کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

بیان واقعہ ہائلہ شہادت مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب مرحوم رئیس اعظم خوست علاقہ کابل غفر اللہ لہ

ہم پہلے بیان کر چکے ہیںکہ مولوی صاحب خوست علاقہ کابل سے قادیان میں آکر کئی مہینہ میرے پاس اور میری صحبت میں رہے۔ پھر بعد اس کے جب آسمان پر یہ امر قطعی طور پر فیصلہ پاچکا۔ کہ وہ درجہ شہادت پاویں تو اُس کے لئے یہ تقریب پیدا ہوئی کہ وہ مجھ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس تشریف لے گئے۔اب جیسا کہ معتبر ذرائع سے اور خاص دیکھنے والوں کی معرفت مجھے معلوم ہوا ہے قضا وقدر سے یہ صورت پیش آئی۔ کہ مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ ریاست کابل کے نزدیک پہنچے تو علاقہ انگریزی میں ٹھیر کربرگیڈیر محمد حسین کوتوال کو جو اُن کا شاگرد تھاایک خط لکھا۔ کہ اگر آپ امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کر کے مجھے اطلاع دیں تو امیر صاحب کے پاس بمقام کابل میں حاضر ہو جاؤں۔ بلا اجازت اس لئے تشریف نہ لے گئے۔کہ وقتِ سفر امیر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی۔ کہ مَیں حج کو جاتا ہوں۔ مگر وہ ارادہ قادیان میںبہت دیر تک ٹھہرنے سے پورا نہ ہوسکا۔ اور وقت ہاتھ سے جاتا رہا۔ اور چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے۔ کہ یہی شخص مسیح موعود ہے۔ اس لئے میری صحبت میں رہنا اُن کو مقدم معلوم ہوا۔ اور بموجب نص

اطعیوااللّٰہ و اطیعواالرسول(النساء:60)

حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا۔ اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگریہ بات پیش آجائےکہ وہ اُس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے ۔ تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا۔ ہاں باجازت اس کے دوسرے وقت میں جا سکتا ہے۔ غرض چونکہ وہ مرحوم سیدالشہداء اپنی صحت نیت سے حج نہ کر سکا۔ اور قادیان میں ہی دن گزر گئے۔ تو قبل اس کے کہ وہ سرزمین کابل میںوارد ہوں۔ اور حدود ریاست کے اندر قدم رکھیں احتیاطاً قرین مصلحت سمجھا۔ کہ انگریزی علاقہ میں رہ کر امیر کابل پر ا پنی سرگذشت کھولدی جائے۔ کہ اس طرح پر حج کرنے سے معذوری پیش آئی۔ اُنہوں نے مناسب سمجھاکہ برگیڈیر محمد حسین کو خط لکھاتا وہ مناسب موقعہ پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں امیر کے گوش گذار کردیں۔ اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگرچہ میں حج کرنے کے لئے روانہ ہوا تھا۔ مگر مسیح موعود کی مجھے زیارت ہوگئی۔ اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خداو رسول کا حکم ہے۔ اس مجبوری سے مجھے قادیان میں ٹھیرنا پڑا۔ اور مَیں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا۔ بلکہ قرآن اور حدیث کی رُو سے اسی امر کو ضروری سمجھا۔ جب یہ خط برگیڈیر محمد حسین کوتوال کو پہنچا تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیا۔ اور اُس وقت پیش نہ کیا۔ مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا کسی طرح پتہ لگ گیا۔ کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا خط ہے۔ اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے تب اس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا۔ اور امیر صاحب کے آگے پیش کردیا۔ امیر صاحب نے برگیڈیرمحمد حسین کوتوال سے دریافت کیا کہ کیا یہ خط آپ کے نام آیا ہے۔ اُس نے امیر کے موجودہ غیظ و غضب سے خوف کھا کر انکار کر دیا۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب شہید نے کئی دن پہلے خط کے جواب کا انتظار کر کے ایک اور خط بذریعہ ڈاک محمد حسین کوتوال کو لکھا۔ وہ خط افسر ڈاکخانہ نے کھول لیا اور امیر صاحب کو پہنچا دیا۔ چونکہ قضاو قدر سے مولوی صاحب کی شہادت مقدّر تھی۔ اور آسمان پر وہ برگزیدہ بزمرۂ شہداء داخل ہو چکا تھا۔ اس لئے امیر صاحب نے اُن کے بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا۔ اور اُن کی طرف خط لکھا۔ کہ آپ بلاخطرہ چلے آؤ۔ اگر یہ دعویٰ سچا ہوگا تو مَیں بھی مرید ہو جاؤں گا۔ بیان کرنے والے کہتے ہیں۔ کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ خط امیر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا۔ بہرحال اس خط کو دیکھ کر مولوی صاحب موصوف کابل کی طرف روانہ ہوگئے اور قضا و قدر نے نازل ہونا شروع کر دیا۔ راویوں نے بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کابل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے۔ اور ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور ان کی تشریف آوری سے پہلے عام طور پر کابل میں مشہور تھا۔کہ امیر صاحب نے اخوندزادہ صاحب کو دھوکہ دیکر بلایا ہے۔ اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے۔ کہ جب اخوند زادہ صاحب مرحوم بازار سے گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے۔ اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوار خوست سے ہی اُن کے ہمراہ کئے گئے تھے۔ کیونکہ اُن کے خوست میں پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری اُن کے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آچکا تھا۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ49تا 51)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button