حضرت مصلح موعود ؓ

میری سارہ (قسط نمبر 4)

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔

ھُوَ النَّاصِرُ

(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(قسط نمبر 4)

(گزشتہ قسط کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل 14؍دسمبر 2021ء)

ہمارے تعلقات

شادی کے وقت سے چونکہ میں ان کے متعلق یہ وعدہ کر چکا تھا کہ سلسلہ کی خدمت کےلئے انہیں تیار کروں گا اس لئے عام طور پر ایسا رویہ ان سے رکھا کہ دل د نیوی خواہشات کی طرف مائل نہ ہو۔ وہ بھی اس امرکوسمجھتیں اور کئی دفعہ پڑھائی کے دنوں میں اپنی باری کو چھوڑ دیتیں چنانچہ وفات سے پہلے بھی امتحان کی تیاری اور پھر امتحان کی وجہ سے باری چھٹی ہوئی تھی ۔ کمزور تھیں زیادہ محنت نہ کر سکتی تھیں لیکن بوجہ سمجھدار ہونے کے جو کام کرتیں اچھا کرتیں ۔ ہم دونوں اپنے دل میں یہ خیال رکھتے تھے کہ ہمیں اپنی محبت کو اس وقت تک دبائے رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں۔ وہ بوجہ کمزور ہونےکے بعض دفعہ اس سے زیادہ تکلیف محسوس کرتیں مگر پھر سمجھانے سے سمجھ جا تیں ۔ در حقیقت چند راتوں کے سوا انہوں نے حقیقی معنوں میں شادی کی زندگی کا لطف نہیں دیکھا اور ان کی زندگی معنوی رنگ میں کنوار پنے کی زندگی کہلا نی چاہیے مجھ میں اور ان میں ایک اختلاف رہتا تھا۔ مجھے اس امر سے نفرت ہے کہ میری بیوی اپنی ضرورت کو لکھ کر پیش کر ے ان کو بوجہ ادب کے زبانی بات کرنے سے حجاب تھا اس وجہ سے کئی دفعہ بد مزگی ہو جاتی۔ میں مُصِرّ تھا کہ جو کچھ کہنا ہوزبانی کہو اور وہ بوجہ حجاب پھر تحریر کی طرف متوجہ ہو جا تیں ۔ اس کے سوا مجھے نہیں یاد کہ کوئی اہم اختلاف طبائع میں ہو۔ باقی چھوٹے موٹے اختلاف تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ مٹھائی کے متعلق جو اوپر واقعہ لکھ آیا ہوں وہ بھی جو ہر کے لحاظ سے اسی قسم کے واقعات میں سے ہے۔

سارہ بیگم کی وفات

تعلیم اور فکر وں نے کمزور کر دیا تھا، جسم نحیف اب اس دنیا کے بوجھ اٹھانے کی زیادہ طاقت نہیں رکھتا تھا میرا ارادہ تھا کہ جلد انہیں لے کر کسی پہاڑ پر جاؤں کہ کشمیر کمیٹی کے کام کی وجہ سے ایک ہفتہ سفر ملتوی کرنا پڑا، اتنے میں عزیزم کیپٹین تقی الدین احمد صاحب کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ میری ہمشیرہ کو لے کر چند دن کےلئے آئیں انہیں ان کی ملاقات کےلئے راولپنڈی لے گیا۔ میرے جانے کے دوسرے دن بعد بھاگلپور سے بچے آئے چونکہ موٹر میرے ساتھ گئی ہوئی تھی بچوں کے کپڑے لینے کیلئے گھر آ ئیں چونکہ حمل کی وجہ سے تکلیف پہلے سے تھی پیدل گھر آنے اور کپڑے نکالنے کے کام سے تکلیف بڑھ گئی ۔ اگر وہاں سے ہی واپس چلی جاتیں تو شاید تکلیف اس قدر نہ ہوتی ۔ بچوں کو حضرت (اماں جان ) اور میری چھوٹی ہمشیرہ کو ملوانے برادرم نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر لے گئیں، اس سے رہی سہی طاقت زائل ہوگئی ، طبیعت پر اس قدر بوجھ تھا کہ کوٹھی سے چلتے ہوئے میری ہمشیرہ کو گلے لگا کر ملیں اور کہا کہ آ ئیں آخری دفعہ کیلئے گلے تو مل لیں ۔ انہوں نے منع کیا کہ ایسی باتیں کیوں کرتی ہو تو کہا کہ میری حالت ایسی ہے کہ شاید اب کے جانبر نہ ہو سکوں گی ۔ بعض لوگوں سے ہماری واپسی کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کب آئیں گے جب کسی نے کہا کہ جلد ہی آ جائیں گے تو کہا کہ خیر ملا قات تو ہو جائے گی۔ یہ سب طبیعت کی کمزوری کا مظاہرہ تھا۔ گھر پہنچیں تو دردزه شروع ہوگئی اور خون آنے لگا ۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے ساری رات جاگ کر کاٹی اور علاج کا کوئی دقیقه باقی نہ رکھا ہاں دوسرے ڈاکٹروں سے مشورہ کے معاملہ میں ان سے کوتاہی ہوئی اسی طرح دوسرے ذمہ دار کارکنوں سے یہ غلطی ہوئی کہ مجھے مناسب طریق پر اور جلد جلد اطلاع نہ دی۔انہیں یہ احساس تھا کہ مجھے بیمار چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تھا کہ کیسی حالت ہے اور انہوں نے تسلی دلائی تھی کہ قوت بہت کافی ہے اور کوئی خطرہ نہیں ۔ مگر خیر انہیں یہ احساس تھا اور اب کہ واقعات نے انہی کی تصدیق کی ہے ان کے احساس کو حق بجانب کہنا پڑتا ہے خیر اس احساس کے ماتحت جب تک انہیں یہ خیال نہیں ہوا کہ بیماری سخت ہے وہ مجھے اطلاع دینے سے خود روکتی رہیں اورکہتی رہیں انہیں تار نہ دو انہیں تکلیف ہوگی ۔ جہاں تک میرا خیال ہے اس وقت ان کا یہ کہنا میری تکلیف کے خیال سے نہ تھا بلکہ ایک شکوہ کا رنگ تھا۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو نہایت درد سے بار بار لوگوں سے کہا کہ حضرت صاحب کو اور میرے ابا کو تاردولیکن افسوس کہ پاس کے لوگوں کو ایسا ذھول ہوا کہ کسی نے تار نہ دی یہاں تک کہ ان کا وقت قریب آ گیا ۔ آخری وقت کے قریب میری تصویر جواُن کے کمرہ میں لٹک رہی تھی اس کی طرف دیکھا ، ایک آہ بھری اور سر کو اس طرح جنبش دی جس طرح کہتے ہیں کہ لواب ہم جاتے ہیں اور کہا کہ اب میری آنکھوں کے آگے بھی اندھیرا آ گیا ہے، اب میرا آخری وقت ہے ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا جو پاس ہی دوسرے کمرے میں بیٹھے تھے ایک دو منٹ میں وہ آ گئے مگر اتنے میں وہ بے ہوش ہو چکی تھیں اور چند ہی منٹ بعد انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کو جان سپرد کر دی اور اسی شعر کے مطابق جو انہوں نے قادیان آنے سے پہلے لکھا تھا ۔ حضرت مسیح موعود کے قدموں میں خاک ہو کر جا پڑی ۔

بر آستان آنکہ زخود رفت بہر یار

چوں خاک باش و مرضی یارے دراں بجو

اس مضمون کی غرض

میری اس مضمون کے لکھنے سے ایک تو یہ غرض ہے کہ مرحومہ کے نیک اذکار کو دنیا میں قائم رکھنے کی کوشش کروں تاکہ جب انکی اولاد اللہ تعالی کے فضل سے جوان ہو تو ان کی نیکیوں کی پیروی کی کوشش کرے ۔ دوسرے میں مستورات کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی تعلیم اور مرحومہ کی تعلیم میں ایک فرق ہے۔ دوسری مستورات اپنی ذاتی اغراض کیلئے تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن مرحومہ کی غرض صرف خدمت دین تھی اور الله تعالیٰ کی رضا جوئی ۔ پس ان میں سے بھی جسے الله تعالیٰ تو فیق دے وہ دنیاطلبی کا خیال چھوڑ کر خدا کی رضا کو مقدم رکھے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قادیان میں ہمارے گھر کی مستورات کو دیکھ کرتعلیم کا عام چرچا ہے لیکن بہت سی لڑکیاں محض روٹی کمانے کے لئے اورنوکری کرنے کے لئے پڑھ رہی ہیں حالانکہ عورت کا کام نوکری کرنا نہیں ہے۔ یہ عورتوں کی ملازمتوں کا دستور مغربیت کی لعنتی یادگاروں میں سے ایک یادگار ہے۔ اسلام نے روپیہ بہم پہنچانا مرد کے ذمہ لگایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ(النسآء:35)

یعنی مردعورتوں پر بطور نگران مقرر ہیں اس وجہ سے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے یعنی مرد کو نگرانی کے مواقع اور نگرانی کی قوتیں زیادہ عطا فرمائی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ مرد کا کام ہے کہ وہ عورت کی ضرورتوں کو مہیا کرےاور اس پر ا موال خرچ کرے۔

پس نیک عورتوں کو چاہئے کہ بجائے کسی دوسری طرح اپنے اوقات خرچ کرنے کے مردوں کی حفاظت اورنگرانی میں اپنے وقت بسر کریں اور مردوں کی غیر حاضری میں جب کہ وہ کسب معیشت کیلئے باہر گئے ہوئے ہوں اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان امانتوں کی حفاظت کریں جو ان کے سپرد کی گئی ہیں یعنی امور خانہ داری کی طرف متوجہ ہوں بچوں کی تربیت کریں، گھر اور محلہ کے اخلاق کو درست رکھیں وغیرہ وغیرہ ۔ مگر افسوس کہ یہ آیت اور اسلام کے اصل کو بعض اہل قادیان بھول رہے ہیں اور مغرب کی نقل میں اندھا دھند بغیر اس مقصد کو سمجھنے کے جس کےلئے میں تعلیم دلوا رہا ہوں ، ایک غلط راستہ کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔ ہمارے مردوں کو تو مغرب نے اپنا غلام بنالیا، عورتیں باقی تھیں اگر وہ بھی اسی طرح مغرب کی غلامی میں چلی گئیں تو دین کی خبر گیری کون کرے گا۔ مرد تو خیر حالات زمانہ سے مجبور ہورہے ہیں عورتوں کو کیوں اسی کنویں میں دھکیلا جائے جس میں سے نکالنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ عورتوں کیلئے بے شک انگریزی کی تعلیم اس وقت تک ضروری ہے جس وقت تک کہ اردو یا عربی ہم لوگوں کو دنیا میں تبلیغ کرنے کے قابل نہیں بنا سکتی اس وقت تک بے شک انگریزی کی تعلیم عورتوں کیلئے مفید ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے لیکن ایسی ہی تعلیم جس میں انگریزی بولنے کی قابلیت جو اصل مقصود ہے، حاصل ہوتی ہو۔ یا ایک محدود تعداد کیلئے ایسی تعلیم جس کے ذریعہ سے ڈاکٹری وغیرہ کی قسم کے پیشے یا جماعت کی تعلیمی ضروریات پوری ہو سکیں اس سے زیادہ انہماک جماعت کے اخلاق اور اسلامی تمدن کیلئے سخت مضر اور مہلک ثابت ہو گا ۔ غرضیکہ ایک میرا مقصد یہ ہے کہ میں بتاؤں کہ میں جو تعلیم دلاتا رہا ہوں، اس کا مقصد دنیا طلبی کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا نہیں بلکہ تبلیغ کے ذرائع کو وسیع کرنا اور عورتوں کے خیالات کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنا ہے۔ پس اگر جہالت کی تاریکی کی جگہ الحاد کی تاریکی نے لے لی تو میرا مقصد ہرگز پورا نہ ہوگا بلکہ الٹا جماعت کو نقصان ہوگا۔

میں جانتا ہوں کہ میرے ارادے زمانہ کی ہوا کے خلاف ہیں اور خود ہماری جماعت کے لوگوں میں سے ایک طبقہ یقیناً اس کی مخالفت کرے گا ۔ گو وہ خاموش مخالفت ہوگی نہ کہ نمایاں اور لفظی لیکن میں ان باتوں سے نہیں ڈرتا۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اسلام کےلئے سب سے زیادہ زبردست قلعہ عورتوں کے دماغوں میں بنایا جاسکتا ہے اور اس قلعہ کی تعمیر اسی صورت میں ممکن ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی سکیم پورے طور پر اپنی دینی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے اور انہیں اس قابل کر دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کو اس مقام پر کھڑا رکھیں جس پر سے ہٹانے کیلئے حوادث زمانہ کی آندھیاں اپنا پورا زور لگا رہی ہیں ۔ یہ کام بہت بڑا ہے اور میں ایک کمزورانسان ہوں لیکن میرا رب جس پر میرا بھروسہ ہے میری مدد کرے گا اور اندرونی اور بیروی مخالفتوں کو زائل کر کے مجھے یقیناً کا میاب کرے گا کیونکہ اسلام اس کا دین ہے اور احمدیت اس کے اپنے ہاتھوں کا لگایا ہوا پودا ہے۔ پہلے کا م کب میری لیاقت سے ہوئے کہ یہ کام میری لیاقت سے ہوگا۔ میں تو اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو اسے ایسی کا میابیوں کا مجموعہ پاتا ہوں جو انجام کے لحاظ سے پہلے ہر ظاہربین کی نظر میں نا کامیاں نظر آتی تھیں۔ مجھے خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے انصار عطا فرمائے گا جو اس سکیم کو لے کر کھڑے ہو جائیں گے اور ایسی تا ثیر عطا فرمائے گا جو دلوں کو مسخر کر لے گی یہاں تک کہ ہم اسلام کےلئے ایک قلعہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک ایسا قلعہ جس پر کفر کے حملے پاش پاش ہو کر رہ جائیں گے اور اسلام پھر تازہ دم ہو کر ایک نئی دلہن کی طرح نازسے باہر نکلے گا اور بغیرتکلیف کے دشمنوں کے گھر پر قبضہ کر لے گا۔ میں اپنے سامنے ایک لشکر دیکھتا ہوں بغیر توپوں کے، اور ایک گروہ دیکھتا ہوں بغیر تلواروں کے، دنیا کے سب تلورے اور اس جہان کے سب توپ خانے اس پر حملہ کرتے ہیں، وہ اپنی طاقت سے اس نہتے گروہ کو پیسنا چاہتے ہیں، وہ بڑ ھے چلے آتے ہیں اور زور سے حملہ کرتے ہیں اور زیادتی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ، زمین کی چھاتی کانپتی ہے، وہ اپنی کمزور اولاد کیلئے چلاتی اور واویلا کرتی ہے، خدا کے مقدسوں کے مزار ہل جاتے ہیں اور آسمان کے ستاروں کے سینے شق ہو جاتے ہیں، تب فوج در فوج خدا کے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ، تاریکی دور ہو جاتی اور نور پھیل جاتا ہے۔ وہ جو ناممکن کہا جا تا تھا ممکن ہو جا تا ہے اور خداوند خداجو سيد ولد ادم کا خدا ہے، جو بنو فارس کے پہلوان کا خدا ہے، وہ اپنے جلال کے تخت پر اترتا ہے اور اپنی بادشاہت کی باگ کمزور کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، ہاں جب یہ سب کچھ ہو چکے گا تب وہ کلام جو خدا نے مسیح ناصری کی زبان پر فرمایا تھا، پورا ہو گا اور وہ مقدس دلہنیں جوشمع ہاتھ میں لئے اپنے دولہا کا انتظار کر رہی تھیں اور تیل اور فتیلہ لئے چوکس اور تیار کھڑی تھیں، آسمان سے اپنے مسیح کو اترتے ہوئے دوبارہ دیکھیں گی اور بے اختیار ہوکر چلا اٹھیں گی هوشعنا، تب ان کی نقل میں باقی دنیا کے لوگ بھی کہیں گے۔ هوشعنا ، کاش! لوگ اپنی آنکھیں کھولتے اور اپنی عقلوں سے کام لینے کی بجائے خدا کے کلام پر غور کرتے ، تب وہ ایک نیا نور اپنے دل میں پاتے اور ایک نئی چمک اپنی آنکھوں میں محسوس کرتے اور مستقبل سے ڈرنے کی بجائے شوق سے اس کا انتظار کرتے اور دوسروں سے تیل اور فتیلے مانگنے کی بجائے خود اپنے گھر کے تیل اور فتیلے تیار رکھتے کیونکہ فتح انہیں کی ہے جن کی دلہنیں تیل اور فتیلے سے تیار رہیں گی اور جن کی دلہنیں ما نگنے جائیں گی وہ ناکام رہیں گے اور ان میں شامل ہوں گے جن سے دولہا منہ پھیر لیتا ہے اور جن کے لئے قلعہ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں ۔ کاش! کوئی ہو جو اس بات کو سمجھے۔

کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button