متفرق مضامین

بدظنی سے اجتناب

(برہان احمد)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یَاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات:13)

کہ اے ایمان والوں! بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجسس سے کام نہ لیا کرو۔

احادیث مبارکہ

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو۔ اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو۔ اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو۔ حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔(مسلم کتاب البر وا لصلۃ باب تحریم الظن حدیث نمبر 6431)

2۔ حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آگ سے اس کے چہرے کی حفاظت فرمائے گا۔(ترمذی۔ کتاب البر و الصلہ باب ماجاء فی الذب عن عرض المسلم حدیث نمبر 1931)

3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نصرنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا کہ آپؐ نے فرمایا کہ حسن ظن تو حسن عبادت ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی حسن الظن حدیث نمبر 6094)

4۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو۔ اور اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔(مسلم کتاب البر وا لصلۃ باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ… حدیث نمبر6436)

5۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایاکہ اے لوگو!تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا۔ انہیں مَیں متنبہ کرتاہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتاہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کرکے اس کو لوگوں میں ذلیل و رسو اکر دیتاہے۔(ترمذی باب البر والصلۃ باب ما جاء فی تعظیم المؤمن)

6۔ حضرت عبدالرحمٰن بن غنم ؓاور حضرت اسماء بنت یزیدسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ تعالیٰ کے بُرے بندے غیبت اور چغلیاں کرتے پھرتے ہیں، دوستوں پیاروں کے درمیان تفریق ڈالتے ہیں، نیک پاک لوگوں کو تکلیف، مشقت، فساد، ہلاکت او ر گناہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔(مسند احمد بن حنبل۔ مسند الشامیین جلد5 صفحہ268)

7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم میں سے سب سے زیادہ میرے محبوب وہ ہیں جو بہترین اخلاق کے حامل ہوں، نرم خو ہوں، وہ لوگوں سے انس رکھتے ہو ں اور لوگ ان سے مانوس ہوں اور تم میں سب سے زیادہ مبغوض میرے نزدیک چغل خور، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے گناہ لوگوں پر تہمت لگانے والے ہیں۔(ترغیب و ترھیب جلد3 مطبوعہ کتاب الادب الترغیب فی الخلق …)

8۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :انسان بعض اوقات بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتاہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بے انتہا بلند کر دیتاہے اور بعض اوقات وہ لاپرواہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی بات کر بیٹھتاہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتاہے۔(بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللسان…)

ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود ؑ

حضرت مسیح موعودؑ بد ظنی کے بد نتائج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے۔ انسان ایک آدمی کو بدخیال کرتا ہے اور آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’کتابوں میں مَیں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ مَیں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا۔ ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے(دیکھا)کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ان کو دُور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ مَیں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں مگر ان دونوں سے تو مَیں اچھا ہی ہوں۔ اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا ایک کشتی آ رہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور ان کی جان بچ گئی۔ پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کرکے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہومَیں نے تو چھ کی جان بچائی ہے۔ اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جوان نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے۔ شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور مَیں ایک ہی اس کی اولاد ہوں۔ قویٰ اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظرآتی ہے۔ خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو‘‘۔ اسی طرح فرمایا: ’’خضر کا قصہ بھی اسی بنا ء پر معلوم ہوتا ہے۔ سوء ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا‘‘ یعنی بدظنی جلدی سے نہیں کرنی چاہئے ’’تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 568تا569،ایڈیشن 1988ء)

اسی طرح فرمایا:’’اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں۔ اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لئے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ اور انس پیدا ہوتا ہے۔ اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 214تا215،ایڈیشن 1988ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں‘‘۔(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ19)

فرمایا:’’غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتاہے۔ عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے۔ آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن اس سے بچنا چاہئے۔ عورتوں کی خاص سورۃ قرآن شریف میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مَیں نے بہشت میں دیکھاکہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں۔ ان میں سے یہ ہیں کہ شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں، ایسے ہیں۔ پھر قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نچلی ذات کی ہے۔ پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہوئے ہیں، زیور اس کے پاس کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘(ملفوظات جلد8صفحہ441،ایڈیشن1984ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’خیانت نہ کرو، گلہ نہ کرو، اور ایک عورت دوسری عورت پر بہتان نہ لگاوے۔‘‘(کشتی نوح ،روحانی خزائن خزائن جلد 19 صفحہ 81)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:’’اس لئے مَیں تمہیں نصیحت کرتاہوں اور درددل سے کہتاہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو۔ بغض اور کینے سے اجتناب کرو اور بکلی پرہیزکرو اور بالکل الگ تھلگ رہو، اس سے بڑافائدہ ہوگا۔ انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسالیتاہے ورنہ بات سہل ہے، بڑی آسان بات ہے۔ جو لڑکے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا۔ اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو خداتعالیٰ اس کو راہ راست پرچلنے کی توفیق دیوے۔ یاد رکھواللہ کریم

تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ

ہے۔ وہ معاف کردیتاہے۔ جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سُکھ نہیں پہنچا سکتا۔بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہوجاؤ۔‘‘(حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 6تا7)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں : ’’پھر ایک برائی بدگمانی ہے، بدظنی ہے، خود ہی کسی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دو آدمی فلاں جگہ بیٹھے تھے اس لئے وہ ضرور کسی سازش کی پلاننگ کر رہے ہوں گے یا کسی برائی میں مبتلا ہوں گے۔ اور پھر اس پر ایک ایسی کہانی گھڑ لی جاتی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر اس سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ دوستوں کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ معاشرے میں بھی فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے‘‘۔(خطبات مسرور جلد چہارم صفحہ 262)حضور انور نےخطبہ جمعہ 26؍مئی2006ءمیں فرمایا:’’جب بدظنیاں شروع ہوتی ہیں تو پھر تجسس بھی بڑھتا ہے اور پھر ہر وقت یہ بدظنیاں کرنے والے اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسرے کے نقائص پکڑیں اور اس کی بدنامی کریں۔

ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا۔ بڑا قریبی آدمی تھا۔ اس کا نام ایاز تھا۔ انتہائی وفادار تھا اور اپنی اوقات بھی یاد رکھنے والا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ مَیں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یاد رکھنے والا تھا۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جود وسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کوبادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں۔ اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو۔ بادشاہ کو بہرحال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا۔ بدظن نہیں ہوا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں۔ آجائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب مَیں گیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیرکمان تھی تاکہ جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے۔ تو جو سب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے۔

تو اس واقعہ سے ایک سبق بدظنی کے علاوہ بھی ملتا ہے کہ ایاز ہروقت بادشاہ پر نظر رکھتا تھا۔ ہر اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پس یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر حکم کو ماننے کے لئے بلکہ ہر اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ خلیفہ وقت کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ان باتوں پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو تبھی بیعت کا حق ادا ہو سکتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 26؍مئی 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍جون2006ءصفحہ7)

حضور انور نےخطبہ جمعہ 26؍دسمبر2003ء میں فرمایا:’’اب بعض لوگ اس لئے تجسس کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً عمومی زندگی میں لیتے ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے، ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں، یا دوسری کام کی جگہ، کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بار ہ میں کہ اس کی کوئی کمزور ی نظرآئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں تاکہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں، ان کے منظور نظر ہو جائیں۔ یا بعضوں کو یونہی بلاوجہ عادت ہوتی ہے، کسی سے بلاوجہ کا بیر ہو جاتاہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ تویاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا، ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے، دنیاوی چیز کے لئے، ذرا سی باتوں کا مزا لینے کے لئے، اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍فروری2004ءصفحہ6)

اسی خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:’’امام غزالی ؒ کہتے ہیں (اس کا خلاصہ یہ ہے)کہ جس کے پاس چغلی کی جائے اسے چاہئے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے اور نہ جس کے بارہ میں چغلی کی گئی ہے اس سے بدظن ہو۔(فتح البیان جلد نمبر 10 صفحہ 437)

اب یہ بڑے ہی پتے کی بات ہے جو امام غزالی نے بیان فرمائی ہے اور افسران اور عہدیداران کو خاص طورپر یہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔ کبھی بات یک طرفہ بات سن کرکسی کے خلاف نہیں ہو جانا چاہئے، کسی سے بدظن نہیں ہو نا چاہئے اور ہمیشہ تحقیق کرنی چاہئے اور صحیح طریقے پر تحقیق کرنی چاہئے، گہرائی میں جا کر تحقیق کرنی چاہئے، پھرکوئی نتیجہ اخذ کیاجائے۔ اور عموماً یہی ہوتاہے کہ اکثر تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ جو چغلی کرنے والے ہیں ان لوگوں کی اکثر رپورٹیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کہ سب کچھ غلط تھا، صرف چغلی کی گئی تھی، غیبت کی گئی تھی اور مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح اس کو نقصان پہنچایاجائے۔ پھر یہ بھی ہے کہ آئندہ ایسے شخص سے محتاط رہیں۔ اس کی گواہی قبول نہ کریں، اس کی کسی رپورٹ پر کان نہ دھریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍فروری2004ءصفحہ7)

حسن ظن کے نیک نتائج اور اس کی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:’’عموماًایک نصیحت کی جاتی ہے جلسوں میں، خطبوں میں، کہ اس طرح نماز پڑھنی چاہئے اس طرح نماز ادا کرنی چاہئے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے۔ تو ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ پہلے کرید کریدکر پوچھے اور پھر جب اس کی حالت کا پتہ کر لے تو یہ کہے کہ تم اتنے دن سے نماز میں روئے نہیں، تمہیں رقت طاری نہیں ہوئی۔ تم نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا یا ہلاکت میں ڈال لیا۔ تو ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا کے اختیار ان کو نہیں ہیں۔ ہو سکتاہے کہ تمہارے رونے کو تو خداتعالیٰ ردّ کر دے اور اس کے نہ رونے کو قبول کر لے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتاہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے۔ کسی کو کیاخبر کہ اس کے اندر کیاہے۔ تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنے کا کیافائدہ۔حدیث شریف میں آتاہے کہ ایک شخص بڑا گناہ گار ہوگا۔ خداتعالیٰ اس کو کہے گاکہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا، فلاں گناہ کیا، لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنوائے گا۔ وہ کہے گا کہ ہاں یہ گناہ مجھ سے سرزد ہوئے۔ خداتعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن مَیں نے تیرے سب گناہ معاف کئے اور ہرایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دے دیا۔ تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت زیادہ ثواب ہوگا۔ تو یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا کہ اے خدا مَیں نے تو یہ گناہ بھی کئے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسا دلیر ہو گیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلا تاہے۔ پھر اسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا۔ ‘‘تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس لئے ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ کسی پربلاوجہ انگلیاں اٹھاتے پھریں ۔’’تو کیاخبر ہے کہ خداتعالیٰ کا اس سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیاہے۔ اس لئے غیبت کرنے سے بکلّی پرہیزکرنا چاہئے۔(بدر جلد نمبر10صفحہ10 مورخہ9؍مارچ1906ء بحوالہ ملفوظات جلد8صفحہ417،جدید ایڈیشن)‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍فروری2004ءصفحہ8)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بد ظنی سے بچنے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے اور کماحقہ اسلامی احکام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

(یہ مضمون الفضل انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر 31؍دسمبر2021ء کو شائع ہوا۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button