یادِ رفتگاں

مکرم ومحترم چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم

(عبدالخالق خان۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو اپریل 2004ءسے لےکر جنوری2017ء تک تحریک جدید انجمن احمدیہ ربوہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ خاکسار کا تقرر وکالت مال اوّل میں ہوا۔ جہاں پر مکرم ومحترم چودھری شبیر احمد صاحب وکیل المال اوّل کے زیر سایہ 9سال وکالت مال اوّل میں خدمت کی توفیق پائی۔ مکرم چودھری شبیر احمد صاحب کی وفات کے بعد خاکسار کا تبادلہ 2013ء میں وکالت مال اوّل سے وکالت علیا تحریک جدید میں ہو گیا۔ جہاں پر خاکسار کومکرم ومحترم چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم کے زیر سایہ خدمت کا موقع ملا اور مکرم چودھری صاحب کی شخصیت کو بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وکالت علیا میں خدمت کا دورانیہ چار سال پر محیط ہے۔ 2017ء میں خاکسار کے جرمنی اۤجانے کی وجہ سے یہ قربت کا تعلق تو قائم نہ رہامگر مکرم چودھری صاحب سے خط و کتابت کے ذریعہ تعلق قائم رہا اور ان کی دعاؤں سے فیضیاب ہونے کا موقع ان کی وفات تک ملتا رہا۔ خاکسار نے مکرم چودھری صاحب کو ایک انتہائی مخلص، خلافت کا وفادار، سلسلے کا درد رکھنے والا، معاملہ فہم، امانتدار، مستجاب الدعا اور ایک انتہائی مشفق استاد کے طور پر پایا۔

وکالت علیا میں تبادلے سے قبل مکرم ومحترم چودھری صاحب نے خاکسار کو انٹرویو کے لیے بلایا۔ بہت محبت اور خوشگوار ماحول میں چند سوالات کیے۔ انٹرویو میں نمازوں کے بارے میں پوچھااور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطبات سننے کے بارے میں دریافت فرمایا نیز پوچھا کہ الفضل پڑھتے ہو۔ پھر خاکسا ر کو فرمایا کہ ٹھیک ہے اب اۤپ جائیں۔ دوسرے دن خاکسار کو خط ملا کہ اۤپ کا تبادلہ وکالت مال اوّل سے وکالت علیا میں کر دیا گیا ہے۔

جب خاکسار وکالت علیا میں گیا تو سب سے پہلے مکرم چودھری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بڑے پیار سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اۤپ کا وکالت علیا میں اۤنا با برکت کرے۔ اور بہت سی دعائیں دیں۔ پھر اپنی دراز سے ایک ڈبیہ نکالی جس میں چھوٹی چھوٹی گولیاں تھیں۔ ایک گولی خاکسار کو دیتے ہوئے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ بزرگ کہتے ہیں جب کوئی بھی نیا تقرر ہو تو منہ میٹھا کروانا چاہیے میرے پاس اس وقت کوئی بھی میٹھی چیز نہیں ہے یہ گولیاں ہیں ایک اۤپ کھا لیں اور ایک میں کھا لیتا ہوں۔ اس طرح منہ میٹھا ہو جائے گا۔

آپ بڑے ہی دعا گو بزرگ تھے۔ 2013ءمیں خاکسار کی بیٹی کی پیدائش ہونے والی تھی۔ ایک مرتبہ چیک اَپ کے بعد ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ مرحومہ نے خاکسار کی اہلیہ سے کہا کہ بچے کی پوزیشن الٹی ہے۔ اگر بچہ اپنی پوزیشن میں نہیں اۤتا تو شاید آپریشن کرنا پڑے۔ کیونکہ میں اور میری اہلیہ دونوں نوکری کرتے تھے۔ نیز میرا بیٹا عزیزم عبدالسلام عامر بھی ابھی صرف ایک سال کا تھا۔ بڑی فکر پیدا ہوئی کیونکہ عمومی طور پر آپریشن کا نام سن کر ہی انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ اس پر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کا خط لکھا نیز ایک خط مکرم چودھری صاحب کو بھی تحریر کیا۔ خاکسار کی اہلیہ ہسپتال میں داخل تھیں اور خاکسار بھی دفتر سے رخصت لے کر ہسپتال اۤگیا۔ اگلے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اورحضور انور کی دعائوں سے بیٹی کی پیدائش بخیریت ہو گئی۔ اس دوران خاکسار کو مکرم وکیل المال اوّل کا فون اۤیا کہ وکیل اعلیٰ صاحب نے اۤپ کا دو تین مرتبہ انٹر کام پر دریافت فرمایا ہے۔ اور ان کے دفتر سے دو تین مرتبہ اۤدمی بھی اۤپ کو بلانے کے لیے اۤیا ہے۔ کیا بات ہے کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گیا؟ کیونکہ وکیل اعلیٰ صاحب کا کسی کارکن کو بلانا غیر معمولی بات ہی سمجھی جاتی تھی۔ میں نے کہا کہ میں تو ہسپتال ہوں اور کسی سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے میری شکایت ہو۔ تو انہوں نے کہا کہ ایسا کریں جب تھوڑا وقت ملے تو دفتر کا چکر لگاتے چلے جانا اور مکرم وکیل اعلیٰ صاحب سے ملتے جانا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جب ہسپتال سے تھوڑا فارغ ہوتا ہوں تو پھر گھر جاتے ہوئے دفتر سے ہوتا جائوں گا۔ خیر میں دفتر گیا اتنی دیر میں پھر وکالت علیا کا کارکن اۤیا ہوا تھا کہ خالق صاحب کو وکیل اعلیٰ صاحب بلا رہے ہیں۔ وکیل اعلیٰ صاحب کا کسی کارکن کو اتنی شدت سے بلانا گھبراہٹ پیدا کرنے کے لیے کافی تھا۔ لہٰذا ڈرتے ڈرتے وکالت علیا میں گیا۔ تو وہاں پر موجود کارکن نے کہا کہ اندر میٹنگ ہو رہی ہے لیکن چودھری صاحب صبح سے تمہارا پوچھ رہے ہیں تم دروازہ کھٹکھٹا کر اندر سلام کرنا اگر انہوں نے کہا کہ اۤجاؤ تو اندر چلے جانا۔ میں نے ویسا ہی کیا اور مکرم چودھری صاحب نے جب دروازے کی طرف دیکھا تو مجھے اشارہ کیا کہ اۤجائیں۔ میں نے سلام عرض کی اور ان کے قریب چلا گیا۔ ہاتھ وغیرہ ملانے کے بعد مجھے کہنے لگے کہ اۤپ عبدالخالق صاحب ہیں میں نے عرض کی کہ جی میرا نام ہی عبدالخالق ہے تو کہنے لگے اۤپ نے اپنی اہلیہ کے لیے دعا کا لکھا تھا لیکن بعد میں پھر بتا یا ہی نہیں کہ کیا بنا۔ مجھے فکر لگی ہوئی تھی۔ میں نے معذرت کی اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سےاور حضور انور کی دعائوں سے رات کو بیٹی پیدا ہوئی ہے اور بغیر اۤپریشن کے۔ تو فرمایا: الحمدللہ۔ اور اپنی جیب سے پچاس روپے نکال کے دیے اور فرمایا کہ میری طرف سے بچی کو دے دینا۔ بس میں نے یہی پوچھنے کے لیے اۤپ کو بلایا تھا۔ ایسے دعا گو اور خیال رکھنے والے بزرگ تو قسمت سے ملتے ہیں۔

اسی طرح جب خاکسار مکرم چودھری صاحب سے اجازت لے کر جرمنی اۤ گیا تو بھی یہ دعائوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ شروع میں خاکسار کا کیس خراب ہو گیا تھا۔ تو خاکسار حضور انور کے بعد مکرم چودھری صاحب کو بھی دعا کا خط لکھتارہا۔ جس پر فوری جواب دیتے اور ڈھیروں دعائیں دیتے جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائیں او ر خاکسار کا کیس بھی پاس ہو گیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی اپنی ذاتی توجہ سے کرواتے تھے کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ سلسلے کا کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ تحریک جدید کا نیا گیسٹ ہائوس سرائے ناصر زیر تعمیر تھا مکرم چودھری صاحب اس دوران جلسہ سالانہ یوکےپر گئے ہوئے تھے۔ ایک دن مَیں دفتر میں بعد از دفتری ٹائم کسی کام سے بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا او ر سلام کے بعد پوچھا کون؟ تو کہنے لگے حمید اللہ اور پھر پوچھنے لگے کہ سرائے ناصر کی پانی کی ٹینکی زمین دوز بن رہی ہے۔ جا کر دیکھ کر اۤؤ کہ مزدوروں نے اس کی اچھی سے ترائی کی ہے کہ نہیں۔ پھر فرمانے لگے دفتر میں اے سی کے نیچے بیٹھے بیٹھے رپورٹ نہ دے دینا خود دیکھ کر اۤنا۔ میں وکالت تبشیر(لندن) میں ایک گھنٹہ تک ہوں اسی فون نمبر پر کال کر کے بتادینا۔ میں دیکھنے گیا تو ترائی ہوئی تھی۔ تو اۤ کر مکرم چودھری صاحب کو فون پر رپورٹ دی کہ ترائی ہوئی ہے۔ تو فرمانے لگے کہ گرمی بہت ہے اور سیمنٹ جو ہوتا ہے اگر اس کی مناسب ترائی نہ کی جائے تو وہ پکڑ نہیں کرتا۔ اس لیے تمہیں بھیجا تھا کہ خود دیکھ کر اۤؤ۔ مزدور لا پروائی کر جاتے ہیں۔

اب بظاہر یہ کام تو شعبہ تعمیرات کا تھا لیکن کیونکہ دل میں جماعت کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی بھی فکر رہتی تھی اس لیے توجہ رکھتے تھے۔ اور خاکسار کو بھی سبق دیا کہ سلسلے کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی توجہ اور ذاتی دلچسپی ضروری ہوتی ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی کارکنان کی تربیت کیا کرتے تھے۔ خاکسار کو کہا کرتے تھے کہ روزانہ انگلش ڈکشنری کا ایک صفحہ پڑھا کرو اس طرح اۤپ کی انگلش اچھی ہو جائے گی اور Vocabularyمیں بھی اضافہ ہو گا۔

بڑے ہی بے نفس اور نمود و نمائش سے دور رہنے والی بزرگ ہستی تھے۔ اس کا ادراک مجھے اس وقت ہوا کہ جب میں نیا نیا وکالت علیا میں اۤیا تو میں نے وکیل اعلیٰ صاحب والی کار کو صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کو لینے کے لیے بھیج دیا کیونکہ اس وقت سلسلے کے دو تین بزرگوں کو دفتر میں لانے کے لیے دفتر کی گاڑی جایا کرتی تھی۔ اسی وقت مکرم چودھری صاحب نے بیل دی۔ میں کمرے میں گیا تو مجھے کہنے لگے میں نے لنگر خانہ کا کام دیکھنے کے لیے دارالیمن جانا ہے ڈرائیور کو کہیں کہ گاڑی لے کر اۤجائے۔ میں تھوڑا سا گھبرا گیا کیونکہ میں تو چودھری صاحب کی گاڑی صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کو لینے کے لیےبھیج چکا تھا۔ میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ چودھری صاحب میں نے تو اۤپ کی گاڑی صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کو لینے کے لیے بھیج دی ہے۔ تو بڑے ہی پیار سے فرمانے لگے تو کوئی بات نہیں۔ ایسا کریں کہ دفتر جلسہ سالانہ میں فون کریں اور وہاں سے ڈالہ منگوا لیں۔ میں نے لنگر خانہ دیکھنے ہی جانا ہے میں ڈالے پر چلا جائوں گا۔ ذرا نہیں کہا کہ میری گاڑی کیوں بھیجی اور نہ ہی ڈانٹا۔ بڑے ہی بے نفس انسان تھے۔

خلافت احمدیہ سے بے حد ادب اور محبت کا اور وفا کا تعلق رکھتے تھے۔ ہر ایک معاملے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے راہنمائی لیتے۔ حضور انور کے خط سے سمجھ جاتے تھے کہ حضور انور کی منشا مبارک کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی معاملے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں وکالت تعلیم کی طرف سے کوئی رپورٹ بھجوائی گئی تو حضور انور کی طرف سے ایک ہدایت موصول ہوئی تو کہنے لگے وکالت تعلیم والوں سے جا کر کہیں کہ حضور انور کی یہ منشا ہے اس کے مطابق رپورٹ تیار کر کے بھجوائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے ایک جملے سے منشائے مبارک کو سمجھ جاتے۔ چنانچہ جب دوسری رپورٹ بھیجی گئی تو اس پر حضور انور کی طرف سے اظہار خوشنودی کے الفاظ موصول ہوئے۔

خدمت دین پر ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور ہمیں بتایاکرتے تھے کہ اۤ ج کل تو دفتروں میں بہت سہولتیں اۤگئی ہیں۔ ہمارے وقتوں میں اتنے وسائل نہیں تھے۔ جماعت کے پاس چھوٹے چھوٹے دفتر ہوتے تھے اور کئی کئی جماعتی ذمہ داریاں ہوتی تھیں۔ کہا کرتے تھے کہ میں اکثر جماعتی خدمت کی وجہ سے گھر بہت لیٹ اۤیا کرتا تھا تو میں نے اپنی اہلیہ کو کہا ہوا تھا کہ میرا کھانا پکا کر رکھ دیا کرو اور خود سو جایا کریں میں جب اۤؤں گا تو خود ہی کھانا کھا لیا کروں گا اور دوسرا یہ کہ باہر کے دروازے کا اندر سے لاک نہ لگایا کرو صرف کنڈی لگا دیا کرو۔ پھربتایا کہ وہ اس طرح گھر میں داخل ہوتے کہ کوئی خوامخواہ ان کے لیے نہ جاگتا رہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکرم ومحترم چودھری صاحب کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ اور ان کے جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جماعت کو ہمیشہ ان جیسے باوفا اور انتھک محنت کرنے والے وجود عطا فرماتا رہے۔ اۤمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button