نکاح وطلاق

شرطی طلاق کے مؤثر ہونےسے متعلق بعض حوالہ جات کے ذریعہ حضور انور کی راہ نمائی

سوال: شرطی طلاق کی بابت محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍ستمبر 2020ءمیں درج ذیل ارشاد فرمایا:

جواب: میرے نزدیک تو شرطی طلاق کےبارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات بہت واضح ہیں اور ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسی طلاق جس میں کوئی شرط رکھی گئی ہو، اس شرط کے پورا ہو جانے پر یہ طلاق مؤثر ہو جائے گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے، وہ قارئین کے استفادہ کےلیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ (مرتب)

ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شرطی طلاق: اس پر فرمایا کہ’’اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ ‘‘(البدرنمبر 21 جلد 2 مورخہ 12؍جون 1903ء صفحہ162)

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب( محمد حسین بٹالوی۔ ناقل) کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے۔ ناظرین !سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہﷺ کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا اور یہ کلام الٰہی تھا۔ اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں۔ اور وہ مرتبہ اوردرجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت درروایت پہنچی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الٰہی ہے اور جو یہ کلام الٰہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعًا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا۔ اورجو حدیث کی نسبت قسم کھالے اورکہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہﷺ کے منہ سے نکلا ہے۔ اگر نہیں ہے تو میری جورو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلا ق پڑ جاوے گا۔ یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے۔ (تذکرۃ المہدی، مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ صفحہ161مطبوعہ جون 1915ء)

ارشادحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

ایک صاحب نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر میں تمہیں اس مکان پر بلاؤں یا تم خود آؤ تو تم پر طلاق۔ اب وہ اپنی بیوی کو اس مکان پر بلانا چاہتے ہیں۔ جواب لکھا گیا کہ اس مکان میں آجانے پر ایک طلاق واقع ہو گا۔ جس سے اُسی وقت بلانکاح رجوع ہو سکتا ہے۔ اگر مدت گزر جائے تو پھر بالنکاح رجوع ہو گا۔ (اخبارالفضل قادیان دارالامان جلد 2 نمبر 113 مورخہ 14؍مارچ 1915ء صفحہ 2)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button