اختلافی مسائل

ختم نبوت کے کیا معنی ہیں؟ کیا امتی نبی کے آنے کادروازہ کھلا ہے؟ (قسط دوم۔ آخری)

(مرسلہ:ابن قدسی)

(قسط دوم۔ آخری)

حضرت ملا علی قاری (وفات: 1014ھ بمطابق 1606ء) ایک مشہور و معروف محدث و فقیہ تھے۔ وہ لکھتےہیں کہ

’’قلت: و مع ھذا لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ و صار نبیًّا، و کذا لَو صَارَ عُمرُ نبیًّا لکانا مِنْ اِتِّبَاعِہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کَعِیْسی والخضر والیاس علیھم السلام، فَلَا یُنَاقِضُ قولَہُ تعالیٰ (و خاتَمَ النَّبِیِّین) اِذَ المعنی: انَّہ لَا یَاتِی نَبِیٌّ بَعْدَہُ یَنْسَخُ مِلَّتَہُ و لم یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہِ و یقویِّہُ حدیث: لو کان موسی حَیَّا لَما وَسِعَہٗ الااتباعی‘‘(الاسرارُ المَرْفُوعَۃُ فِی الْاَخْبَار المَوْضُوعَۃُ المعروف بالموضوعاتِ الکبریٰ ازملا علی القاری۔ صفحہ285، طبع ثانی المکتب الاسلامی)

میں کہتا ہوں: اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ اور اسی طرح اگر عمرؓ بھی نبی ہوتے تو یہ دونوں عیسیٰ، خضر اور الیاس علیہم السلام کی طرح آپؐ کے متبعین میں سے ہوتے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے قول ’’وخاتم النبیین‘‘ کے منافی نہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتاجو آپؐ کی ملّت کو منسوخ کردے اور آپؐ کی امت میں سے نہ ہو۔ اور اس کو یہ حدیث بھی تقویت دیتی ہے کہ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا۔

مذکورہ بالا حوالے میں ملا علی قاری ان تمام احادیث کی تطبیق کر رہے ہیں جن میں نبی آنے کا ذکر ہے۔ مثلاً وہ حدیث جس میں رسول کریمﷺ نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات پر فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا توصدیق نبی ہوتا یا یہ کہ آپﷺ نے فرمایا کہ امت میں نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتا۔ چنانچہ ملا علی قاری صاحب لکھتے ہیں کہ یہ احادیث خاتم النبیین کے مفہوم کے مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبیین کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو رسول کریمﷺ کی شریعت کو منسوخ کر سکے۔

ابو الحسنات عبد الحیی لکھنوی (المعروف فرنگی محلی) بھارت کے ایک حنفی فقیہ اور عالم دین تھے۔ آپ کی پیدائش24؍اکتوبر1848ءااوروفات1886ءہے۔اپنے وقت کے عظیم عالم دین اور بہت سی معروف کتب کے مصنف تھے۔ آپ لکھتےہیں کہ’’اور علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہوسکتا اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہوگا وہ متبع شریعت محمدیہ ہوگا‘‘(دافع الوسواس فی اثر ابن عباسؓ۔ از مولانا ابوالحسنات محمد عبدالحیی لکھنوی، صفحہ3)

پھر ملا علی قاری کا مذکورہ بالا حوالہ لکھتے ہوئے ختم نبوت کے مضمون کی توثیق کرتے ہیں کہ ’’بعد آنحضرتؐ کے یا زمانے میں آنحضرتؐ کے اور کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے چنانچہ ملا علی قاری رسالہ موضوعات میں زیرحدیث لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْم لَکَانَ نَبِیًّا کے لکھتے ہیں

اَیْ لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ و صَارَ نبیًّا، وَ کَذَا لَو صَارَ عُمرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اِتِّبَاعِہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کَعِیْسی وَالْخضر والیاس علیھم السلام، فَلَا یُنَاقِضُ قولَہُ تعالیٰ(و خاتَمَ النَّبِیِّین) اِذَ المعنی: انَّہ لَا یَاتِی نَبِیٌّ بَعْدَہُ یَنْسَخُ مِلَّتَہُ‘‘

(ملا علی قاری کے حوالہ کا اردو ترجمہ پہلے گزر چکا ہے۔ )(دافع الوسواس فی اثر ابن عباسؓ۔ از مولانا ابوالحسنات محمد عبدالحئ لکھنوی، صفحہ12)

اس کے بعد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (پیدائش: 1703ء، وفات: 1762ء) کا ذکر ہے جو برصغیر پاک و ہند کے مشہور عالم دین، محدث اور مصنف تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

’’وَ خُتِمَ بِہِ النَّبیُّون اَیْ لَا یُوْجَدُ بَعْدَہٗ مَنْ یَّأمُرُہٗ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِالتَّشْرِیْعِ عَلٰی النَّاسِ‘‘(تفہیمات الٰہیہ از حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ، جلد ثانی، صفحہ 72تا73، مدینہ برقی پریس یو پی انڈیا 1926ء )

اور ان کے ذریعے نبیوں کو ختم کردیا گیا یعنی اب کوئی ایسا نبی نہیں ہوگا جسے اللہ سبحانہ لوگوں پر شریعت کے ساتھ بھیجے۔

موجودہ زمانے کے غیر احمدی علماء کے بڑے بزرگ ختم نبوت کے مضمون کو اسی طرح بیان کرتے نظر آرہے ہیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا حوالے میں بیان فرمایا تھا۔(اس حوالے کے لیے دیکھیے الفضل انٹرنیشنل 07؍جنوری 2022ء)ان بزرگوں نے یہ لکھا کہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو رسول کریمﷺ کی شریعت کو منسوخ کر سکے تواس کا مطلب ہے کہ ایسا نبی آسکتا ہے جو رسول کریمﷺ کی پیروی کرنے والا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر یہ اعلان کیا کہ وہ امتی نبی آپ خود ہیں۔ چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرتﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی کیونکہ اللہ جلشانہ نے آنحضرتﷺ کو صاحبِ خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 99تا100، حاشیہ )

اللہ تعالیٰ حق کے طالبوں کے لیے یہ بات سمجھنے کی راہ آسان فرمائے اور حق پہچاننے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(مرسلہ: ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button