حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

والدین پیار سے اپنے بچوں کی نگرانی کریں (قسط5۔ آخری)

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍اپریل 2010ء)

پردہ عورت کی عزت کے لیے ہے

اسی طرح آج کل یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے کا ایک ایشو پردہ کا بھی اٹھا ہوا ہے۔ ہماری بچیاں جو ہیں اور عورتیں جو ہیں ان کا کام ہے کہ اس بارے میں ایک مہم کی صورت میں اخباروں میں مضامین اور خطوط لکھیں۔ انگلستان میں یا جرمنی وغیرہ میں بچیوں نے اس بارے میں بڑا اچھا کام کیا ہے کہ پردہ عورت کی عزت کے لئے ہے اور یہ تصور ہے جو مذہب دیتا ہے، ہر مذہب نے دیا ہے کہ عورت کی عزت قائم کی جائے۔ بعضوں نے تو پھر بعد میں اس کی صورت بگاڑ لی۔ عیسائیت میں تو ماضی میں زیادہ دور کا عرصہ بھی نہیں ہوا جب عورت کے حقوق نہیں ملتے تھے اور اس کو پابند کیا جاتا تھا، بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ تو بہر حال یہ عورت کی عزت کے لئے ہے۔ عورت کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے لیکن عورت کا ایک اپنا وقار ہے جس وقار کو وہ قائم رکھنا چاہتی ہے اور رکھنا چاہئے۔ اور اسلام عورت کی عزت اور احترام اور حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ پس یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پردہ پہنایا جاتا ہے یا حجاب کا کہا جاتا ہے۔ بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لئے یہ سب کوشش ہے۔

احمدی بچیوں کو نصیحت کہ فیشن کی رَو میں نہ بہ جائیں

اس کے ساتھ ہی میں ان احمدی لڑکیوں کو بھی کہتا ہوں جو کسی قسم کے complexمیں مبتلا ہیں کہ اگر دنیا کی باتوں سے گھبرا کر یا فیشن کی رَو میں بہ کر انہوں نے اپنے حجاب اور پردے اتار دئیے تو پھر آپ کی عزتوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ آپ کی عزت دین کی عزت کے ساتھ ہے۔ میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ ایک احمدی بچی کو اس کے باس (Boss) نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے۔ اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پردہ کر رہی ہوں۔ کوئی صورت نکال۔ اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے۔ تو بہر حال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کرتا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا۔ اور یہ بچی دعا کرتی رہی۔ آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنے کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی۔ اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خدا تعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں۔

9۔خلق اللہ سے ہمدردی

پھر نویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خلق اللہ سے ہمدردی اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا لکھا ہے۔

(ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ)

یہ بھی حقیقی رنگ میں اس وقت ہو سکتا ہے جب خالص ہمدردی کے جذبے کے تحت دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کی کوشش کریں اور انہیں کامل اور مکمل دین کے بارے میں بتائیں۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب پیغام پہنچانے والے کے اپنے عمل بھی اس تعلیم کے مطابق ہوں گے۔ اور پھر ایک درد کے ساتھ ماحول میں پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

10۔ مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیاوی رشتوں سے زیادہ ہو

شرائطِ بیعت کی آخری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیاوی رشتوں سے زیادہ ہو۔ (ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رشتے، ہماری عزیز داریاں، ہمارے تعلقات، ہماری قرابت داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق میں حائل تو نہیں ہو رہے اور اس کے معیار کا علم ہمیں اس وقت ہو گا جب ہم آپ کی تعلیم (جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے) کا جوٴا مکمل طور پر اپنے گلے میں ڈالنے والے ہوں گے یا اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں گے۔ آپ نے اپنے بعد جس قدرتِ ثانیہ کے آنے کی خوشخبری دی تھی جو دائمی ہو گی اس قدرتِ ثانیہ یعنی خلافت کے ساتھ کامل اطاعت اور وفا کا نمونہ بھی آپ دکھائیں گے۔ اگر ہر ایک حقیقی تعلق کو قائم رکھنے کا عہد کرے گا تو وہ حقیقت میں آپ کی جماعت میں شمار ہو گا ورنہ احمدیت کا صرف لیبل ہے۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آنے والے احمدی آگے نکل کر ان برکات سے فیض پا لیں اور پرانے احمدی جن کے باپ دادا نے قربانیاں دے کر احمدیت کے چشمے اپنے گھروں میں جاری کئے تھے وہ اس چشمے سے محروم ہو جائیں۔ پس بہت دعاوٴں اور توجہ کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں۔ پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف‘‘۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ596)

پھر آپؑ فرماتے ہیں

’’جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمران: 56)

یعنی اور وہ لوگ جنہوں نے تیری پیروی کی انہیں ان لوگوں پر جنہوں نے تیرا انکار کیا قیامت تک غالب رکھوں گا۔ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دو تین دفعہ ہوا۔ قرآنِ کریم کی آیت بھی ہے۔ اور 1883ء میں شاید اس وقت پہلی دفعہ ہوا جب آپ کی جماعت کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں پھر فرماتے ہیں کہ ’’وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ …… ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے۔ اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو۔‘‘ فرمایا: ’’یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاوٴں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو اور اسی کو مقدم کر لو اور اپنے لئے آنحضرتﷺ کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو۔ ان کے نقشِ قدم پر چلو‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ 596-597)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمارے سے یہ توقعات ہیں۔ اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بوڑھوں، عورتوں، نوجوانوں کو اپنے جائزے لینے ہوں گے۔

والدین پیار سے اپنے بچوں کی نگرانی کریں

والدین کو اپنے گھروں کی نگرانی کرنی ہو گی۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پیار سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ یہ ماوٴں کا بھی کام ہے، باپوں کا بھی کام ہے۔ ایک احمدی مسلمان اور ایک غیر احمدی مسلمان کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا فرق ہے۔ اگر ہمارے اندر کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔ علاوہ ایک نظام کے ہمارے عمل میں بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی نظام اور تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے دائرے میں فعال تربیتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر صرف دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں اور چمک دمک کے حصول میں زندگیاں گزار دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر گزاری ہے۔ جن میں سے سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کوقبول کرنا ہے، ان کی بیعت میں آنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لیتا رہے۔ آمین

(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ20 مورخہ14مئی تا20مئی2010ءصفحہ5تا8)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button