متفرق مضامین

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 17؍ دسمبر 2021ء

سوال1:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےیہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال2:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓکے ذکر میں ان کا غلاموں کو آزاد کرنے کا ذکر چل رہا تھا۔ اس میں سے کچھ مزید واقعات ہیں۔

سوال3:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نَہْدِیہ اور ان کی بیٹی کے آزاد کروانے کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ نے نَہْدِیہ اور ان کی بیٹی دونوں کو آزاد کرایا۔ یہ دونوں بنو عبد الدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ ان دونوں کے پاس سے گزرے اس وقت ان کی مالکہ نے ان کو آٹا پیسنے کے واسطے بھیجا تھا اور وہ مالکہ یہ کہہ رہی تھی کہ اللہ کی قَسم! میں تمہیں کبھی آزاد نہیں کروں گی یا جس کی بھی قسم وہ کھا رہی تھی۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے کہا اے اُمِّ فلاں!اپنی قَسم کو توڑ دو۔ اس نے کہا جاؤ جاؤ! تم نے ہی تو ان کو خراب کیا ہے۔ تمہیں اگر اتنا ہی خیال ہے تو تم ان دونوں کو آزاد کروا لو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ان دونوں کے بدلےمیں کتنی قیمت دوں؟ اس نے کہا کہ اتنی اور اتنی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو لے لیا اور یہ دونوں آزاد ہیں۔

سوال4:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بَنُو مُؤَمَّل کی ایک لونڈی کے آزاد کروانے کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ ایک دفعہ بَنُو مُؤَمَّل کی ایک لونڈی کے پاس سے گزرے۔ بَنُو مُؤَمَّل بَنُو عَدِی بن کَعْب کا ایک قبیلہ تھا۔ وہ لونڈی مسلمان تھی۔ عمرؓ بن خطاب اس کو ایذا دے رہے تھے تا کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ حضرت عمرؓ اُن دِنوں ابھی مشرک تھے۔ اسلام قبول نہیں کیا تھا اور انہیں مارا کرتے تھے یہاں تک کہ جب وہ تھک جاتے تو کہتے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے تمہیں صرف تھکاوٹ کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ اس پر وہ کہتی کہ اللہ تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کرے گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسے بھی خرید کر آزاد کر دیا تھا۔

سوال5:حضرت ابو بکرؓ کے والد نے آپ ؓ کو غلام آزاد کروانے کے حوالے سے کیا مشورہ دیا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓکے والد ابو قُحافہ نے ان سے کہا کہ اے میرے بیٹے! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کرا رہے ہو۔ اگر تم ایسا کرنا چاہتے ہو جو تم کر رہے ہو تو تم طاقتور مردوں کو آزاد کرواؤ تا کہ وہ تمہاری حفاظت کریں اور وہ تیرے ساتھ کھڑے ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے میرے پیارے باپ! میں تو محض اللہ عزّ وجلّ کی رضا چاہتا ہوں۔

سوال6:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت خباب بن ارتؓ کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کے الفاظ میں کیا واقعہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓنے جو غلام آزاد کیے تھے ان میں سے ایک حضرت خَبَّاب بن اَرَتْؓ بھی تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت خَبَّاب بن اَرَتْؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک اَور صحابیؓ جو پہلے غلام تھے انہوں نے ایک دفعہ نہانے کے لئے کرتہ اتارا تو کوئی شخص پاس کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا اوپر سے ایسا سخت اور کھردرا ہے جیسے بھینس کی کھال ہوتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور انہیں کہنے لگا۔ تمہیں یہ کب سے بیماری ہے تمہاری تو پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہے جیسے جانور کی کھال ہوتی ہے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑے۔‘‘ حضرت خَبَّاب ہنس پڑے ’’اور کہنے لگے بیماری کوئی نہیں۔ جب ہم اسلام لائے تھے تو ہمارے مالک نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سزا دے۔ چنانچہ تپتی دھوپ میں لٹا کر ہمیں مارنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ کہو ہم محمدﷺکو نہیں مانتے۔ ہم اس کے جواب میں کلمۂ شہادت پڑھ دیتے۔ اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتا اور جب اس طرح بھی اس کا غصہ نہ تھمتا تو ہمیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا… جب ہم اسلام سے انکار نہ کرتے اور لوگ ہمیں مار مار کر تھک جاتے تو پھر ہماری ٹانگوں میں رسی باندھ کر ان کھردرے پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اور جو کچھ تم دیکھتے ہو اسی مار پیٹ اور گھسٹنے کا نتیجہ ہے۔ غرض سالہا سال تک ان پر ظلم ہوا۔ آخر حضرت ابوبکرؓسے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی جائیداد کا بہت سا حصہ فروخت کر کے انہیں آزاد کرا دیا۔

سوال7:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت حبشہ کی تاریخ اور مسلمانوں کی تعداد کیا بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:رجب سنہ 5؍ نبوی کی بات ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔

سوال8:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کی ہجرت حبشہ کے واقعہ کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو بھی ایذا پہنچائی گئی جس پر انہوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اس بارے میں بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمانوں کو تکلیف دی گئی تو حضرت ابوبکرؓ ہجرت کرنے کی غرض سے حبشہ کی طرف چل پڑے۔ جب وہ بَرْکُ الْغِمَادمقام پر پہنچے…تو انہیں ابنِ دَغِنہ ملا اور وہ قَارَہ قبیلہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا اے ابوبکر !کہاں کا قصد ہے؟حضرت ابوبکرؓ نے کہا میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ ابنِ دَغِنہ نے کہا: تمہارے جیسا آدمی خود وطن سے نہیں نکلتا اور نہ اسے نکالا جانا چاہئے۔ تم تو وہ خوبیاں بجا لاتے ہو جو معدوم ہو چکی ہیں اور تم صلہ رحمی کرتے ہو۔ تھکے ہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہو۔مہمان نوازی کرتے ہو اور مصائب حقہ پر مدد کرتے ہو…رشتہ داروں سے نیک سلوک کیا کرتے ہو۔ بیچاروں کو سنبھالتے ہو اور مہمان نواز ہو اور حق کی مشکلات میں مدد کرتے ہو۔ پھر اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔واپس چلو اور اپنے وطن میں ہی اپنے رب کی عبادت کرو اور ابنِ دَغِنہ بھی چل پڑا اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مکہ میں آیا اور کفار قریش کے سرداروں سے ملا اور ان سے کہا ابوبکر ایسے ہیں کہ ان جیسا آدمی وطن سے نہ نکلتا ہے اور نہ نکالا جاتا ہے۔کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو ایسی خوبیاں بجا لاتا ہے جو معدوم ہو چکی ہیں اور وہ صلہ رحمی کرتا ہے۔تھکے ہاروں کے بوجھ اٹھاتا ہے۔مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب پر مدد کرتا ہے؟اس پر قریش نے ابنِ دَغِنہ کی پناہ منظور کرلی اور حضرت ابوبکرؓ کو امن دیا اور ابنِ دَغِنہ سے کہا۔ابوبکر سے کہو کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں ہی کیا کرے۔وہیں نماز پڑھے اور جو چاہے پڑھے لیکن ہمیں اپنی عبادت اور قرآن پڑھنے سے تکلیف نہ دے اور بلند آواز سے نہ پڑھے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے بیٹوں اور ہماری عورتوں کو گمراہ کر دے گا۔

سوال9:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ابن دغنہ کےحضرت ابوبکرؓ کی پناہ واپس لینے کی کونسی وجوہات بیان فرمائیں؟

جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کو خیال آیاتوانہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد یعنی نماز پڑھنے کی جگہ بنا لی اور کھلی جگہ میں نکلے۔وہیں نماز بھی پڑھتے اور قرآن مجید بھی اور ان کے پاس مشرکوں کی عورتیں اور بچےجمگھٹاکرتے۔وہ تعجب کرتے۔یعنی حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر تعجب کرتے اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے کہ وہ بہت ہی رونے والے آدمی تھے۔جب قرآن پڑھتےتو اپنے آنسوؤں کونہ تھام سکتے۔اس کیفیت نے قریش کے مشرک سرداروں کو پریشان کر دیا اور انہوں نے ابنِ دَغِنہکو بلا بھیجا۔وہ ان کے پاس آیا اور انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے تو ابوبکرؓ کو اس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرتا رہے لیکن انہوں نے اس شرط کی پروا نہیں کی اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی ہے اور نماز اور قرآن اعلانیہ پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے لڑکوں اور ہماری عورتوں کو آزمائش میں ڈال دے گا۔تم اس کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کرے کہ اپنے گھر کے اندر ہی رہ کر اپنی عبادت کرے تو کرے ورنہ اگر اعلانیہ پڑھنے پر مصر رہے تو اسے کہو کہ تمہارے امان کی ذمہ داری تمہیں واپس کر دے کیونکہ ہمیں یہ بُرا معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری ذمہ داری توڑیں اور ہم تو ابوبکرؓ کو کبھی بھی اعلانیہ عبادت نہیں کرنے دیں گے…ابنِ دَغِنہ ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو اس شرط کا علم ہی ہے جس پر میں نے آپ کی خاطر یہ عہد کیا تھا۔اس لیے یا تو آپ اس حد تک محدود رہیں ورنہ میری ذمہ داری مجھے واپس کر دیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ بات سنیں کہ جس شخص کو میں نے پناہ دی تھی اس سے میں نے بدعہدی کی ہے۔

سوال10:حضرت ابوبکرؓ کی ابن دغنہ کو پناہ واپس کرنے کی بابت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کیا بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور اللہ ہی کی پناہ پر راضی ہوں۔

سوال11:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کی صحن میں بنائی گئی مسجد کی بابت کیا فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صحن میں جو مسجد بنائی تھی اس کے بارے میں صحیح بخاری کی شرح عمدة القاری میں لکھا ہے کہ یہ مسجد گھر کی دیواروں تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔

سوال12:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےشعب ابی طالب کےواقعہ کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب:فرمایا:شِعْبِ اَبِی طَالِب میں بھی حضرت ابوبکرؓ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھے۔قریش مکہ نے توحید کے پیغام کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر جب انہیں ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے ایک عملی اقدام کے طور پر بنو ہاشم اور بنو مُطَّلِب کے ساتھ قطع تعلقی کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ قریش …نے ایک عملی اقدام کے طور پر باہم مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ آنحضرت ﷺاور تمام افراد بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیئے جاویں اور اگر وہ آنحضرت ﷺ کی حفاظت سے دستبردار نہ ہوں تو ان کو ایک جگہ محصور کر کے تباہ کر دیا جاوے۔ چنانچہ محرم 7؍ نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندانِ بنو ہاشم اور بنو مُطَّلِبسے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا…جب تک کہ وہ محمد (ﷺ) سے الگ ہوکر آپ کو ان کے حوالے نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ جس میں قریش کے ساتھ قبائل بَنُو کِنَانَہ بھی شامل تھے باقاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا۔ چنانچہ آنحضرتﷺاور تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرتﷺکے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا) شِعْبِ اَبِی طَالِب میں جو ایک پہاڑی دَرّہ کی صورت میں تھا محصور ہو گئے اور اس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلےمکہ کی تمدنی زندگی سے عملاً بالکل منقطع ہو گئے اور شعبِ ابی طالب میں جو گویا بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے۔ چند گنتی کے دوسرے مسلمان جو اس وقت مکہ میں موجود تھے وہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔

سوال13:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غُلِبَتِ الرُّوْمُ کی پیشگوئی اور حضرت ابوبکرؓ کے شرط لگانے کے واقعہ کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب:فرمایا:

الٓمّٓ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِیۤ اَدْنَى الْاَرْضِ

کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ…مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آ جائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آجائیں اس لیے کہ وہ اہلِ کتاب تھے…حضرت ابوبکرؓ نے رسول ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا وہ ضرور غالب آ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کا ذکر ان سے یعنی مخالفین سے، مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدّت مقرر کر لو۔ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارے لیے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آ گئے تو تمہارے لیے یہ اور یہ ہو گا۔ یعنی اس پہ شرط لگائی۔ تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی اور وہ غالب نہ آ سکے۔ انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اس سے زیادہ کیوں نہ رکھ لی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپؐ کی مراد دس تھی۔

سوال14:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےغلبہ روم کی پیشگوئی پر حضرت مرزابشیراحمد صاحبؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارہ میں لکھا ہے کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تمام متمدن دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ وسیع سلطنتیں دو تھیں۔ سلطنتِ فارس اور سلطنتِ روم اور یہ دونوں سلطنتیں عرب کے قریب واقع تھیں۔ سلطنتِ فارس عرب کے شمال مشرق میں تھی اور سلطنتِ روم شمال مغرب میں۔ چونکہ ان سلطنتوں کی سرحدیں ملتی تھیں اس لیے بعض اوقات ان کا آپس میں جنگ و جدل بھی ہو جاتا تھا۔ اس زمانہ میں بھی جس کا ذکر آتا ہے یہ سلطنتیں برسرِِپیکار تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیشگوئی ہوئی اور سلطنتِ فارس نے سلطنتِ روم کو زیر کیا ہوا تھا اور اس کے کئی قیمتی علاقے چھین لیے تھے اور اسے برابر دباتی چلی جاتی تھی۔ قریش بت پرست تھے اور فارس کا بھی قریبا ًقریبا ًیہی مذہب تھا۔ اس لیے قریشِ مکہ فارس کی ان فتوحات پر بہت خوش تھے۔ مگر مسلمانوں کی سلطنتِ روم سے ہمدردی تھی کیونکہ رومی سلطنت عیسائی تھی اور عیسائی بوجہ اہلِ کتاب ہونے اور حضرت مسیح ناصریؑ سے نسبت رکھنے کے بت پرست اور مجوسی اقوام کی نسبت مسلمانوں کے بہت قریب تھے۔ ایسے حالات میں آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر پیشگوئی فرمائی کہ اِس وقت روم فارس سے مغلوب ہو رہا ہے مگر چند سال کے عرصے میں وہ فارس پر غالب آجائے گا اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔ یہ پیشگوئی سن کر مسلمانوں نے جن میں حضرت ابوبکرؓ کا نام خاص طور پر مذکور ہوا ہے مکہ میں عام اعلان کر نا شروع کیا کہ ہمارے خدا نے یہ بتایا ہے کہ عنقریب روم فارس پر غالب آئے گا۔ قریش نے جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو آؤ شرط لگا لو۔ چونکہ اس وقت تک اسلام میں شرط لگانا ممنوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسے منظور کر لیا اوررؤسائے قریش اور حضرت ابوبکرؓ کے درمیان چند اونٹوں کی ہارجیت پر شرط قرار پا گئی اور چھ سال کی معیاد مقرر ہو گئی مگر جب آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپؐ نے فرمایا۔ چھ سال کی میعاد مقرر کرنا غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو میعاد کے متعلق بِضْعِ سِنِین کے الفاظ فرمائے ہیں جو عربی محاورہ کی رو سے تین سے لے کے نو تک کے لیے بولے جاتے ہیں۔

سوال15:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےغلبہ روم کی پیشگوئی پر حضرت مصلح موعود ؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ آپؐ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ عرب میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اِس پر مکہ والے بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی مشرک ہیں اور ایرانی بھی مشرک۔ ایرانیوں کا رومیوں کو شکست دے دینا ایک نیک شگون ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مکہ والے بھی محمد رسول ﷺ پر غالب آجائیں گے۔‘‘یہ شگون انہوں نے نکالا ’’مگر محمد رسول ﷺ کو خدا نے بتایا کہ

غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِیۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیغْلِبُوْنَ۔فِی بِضْعِ سِنِینَ۔

رومی حکومت کو شام کے علاقہ میں بے شک شکست ہوئی ہے لیکن اِس شکست کو تم قطعی نہ سمجھو۔ مغلوب ہونے کے بعد رومی پھر9سال کے اندر غالب آجائیں گے۔ اِس پیشگوئی کے شائع ہونے پر مکہ والوں نے بڑے بڑے قہقہے لگائے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر ؓسے بعض کفار نے سو سو اونٹ کی شرط باندھی کہ اگر اتنی شکست کھانے کے بعد بھی روم ترقی کر جائے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہمیں سو اونٹ دینا۔ بظاہر اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا امکان دور سے دور تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ شام کی شکست کے بعد رومی لشکر متواتر کئی شکستیں کھاکر پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ ایرانی فوجیں بحیرہ مار مورا (Marmara Sea)…کے کناروں تک پہنچ گئیں۔ قسطنطنیہ اپنی ایشیائی حکومتوں سے بالکل منقطع ہو گیا اور روم کی زبردست حکومت ایک ریاست بن کر رہ گئی مگر خدا کا کلام پورا ہونا تھا اور پورا ہوا۔ انتہائی مایوسی کی حالت میں روم کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سمیت آخری حملہ کے لئے قسطنطنیہ سے خروج کیا اور ایشیائی ساحل پر اتر کر ایرانیوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کی طرح ڈالی۔ رومی سپاہی باوجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ایرانیوں پر غالب آئے۔ ایرانی لشکر ایسا بھاگا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے۔

سوال16:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےغلبہ روم کی پیشگوئی کی بابت حضرت مسیح موعودؑکاکیاارشادبیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ جب ابوبکر صدیق ؓنے ابوجہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ

الٓمّٓ ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِیۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیغْلِبُوْنَ۔فِی بِضْعِ سِنِینَ۔(الروم:2تا 5)

اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپﷺ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دوراندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لئے ابوبکر صدیق کو حکم فرمایا اور فرمایا کہ بِضْعِ سِنِینَ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے۔

سوال17:آنحضورﷺتبلیغ کے لیے کن قبائل سے ملے؟

جواب:فرمایا:جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے نبی کو عزت و اکرام عطا فرمانے اور اپنے وعدے کو پورا کرنے کا ارادہ کیا تو رسولﷺ حج کے ایام میں باہر نکلے اور انصار کے قبائل اوس اور خزرج سے ملاقات کی۔

سوال18:آنحضورﷺ کی دعوت حق سن کر مفروق بن عمرو نے کن الفاظ میں تجزیہ کیا؟

جواب:فرمایا:مفروق نے کہا کہ یہ کلام زمین والوں کا نہیں۔ اگر یہ ان کا کلام ہوتا تو ہم ضرور جان لیتے…اے قریشی بھائی! اللہ کی قسم! آپؐ نے اعلیٰ اخلاق اور اچھے کاموں کی طرف بلایا ہے۔ یقیناً ایسی قوم سخت جھوٹی ہے جس نے آپؐ کی تکذیب کی اور آپ ﷺ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی۔

سوال19: مُثنّٰی نےآنحضورﷺسے کسریٰ کے ساتھ کس معاہدہ کا ذکرکیا؟

جواب:فرمایا:اس نے کہا کہ ہمارا کسریٰ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے کہ نہ ہم کوئی نیا کام کریں گے اور نہ کوئی نیا کام کرنے والے کو پناہ دیں گے اور غالباً جس چیز کی طرف آپﷺہمیں بلا رہے ہیں یہ ان میں سے ہے جسے بادشاہ بھی ناپسند کرتے ہیں۔

سوال20:آنحضورﷺنےمُثنّٰیکومخاطب کرتے ہوئے کیا پیشگوئی فرمائی اوروہ کس طرح پوری ہوئی؟

جواب:فرمایا:ایک روایت ہے کہ آپ ﷺ نےیہ فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تھوڑی سی مدت میں اللہ تعالیٰ تمہیں ان یعنی کسریٰ کی سرزمین اور ملک کا وارث بنا دے اور ان کی خواتین تمہارے قبضہ میں آ جائیں تو کیا تم اللہ کی تسبیح و تقدیس کرو گے؟ یہ سن کر اس نے کہا کہ الٰہی! ہم تیار ہیں یعنی قسم کھائی۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ آنحضرتﷺ کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور وہی مثنّٰی جو اس وقت کسریٰ کی طاقت سے اتنا مرعوب تھا کہ اس کی ناراضگی کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے ہچکچا رہا تھا کچھ ہی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں اسی کسریٰ سے مقابلہ کرنے والی اسلامی فوج کے سپہ سالار یہی مثنّٰی بن حارثہ ہی تھے۔جنہوں نے کسریٰ کی کمر توڑ کے رکھ دی اور آنحضرتﷺکی بشارتوں کے مصداق بنے۔

سوال21:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے افغانستان کے احمدیوں کے حالات کی بابت کیا تحریک فرمائی؟

جواب:فرمایا:آج مَیں افغانستان کے احمدیوں کے لیے دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ بہت تکلیف سے گزر رہے ہیں۔بعض گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ عورتیں، بچے بڑے اپنے گھروں میں پریشان ہیں۔ جو مرد باہر ہیں، گرفتار نہیں ہوئے وہ بھی بے گھر ہوئے ہوئے ہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ گرفتاریاں نہ ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدافرمائے اور ان کو اس مشکل سے نکالے۔

سوال22: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کے ساتھ مجموعی طور پر کونسی دعا کرنے کا ارشاد فرمایا؟

جواب:فرمایا: پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں وہاں بھی عمومی طور پر حالات خراب ہی ہوتے ہیں۔کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ احمدیوں کو تکلیفیں دے رہے ہیں۔ اسی طرح مجموعی طور پر بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ دنیا کو حضرت مسیح موعود ؑکو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شر کو ختم کرے اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی حقیقت کو پہچان لے۔

سوال23:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کن مرحومین کا ذکر خیرفرمایا اور نمازجنازہ غائب پڑھائی؟

جواب: 1۔الحاج عبدالرحمٰن عینن(Ennin) صاحب 2۔ اذیاب علی محمد اَلْجَبَالِی صاحب 3۔مکرم دین محمد شاہد صاحب 4۔مکرم میاں رفیق احمد صاحب 5۔ مکرمہ قانتہ ظفر صاحبہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button