یادِ رفتگاں

مولانا سلطان محمود انور صاحب

(ڈاکٹر منصور احمد قریشی۔ امریکہ)

وہ اک سلطان تھے محمود بھی تھے اور انور بھی

معلّم بھی مربی بھی مناظر بھی مقرر بھی

الفضل میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجانے والوں کا ذکر خیر شائع ہوتا ہے جس کے ذریعے سے تاریخ محفوظ ہوجاتی ہے، مرحومین کے لیے دعاؤں کی تحریک ہوتی ہے اور آنے والی نسلیں ان کے نیک نمونوں سے سبق حاصل کرتی رہتی ہیں۔ مجھے بھی الفضل میں مولانا سلطان محمود انور صاحب کے اوصاف حمیدہ پڑھ کر خیال آیا کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ ذکر کروں کہ بفضلِ الٰہی خاکسار نے بھی ان کی شفقتوں سے حصہ لینے کی سعادت پائی ہے۔ مرحوم خاکسار کے خسر تھے۔ خاکسار کو دامادی میں قبول کرلینا ان کے توکل علی اللہ کی بڑی مثال ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے یہ بتاتا ہوں کہ میرا رشتہ کیسے طے پایا۔

یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ ہم کراچی میں رہتے تھے۔ مولانا مرحوم کراچی میں متعین اوراحمدیہ ہال میں رہائش پذیر تھےجو ہمارا بھی سنٹر تھا۔ مولانا کی طبیعت ملنسار تھی۔ ہرفرد سے ذاتی تعلق بنا لیتے ہم آپ کے خطابات اور خطبات سے بہت متاثر ہوتے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہوتی کہ جماعت کے ایک بےلوث، مخلص خدمت گزار اور جید عالم دین سے شناسائی ہوئی ہے۔ میری امی جان کی لجنہ کے کاموں کے سلسلے میں ان کی بیگم صاحبہ سے ملاقات رہتی وہ اکثر ذکر کرتیں کہ وہ بھی ذمہ داری، تدبر اورحکمت سے اپنے شوہر کی مشیراورمددگار ہیں۔ لگتا تھا دونوں میاں بیوی مربی ہیں۔ آپس میں کام بانٹے ہوئے ہیں۔ پھر ان کا تبادلہ ہوگیا۔ ربوہ چلے گئے وہاں ناظر اصلاح و ارشاد متعین ہوئے۔ اس وقت میں کالج میں پڑھتا تھا۔ ان کے کراچی سے چلے جانے کی وجہ سے پھررابطہ نہ رہا۔

کچھ سال بعد میں نے ایم بی بی ایس کے بعد امریکہ میں جاب کے لیے امتحان پاس کیا اور امریکہ منتقل ہو گیا۔ اب والدین کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ پہلے مجھ سے پوچھا کہ اپنی پسند بتاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک خط میں اپنی پسند لکھی (اس وقت رابطہ کا ذریعہ خط ہی تھے۔ فون مشکل سے ملتا تھا اور مختصر سی بات ہوتی وہ بھی اگر آواز صاف ہو ) خط کیا لکھا تھا لگتا ہے میں نے اپنی والدہ کی ہی تصویر کھینچ دی تھی کہ باپردہ ہو، دین کا کام کرنے والی ہو، جاب کرنےکی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال اس سےان کو میری پسند کا اندازہ ہوگیا جو ماؤں کو پہلے ہی ہوتا ہے پھر بھی وہ بیٹے سے پوچھنا ضروری سمجھتی ہیں۔ امی کی عادت ہے وہ ہر بات میں برکت اور دعا کے لیے خلیفہ ٔوقت کو خط لکھتی ہیں اور ہر کام میں مشورہ لیتی ہیں۔ رشتے کے لیے دعا کا خط لکھ کر میری پسند کا ذکر کرنے کے لیے میرا خط ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو بھیج دیا۔ حضورؒ مجھے جانتے تھے کیونکہ امی میرے لیے دعا کا لکھتیں اور تعلیمی نتائج سے بھی اطلاع دیتیں۔ حضورؒ کی طرف سے بہت پیارے دعائیہ جواب موصول ہوتے۔

’’آپ خود بھی نظر رکھیں ‘‘کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئےامی نے اپنے جاننے والے دین دار گھرانوں کی طرف نظر دوڑائی کہ کس کی بیٹی مناسب رہے گی تو ان کا دھیان مکرم سلطان محمود انور صاحب کی چھوٹی بیٹی کی طرف گیا۔ جب وہ کراچی میں تھے تو وہ ناصرات میں تھی۔ اب بڑی ہوگئی ہوگی۔ حسن اتفاق سے ان دنوں لجنہ کراچی سے کچھ خواتین کسی جماعتی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے ربوہ جا ر ہی تھیں۔ امی نے صدر لجنہ اماء اللہ کراچی مکرمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ سے کہا کہ ایک نظر بچی کو دیکھ آئیں۔ انہوں نے آکر اس کی تعریف کی۔ ان دنوں حضرت چھوٹی آپاؒ علاج کے سلسلے میں کراچی تشریف لائی ہوئی تھیں۔ آپ سے مشورہ کیا تو آپ نے اس رشتے کو پسند فرمایا۔ جب آپ واپس ربوہ گئیں تو فوزیہ کی امی سے بھی اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ابھی ہم نے باضابطہ رشتے کے لیے پیغام نہیں بھیجا۔ کچھ عرصے بعد امی نے کسی اور بات کے لیے فوزیہ کی امی سے فون پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کا پیغام مل گیا ہے ہم دعا کرکے جواب دیں گے۔ امی بہت حیران ہوئیں اس وقت تک فوزیہ کو دیکھا نہ تھا اس کی تعلیم وغیرہ کے بارے میں علم نہ تھا یہ پیغام کیسے پہنچ گیا۔ پھر علم ہوا کہ حضرت چھوٹی آپا نے ذکر کیا تھا اس بات سے ہمیں بہت خوشی ہوئی ایک تو ایک مبارک خاتون کی زبان سے بات شروع ہوئی دوسرے اس طرح میرا ایک خواب پورا ہوا۔ میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا تھا کہ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو رشتے کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپؒ نے فرمایا کہ جہاں حضرت چھوٹی آپاؒ کہیں شادی کر لو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس خواب کے پورا ہونے کا خود سامان پیداکردیا۔ الحمدللہ

ہمارا پیغام تو پہنچ گیا مگر میں امریکہ میں تھا۔ وہ مجھے دیکھ اور مل نہیں سکتے تھے۔ کراچی کے اس وقت کے امیر محترم احمد مختار صاحب سے مشورہ کیا اور حضورؒ سے اجازت لے کر رشتہ قبول کر لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھے بغیر کوئی بات کیے بغیر حتّیٰ کہ تصویر دیکھے بغیر محض اللہ تعالیٰ پر توکل سے رشتہ کیا۔

جب میں نکاح کے لیے ربوہ پہنچا تو پہلی دفعہ ملاقات ہوئی۔ اسی طرح میں نے بھی کوئی تصویر نہیں منگوائی میرے والدین نے بھی بغیر لڑکی کو دیکھے رشتہ کیا تھا۔ اس طرح یہ رشتہ صرف دین داری کی بنیاد پر ہوگیا جیسے آسمان پر لکھا ہو۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیحؒ اور بزرگوں کی دعائیں شامل تھیں۔میری امی کو رشتے کی اجازت والے خط کا بہت اچھا جواب آیا۔

جنوری 1994ء میں مسجد اقصیٰ ربوہ میں ہمارا نکاح مولانا سلطان محمود انور صاحب نے پڑھایا۔ اکتوبر میں شادی ہوئی جو مولیٰ کریم کے خاص فضل سے رحمتوں اور برکتوں کے ثمرات کی حامل ثابت ہوئی۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن سے اللہ تبارک تعالیٰ کا کما حقہ ٗشکر ادا کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ فوزیہ اور اس کے محترم والدین کو اجر عظیم سے نوازے آمین۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ یہ سارا واقعہ محترم مولانا صاحب کی سیرت پر سیر حاصل روشنی ڈالتا ہے۔

اس طرح میں اُن کے خاندان کا حصہ بن گیا۔ ربوہ میرا دوسرا گھر ہو گیا۔ شادی میں خاندان حضرت اقدس علیہ السلام کے بزرگ اور جماعت کے خدمت گزار احباب شامل ہوئے آپ نے وہاں سب سے میری ملاقات کرائی۔ آپ کے ساتھ نمازوں اور جمعہ کے لیے جانے کی سعادت حاصل ہوئی ربوہ سے ہم مرکز ہونے کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔ اس لیے بڑا لطف رہا مساجد، دفاتر، خلافت لائبریری، دیگر عمارتیں اور گلیاں محلے گھوم پھر کر دیکھے۔ طاہر ہارٹ میں خدمت کا موقع ملا۔ گول بازار کی قلفیاں، کباب، برفی اور مچھلی کھائی۔ سب گھر والے خوب خاطر تواضع کرتے میں نے مشاہدہ کیا کہ مولانا صاحب خدا تعالیٰ سے عشق کرنے والے صابرو شاکر انسان تھے۔ ہر حال میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتے اور شکر کرنے کی ہدایت دیتے۔ ایسی ایسی نعمتوں پر شکر کرتے جو بعض دفعہ ہم اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ گھر کی معمول کی باتوں میں بھی کوئی نہ کوئی سبق ہوتا۔ بہت ہی محبت، عزت اور شفقت کا سلوک کرتے۔ ہر ملاقات پرمسکراتے ہوئے کوئی شگفتہ سی بات کرتے۔ ہر حالت میں چہرے پر بشاشت رہتی۔ جب بھی امریکہ ہمارے پاس آتے بہت مزا آتا۔ ان کی فجر کی تلاوتِ قرآن مجید قدرے بلند آواز سے ہوتی۔ گھر روشنیوں سے بھر جاتا۔

مولانا صاحب کا سب سے نمایاں وصف ان کا عبادت میں شغف تھا۔ نماز بہت سنوار کر ادا کرتے۔ ان کی زندگی ایک نماز سے دوسری نمازکے انتظار میں گھومتی نظر آتی تھی۔ اس چیز کا خیال رکھتے کہ ہر نماز جماعت کے ساتھ ہو۔ اس مقصد کے لیے خاکسار کے کام سے واپس آنے کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ گھر پہنچتے ہی بس اتنی مہلت دیتے کہ جلدی سے وضو کرلوں۔

دوسرا وصف خلافت سے محبت، عقیدت اور اطاعت تھا۔ ہمیں بھی تاکید کرتے رہتے کہ خلافت سے وابستگی میں ہی زندگی ہے۔ اسی طرح ان کی نصیحت ہوتی کہ حضور انور جو دعائیں پڑھنے کا ارشاد فرماتے ہیں انہیں وردِ زبان رکھیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے مجھے بھی یاد کراتے اور خود بھی دعائیں پڑھتے رہتے۔ دعائیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ اپنے قبولیت دعا کے واقعات سناتے تو ایمان تازہ ہوجاتا۔ خلفائے کرام کے فیصلوں، مشوروں، حتیٰ کہ ان کے منہ سے نکلنے والی باتوں پر عمل کرنے کی برکات کے ایمان افروز واقعات اپنے مخصوص انداز میں سناتے۔ دل کرتا یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔ سلسلے کی تاریخ پر عبور حاصل تھا ۔ جماعت کی خدمت میں زندگی گزاری تھی۔ خلفائے کرام کے کام کرانے کا انداز۔ بہتر کارکردگی کے لیے ہدایات اور غلطیوں کی اصلاح کے دلچسپ سبق آموز واقعات سناتے۔ ایسے واقعات تحریر میں نہیں آتے وہ اُن بزرگوں سے ہی سننے میں آتے ہیں جن کو خلفائے کرام کی مجالس میں حاضر ہونے کے مواقع ملے ہوں۔ اپنی تقریروں میں سادہ سے واقعات سادگی سے بیان کرتے چلے جاتے جو دل پر گہرا اثر چھوڑتے۔

جب خاکسار کو جلسہ سالانہ امریکہ میں تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوتی تو انہیں بہت خوشی ہوتی۔ خوب دعائیں دیتے اورقرآن کریم سے راہ نمائی لینے کے لیے موضوع کے مطابق آیات بتا تے۔

آپ کا حلقہ ٔاحباب بہت وسیع تھا۔ اس کا اندازہ انہیں کراچی اور ربوہ میں دیکھ کر تو ہوتا ہی رہتا تھا لیکن جب امریکہ میں انہیں مسجد محمود لے کر جاتا تو ایسا لگتا کہ ہر شخص ان کا عقیدت مند ہے۔ یہ للّٰہی محبتیں اللہ کی دین ہوتی ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی قدر تھی کہ وہ ہمارے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بچوں نے بھی بہت پیار لیا۔ آپ میرے والدین سے بھی عزت کے ساتھ پیش آتے۔

اب وہ پیارا وجود ہم میں نہیں ہم ان کا ذکر خیر زندہ رکھتے ہیں۔ ہم ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہیں۔ اللہ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button