بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 27)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… کیا نکاح میں لڑکی کی طرف سے اس کے بہنوئی کا بطور ولیٔ نکاح تقرر ہو سکتا ہے؟

٭…شرطی طلاق کی بابت حضور انور کی راہ نمائی

٭…کیا نفس اور روح ایک ہی چیز ہے؟ نیز خطبہ عید کے حوالے سے دارقطنی میں مندرج ایک حدیث کہ حضورﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کےلیے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائےکیا یہ درست ہے؟

٭… موبائل فونز کی مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر پیسہ جیتنے کے کھیل میں شامل ہونے نیز چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے متعلق حضور انور کی راہ نمائی

٭… ناصرات کی تربیت کے بارے میں حضور انور کی راہ نمائی

٭… ٹیم ممبر کے طور پر کام کرنے اور دوسروں کو ٹریننگ دینے کی اہمیت

٭… اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے فلسفے کا بیان

٭…ہم اپنی میٹنگز میں حاضری کس طرح بڑھا سکتے ہیں؟

سوال: نکاح میں لڑکی کی طرف سے اس کے بہنوئی کے بطور ولیٔ نکاح تقرر کی بابت نظارت اصلاح و ارشاد رشتہ ناطہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے ایک سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 30؍اگست 2020ءمیں درج ذیل ہدایات فرمائیں:

جواب: لڑکی کے نکاح کےلیے اس کےوالد یا بھائی کے موجود نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے عصبی رشتہ داروں میں سے جو درجہ کے لحاظ سے اس کے زیادہ قریب ہو گا وہی اس کا ولی ہوگا، بشرطیکہ وہ لڑکی کے مفاد کو ہر اعتبار سے پیش نظر رکھنے والا ہو جیسا کہ خود لفظ ولی اس امر کا تقاضا کرتا ہے۔

لیکن اگر لڑکی کا کوئی عصبی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں پھر خلیفۃ المسیح اس کے ولی ہیں، اور ایسی بچی کے نکاح کےلیے وکیل کا تقرر نظام جماعت کے ذریعہ ہو گا اور یہی جماعت احمدیہ کا دستور ہے۔

سوال: شرطی طلاق کی بابت محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍ستمبر 2020ءمیں درج ذیل ارشاد فرمایا:

جواب: میرے نزدیک تو شرطی طلاق کےبارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات بہت واضح ہیں اور ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسی طلاق جس میں کوئی شرط رکھی گئی ہو، اس شرط کے پورا ہو جانے پر یہ طلاق مؤثر ہو جائے گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے، وہ قارئین کے استفادہ کےلیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ (مرتب)

ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شرطی طلاق: اس پر فرمایا کہ’’اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ ‘‘(البدرنمبر 21 جلد 2 مورخہ 12؍جون 1903ء صفحہ162)

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب( محمد حسین بٹالوی۔ ناقل) کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے۔ ناظرین !سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہﷺ کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا اور یہ کلام الٰہی تھا۔ اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں۔ اور وہ مرتبہ اوردرجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت درروایت پہنچی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الٰہی ہے اور جو یہ کلام الٰہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعًا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا۔ اورجو حدیث کی نسبت قسم کھالے اورکہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہﷺ کے منہ سے نکلا ہے۔ اگر نہیں ہے تو میری جورو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلا ق پڑ جاوے گا۔ یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے۔ (تذکرۃ المہدی، مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ صفحہ161مطبوعہ جون 1915ء)

ارشادحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

ایک صاحب نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر میں تمہیں اس مکان پر بلاؤں یا تم خود آؤ تو تم پر طلاق۔ اب وہ اپنی بیوی کو اس مکان پر بلانا چاہتے ہیں۔ جواب لکھا گیا کہ اس مکان میں آجانے پر ایک طلاق واقع ہو گا۔ جس سے اُسی وقت بلانکاح رجوع ہو سکتا ہے۔ اگر مدت گزر جائے تو پھر بالنکاح رجوع ہو گا۔ (اخبارالفضل قادیان دارالامان جلد 2 نمبر 113 مورخہ 14؍مارچ 1915ء صفحہ 2)

سوال: ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ کیا نفس اور روح ایک ہی چیز ہے؟ نیز خطبہ عید کے حوالے سے دارقطنی میں مندرج ایک حدیث کہ حضورﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کےلیے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، تحریر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍اکتوبر 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات تحریر فرمائے:

جواب: قرآن کریم میں روح اور نفس کے الفاظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آئے ہیں۔ روح کا لفظ کلام الٰہی، فرشتوں، حضرت جبرائیل، انبیاء اور اس روح کے معانی میں بیان ہوا ہے جو بحکم الٰہی ایک خاص وقت پر انسانی قالب میں نمودار ہوتی ہے۔ جبکہ نفس کا لفظ جان، سانس، شخص، ذی روح چیز، دل، ہستی اور شعور وغیرہ کےلیے استعمال ہوا ہے۔

لغوی اعتبار سے روح کا لفظ اس چیز کےلیے بولا جاتاہے جس کے ذریعہ نفوس زندہ رہتے ہیں۔ یعنی زندگی۔ اسی طرح روح کا لفظ پھونک، وحی و الہام، جبرائیل، امر نبوت، خدا تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیز جسم کے مقابل پر ایک چیز جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کرتی اور انسان کو باقی حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اورجو انسان کو با خدا بنا دیتی ہےاسے بھی روح کہا جاتا ہے۔

جبکہ نفس کا لفظ لغوی اعتبار سے جسم، شخص، روح، جسم اور روح کا مجموعہ انسان، عظمت، عزت، ہمت، ارادہ، ، خود وہی چیز اور رائے وغیرہ کےلیے بولا جاتا ہے۔

قرآ ن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نفس اور روح میں ایک فرق یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نفس پر قابو پانے، اس کی اصلاح کرنے اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ایک حد تک قدرت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے نفس کی تین حالتیں ( امارہ، لوامہ اور مطمئنہ) بیان فرمائی ہیں۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ بہادر وہ نہیں جو کُشتی میں مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ جبکہ روح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور انسان کو اس پر قدرت نہیں دی۔ جیسا کہ فرمایا:

قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 86)

یعنی تو کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اسی طرح اسلام نے روح کے بارہ میں سوالات کرنے کو بھی پسند نہیں فرمایا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف نور الحق میں سورت النبا کی آیت

یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا۔ (آیت39)

کی تفسیر میں روح کے معانی بیان فرماتے ہوئے ساتھ نفس کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، نیز حضور علیہ السلام کے اس ارشاد سے دونوں کا فرق بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں …اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیا کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ مطہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنے تمام قوتوں کی رو سے مرضات الٰہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے باہر آ گئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے اور نہ ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے نہ اپنی خواہش سے اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نفس کی آمیزش نہیں۔ پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی طرح ہیں …وہ اپنے نفس اور اپنے جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور اپنے جذبات سے بکلی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور قطع تعلق کر کے خدا کو جا ملےپس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس آیت میں ان کے تجرد اور تقدس کے مقام کو ظاہر کرے اور بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں پس ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام انقطاع ظاہر کرے اور تا کہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق کر کے دکھلا دے اور بخدا یہی بات حق ہے۔ ‘‘(نور الحق حصہ اوّل صفحہ 73، 74 ایڈیشن اوّل)

جہاں تک خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث کا تعلق ہے تویہ حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالے سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ حضورﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بنا پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حضورﷺ نے عید کےلیے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کےلیے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔

سوال: موبائل فونز کی مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر پیسہ جیتنے کے کھیل میں شامل ہونے نیز چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے متعلق سوالات پر مبنی محترم ناظم صاحب دارالقضاء قادیان کے خط کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍اکتوبر 2020ءمیں درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: ان دونوں سوالوں کا قضاء کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آپ کے علم کےلیے جواب دے رہا ہوں کہ کسی بھی صورت میں اس طرح پیسہ لگا کر کھیلنا جس میں ہارنے کی صورت میں اپناپیسہ ضائع ہو جائے اور جیتنے کی صورت میں کچھ زائد ملے جوا کہلاتا ہےجسے اسلام نے کلیۃً حرام قرار دیا ہے۔ یہ کھیل چاہے آمنے سامنےبیٹھ کر کھیلا جائے، یا لاٹری کی شکل میں کھیلا جائے یا مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر کھیلا جائے، تمام صورتوں میں جوا ہی کہلاتا ہےجو منع ہے۔

گھر پر چھوٹے بچوں کی گھر والوں کے ساتھ اس طرح سالگرہ منانا اور کیک وغیرہ کاٹ لینا جس میں کسی قسم کی بدعت شامل نہ ہو، فضول خرچی نہ ہو اورکوئی غیر اسلامی حرکت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ صدقہ بھی دینا چاہیے اور بچوں کو یہ بھی تلقین کرنی چاہیے کہ وہ اس روز خاص طور پر نوافل ادا کر کے اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں صحت والی زندگی عطا فرمائی اور آئندہ زندگی کےلیے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگیں۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا کی Virtual ملاقات مورخہ 19؍دسمبر 2020ء میں ناصرات کی تربیت کے بارے میں حضور انورنے فرمایا:

جواب: شروع میں ہی بچیوں کو بتائیں کہ تمہارا لباس حیادار ہونا چاہیے۔ جب وہ بڑی ہوں اور لجنہ میں شامل ہوں تو پھر ان کو پتا ہونا چاہیے کہ حیا دار لباس کے ساتھ حجاب کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کاہی ہے، قرآن کریم میں ہی ہے۔ تو جو بچپن سےان کو ٹریننگ دیں گی تو تبھی وہ لجنہ میں آ کے اور معیار کبیر کی ناصرات بن کے حیا دار لباس پہنیں گی۔ ان کو بچپن میں بتائیں کہ ابھی عمر چھوٹی ہے لیکن آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اس لیے تم لوگ حیا دار لباس پہنو۔ پھر جب بڑی ہوں تو حیا دار لباس کے ساتھ حجاب بھی ہو۔ جب حجاب ہوتا ہے تو حجاب خود اثر ڈال رہا ہوتا ہے بہت ساری برائیوں سے (بچانے کےلیے) اور Mixing Up سے، مردوں کے ساتھ باتیں کرنے سے اور ان کے ساتھ دوستیاں لگانے سے۔ جو لڑکیاں یونیورسٹی اور کالج میں جاتی ہیں ان کو خود ہی احساس پیدا ہو رہا ہوتا ہے کہ ہمارا حجاب جو ہے اس کا ہم نے پاس کرنا ہے۔ تو اگر بچپن سے آپ تربیت کردیں، ناصرات کی عمر میں تو لجنہ کے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ لجنہ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ اس لیے بہت بڑا کام ہے جو ناصرات کا ہے۔ تو ابھی سے تربیت کر لیں تو بڑ ی اچھی بات ہے۔ کیونکہ جب کالج اور یونیورسٹی میں یہ لڑکیاں جائیں گی تب ان کو پتا ہونا چاہیے کہ ہم کیا ہیں؟ پھر ان کو پتا ہونا چاہیے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ بہت ساری بچیوں کو یہی نہیں پتا، قرآن بھی پڑھا دیتی ہیں، حدیث بھی پڑھا دیتی ہیں لیکن ان کو یہی نہیں پتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیوں آئے؟ جب ہمارے پاس قرآن بھی ہے، ہمارے پاس حدیث بھی ہے، ہمارے پاس آخری رسول بھی ہے، ﷺ۔ تو مسیح موعود کی ضرورت کیا ہے؟ یہ باتیں بچپن سے ہی پتا ہونی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ آئے تو کیوں آئے اور کس لیے آئے؟ اس لیے آئے کہ یہ بھی آنحضورﷺ کی ہی پیشگوئی تھی۔ اس کو پورا کرنے آئے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں یہ بچپن سے ذہنوں میں ہونی چاہئیں۔ اور جب یہ بنیادی چیزیں ہوں گی تو تبھی وہ آگے بڑھیں گی۔ بڑے بڑے مسائل تو لوگ سیکھ ہی لیتے ہیں۔ بنیادی چیزیں ان کو سکھادیں، یہ پتا ہو کہ میرا ایمان کیا ہے، میں کیوں احمدی ہوں، میری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور اس کے بعد پھر دیکھیں کہ آپ کی لجنہ کی اگلی نسل جو آئے گی وہ اس سے بہت بہتر ہو گی جو موجودہ لجنہ کی نسل ہے۔

سوال: اسی Virtualملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ لعزیز نےایک سوال کے جواب میں ٹیم ممبر کے طور پر کام کرنے اور دوسروں کو ٹریننگ دینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

جواب: خود کام کرنا اور اچھا کام کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ یہ آپ کی ایک Personal کوالٹی ہے، جو ٹھیک ہے۔ خود کام کرلیا، اچھا کام کر لیا، اچھی رپورٹیں دےدیں، بہت اچھا کیا۔ لیکن اس کے ساتھ اگر آپ نے اپنی ٹیم نہیں بنائی۔ اپنی سیکنڈ لائن نہیں بنائی جو آپ کے کام کو بعد میں سنبھال سکے تواس کا مطلب ہے کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کیا۔ خود کام کرنا اصل کام نہیں ہے، اصل کام یہ ہے کہ اس کام کو جاری رکھنے کےلیے اپنی ایک ٹیم بنانا اور ایک سیکنڈ لائن کا تیار کرنا تاکہ جب آپ کی عمر بڑی ہو جائے( میں نہیں کہتا کہ آپ عمر کی بڑی ہوچکی ہیں ) لیکن جب آپ کی عمر بڑی ہو جائے تو پھر کم از کم دوسری کام کرنے والیاں آپ کو مل سکیں۔ تو ہر لجنہ سیکرٹری جو یہاں بیٹھی ہے اس کا کام ہے۔ یہ نہ دیکھے کہ میری عمر چالیس سال ہے یا پینتالیس سال ہےیا پینتیس سال ہے یا پچاس سال ہے۔ آپ نے پھر بھی اپنی ایک سیکنڈ لائن تیار کرنی ہے۔ ٹھیک ہے؟ اور یہی احساس صدر صاحبہ کو ساری مجالس میں جو آپ کے ملک میں ہیں، ان کے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ اور ان کی سیکرٹریان کو اور صدرات کو بھی کہنا چاہیے تا کہ آئندہ آپ کو کام سنبھالنے والیاں ملتی چلی جائیں جن کو سسٹم کا بھی پتا ہو۔ جب کام سر پہ پڑتا ہے تو آدمی سنبھال ہی لیتا ہے یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کے پاس لائحہ عمل ہے، آپ کے پاس دستور اساسی ہے، آپ کام کرلیں گی لیکن اگر آپ پہلے سے سسٹم میں Involve ہیں تو جب آپ پہ نئی ذمہ داری پڑے گی تو آپ اس کام کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گی۔

سوال: سیکرٹری صاحبہ تبلیغ کے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

جواب: رپورٹیں لینے کےلیے بیعتیں نہیں کرانی۔ اس لیے تبلیغ کرنی ہے کہ ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لائیں اور اس ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کو اسلام کا صحیح پیغام پہنچائیں۔ اور پھر اس کا تقاضا ساتھ یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو بھی Improve کریں اور اپنا بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں۔ سیکرٹری تبلیغ کا اپنا بھی براہ راست اللہ سے تعلق ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے۔

سوال: اسی Virtualملاقات مورخہ 19؍دسمبر 2020ء میں اس سوال کہ ہم اپنی میٹنگز میں حاضری کس طرح بڑھا سکتے ہیں؟ کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب: بس پیچھے پڑےر ہیں، پیار سے سمجھاتے رہیں۔ عہدیدار بن کے لوگوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ بڑی بہن بن کے پڑیں یا چھوٹی بہن بن کے پڑیں، اماں بن کے پیچھے پڑی رہیں تو لوگ آ جائیں گے۔ ہمارا کام ہے مستقل کہتے رہنا۔ میٹنگز میں دلچسپی کے پروگرام بھی رکھا کریں۔ انہی کو Involveکریں جو نہیں آتیں، انہی سے تقریر کروا دیا کریں تو آپ ہی آجائیں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button