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ پس یہ لوگ جو اپنی ضد کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اُس کی پکڑ میں آئیں گے۔ یہ ضد پر قائم ہیں اور ڈھٹائی سے اپنے ظالمانہ فعل کا اظہار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 2006ء میں جب ڈنمارک کے خبیث الطبع لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیہودہ تصویریں بنائی تھیں تو اُس وقت بھی مَیں نے جہاں جماعت کو صحیح ردّعمل دکھانے کی طرف توجہ دلائی تھی وہاں یہ بھی کہا تھا کہ یہ ظالم لوگ پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس پر بس نہیں ہو گی۔ اس احتجاج وغیرہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو اَب مسلمانوں کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ آئندہ بھی یہ لوگ ایسی حرکات کرتے رہیں گے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُس سے بڑھ کر یہ بیہودگی اور ظلم پر اتر آئے ہیں اور اُس وقت سے آہستہ آہستہ اس طرف ان کا یہ طریق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

پس یہ ان کی اسلام کے مقابل پر ہزیمت اور شکست ہے جو ان کو آزادیٔ خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر رہی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یاد رکھیں کہ یہ لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔ یہ بات ایک دن ان قوموں کے لوگوں پر بھی کھل جائے گی۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ آج جو کچھ بیہودہ گوئیاں یہ کر رہے ہیں، وہ ان کی قوم کے لئے نقصان دہ ہے کہ یہ لوگ خودغرض اور ظالم ہیں۔ ان کو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کسی بات سے سروکار نہیں ہے۔

اس وقت تو آزادیٔ اظہار کے نام پر سیاستدان بھی اور دوسرا طبقہ بھی بعض جگہ کھل کر اور اکثر دبے الفاظ میں ان کے حق میں بھی بول رہا ہے اور بعض دفعہ مسلمانوں کے حق میں بھی بول رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اب دنیا ایک ایسا گلوبل ویلیج بن چکی ہے کہ اگر کھل کر برائی کو برائی نہ کہا گیا تو یہ باتیں ان ملکوں کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیں گی اور خدا کی لاٹھی جو چلنی ہے وہ علیحدہ ہے۔

امام الزمان کی یہ بات یاد رکھیں کہ ہر فتح آسمان سے آتی ہے اور آسمان نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ جس رسول کی تم ہتک کرنے کی کوشش کر رہے ہو اُس نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ اور غالب، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، دلوں کو فتح کر کے آنا ہے۔ کیونکہ پاک کلام کی تاثیر ہوتی ہے۔ پاک کلام کو ضرورت نہیں ہے کہ شدت پسندی کا استعمال کیا جائے یا بیہودہ گوئی کا بیہودہ گوئی سے جواب دیا جائے۔ اور یہ بدکلامی اور بدنوائی جو ان لوگوں نے شروع کی ہوئی ہے، یہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ختم ہو جائے گی۔ اور پھر اس زندگی کے بعد ایسے لوگوں سے خدا تعالیٰ نبٹے گا۔ یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا کام اس رسول پر درود اور سلام بھیجنا ہے۔ ان لوگوں کی بیہودہ گوئیوں اور ظلموں اور استہزاء سے اُس عظیم نبی کی عزت و ناموس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو ایسا عظیم نبی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں۔ مومنوں کا کام ہے کہ اپنی زبانوں کو اس نبی پر درود سے تر رکھیں۔ اور جب دشمن بیہودہ گوئی میں بڑھے تو پہلے سے بڑھ کر درود و سلام بھیجیں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

یہی درود ہے اور یہی نبی ہے جس کا دنیا میں غلبہ مقدر ہو چکا ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button