یادِ رفتگاں

’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہوگیا۔‘‘

(وحید احمد۔ لندن)

سید طالع احمد شہید کی یاد میں

سیّدطالع احمدکی شہادت کی المناک خبر کے بعداس سے تعلق اورہارٹلے پول میں گزرے دن آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگے۔خاکسار نے چند یادداشتیں قلم بند کی ہیں۔

طالع احمد یقیناً ’احد من الناس‘تھا۔اللہ تعالیٰ اور خلیفۃ المسیح سے سچی محبت کے طفیل وہ مقام پاگیاجسے چنیدہ لوگ ہی پاسکتے ہیں ۔ وہ خوش نصیب ٹھہرا جو اپنے عہد کو ایفاکرتاہوا اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں اپناشمارکرگیا،جس نے امام الزمان علیہ السلام سے اپنے خونی اور روحانی ہر دو رشتوںکو اپنی قربانی سے زندہ جاوید کردیااور خلافت سے کیے گئے اپنے وعدے کو ایفا کر کے اپنے حقیقی مولا سے جاملا۔اے اللہ!حضرت امیر المومنین اس سے خوش ہیں اورتو بھی اس سے راضی ہو جااور اسے سیّد دوجہاں ﷺ کے قرب میں جگہ عطافرما۔آمین

سیّدطالع احمد کی شہادت کی خبر نے طبیعت میں ایک تلاطم کی کیفیت طاری کردی۔دل میں بے چینی اور اس پیارے کے پُر نور چہرہ کی یادیں تلملانے لگیں۔ اللہ کے قول اورہدایت کہ

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

کے الفاظ زبان پر جاری ہوئے۔

ہارٹلے پول میں بارہ تیرہ سال قبل طالع سے ہونے والی پہلی ملاقات کی یاد نے روح تک کو ہلادیا ،وہ پیارا نوجوان جو نہایت لطیف شخصیت کا مالک تھا،اس کے والد اور مصفّیٰ طبیعت و قلب کی حامل ماں اور عظیم والد کی عظیم بیٹی طالع کی اہلیہ دختر مرزا غلام قادر شہید کی کیفیت کا اندازہ کر کے ہی جان گویا حلق کو آگئی ،لیکن اسی اثناء میں اپنے پیارے آقا کے غم کا سوچ کر چُپ سی لگ گئی ۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے پیارے کے یہ الفاظ بھی یاد آئے

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جان فدا کر

طالع سے تعارف اور ملاقات تو میری پاکستان سے ہجرت اور پھر ہوم آفس کی ان دنوں کی سخت پالیسیوں اور قوانین کے سبب ہوئی جب مجھے نہایت مختصر نوٹس پرڈیٹینشن سے رہا کردیا گیااور چونکہ میں نے حکومت سے رہائش کی سہولت کی درخواست دے رکھی تھی اس لیے مجھے دور دراز کے ایک شہر میں منتقل کر دیا گیا۔ایک لیٹر خاکسار کے ہاتھ میں تھما دیا گیا جس پر ایڈریس وغیرہ تو تھا لیکن میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔موبائل کی سہولت بھی نہ تھی ۔ چنانچہ2011ء جنوری کی یخ بستہ رات ہو م آفس کی گاڑی نے لندن کے ایک ڈیٹینشن سینٹر سے کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد رات کے اندھیرے میں دریائے Teesکے کنارے ایک گھرکے دروازہ کے سامنے جا اتارا۔

نہایت خوبصورت چھوٹے سے شہر Stockton میں اس گھر کے باہر کھڑےایک نوجوان نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کچھ کاغذات میرے ہاتھ میں تھمائے اور کہاکہ رات بہت ہوچکی ہے وہ دوبارہ رابطہ کرے گا۔میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کہاں ہوں اور اگر کوئی ضرورت پیش آئے توکیاکروں گا نیز کل جمعہ ہے اور مجھے نماز کے لیے اپنا کوئی سینٹر تلاش کرنا ہے ،کم ازکم اس بارہ میں میری مدد کر دو۔اس نے کہاکہ یہاں قریب ایک چرچ ہے وہاں چلے جانا۔ نو بجے کے بعد وہاں آپ کوhelp مل جائے گی۔

مختصراً یہ کہ ایک تلخ رات گزری ،فون کو ایکٹو کرنے میں کامیابی ہوئی اور ایک دوست کے تعاون سے معلوم ہواکہ اس ٹاؤن سے دس بارہ میل کے فاصلہ پر ہارٹلے پول کی جماعت ہے ۔ہارٹلے پول سے اس وقت صر ف اتنی شناسائی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو اس ٹاؤن سے یا یہ کہہ لیں کہ اس کے باسیوں سے منفرد محبت تھی یا پھر اردو کلاس کے بچوں کی اٹکھیلیاں اور سمندر کے کنارے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں Fish & Chips سے لطف اندوز ہونا اوربس۔علی الصبح ایک اجنبی کی حیثیت سے چرچ کی تلاش میں سرگرداں ہوا ۔ٹاؤن میں ایک چرچ میں گیا ۔زبان سے بھی ایسی شناسائی نہ تھی بہر کیف ایک نہایت بزرگ خاتون جو وہاں غیر ملکیوں کو انگریزی پڑھانے کے لیے وقف تھیں ان کو میں نے اپنا مدعا بیان کیاکہ میں احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھتاہوں اور مجھے اپنے قریبی سینٹر میں جانا ہے۔ اس خاتون نے فوراً مدد کرنے پرآمادگی کا اظہارکیا اور کہا کہ وہ کلاس کے بعد مجھے ہماری مسجد تک چھوڑ آئے گی ۔

چنانچہ جمعہ کی نماز سے کہیں پہلے میں ہارٹلے پول کی مسجد ناصر پہنچ گیا۔ایک دوست جو خادم مسجد(caretaker) تھےانہوں نے پرجوش رنگ میں خوش آمدید کہا۔نماز جمعہ کے وقت جہاں دیگر احباب جماعت سے ملاقات ہو ئی وہیں مکرم سیّد ہاشم صاحب سے ملاقات ہوئی ۔میں نے انہیں عرض کیا کہ آپ کی مشابہت مکر م ڈاکٹر عبد اللہ پاشاصاحب فضل عمر ہسپتا ل ربوہ سے بہت زیادہ ہے ،بڑے تجسس بھرے انداز میں دریافت فرمایا کہ آپ انہیں جانتے ہو ،چند منٹوں کاتعارف ہوا اور فرمانے لگے کہ وہ Job سے آئے ہیں دوبارہ ملاقات ہوگی۔ان شاء اللہ

خاکسار اگلے روز پھر بس کا ٹکٹ لے کر مسجد پہنچ گیا۔محترم بلال ایٹکنسن(Atkinson) صاحب اورمحترم ہاشم صاحب بھی کچھ دیر میں تشریف لے آئے تب معلوم ہوا کہ آپ صدر جماعت ہارٹلے پول ہیں اورمکرم بلال صاحب ریجنل امیرہیں۔

اغلباًاسی روز عزیزم طالع سے ملاقات ہوئی اورمکرم ہاشم صاحب نے بڑے پیار سے میرا تعارف کروایا۔طالع کو بڑا ہی خاموش طبع پایا اس نے صر ف اپنے چہرے کی ایک حسین مسکراہٹ سے خوش آمدید کیااور بس۔

وہ مکالمہ جوحضوررحمہ اللہ تعالیٰ خلیفۃ المسیح الرابع اور آپا ساجدہ میں ہوا اس کی تفصیل مکرمہ طیبہ احمد صاحبہ(گگو باجی والدہ محترمہ سیّد طالع احمد)نے یو ں بیان کی کہ ایک مرتبہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہاں تشریف لائے ہوئے تھےآپ نے میری والدہ جوآپا ساجدہ کے نام سے معروف تھیں ،کہاکہ آپ کے بچوں میں زیادہ ذہین کون ہے،گگو ؟ امی جا ن نے جواباًکہاکہ نہیں عابد (اس وقت عابد وحید تقریباً سات سال کاتھا)حضور انور نے فرمایا کہ نہیں ان کے خیال میں’’گگو ‘‘لیکن آپاساجدہ نے اصرار کیا کہ نہیں عابد۔ چنانچہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپا ساجدہ کی رائے تسلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کرسی (Armchair) پربیٹھے ہوئے بچے (بعمردو سے تین ماہ )کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایاکہ یہ اس (عابد وحید) سے بھی زیادہ ذہین ہوگا۔

یہ خوش نصیب بچہ عزیزم طالع احمد تھا۔یقیناً اس کی آنکھیں اس محبت کو اپنے اندرسمو چکی تھیں جس کی نوید حضرت خلیفۃ المسیح رحمہ اللہ تعالیٰ دے چکے تھے۔اس مکالمہ میں شامل سبھی عظیم نکلے،سبھی خلیفۃ المسیح کے قرب کو سمیٹنے والے بنے ۔

طالع سے کئی دن تک کوئی بات نہ ہوئی ۔مجھے ہارٹلے پول میں وقف عارضی کی توفیق ملی ۔ ایک روزمکرم امیر صاحب کی ہدایت پر مسجد کی بیرونی آہنی fencingکو paintکرنے کا آغاز کیا تو اس روز ’’طالع ‘‘ میرے پاس نماز ظہر سے کچھ پہلے رکا اور بڑے ہی پیارے اردو انگریزی ملے جلے لہجے میں کہنے لگا آپ کو معلوم ہے کہ یہاں آج کل بہت زیادہ نسلی تعصب پایاجاتا ہے اور غیر ملکیوں بالخصوص پاکستانیوں کوہدف بنایا جارہاہے۔آپ نے اپنا خیال رکھنا ہے ۔اسی روز یا اگلے دن مَیں لوہے کی سلاخوں کو ریگ مال سے صاف کر رہاتھا کہ چند نوجوان گلی میں داخل ہوئے۔ مجھے اسی وقت طالع کی بات یاد آئی کہ بالعموم یہ ٹولیوں میں آتے ہیں۔میں نے اپنا کا م جاری رکھا ۔انہو ں نے آوازے کسے لیکن میں نے قطعاً توجہ نہ دی۔اچانک ایک لڑکے نے ایک پتھر اُٹھا کر زور سے میری طرف پھینکا ، میں بڑی سبک رفتاری سے جگہ بدلنے میں کامیاب ہوگیا۔الحمدللہ۔اور اس اچانک حملہ سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔اللہ بھلا کر ے اس معصوم پر جس نے مجھے پہلے آگا ہ کردیا تھا وگرنہ شایدمیں زخمی ہو جاتا۔یہ بھی اس کی ذہانت کی عمدہ مثال تھی کہ حالات کو بھانپ کر ایک نو وارد کو متنبہ کیا۔اور یہ تھی اس پیارے سے میری اپنی نوعیت کی پہلی گفتگو، ہمارا طالع ہم سب کا پیارا فجز اہ اللہ احسن الجزاء۔

ایک ویک اینڈ پر ہارٹلے پو ل کے اس ایریا میں جہاں صدر صاحب کا گھر تھا لیف لیٹنگ(leafleting) کا پروگرام تھا۔مجھے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہواتھاکہ سب کے گھروں یا ایڈریسز کا معلوم ہوتا۔اغلباً مجھے محترم سلبی صاحب نے بتایا کہ صدر صاحب کا گھر بھی اسی ایریا میں آتا ہے۔ چنانچہ جب میںان کے گھر کے قریب پہنچا تو دونوں با پ بیٹا نہایت خوبصور ت سفید کرکٹ کے لباس ( Cricket Kit)میں دروازے کے باہر اپنی گاڑی کے قریب کھڑے گراؤنڈ کے لیے روانہ ہونے کے لیے تیار تھے ۔یہی کہہ لیں کہ میں ان کو رخصت کر کے چل دیا۔

مکرم سیّد ہاشم صاحب اور گگو باجی کو اللہ تعالیٰ نے ہیرے سے نوازا اورآپ نے اس کی پرورش اور بہترین تربیت کرکے ابتداءً اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آنکھوں سے اس رنگ میں اوجھل کیا ،جب پیارے امام نے ارشاد فرمایا کہ اسے میرے پاس بھجوادیں تو بلاتردّد ناز و نعم سے پلنے والے کو ہارٹلے پول سے لند ن بھیج دیا ۔والدین کی آغوش میں کھلنے والا پھول ،یہ سادہ مزاج لیکن بہادر بچہ مسجدفضل لندن کے بالمقابل گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہو کرقلبی اطمینان کے ساتھ پیارے اما م اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب میں جا بسا۔

طالع احمد نےThe White Birds of Hartlepool کی ڈاکومنٹری سنی سنائی باتوں سے متاثر ہو کرنہیں بنائی تھی اس نے ان سفید پرندوں کے غول میں تربیت یافتہ منجھے ہوئے پرندوں کے ساتھ کا م کیا اور ان کی صحبت سے استفادہ بھی کیا۔اس ڈاکومنٹری میں جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہارٹلے پو ل کے ان سفید پرندوں سے اور ان پرندوں کو اس انعام تک رسائی دینے والے ڈاکٹر حمید خان صاحب مرحوم سے وارفتگی اور چھلکتا ہوا پیار ہم تک پہنچایا وہیں اس نوجوان نے ان سفید پرندو ں کی تثلیث کی تعلیمات کے چھوڑنے کے بعد اپنے حقیقی وحدہٗ لاشریک خدا کے عشق اور اس سے لگاؤ کے سفر کی ایک جھلک اور پھر ان کی جانب سے حضرت خلیفۃ المسیح کی اطاعت اور حصولِ خوشنودی کے لیے مساعی کے عملی نمونے اور نظارے بھی دکھائے۔

ہارٹلے پول طالع کی جنم بھومی ہے طالع کا بچپن اور جوانی کا بڑا حصہ وہیں گزرا۔اس سرزمین پر خلفائے کرام کی آمد ہوئی اوراس کی مٹی نے یہ سعادت سمیٹی کہ خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس کی محبت کو اشعار میں تبدیل کرکے رہتی دنیا تک یادگار بنادیا۔طالع خوش نصیب ٹھہرا کہ اس کے والدین اور پھریہ خود ان خوش نصیب لمحات کےشیریں پھلو ں سے وافر حصہ پاگیا۔

ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا

ہارٹلے پول کا وہ پھول، وہ محبوب گیا

طالع نے اپنے والدین کی جماعت سے محبت اور قربانی کا جذبہ تودیکھاہی تھا۔ اس نے اپنے والد کے کئی بار غیر معمولی صبر کے لمحات بھی دیکھے یا پھر یقیناً سنے ہوں گے کہ جب بعض نادانوں اور مشکلوں میں گھرے ہوئے افراد کی طرف سے سخت گیر رویوں کا سامنا انہیں کرنا پڑتا اور وہ صابر ،صبر کا بُت بنے اسے سہ جاتا، جنہیں شاید اللہ تعالیٰ آج کے دن کے لیے تیارکررہاتھا۔کمال شخصیت کا مالک یہ بیٹا کبھی بھی جذبات میں نہیں آیا ۔ اس کا شفیق والد تو اس کا بہترین دوست اور اس کے کرکٹ کلب کا ممبر بھی ۔’’طالع تجھے سلام‘‘؎

تم نے مری جلوت میں نئے رنگ بھرے ہیں

تم نے مری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے

تم چاندنی راتوں میں مرے پاس رہے ہو

تم سے ہی مری نقرئی صبحوں میں ضیا ہے

طالع کی ذہانت جس کی گواہی اور سند تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پیشگی فرماچکے تھے۔ پڑھائی میں بھی کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتااور بڑے اچھے رزلٹ آتے رہے۔ ’’جوعہد باندھا تھا ۔نبھا گیا۔اور حق ادا کردیا۔‘‘

مکرم مطیع اللہ صاحب جو لاہور سے ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں انہیں بھی ہارٹلے پول میںقیام کا موقع ملا ۔انہیںیہ اعزاز میسر آیا کہ انہوں نے طالع کو اردو پڑھانی شروع کی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے لیے اس قدر حیرانگی کے لمحات تھے کہ جب انہوں نے ایک دن اسے نماز سینٹر میں اردو میں درس دیتے ہوئے دیکھا حالانکہ وہ ابھی اسے بنیادی الفاظ پڑھارہے تھے۔ انہوں نے خود بتایا کہ معجزہ تھا اوراس کی غیرمعمولی ذہانت تھی۔

عزیزم طالع لندن منتقل ہوا تو یہاں بھی اس سے تعلق قائم رہا ۔طالع طبعًاخاموش طبیعت کا مالک تھا۔کرکٹ اور فٹ بال کا شوق بڑا گہرا تھا ۔حضورانور نے مرکزی کارکنان کی ذہنی وجسمانی استعدادوں میں اضافہ اور ان کی دلچسپی کو بڑھانے کے لیے مسرور کرکٹ ٹورنامنٹ میں AMJ-X1 ٹیم کی منظوری عطا فرمائی تو طالع نے بھی لند ن منتقل ہونے کے بعد اس میں شمولیت اختیار کرلی ۔کرکٹ سے لگاؤ اور اس میں طالع کی دلچسپی دیدنی تھی ۔طالع کا مزاج عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ خاموشی والا ہے تاہم جہاں اس کالگاؤ اور دلچسپی ہوتی گویایہ اس محفل پر چھایا ہوتا۔اس کا یہ روپ میں نے کرکٹ ٹیم میں آکردیکھا۔طالع خود بھی اور اس کا انداز بھی بڑا زبردست اور منفرد تھا ۔بیٹنگ کاانداز پرانے وقتوں کے Batsmenکی یاد تازہ کردیتا۔تحمل مزاجی تو کمال تھی۔طالع کا بیٹنگ سٹائل نہایت جچا تلا اور ستّرکی دہائی کی برٹش کرکٹ سے متاثر دکھائی دیتا تھا بالخصوص بلے کو ہوا میں اُٹھا کر رکھنااور باقاعدہ حرکت میں رکھنا ،بہت بھلا اور ہردلعزیز تھا۔ہماری ٹیم نئی تھی۔ میچ ہارنے کے بعد شکست کی وجوہات پرتبصرہ تو بے لاگ ہوتا۔جہاں کہیں بھی اپنی کارکردگی میں فقدان محسوس کرتا وہیں سے بات کا آغاز کرکے بات کو آگے بڑھاتا۔

طالع سے ایک خاموش لگاؤ ضرورتھا اور میں نہیں جانتا کہ اس کی وجہ کیا تھی اور نہ جانتا تھاکہ وہ اس قدر عظیم مقام لے اُڑے گا، اس کی آنکھوں کی چمک میں کچھ تھا ،میں ہمیشہ طالع سے بڑے احترام کارشتہ رکھتا۔طالع بھی اسے باقاعدہ محسوس کرتا ۔

طالع احمد کی سادگی کی تو کیا بات ہے۔صاف ستھرے کپڑے لیکن بہت سادہ،عام سادہ سا موبائل فون زیر استعمال رہا ، اس کے پاس لمبا عرصہ تک کوئی سمارٹ فون نہیں تھا ۔میں نے اس کی مسرور کرکٹ ٹورنامنٹ میں تصاویر بنائیں اور کہا کہ تصاویر آپ کو بھجوا دوں گا تو کہنے لگا کہ میرے پاس تو عام فون ہے اس پر WhatsApp اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں۔ کافی دیربعد جاکر شاید ایم ٹی ا ے کی ضروریات کے تابع سمارٹ فون لیاہو گا۔اگریورپ میں کسی کےتارک الدنیاہونے یا سادگی کی مثال دیکھنی ہو تو بلاتردّد آپ طالع احمد کا نام لے سکتےہیں۔

گھاناسے موصولہ طالع شہیدپہلی تصویر جو میں نے دیکھی وہ بھی مرزا غلام قادر شہید آئی ٹی ریسرچ سینٹر کے سامنے بنائی گئی۔طالع شہید مرزا غلام قادر شہید کی قربانی کی عملاً تقلید کرتے ہوئے حق قربانی ادا کرگیا۔؎

طالع اپنے بیٹے طلال سے محبت میں بھی یکتا تھا ۔طلال کی اٹکھیلیاں ،کندھوں پر چڑھنا ،کودنا اور باہر جانے کا اصرار اور طلال کے آگے طالع کا سرنگوں ہونااور بات ماننا،یہ سب یادیں تو ماں بیٹےکو تڑپا ئیں گی، میر ی امی جا ن نے بتایا کہ طالع کی والدہ عزیزہ طیبہ گگو بتارہی تھیں کہ بیٹے سے محبت تو منفرد تھی ہی لیکن ڈیڑھ سالہ بیٹی سے محبت اور پیار کا تو کیا کہنا۔صنف نازک کی ادائیں باپ کی محبت کو کھینچتی چلی جاتی تھیں اور طالع ان معصوم کھلونوں سے اپنی تھکان کو دور کرتااور اپنے آپ میں بند رہنے کی روش اور عادت کو اس چھوٹی سی پَری کو دیکھتے ہی خیر باد کہتااور ایک نئی دنیا کا سوار بن جاتا۔انہی ہنسی کھیل کے ایام میں اپنے ابدی سفر کا مسافر ہولیا۔

طالع جیسا بیٹا تو قسمت والوں کو ملتا ہے۔The White Birds of Hartlepool کی تیاری میں اپنی ماں کی خدمات کو کن پیاربھرے انداز میں حاصل کیا اورکیا ہی خوب یادیں فلم بند کروائیں جس کی کوئی مثال نہیں ۔

طالع جس نے بچپن میں بھی خلیفۃ المسیح کی توجہ پائی اور جوانی میں بھی خلیفہ ٔوقت کا قرب اور محبت و خوشنودی حاصل کی۔ خلافت سے محبت اور عشق کی جھلک تو اس کے پروگرام Four days without a Sheperd سے بہت حد تک عیاں ہوتی ہے۔لیکن اس نے تو کما ل ہی کردیا۔ قربانی کا ایک نیا باب روشن کر دیا۔جس سر زمین پر اس کے پیارے آقا و محبو ب حضر ت امیرالمومنین اید ہ اللہ تعالیٰ نے پسینہ بہایا، طالع نے اس سرزمین کو اپنے خون سے سینچا۔طالع نے حقیقت میں اپنا عہد ایفاکیااور اس کا حق ادا کردیا۔

اللہ تعالیٰ طالع شہید کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button