حضرت مصلح موعود ؓ

میری سارہ (قسط نمبر 5)

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ھُوَ النَّاصِرُ

(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(قسط نمبر 5)

کیاسارہ بیگم کی محنت رائیگاں گئی

میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ مجھ سے ہمدردی کرتے ہیں کہ گویا سارہ بیگم کی موت نے ان کی محنتوں کو برباد کر دیا لیکن یہ درست نہیں اور صرف کوتاہی نظر کے سبب سے ہے۔ سارہ بیگم نیک نیتی سے اور الله تعالیٰ کی رضا کیلئے کوشش کرتے ہوئے فوت ہوئیں اور جو اس طرح جان دیتا ہے وہ شہید ہوتا ہے اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی آخر الزمان کے قول کے مطابق زچگی کی بیماری سے وفات دے کر ظاہراً بھی شہادت کا مرتبہ عنایت فرمایا ہے۔ پس وہ زندہ ہیں اور ان کے نیک کام جاری رہیں گے کیونکہ وہ جو خدا تعالیٰ کے لئے بوجھ اٹھاتاہے اور اسی کام میں جان دیتا ہے، خدا تعالیٰ اس کے کام کو مٹنے نہیں دیا کرتا۔ بعض لوگ اپنی حیات سے دنیا کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور بعض موت سے ۔ یہی خدا کی سنت ہے جو قدیم سے چلی آئی ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسیح کی زندگی سے دنیا کو فائدہ پہنچایا اور یحیٰ کی موت سے ۔ خود ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں اگر علی نے زندہ رہ کر امت کی راہ نمائی کی تو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ نے بظاہر بے وقت کی موت سے۔ کئی موتیں ہیں جو زندگی سے زیادہ با برکت ہوتی ہیں اور اگر خدا تعالیٰ کا منشا ء اخفاء کی تا ئید میں نہ ہوتا تو میں وہ کچھ کہہ سکتا تھا جس سے عقلیں دنگ ہو جاتیں لیکن میں اسے مخفی رکھتا ہوں کیونکہ خدا بھی اسے مخفی رکھنا چاہتا ہے اور صرف اس کے آثار کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور کیا خود خدا کا وجود ہم سے مخفی نہیں اور کیا صرف اس کی صفات کا ظہور ہی اس کے وجود کو ہمارے سامنے نہیں لایا۔

میرے آئندہ ارادے

آئندہ عورتوں کی تعلیم کے متعلق بھی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میری آئندہ سکیم کے متعلق سر دست صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کچھ ارادوں اور کچھ تو کل کی ایک سکیم ہے۔ میں بعض امور کے متعلق جماعت کو آگاہ کر نا چاہتا ہوں اور کچھ حصے کے متعلق خاموش رہنا چاہتا اور اپنے دماغ کو بھی ہراک خیال سے آزاد رکھنا چاہتا ہوں

تا خدا تعالیٰ کا الہام اس پر نازل ہو اور اس طرف میری راہنمائی کرے جو اس کے علم میں بہتر ہے اور جس کی نسبت اس کی رضا کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے۔ شاید کوئی بے وقوف کہے کہ ایک چیز کو کیوں خدا پر چھوڑتے ہو اور دوسری کو نہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مومن کا قدم اطاعت کا قدم ہوتا ہے جس امر میں خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے !اس کے متعلق غور کر کے ایک راہ اختیار کر اور پھر مجھ پر توکل کر وہ اس کے متعلق غور کرتا اور پھر توکل کرتا ہے اور جس امر کے متعلق وہ اپنے بندے کو یہ کہتا ہے کہ اے میرے بندے دل کو خالی کر دے اورتوکل کر اور جب میری طرف سے اشارہ ہوتب حرکت کر وہ اسی طرح کرتا ہے اور تو کل کوعمل سے پہلے رکھ دیتا ہے ۔ غرض صحیح راستہ یہی ہے کہ کبھی توکل عمل سے پہلے ہوتا ہے اور کبھی عمل توکل سے پہلے مگروہ جو محنت نہیں کر سکے ایک راہ کو اختیار کر لیتے ہیں اور خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔میں اس بات میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایک سپاہی ہوں اور میرا یہ طریق نہیں کہ اگر ایک طرف سے دروازہ نہیں کھولا گیا تو خاموش ہو کر بیٹھ جاؤں۔ میں سپاہی کی طرح میدان جنگ میں جان دینے کو اپنا کام سمجھتا ہوں ۔ میرا کام یہ ہے کہ اگر ایک دروازہ نہیں کھلا تو دوسرا کھولوں اور وہ نہیں کھلا تو تیسرا دروازہ کھولنے کی کوشش کروں۔غرض اپنے فرض کے پورا کرنے کےلئے مختلف تدابیر اختیار کروں اور کام کرتا چلا جاؤں ۔ یہاں تک کہ یا شہادت ہو یا فتح کہ مومن کےلئے ان دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی ہو مبارک ہی مبارک ہے۔

سارہ بیگم کے رشتہ دار

سارہ بیگم کی والدہ ان کی وفات سے چند ماہ پہلے فوت ہوگئی وہ ایک نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں اگر انہیں ولیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایمان میں ان کو صدق حاصل تھا، ایسی بے شر اور نیک عورتیں اس زمانہ میں کم ہی دیکھی جاتی ہیں ۔ جس عمدگی سے انہوں نے اس رشتہ کو نبھایا، بہت کم لوگ اس طرح نبھا سکتےہیں ۔ ان کے والد مولوی عبدالماجد صاحب زندہ ہیں لیکن بہت ضعیف ، اللہ تعالیٰ انہیں صبر کی توفیق دے اور ان کی قربانی کو قبول کرے سارہ بیگم کے چار بھائی اور ایک بہن زنده ہیں ۔ سب سے بڑے پروفیسر عبدالقادر صاحب انگریزی اور عربی کے عالم ہیں اور خدمت دین کا جوش رکھتے ہیں لیکن بیمار رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں صحت کامل اور ایمان کامل عطا فرمائے ۔ تین چھوٹے بھائی بے کار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی دین اور دنیا میں عزت عطا فرمائے ۔ پروفیسر عبدالقادر صاحب کا لڑ کا علی میں نے کبھی دیکھا نہیں لیکن گھر میں سب سے زیادہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور باقاعدہ خط لکھتا رہتا ہے یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب کا مقام عطا کرے اور اپنی ہر قسم کی برکات سے حصه وافر عطا فرمائے ۔ خدا تعالیٰ مرحومہ کی ہمشیرہ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی صبر کی توفیق دے۔ سارہ بیگم نے اور کوئی کام کیا یانہیں لیکن بنگال اور بہار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رشتہ داری میں شامل کر گئی ہیں۔ ان کی اولاد کے ذریعہ سے انشاء الله یہ تعلق ایک پائیدا رتعلق رہے گا۔ جب تک

اک سے ہزار ہوویں مولا کے یار ہوویں

کی پیشگوئی پوری ہوتی رہے گی بنگال اوربہار کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں شامل رہیں گے میں مبالغہ نہیں کرتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا تھا حضرت ابراہیم کی بیوی ہاجرہ مصر کی تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اولاد سے تھے جب مصر کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تو فرماتے مصری ہمارے رشتہ دار ہیں ان کا لحاظ رکھنا چاہیے

اپنے آقا اور مالک سے خطاب

اب میں بندوں سے باتیں ختم کرتا ہوں اور اے میرے رب! میں تجھ سے مخاطب ہوتا ہوں۔ اے میرے مولا! اے میرے پیارے! میں نے تیرے رحم کا اس قدر معائنہ کیا ہے کہ میں ایک منٹ کیلئے بھی یقین نہیں کر سکتا کہ سارہ بیگم کی وفات کوئی برا فعل تھا۔ میں یقین کرتا ہوں اور یقین کرنے کی وجوہات پاتا ہوں کہ اے ارحم الراحمين! یہ وفات مرحومہ کیلئے، میرے لئے ، میرے اور اس کے خاندان کیلئے یقیناً تیرا ایک رحم و کرم کا فعل تھا۔ اے میرے پیارے! کمزور جسم بوجھ محسوس کرتا ہے، گوشت کا بنا ہوا دل درد سے بھرا ہوا ہے مگر روح تیرے فعل کی حکمتوں کی قائل ہے وہ تیرے محبت کے انداز کو اس فعل میں بھی دیکھتی ہے، وہ اس امر اور ہر امر پر جو تیری طرف سے آئے راضی ہے قانع ہے مطمئن ہے۔ اے بادشاہ! تیری مرضی پر راضی ہونے میں ہی سب برکت ہے، سب خیر ہے، جاہل انسان تیری حکمتوں کو کب دیکھ سکتا ہے، نادان عقل تیرے افعال کی گہرائیوں کو کب پہنچ سکتی ہے، پر شکسته فکر کی پرواز تیرے علم کے بلند کناروں کو کب پاسکتی ہے۔ اے آقا! کون اپنی بنائی ہوئی عمارت کو گراتا ہے، کون اپنے کئے ہوئے کام کو خراب کرتا ہے، پھر اے عقل وفہم کے خالق! اے زیرکی و دانائی کے پیدا کرنے والے ! یہ کیونکر تیری شان کے شایان ہوسکتا ہے کہ بلا حکمت اپنی صنعت کو توڑ دے، اپنے بنائے ہوئے کو بگاڑ دے، سنار جب سونے کی ڈلی کو پگھلاتا ہے، عطار جب دواؤں کوکوٹتا اور چھانتا ہے تو بے وقوف ہی اس پر اعتراض کر سکتاہے، اس کے پگھلانے اور اس کے گوٹنے میں ہزاروں صنعتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، لاکھوں ظہور چھپے ہوئے ہوتے ہیں، پھر اے حکیم وعزیز خدا! تیرے مٹانے اور تیرے توڑنے میں کتنے فوائد پوشیده نہ ہوں گے، کتے منافع مدنظر نہ ہوں گے؟ آہ! تو نے انسان کے ہاتھوں سے تڑوایا اور پھر بنوایا ، اس کے ہاتھوں سےمٹوایا اور پھر روشن کروایا مگرنادان پھر بھی نہ سمجھے، دلوں کے اندھے پھر بھی بینا نہ ہوئے، انہوں نے حسن اپنی طرف منسوب کیا اور تیری طرف بدصورتی ، طاقت اپنی طرف منسوب کی اور تیری طرف کمزوری، حیات اپنی طرف منسوب کی اور تیری طرف موت مگر اے میرے مالک ! اے میرے آقا ! تو نے مجھےآنکھیں دیں اور اپنے فضل سے بینا کیا، جب میں مرتا تھا تو نے مجھے زندہ کیا اور جب میں شک کی تاریکیوں میں بھول رہا تھا تو نے مجھے یقین کا نور بخشا، اے میرے پیارے! پھر کب میں نادانوں کے ساتھ شامل ہوسکتا اور اندھوں کے ساتھ بھٹک سکتا ہوں ، اے آقا! سب طاقت تیری طرف سے ہے، سب حکمت تیری طرف سے ہے، سب حیات تیری طرف سے ہے، سب زندگی تیری طرف سے ہے ، سب نور تیری طرف سے ہے، سب علم تیری طرف سے ہے، میں نادان ، کمزور کم علم ، پرشکسته، تہی دست، تیرے قدموں پر گرتا ہوں ، کوئی ہدیہ نہیں کہ پیش کروں ، کوئی خدمت نہیں کہ بیان کروں ، صرف اتنا کہتا ہوں اور کہتا چلا جاؤں گا کہ مجھے اپنا بنا لے صرف اپنا بنا لے، اپنی سبوحیت کیلئے چن لے، اپنی قدوسیت کیلئے انتخاب کرلے، اپنے ذکر کیلئے وقف کر دے، میرے آقا! نور کی تعریف ظلمت کے منہ سے بہت ہی اچھی لگتی ہے خوبی کو عیب کی موجودگی سے چار چاند لگ جاتے ہیں محبت وہ جو ہر ہے جو گندہ نہیں ہوسکتا، پاک محبت غلیظ برتن میں بھی پاک ہی رہتی ہے اور قبول کرنے کے قابل اور تجھ سے زیادہ قدرکرنے والا کون ہے ؟

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button