یورپ (رپورٹس)

جلسہ سیرت النبیﷺ جامعہ احمدیہ جرمنی

(حامد اقبال۔شعبہ تاریخ جامعہ احمدیہ جرمنی)

18؍دسمبر2021ءکو جامعہ احمدیہ جرمنی میں مجلس ارشاد کے انتظام کے تحت جلسہ سیرت النبی ﷺ منعقد کیا گیا۔ کورونا کی وبائی صورت حال کے پیش نظر جلسے کا پروگرام کو مختصر رکھا گیا۔ جلسہ کی صدارت مکرم شمشاد احمد قمرصاحب ، پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے کی۔

جلسے کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم عدنان احمد بٹ صاحب نے پیش کی۔ تلاوت کے بعد عزیزم ماہد الیاس صاحب نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں لکھا ہوا نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس کے بعد عزیزم محفوظ احمد منیر صاحب متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی نے تقریر بعنوان ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عبادات کا انداز‘‘ پیش کی۔ موصوف نے واقعات کی رو شنی میں آپﷺ کی عبادات کا ذکر کیا جس میں آپ ﷺ کی نماز کی کیفیت،نماز تہجد کے وقت خشوع و خضوع ،تلاوت قرآن کا خاص اہتمام اور صحابہؓ کو بھی ترغیب دلاناوغیر ہ کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ جرمنی نے اپنی تقریرمیں طلباء کے سامنے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم وصف صبرو برداشت اور توہین رسالت کے نام پر بنائے گئے قوانین جس پر علماء ناصرف خود بلکہ عوام کو بھڑکا کر آپﷺ کے نام پر قتل و غارت کرواتے ہیں کی حقیقت بیان کی۔ قرآن اور احادیث کی رو سے بیان کیا کہ ہر زمانے میں انبیاء کی توہین کی جاتی رہی ہے۔ مگر انہیں کبھی سز ا نہ دی گئی۔ آنحضورﷺ کے زمانے میں آپﷺ کی توہین کی گئی اور کئی صحابہ تھے جو آپﷺ سے اجازت مانگنے آتے تھے کہ وہ توہین کرنے والے کو قتل کردیں مگر حضورﷺ نے کبھی ان کو اس کی اجازت نہ دی۔ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جس کی توہین کی جائے وہ خود معاف کر سکتا ہے مگر دوسرا گستاخ رسول کو سزا دے سکتاہے اس حوالے سے بیان کیا کہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں یہود و نصاریٰ کا کئی انبیاء کے بارہ میں ایسا عقیدہ تھا جس سے وہ ان مقدس وجودوں کی توہین کے مرتکب ہوتے تھے لیکن آنحضورﷺ نے ان کے خلاف کبھی کوئی ہتک رسول کا فیصلہ نہ فرمایا۔

آج کل ایک حدیث من سَبَّ نبیًا فاقتلوہ کہ جس نے نبی کو گالی دی اسے قتل کردو، توہین رسالت کے حوالے سے بہت پیش کی جاتی ہے۔ اس حدیث پر جرح کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ حدیث ضعیف اور قابل قبول نہیں ہے۔ آخر پر آپ نے قرآنی آیات کی روسے دین پر استہزا اور رسول کی توہین واقع ہونے پر مسلمانوں کو دی گئی قرآنی تعلیم بیان کی اور بتایا کہ آنحضورﷺ کو بھی خدا نے دشمن کے خلاف تلوارکے ساتھ دفاع کی اجازت دی کیونکہ دشمن بھی تلوار کا استعمال کر رہا تھا۔ اسی طریق سے اس کاجواب دیا گیا۔ اسی طرح اگر دشمن زبانی یا تحریری حملہ کر رہا ہے تو اس کا جواب بھی پھر زبانی یا تحریری طور پر دینا ہے نہ کہ اسے قتل کر دیا جائے۔

پروگرام کا اختتام دعا سے ہوا۔

(رپورٹ: حامد اقبال۔ شعبہ تاریخ جامعہ احمدیہ جرمنی )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button