حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ احمدیہ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نائیجیریا کی (آن لائن)ملاقات

امام جماعت احمديہ حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے 9؍جنوری 2022ء کو احمدیہ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نائیجیریا (AMSA) کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ30سے زائد ممبران AMSA نے اجوکورو، لیگوس نائیجیریا سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد طلبہ کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک طالب علم نے سوال کیاکہ ہمارے چند ممبرز معاشرتی برائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جماعت کی ساکھ بچانے کے لیے کیا بہترین راستہ ہے؟ انہیں سزا دی جائے، ان سے لاتعلق ہوجائیں یا حتی المقدور ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، صرف ان کا جماعت سے اخراج کردینا اس کاحل نہیں ہے۔ آپ پہلے انہیں وعظ و نصیحت کریں اور اگر وہ توبہ کرلیں اور ان برائیوں کو ترک کردیں تو اچھی بات ہے۔ پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر تم توبہ نہیں کرنا چاہتے تو ہم تم سے چندہ نہیں لیں گے۔ یا تمہیں کسی جماعتی عہدہ پر خدمت یا کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ وہ جو نیک فطرت ہوتے ہیں ان کے لیے یہ سزا ہی کافی ہوتی ہے۔ اور ہم انہیں یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ احمدی مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے آپ میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ انگلی اٹھائیں کہ یہ احمدی مسلمان ہیں، یہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ انہوں نے زمانے کے مصلح، مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے۔ اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلائیں گے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم دیگر مسلمانوں سے بہتر ہیں اور اس کے باوجود ان کایہ رویہ ہے۔ چنانچہ آپ کو ان سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو تبدیل کریں اور حقیقی احمدی بننے کی کوشش کریں پھر اکثر اس کو سمجھ جاتے ہیں ۔ ورنہ ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کامل ہیں۔ ہم میں بھی کمزوریاں ہیں۔ لیکن ان معمولی کمزوریوں سے صَرف نظر کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی شخص مستقل غلط کام کر رہاہے تو پھر آپ کو مستقل مزاج ہونا پڑے گا۔ انہیں نصائح کرتے رہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو فرمایا

ذکِّر۔ اِنّمَا اَنْتَ مُذَکِّر۔

آپ ان کو نصیحت کر تے رہیں اور یہ آپ کا فرض ہے نہ کہ ان کو دھتکارنا۔ اگر وہ جماعت میں ہیں تو کسی کو نکال دینا کوئی مسئلے کا حل تو نہ ہوا۔ لیکن اگر وہ شخص خود جماعت سے نکلنا چاہتا ہو تو پھر یہ بالکل اَور بات ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی بہت بڑی غلطی یا کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو پھر اسے یہ احساس دلانے کے لیے کہ اس نے بہت برا کام یا بہت بڑا گناہ کیا ہے، تو کچھ عرصہ کے لیے اس کا جماعت سے اخراج بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر جب وہ معافی مانگ لے تو اسے جماعت میں دوبارہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی معمولی سی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا اگر کسی شخص میں کوئی چھوٹی برائیاں ہوں تو پھر ہمارا کام تو یہی ہے کہ ہم ان کو نصیحت کریں۔ انہیں سمجھائیں اور انہیں ایک احمدی کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔

ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ ہم اپنے افراد جماعت کو جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کے ساتھ کیسے منسلک کر سکتے ہیں جبکہ مشکلات اور غیر اخلاقی حرکتیں یونیورسٹیز میں دن بدن بڑھ رہی ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں ، جیساکہ میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل ہونا چاہیے اور ہر احمدی کو اس کی عملی صورت اختیار کرنی چاہیے۔ ایک احمدی مسلمان کو اسلامی تعلیم کا حقیقی عکاس بننا ہوگا۔ اگر آپ اپنے طلبہ کو بتائیں اور انہیں احساس دلائیں کہ احمدی ہوتے ہوئے یہ ان کا فرض ہے اور وقتاً فوقتاً انہیں ان کے احمدیت کے ساتھ رشتے کی طرف توجہ دلاتے رہیں اس طرح کہ ان کو شرائط بیعت بھجواتے رہیں کہ یہ وہ شرائط ہیں جن کی بنیاد پر آپ نے احمدیت قبول کی ہے اور یہ آپ کا رشتہ ہے اور آپ کا وعدہ ہے کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ آج کل تو یونیورسٹی کا ماحول بھی غیر مناسب ہے۔ اس حد تک کہ لڑکے اور لڑکیاں بعض اوقات ایک دوسرے کے ساتھ غیرشرعی تعلقات بنا لیتے ہیں۔ لیکن احمدی طلبہ کو ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لڑکیوں کے ساتھ صرف پڑھائی کی حد تک تعلق ہونا چاہیے۔ کسی لڑکی سے بات کرنا کوئی گناہ تو نہیں لیکن جہاں آپ کے تعلقات غیر اسلامی یا غیر اخلاقی ہوجائیں یہ ایک گناہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مرد و زن میں فاصلہ ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے حجاب اور پردےکا حکم ہے۔ اسی وجہ سے آنحضرتﷺ کی ایک حدیث ہے کہ اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جس کا رجحان دین کی طرف ہو، نیک ہو۔ اگر ہمارے طلبہ کو ان سب باتوں کا احساس ہو جائے تو وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ دیکھیں ، ہم دنیا میں انقلاب پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی اصلاح کرنے والے ہیں۔ اگر ہم ہی ان برائیوں میں ملوث ہو جائیں تو پھر ہم اپنا وعدہ کیسے نبھا سکیں گے۔ خدام الاحمدیہ کے عہد میں آپ دہراتے ہیں کہ مَیں ان چیزوں کی قربانی دوں گا۔ تاہم اگر آپ اپنے جذبات کی قربانی نہیں دے سکتے۔ اگر آپ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں تو پھر آپ اپنا وعدہ کیسے نبھا سکیں گے۔ چنانچہ ہر خادم کو یہ احساس دلائیں کہ یہ آپ کا وعدہ ہے، یہ ہمارا رشتہ ہے، یہ شرائط بیعت ہیں اور ہمیں ان سب چیزوں کا خیال رکھنا ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کر سکیں اور اس کے نتیجے میں اپنی قوم کی اصلاح کر سکیں۔ پھر ہم ایسا ملک بن جائیں گے جو ترقی کرے گا ورنہ اللہ تعالیٰ ہمیں سزا دے گا۔ اور ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے بالآخر اس دنیا کو چھوڑنا ہے اور اگلی دنیا میں اپنے انجام کا سامنا کرنا ہوگا۔ سو یہ وہ باتیں ہیں جن کا آپ کو انہیں احساس دلانا چاہیے۔ اگر وہ سمجھ جائیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ ورنہ ہمارا فرض تو انہیں نصیحت اور تنبیہ کرتے چلے جانا ہے جیساکہ میں بیان کر چکا ہوں۔

ایک اَور طالب علم نے سوال کیا کہ ہم اس کو کس طرح تبلیغ کریں جو ہماری بات سننا نہیں چاہتا؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو فرمایا تھا کہ تم اپنے پیغام کو زبردستی سب لوگوں تک نہیں پہنچا سکتے۔ جو لوگ سننا نہیں چاہتے، انہیں چھوڑ دو۔ یہ ان کی قسمت۔ ایک بہت بڑی تعداد متقی اور نیک یا اچھے اخلاق والے لوگوں کی ہے جو آپ کی بات کو سننا چاہتے ہیں۔ یا وہ کم از کم آپ سے اچھی باتیں سننا پسند کرتے ہیں۔ پس اس طرح آپ ان لوگوں سے دوستی کرنے کی کوشش کریں جو اچھے اخلاق والے ہیں۔ جن کی فطرت نیک ہے۔ اور جب وہ آپ کے دوست بن جائیں گے تب آپ انہیں بتائیں کہ آپ کون ہیں، احمدیت کیا ہے۔ ہم احمدیت پر کیوں ایمان رکھتے ہیں۔ پس یہ تبلیغ کا طریقہ ہے۔ ورنہ آپ کسی پر جبر تو نہیں کر سکتے۔ آج کل لوگ مذہب سے لاتعلق ہیں۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان یا عیسائی ہیں۔ لیکن وہ اسلام یا عیسائیت یا کسی اور مذہب پر عمل نہیں کر رہے ہوتے۔ پس بہتر یہی ہے کہ ان لوگوں کو تلاش کیا جائے جو آپ کی بات سننا چاہتے ہیں۔ بجائے ان لوگوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کے جو آپ کی بات پر کان نہیں دھرتے۔

ایک دوسرے طالب علم نے سوال کیا کہ طلبہ جماعت کے لازمی چندہ جات کس طرح ادا کیا کریں؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، اگر آپ کو اپنے والدین سے جیب خرچ ملتا ہے، پھر آپ خدام الاحمدیہ کا چندہ ادا کرسکتے ہیں۔ چونکہ آپ کی آمدنی نہیں ہے اس لیے آپ پر چندہ عام فرض نہیں ہے اور اگر آپ نے وصیت کی ہوئی ہے تو آپ اس چھوٹی رقم کے مطابق ادا کر سکتے ہیں جو آپ کو فراہم ہے۔ اس کے علاوہ اگر پیسے ہوں تو وقف جدید اور تحریک جدیدکا چندہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں اور آپ کے والدین آپ کو جیب خرچ نہ دیتے ہوں اور آپ کو کوئی سکالر شپ یا وظیفہ بھی نہ ملتا ہو تو اللہ تعالیٰ آپ پر فرض نہیں کرتا کہ آپ چندہ دیں۔ تب آپ ان سب سے آزاد ہیں۔ لیکن کم از کم اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کہ آپ چندہ نہیں دے سکتے، آپ اللہ تعالیٰ سے روزانہ کی پانچ نمازوں میں دعا کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے یا نماز کے بعد بھی دعا کر سکتے ہیں۔ دیکھو، آنحضرت ﷺ کے دور میں غریب لوگ آنحضورﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ امیر لوگ ہماری طرح پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور ہم بھی جتنا ممکن ہو کرتے ہیں لیکن امیر لوگوں کے پاس دولت ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے زیادہ قربانی کرسکتے ہیں۔ ہم کیا کریں؟ ہم ان سے کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مَیں آپ لوگوں کو ایک تجویز دیتا ہوں کہ آپ لوگ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھ سکتے ہیں۔ تب آپ کو اتناہی ثواب مل سکتاہے۔ چونکہ آپ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے آپ لوگ اللہ تعالیٰ سےدعا کر سکتے ہیں۔ لیکن بعد میں جب امیر لوگوں کو اس بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے بھی یہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ پھر غریب لوگ دوبارہ آنحضورﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ امیر لوگوں کومعلوم ہوگیا ہے کہ ہم یہ ذکر کرتے ہیں تو انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے۔ یعنی سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر۔ پس آپﷺ انہیں اس سے روکیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ میں انہیں کیسے روک سکتا ہوں؟ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سب نیکیوں کی توفیق دی ہے تو انہیں کرنے دیں۔ آپ لوگوں کو اپنا ثواب مل جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اعمال اور نیتوں کا اجر دیتا ہے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نیت کے مطابق اجر دیتا ہے۔ اگر تمہاری نیت اچھی ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ثواب د ے گا۔ تم چندہ ادا کرو یا نہ کرو۔

ایک طالب علم نے سوال کیا کہ وہ سکول کی پڑھائی اور دینی تعلیم میں تواز ن کیسے بر قرا رکھ سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کا پہلا دینی فرض یہ ہے کہ آپ پنجوقتہ نماز ادا کریں۔ صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے جلدی اٹھیں اور نماز فجر ادا کریں۔ پھر تلاوت قرآن کریم کریں اور اپنے کالج، یونیورسٹی یا سکول کے لیے تیاری کریں۔ پھر سکول میں چھ سے سات گھنٹے گزارنے کے بعد جب آپ واپس آئیں تو آپ کے اساتذہ نے جو گھر کا کام دیا ہو، یا اسائنمنٹ (assignment) دی ہو تو اس کوپورا کریں اور اس کے بعد اگر آپ اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہیں تو چند مذہبی کتب پڑھیں۔ علم بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ آپ کے خیالات کو بھی بدل دے گا۔ آپ خود کو بدلنا چاہیں گے، اور اخلاقی اور روحانی طور پر بہتر ہونا چاہیں گے۔ اور جہاں تک رفاہی کاموں کا تعلق ہے اگر آپ روزانہ خدام الاحمدیہ کو وقت نہیں دے سکتے تو کم از کم ہفتہ کے اخیر پر جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کے لیے وقت نکالا کریں۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایک طالب علم کی حیثیت سے آپ کا پہلا فرض ہے کہ اپنی پڑھائی پر زور دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجوقتہ نمازیں کبھی نہ چھوڑیں اور تلاوت قرآن کریم باقاعدگی سے کریں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button