متفرق مضامین

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 24؍ دسمبر 2021ء)

سوال1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کا ذکر چل رہا تھاجو اس خطبہ میں جاری رہے گا۔

سوال3: ہجرت کی جگہ کی بابت آنحضرتﷺ نے اپنی خواب کی کیا تعبیر بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: کفارِ مکہ کا مکہ میں مقیم مسلمانوں پر ظلم و ستم مسلسل بڑھتا جا رہا تھا کہ اسی دوران آنحضرتﷺ کو ایک خواب دکھایا گیا جس میں دو مسلمانوں کو وہ جگہ دکھائی گئی جدھر آپؐ نے ہجرت کرناتھی۔ وہ جگہ شور زمین والی کھجوروں میں گھری ہوئی تھی لیکن اس کا نام نہ دکھایا گیا تھا اور نہ بتایا گیا تھا۔ البتہ اس کا جغرافیہ اور نقشہ دیکھتے ہوئے آنحضرتﷺ نے خود اجتہاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ ھَجَر یا یمَامہ ہو گی۔

سوال4: حضرت ابوبکرؓ کےہجرت کی اجازت طلب کرنے پر آنحضورﷺ نےکیاارشادفرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکر صدیقؓ ہجرت کی اجازت طلب کرنے حاضر خدمت ہوئے تو ارشاد ہوا کہ ٹھہر جاؤ۔ مجھے امید ہے کہ مجھے بھی اجازت دی جائے گی یا ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ تم جلدی نہ کرو۔ ممکن ہے اللہ تمہارے لیے ایک ساتھی کا انتظام فرما دے۔

سوال5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت مدینہ کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی۔ ایک کے بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا۔ اب وہ لوگ بھی جو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے۔ بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر انہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے۔ آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا صرف چند غلام، خود رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکہ میں رہ گئے۔

سوال6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دارالندوہ میں کفار کے مشورہ کرنے کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: لکھا ہے کہ رؤسائے مکہ اب اس بات پر سخت غصہ میں تھے اور پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ مسلمان ان کے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے ہیں اس پر اب وہ دارالندوہ میں جمع ہوئے…یہ قُصَی بن کِلَابکا وہ گھر تھا کہ قریش کا جو بھی فیصلہ ہوتا تھاوہ اسی میں ہوتا تھا۔ جب بھی انہیں آپ کے بارے میں خدشہ محسوس ہوتا تو وہ لوگ یہاں مشورہ کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا کہ جب وہ لوگ اس کے لیے جمع ہوئے اور انہوں نے عہد و پیمان کیا کہ وہ دارالندوہ میں داخل ہوں گے تا کہ وہ رسولﷺ کے بارے میں مشاورت کریں۔ جس روز کا انہوں نے عہد و پیمان کیا تھا اس دن وہ لوگ گئے اور وہ دن یوْمُ الزَّحْمَہکہلاتا ہے…وہاں قریش کے سرداران کی ایک بڑی جماعت شریک تھی جن کے نمایاں ناموں میں عُتْبَہ بن رَبیعہ اور شَیبَہ بن رَبِیعہ، ابوسفیان بن حَرْب، طُعَیمَہ بن عَدِی اور بھی بعض لوگ تھے۔ ابوجہل بن ہِشَام، حجاج کے دو بیٹے اور بہت سارے لوگ تھے…جب سب لوگ جمع ہو گئے توتجاویز دینے کا وقت آیا تو ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ اسے یعنی محمد (ﷺ ) کو لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کر دو اور باہر سے دروازہ بند کرو۔ پھر اس پر اسی موت کے آنے کا انتظار کرو جو اس سے پہلے اس جیسے دو شعراء مثلاً زُہَیر اور نَابِغہ پر آ چکی ہے…ایک شخص نے یہ تجویز دی کہ ہم اس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلا وطن کر دیں پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا ہے اور کہاں رہتا ہے۔ جب وہ ہم سے غائب ہو جائے گا اور ہم اس سے فارغ ہو جائیں گے تو ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اور ہم پہلے جیسی حالت میں رہنے لگیں گے…ابوجہل نے کہا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ قریش کے ہر قبیلے سے ایک ایک نَوعمر، مضبوط اور حسب و نسب والا جوان چنا جائے اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں تیز کاٹنے والی تلوار دے دی جائے پھر وہ لوگ اس یعنی محمد (ﷺ ) کا قصد کریں اور ایک شخص کے حملہ کرنے کی طرح اس پر حملہ کیا جائے اور وہ اسے قتل کر دیں۔ یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی۔ اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں منقسم ہو جائے گا اور بَنُو عَبدِ مَنَافْ سارے قبیلوں سے جنگ نہ کر سکیں گے۔ لہٰذا دیت لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم دیت ادا کر دیں گے۔

سوال7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت مدینہ کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ کی مصاحبت کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: ہجرت کی اجازت ملنے پر آنحضرتﷺ پوری احتیاط کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کے گھر عین دوپہر کے وقت یعنی اس وقت تشریف لے گئے کہ جس وقت میں مکہ کے باشندے عموماً اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف آنا جانا نہیں ہوتا اور مزید احتیاط یہ بھی کی کہ شدید گرمی جو تھی چنانچہ اپنا چہرہ اور سر وغیرہ بھی کپڑے سے ڈھانپے رکھا۔ جب آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے گھر کے قریب پہنچے…حضرت اسماء نے کہا کہ نبی اکرمﷺ تشریف لاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ابوبکرؓ کہنے لگے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اللہ کی قسم!نبیﷺ جو اس گھڑی میں ہمارے پاس تشریف لائے ہیں اس کی وجہ کوئی خاص بات ہے جو پیش آئی ہے اور ساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ گھبرا کر تیزی سے فدایانہ انداز میں باہر نکلے اور جب نبی اکرمﷺ اندر تشریف لائے تو کمرے میں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ تھیں۔ آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس جو لوگ ہیں ان کو باہر بھیج دو جس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ حضور صرف یہی میری دو بیٹیاں اس وقت یہاں ہیں، اَور کوئی نہیں ہے یا ایک روایت کے مطابق عرض کیا یا رسول اللہؐ ! صرف آپؐ کے گھر کے لوگ ہی یہاں ہیں اور کوئی نہیں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے حضرت ابوبکرؓ نے بے ساختہ عرض کیا یا رسول اللہؐ ! آپؐ کی رفاقت؟ یعنی میں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں گا؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں …اس پر حضرت ابوبکرؓ خوشی سے رو پڑے۔

سوال8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت مدینہ کے موقع پرآنحضورﷺ کی حکمت عملی کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: طے کیا گیا کہ پہلی منزل غارِ ثور ہو گی اور تین دن وہیں قیام کرنا ہو گا اوریہ بھی طَے ہوا کہ کسی ایسے ماہر کو لیا جائے جو مکہ کے چاروں طرف کے تمام معروف اور غیر معروف صحرائی راستوں سے واقف ہو۔ اس کے لیے عبداللہ بن اُرَیْقِطْ سے بات ہوئی۔ یہ اگرچہ مشرک تھا لیکن شریف النفس اور ذمہ دار اور دیانت دار شخص تھا…اس کے حوالے تین اونٹنیاں کی گئیں اور طے کیا گیا کہ وہ ٹھیک تین دن بعد غار ثور پر علی الصبح چلا آئے۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ جو ایک ہوشیار نوجوان تھے ان کے سپرد یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ روزانہ مکہ کی مجالس میں گھوم پھر کر جائزہ لیں گے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور پھر رات کو وہ غارِ ثور پہنچ کر ساری رپورٹیں کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ایک دانا اور ذمہ دار غلام عامر بن فُہَیرہ کے سپرد یہ ڈیوٹی ہوئی کہ وہ اپنی بکریاں غارِثور کے گرد ہی چرائے گا اور رات کے وقت وہ دودھ دینے والی بکریوں کا تازہ دودھ فراہم کرے گا۔

سوال9: ہجرت مدینہ کی اجازت ملنے پر آنحضرتﷺ نےامانتیں واپس کرنےکے لیےکیاطریق اختیار فرمایا؟

جواب: فرمایا: آپﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے ہجرت کے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے سپرد ایک جاںنثارانہ کام یہ کیا کہ آج رات وہ حضورﷺ کے بستر مبارک پر وہی سبز یا ایک روایت کے مطابق سرخ رنگ کی حضرمی چادر اوڑھ کر سوئیں گے جو نبی اکرمﷺ خود لے کر سویا کرتے تھے اور اپنے اس جاں نثار فدائی خادم کو خدائی تائید و نصرت کی یقین دہانی کراتے ہوئےآپﷺ نے کہا کہ فکر نہ کرنا اور بڑے آرام سے میرے بستر پر سوئے رہنا دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ نیز صادق و امین رسول خداﷺ کو چونکہ اہالیانِ مکہ کی دی ہوئی امانتوں کا بھی فکر اور ذمہ داری کا احساس تھا اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں کو امانتیں واپس کرتے ہوئے میرے پیچھے آ جائیں …حضرت علیؓ تین دن مکہ میں ٹھہرے یہاں تک کہ آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو امانتیں واپس کر دیں۔ جب آپؓ اس سے فارغ ہو گئے تو آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبُا میں جاملے۔

سوال10: حضرت مسیح موعودؑ نےحضرت علیؓ کے عشق رسولﷺ کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ نےفرمایا ہے کہ جب آنحضرتﷺ ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرتﷺ کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مونہہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرتﷺ کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہﷺ سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے سر نہیں دیتا نہ ہی جان چھڑکتا ہے۔ یہ عشق ہے جو یہ کام انسان سے بصد صدق کرواتا ہے۔

سوال11: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت مدینہ کے وقت کی بابت حضرت مرزابشیراحمد صاحبؓ کا کیاموقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نےلکھا ہےکہ نبی کریم اول شب اپنے گھر سے نکلے تھے۔ چنانچہ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ محاصرین آپؐ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرتﷺ اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپؐ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی۔

سوال12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت مدینہ کے وقت کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ نےفرمایا ہےکہ جب مکہ کے لوگ آپؐ کے گھر کے سامنے آپؐ کے قتل کے لئے جمع ہو رہے تھے آپؐ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ ان کے ارادہ کی خبر محمدرسول اللہﷺ کو بھی مل چکی ہو گی مگر پھر بھی جب آپؐ ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپؐ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹا کر آپؐ سے چھپنے لگ گئے تا کہ ان کے ارادوں کی محمد(ﷺ )کو خبر نہ ہو جائے۔

سوال13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت مدینہ کے وقت کی بابت حضرت مسیح موعودؑ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مطابق نبی کریمﷺ صبح کے وقت گھر سے نکلے تھے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرتﷺ کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورۃیٰسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرتﷺ ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے۔

سوال14: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت اسماءؓ کو ذات النطاقین کا لقب ملنے کی کیا وجہ بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کی دو باوفا بہادر بیٹیوں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ نے سفر کے لیے کھانا بھی جلدی جلدی تیار کر دیا تھا جس میں بھنی ہوئی بکری کا گوشت بھی تھا۔ حالات کی نزاکت اور جلدی میں کھانے کا برتن جو چمڑے کا تھا باندھنے کو کچھ نہ ملا تو حضرت اسماءؓ نے اپنا نطاق یعنی کمر بند کھولا اور اس کے دو حصے کیے اور کھانا باندھا۔ ایک سے توشہ دان اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ باندھ دیا…نبی اکرمﷺ جو عشق و وفا کے ان لمحات کو بغور دیکھ رہے تھے فرمانے لگے کہ اے اَسماء! اللہ تمہارے اس نطاق کے بدلے میں تمہیں جنت میں دو نطاق عطا کرے گا۔ یعنی کہ کمر بند جو کپڑا کمر پہ باندھا ہوا تھا۔ آنحضرتﷺ کےاس ارشاد کی وجہ سے بعد میں حضرت اسماءؓ کو ذات النِّطَاقَین کہا جانے لگا۔

سوال15: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدوران ہجرت آنحضورﷺ کے کونسی آیت ورد کرنے کا ذکرفرمایا؟

جواب: فرمایا: ہجرت کے اس سفر میں نبی کریمﷺ زیر لب اس آیت کا ورد فرماتے ہوئے چلے جارہے تھے:

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّی مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیرًا۔

سوال16: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غارثور پہنچنے پر حضرت ابوبکرؓ کے کس طرزعمل کا ذکرفرمایا؟

جواب: فرمایا: جب غارِ ثور تک پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ ابھی یہاں ٹھہریں پہلے مجھے اندر جانے دیں تا کہ میں اچھی طرح غار کو صاف کر لوں اور کوئی خطرے کی چیز ہو تو میرا اس سے سامنا ہو۔ چنانچہ وہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، جو بھی سوراخ اور بِل وغیرہ تھے ان کو اپنے کپڑے سے بند کیا۔ پھر رسول اللہﷺ کو اندر آنے کی دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ حضرت ابوبکرؓ کی ران پر سر رکھ کر لیٹ گئے اور ایک سوراخ جس کے لیے کپڑا نہ تھا یا شاید اس وقت نظر نہ آیا ہو اس پر حضرت ابوبکرؓ نے اپناپاؤں رکھ دیا۔ روایت میں ہے کہ اسی سوراخ سے کوئی بچھو یا سانپ وغیرہ ڈستا رہا لیکن حضرت ابوبکرؓ اس ڈر سے کہ اگر کوئی حرکت کی تو نبی اکرمﷺ کے آرام میں خلل واقع ہوگا جنبش نہ فرماتے۔ یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ نے جب آنکھ کھولی تو حضرت ابوبکرؓ کے چہرے کی بدلی ہوئی رنگت کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو انہوں نے ساری بات بتائی۔ آنحضرتﷺ نے اپنا لعاب مبارک وہاں لگایا اور اس کے بعد پاؤں ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

سوال17: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت علیؓ کو آنحضرتﷺ کے بستر پر سوتا دیکھ کر کفار کے کس طرزعمل کا ذکر فرمایا؟

جواب: فرمایا: قریش مکہ…رات گئے اپنے پہلے سے طے کیے منصوبے کے مطابق جب وہ ایک دم سے اندر گئے اور چادر کھینچ کر سوئے ہوئے کو دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ تو حضرت علیؓ ہیں۔ ان سے پوچھا کہ محمد کہاں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اس پر مشرکین نے آپؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور زدوکوب کیا اور کچھ دیر محبوس رکھنے کے بعد آپؓ کو چھوڑ دیا۔

سوال18: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کھوجی اور امیہ بن خلف کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: رئیس ِمکہ اُمَیہ بن خَلَف وہ خود ایک ماہر کھوجی کو لے کر اپنے ساتھیوں سمیت ایک طرف نکلا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کھوجی، سراغ رساں واقعی ماہر تھا۔ جتنی بھی اس کی مہارت کی داد دی جائے وہ کم ہے کیونکہ یہ واحد کھوجی تھا کہ جو نبی اکرمﷺ کے قدموں کے ایک ایک نشان کو کھوج کر عین غار ثور کے دہانے تک جا پہنچا اورکہنے لگا کہ محمد کے قدموں کے نشان بس یہاں تک ہیں۔ اس کے آگے نہیں جاتے۔

سوال19: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہجرت کے موقع پر کفار کے سراغ رساں کا کیا نام بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: علامہ بَلَاذَرِی نے اس کھوجی کا نام عَلْقَمَہ بن کُرْز بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button