ایشیا (رپورٹس)

جاپان کے ایک سکول اور ایک یونیورسٹی میں لیکچر

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

سکول

جاپان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد ہے۔ شرح خواندگی جانچنے کے ایک سروے کے نتائج کے مطابق 99فیصدسے بھی زیادہ لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ جاپان میں 9ویں کلاس تک کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ لیکن تحصیل علم کے عمومی ذوق و شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہائی سکول کے طلباء میں سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سکول کو الوداع کہنے کی شرح جاپان میں سب سے کم بیان کی جاتی ہے۔ محض 1.4فیصد طلباء ہائی سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں جبکہ امریکہ میں یہی شرح تقریباً5فیصد بیان کی جاتی ہے۔

جاپان کے نظام تعلیم کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ پرائمری سے لے کر ہائی سکول کی سطح تک کی تعلیم میں مساوات اور برابری کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ نظامِ تعلیم اور سکول جانے کی روایات اس رنگ میں ترتیب دی گئی ہیں کہ طبقاتی فرق محسوس نہ کیا جاسکے۔ مثلاً پرائمری سکول کے بچوں کے لیے لازم ہے کہ وہ گھروں سے پیدل سکول جائیں اور پیدل سکول جانے کے لیے انفرادی اور اکیلے نہیں بلکہ محلہ کے بچوں کے گروپ کے ساتھ سکول جانا لازم ہے۔ یہ طریق بھی بچپن کی سطح سے بچوں کو مساوات اور برابری کا درس دیتا ہے ۔

جاپانی سکولوں کے طلباء کے شعور و آگہی کو بڑھانے کے لیے ہائی سکول اور سینئر ہائی سکول کی سطح پر بین الاقوامی تبادلۂ خیال کی کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سکولوں کے اساتذہ کے علاوہ مختلف ممالک اور تہذیب وثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ان کلاسوں میں شرکت کرکے طلباء کو لیکچر دیتے اور غیر ملکی تہذیب وثقافت سے متعارف کرواتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک پروگرام مورخہ 14دسمبر2021ء کو جاپان کے صوبہ آئی چی کےشہرOkazaki کے سرکاری سکول میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر دو کلاسز میں ایک ایک گھنٹہ کے لیے لیکچر دیا گیا۔ جاپانی طلباء نے مسلمانوں کے طرزِ زندگی میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ کھانے پینے کے بارہ میں اسلامی تعلیم اوراس کا فلسفہ، لباس اور عبادات کے بارہ میں مسلمانوں کی روایت کے بارہ میں مختلف سوالات کیے گئے۔

خاکسار نے طلباء کے مختلف سوالات کے جواب میں قرآن کریم اور اس کی پاکیزہ تعلیم کا تعارف کروایا کہ یہ وہ کتاب اور اصول ہیں جن کے مطابق مسلمانوں کو زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ گوکہ مسلمانوں میں سے بعض ایسےبھی ہیں جو اس تعلیم کو فراموش کرتے ہوئے مختلف برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم ہمیں عطا کی گئی ہے وہ نہایت پاکیزہ اور معاشرہ میں ایک انقلاب برپا کرنے والی ہے۔ قرآن کریم ایسی مشکل کتاب نہیں کہ جو سمجھ نہ آسکے ، بلکہ اس میں روزمرہ کے اخلاق و آداب، شادی بیاہ سمیت، والدین کی خدمت اوردوسروں کی عزت واحترام اور طنز وتمسخر سے بچنے جیسے سماجی اصول پیش فرمائے گئے ہیں۔

بعد ازاں سکول کے ہیڈ ماسٹر اور اسٹاف نے بذریعہ ای میل شکریہ ادا کرتے ہوئے طلباء کے تاثرات بیان کیے کہ اس لیکچر سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کے طرز زندگی کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

اسلام اور اہل کتاب

جاپان میں کیتھولک یونیورسٹی میں لیکچر

جاپان میں مسیحیت کی تاریخ کئی نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے اس وقت اپنے بہترین دور سےگزر رہی ہے۔ سولھویں صدی عیسوی کے ابتدائی جاپانی مسیحیوں کی مسیحیت قبول کرنے کی پاداش میں جس ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اس قسم کے تعصب اور بربریت کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت نایاب ہیں۔ حکام وقت کے ظلم و ستم کے آگے بے بس ہوجانے والے مسیحی بالآخراپنے ایمان کی حفاظت کے لیے اصحاب کہف سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ا ن لوگوں کو پوشیدہ مسیحی کہا جاتا ہے اور جور و ستم کا یہ دور اڑھائی سال پر مشتمل تھا۔

انیسویں صدی میں میجی بادشاہت کے دور میں جب جاپان میں ہر قسم کی مذہبی آزادی دےدی گئی تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقوں کی جانب سے جاپان میں پنجے گاڑنے کے لیے ہمہ جہت کاوشوں کا مظاہر ہ کیا گیا۔ جاپان کے طول وعرض میں گرجا گھر تعمیر ہونے لگے، رفاہی ادارے قائم کیے گئے، بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کے کئی منصوبے شروع ہوئے اور مسیحی نظریات کی ترویج کے لیے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آنے لگا۔ اس وقت جاپان بھر میں کم و بیش 50یونیورسٹیاں ایسی ہیں جنہیں باقاعدہ مسیحی یونیورسٹیاں کہا جاسکتا ہے۔ ان کی بنیاد مسیحی منادوں نے رکھی، یہاں مسیحیت کی تعلیم کے لیے شعبے قائم ہوئے، یونیورسٹیوں میں گرجا گھر تعمیر ہوئے اور مسیحی پادریوں کی ایک بڑی تعداد درس وتدریس پر مامور ہوئی۔ان جامعات میں سے ایک مشہور جامعہNanzan Univeristyہے جسے وسطی جاپان کی بہترین پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ ادارہ 1932ء میں قائم ہوا اور 1946ء میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔

’’نان زان یونیورسٹی‘‘ کے بین الاقوامی تعلقات عامہ اور موازنہ مذاہب کے شعبہ جات کی طرف سے مورخہ 21دسمبر 2021ء کو طلباء کو لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ اس لیکچر کے لیے یونیورسٹی کی طرف سے ’’اسلام اور نظریہ اہل کتاب‘‘ کا موضوع دیا گیا۔ نیز توحید پرست مذاہب کے فلسفہ اور تاریخ پر روشنی ڈالنے کے لیے کہا گیا ۔

خاکسار نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ’’اہل کتاب کے قرآنی نظریہ‘‘ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے درج ذیل امور کی وضاحت کی :

1۔اہل کتاب کا مشترکہ ورثہ توحید کی تعلیم ہے یعنی وہ مقبول عام نظریہ جس کی گواہی حضرت آدم سے لے کر آج تک نسل انسانی ہر صدی اور ہر زمانہ میں دیتی چلی آرہی ہے۔

2۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا وجود اہل کتاب کے تینوں بڑے مذاہب کے نزدیک عزت واحترام کی علامت ہے اور تینوں مذاہب کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت ابراھیم مؤحد تھے ۔

3۔خدائے واحد کے وجود پر ایک زبردست گواہی وحی والہام کا وہ سلسلہ ہے جس کی تائید قرآن کریم کے علاوہ یہودی اور مسیحی صحائف بھی کرتے ہیں ۔

4۔قرآن کریم کا نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ادیان ابراھیم کا تسلسل بلکہ نقطۂ عروج تھا جس سے توحید پرست مذاہب کی عمارت اپنی تکمیل کو پہنچی۔

5۔ قرآن کریم انبیائے بنی اسرائیل اور اولادِ ابراھیم کے وجود کو تسلیم کرتا، ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کا اعلان کرتا، ان کی خوبیوں کا اقرار کرتا اور اظہار حق کے طور پر ان کی بعض غلطیوں کی بھی نشاندہی فرماتاہے ۔

6۔اگر اہل کتاب توریت اور انجیل میں مکتوب پیش خبریوں کے مطابق مبعوث ہونے والے رسول اللہﷺ پر ایمان لے آتے اور اللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدہ کے موافق رسولِ خداﷺ کی عزت و توقیر کرتے تو نسل ابراھیم کی وحدت ویگانگت کے نتیجہ میں روئے زمین پر ایک ایسا انقلاب عظیم برپا ہوتا جس کی نظیر تاریخ مذاہب میں ملنا مشکل ہے۔

7۔ لیکن باوجود اس کے کہ اولادِ ابراھیم کے ایک بڑے حصہ نے بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا تو پھر قرآن کریم نے اہل کتا ب سے مفاہمت اور موافقت کے لیے ایک نیا اسلوب اختیار فرمایا ۔انہیں مشترکات پر اکٹھے ہوجانے کی پیشکش کی لیکن افسوس یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی گئی۔

8۔ اہل کتاب کی قرآنی اصطلاح موافقت اور مفاہمت پر مبنی ہے نہ کہ تعصب اور تقصیر پر ۔

9۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و اخلاق سے ، تعلیم و تبلیغ اور اپنے اعلیٰ کردار کے ذریعہ لوگوں کے دل فتح کیے اور تمام انسانوں بالخصوص یہود ونصاریٰ سے خصوصی شفقت ورحمت کا سلوک فرمایا۔

10۔ جماعت احمدیہ کا تعارف کرواتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف پیغام صلح کے بعض اقتباسات پیش کرکے اسلامی تعلیم کی عالمگیریت،مذاہب عالم کی عزت و توقیر اور دعوت مکالمہ کا ذکر کیا گیا۔

طلباء نے اس لیکچر میں غیر معمولی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اس موضوع پر اور عمومی طور پر بھی اسلام کے حوالہ سے بہت سے سوالات کیے ۔ دوسرے مذاہب کے بارہ میں اسلامی تعلیم، خواتین کے حقوق، جہاد کے نظریہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالہ سے تفصیلی سوال وجواب ہوئے ۔ یہ سیشن دو گھنٹہ سے زائد پر مشتمل تھا ۔ لیکچر کے علاوہ قرآن کریم کی نمائش بھی منعقد کی گئی اور طلباء کو پیشکش کی گئی کہ وہ بنفس نفیس قرآن کریم کھول کر دیکھیں ۔بعد ازاں طلباء نے جن تاثرات کا اظہار کیا وہ درج ذیل ہیں :۔

’’زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اسلام کی مقدس کتاب قرآن کریم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے بعض حصوں کو پڑھنے کا موقع ملا ۔ اسلام کی حقیقی تعلیم اور قرآن کریم ان باتوں سے بالکل مختلف ہے جو شدت پسند اور دہشت گرد بیان کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارا خیال تھا کہ قرآن کریم عبادات اور دعاؤں پر مشتمل ایک مجموعہ ہے ، لیکن یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ قرآن میں حضرت مسیح علیہ السلام ، آپ کی والدہ مریم اور دیگر انبیاء کا ذکر بھی بہت کثرت سے ہے اور ان سب کو نہایت عزت واکرام سے یاد کیا گیا ہے‘‘

’’اسلام کے بارہ میں ہمارا یہ تاثر تھا کہ یہ مذہب خواتین سے سختی کی تعلیم دینے والا ہے ،لیکن والدہ کے مقام کے بارہ میں قرآنی آیات جان کر اور مریم کے نام کی سورت دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہمارا تاثر درست نہ تھا ۔ اسلام خواتین کی عزت و احترام کا درس دینے والا مذہب ہے‘‘

لیکچر اور سوال و جواب کے بعد بھی طلباء دیر تک بات چیت میں مصروف رہے اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں معلومات حاصل کرتے رہے ۔ بعض طلباء نے غیر معمولی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے مسجد تشریف لا کر مزید معلومات حاصل کیں اور آئندہ بھی اسلام احمدیت کا مطالعہ جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔

دعاؤں کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام احمدیت کی تبلیغ و اشاعت کی راہیں ہموار فرماتا چلا جائے اورقرآن کریم کی خوبصورت تعلیم جاپانی قوم کے قلب وروح کی تسخیر کرتے ہوئے انہیں خدائے واحد کا پرستار بنانے والی ہو ۔آمین

(رپورٹ: انیس احمد ندیم۔ صدر جماعت و مبلغ انچارج جاپان )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button