متفرق مضامین

حلم و تحمل اور وسعت حوصلہ کی بابت مبارک اسوۂ نبویؐ

(’ایچ ایم طارق‘)

حلم کے معنی عقل اور سمجھ کے ہیں۔مدّمقابل کی نادانی اور زیادتی دیکھ کر عجلت میں گرفت کرنے کی بجائے ڈھیل اور مہلت دینا، وسعت حوصلہ، طبیعت کا دھیما پن اور زبان کی نرمی حلم میں شامل ہے،جو دراصل عفو کی ہی قسم ہے۔

حلیم اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا وہ بلا تمیز اپنی تمام مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اپنے خلاف تکلیف دہ بات سن کر اس پر صبرکرنے والا اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔جو لوگ ایک انسان کو اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں، وہ ان کو بھی معاف کرتا اور رزق بہم پہنچاتا ہے۔

(بخاری کتاب الادب )

رسول کریمؐ اللہ تعالیٰ کی صفتِ حلم کا بھی بہترین نمونہ تھے۔ اورآپؐ کایہ حلم اپنے محل اور موقع پرشان دکھاتا تھا اوریہی قابل تعریف خُلق ہے۔

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ’’دھیما پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلدی شیطان کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی عذر پر نظر کرنے والا نہیں۔(یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش بہانے ڈھونڈتی ہے) اور کوئی بھی چیز حلم سے زیادہ اللہ کو پیاری نہیں۔

(مجمع الزوائد لھیثمی جلد8ص43مطبوعہ بیروت)

رسول اللہؐ کی نبوت کی نشانی

خداتعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کا کام چونکہ بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح ہوتا ہے اس لیے ان کو تحمل اور وسعت حوصلہ کا خاص خلق عطا کیا جاتا ہے۔پھر رسول اللہﷺ کی مخاطب تو ایک گنوار قوم تھی اس لیے آپ کو غیر معمولی طور پر اس صفت سے حصہ ملا بلکہ حلم رسول اللہؐ کی وہ خاص نشانی اورعلامت تھی۔ جس کے بارہ میں تورات میں پہلے سے پیشگوئی موجود تھی۔چنانچہ ایک یہودی زید بن سعنہ اس نشانی کا تجربہ کرنے کے بعد آپؐ پر ایمان لے آیا اور حلم کے معنے کی شان عملی رنگ میں کھل کر دنیا کے سامنے آئی۔یہ واقعہ بہت دلچسپ ہے۔

حضرت عبداللہ بن سلام ؓایک یہودی عالم تھے جن کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زید بن سعنہ کو ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو زید نے کہا۔ میں نے نبوت کی تمام علامات رسول کریمؐ کے چہرے میں پہچان لی ہیں سوائے دو علامتوں کے جو ابھی تک خود آزما کر نہیں دیکھیں۔ایک یہ کہ اس نبی کا حلم ہرجاہل کی جہالت پر غالب آئے گا دوسرے جہالت کی شدت اسے حلم میں اور بڑھائے گی۔زیدآپؐ کے حلم کے امتحان کی خاطر اکثر جاکر آپؐ کی مجالس میں بیٹھتا۔ ایک روزرسول اللہؐ علی بن ابی طالبؓ کے ساتھ باہر نکلے۔ ایک بدّو نے آکر بتایا کہ فلاں بستی کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں اور میں نے انہیں کہا کہ مسلمان ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہیں وافر رزق دے گا۔مگر ان پرتو قحط کی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ ترک اسلام نہ کردیں۔ اگر آپؐ پسند فرمائیں تو کوئی چیز ان کی امداد کے واسطے بھجوائیں۔ اس یہودی زیدنے موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا میں اتنے من غلہ بطور قرض خرید کر دیتا ہوں اورپھر اَسّی دینار کا غلہ خرید کر دے دیا۔ آپؐ نے اس شخص سےفرمایا کہ جلدی جاکر ان لوگوں کی حاجت پوری کرو۔قرض کی میعاد پوری ہونے سے دوتین دن قبل کا واقعہ ہے کہ رسول اللہؐ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جنازہ کے لیے نکلے۔یہودی قرض خواہ زید نے آپؐ کی چادر زور سے کھینچی یہاں تک کہ وہ آپؐ کے کندھے سے گر گئی۔زید نے غصے والا منہ بناکر سختی سے پوچھا کہ اے محمدؐ! تم میرا قرض ادا کرو گے بھی یا نہیں؟ خدا کی قسم! مجھے پتہ ہے کہ تم بنی مطّلب کی اولاد بہت ٹال مٹول سے کام لیتے ہو۔اس پر حضرت عمربن خطابؓ غصہ سے کانپ اُٹھے اوراس یہودی کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھ کر کہا اے اللہ کے دشمن کیاتو میرے سامنے خدا کے رسول کی اس طرح گستاخی کرنے کی جرأت کرتا ہے۔اگر مجھے رسول اللہؐ کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا۔

رسول اللہؐ نے نہایت وقار اور سکون سے یہ سب کچھ برداشت کیا اور پھرحضرت عمرؓ سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ اے عمرؓ! ہم دونوں کو آپ سے اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت تھی۔آپ کو چاہیے تھا کہ مجھے قرض عمدگی سے ادا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے قرض مانگنے کا سلیقہ سکھاتے۔ اب آپ ہی جاکر اس کا قرض ادا کردو اور کچھ کھجور زائد دے دینا۔اس یہودی زیدکابیان ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے میر اقرضہ بے باق کرکے زائد کھجور بطور انعام دی۔ تو میں نے پوچھایہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا جوسخت کلامی میں نے تم سے کی تھی اس کے عوض یہ کھجور زائد ہے۔تب اس یہودی نے اپنا تعارف کروایا اور کہاکہ وہ زید بن سعنہ یہود کے ایک عالم ہیں۔حضرت عمر ؓنےاس سے رسول اللہؐ سے بدسلوکی کی وجہ پوچھی؟ تواس نے صاف صاف بتایا کہ دراصل میں نے رسول اللہؐ کی نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ایک حلم کا امتحان باقی تھا، سو اب وہ بھی آزمالیا ہے۔ پس اے عمرؓ! اب میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ میرا نصف مال خدا کی خاطر وقف ہے۔اور میرا مال بہت زیادہ ہے جو میں امت محمدیہ کےلیے صدقہ کرتا ہوں۔پھرحضرت عمرؓاسے لے کر رسول اللہ ؐکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زید نے کلمہ توحید و رسالت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔پھر اس کا سارا خاندان بھی مسلمان ہوگیا۔ زیدؓبن سعنہ ایمان لانے کے بعد کئی غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ شریک ہوئے۔

(مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر اسلام زید بن سعنہ جلد3ص700)

یہ تھا رسول اللہﷺ کے حلم وتحمل کا معجزہ جس نے ایک یہودی خاندان کی کایاپلٹ دی۔

اسی طرح کا دوسراواقعہ ایک اور یہودی کاہے۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی جس کا نام جُریجرہ تھا۔ اس نے رسول اللہؐ سے کچھ دینارقرض لینے تھے ان کا تقاضاکیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا کہ میرے پاس اس وقت دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ کہنے لگا اے محمدؐ! میں بھی آپؐ کو چھوڑوں گانہیں جب تک آپؐ مجھے یہ قرض ادا نہ کردیں۔ رسول اللہؐ فرمانے لگے اچھا میں تمہارے ساتھ ہی بیٹھتا ہوں۔ پھر نبی کریمؐ اس کے ساتھ بیٹھ رہے۔آپؐ نے اسی جگہ ظہروعصر، مغرب وعشاء اور فجر کی نماز پڑھی۔ رسول کریمؐ کے صحابہ اسے اشاروں سے دھمکانے لگے حضورؐ کو پتہ چل گیا آپؐ نے فرمایا تم اسے کیوں ڈراتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ!حیرت کی بات ہے ایک یہودی نے آپؐ (شاہ مدینہ)کو روک رکھا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’میرے ربّ نے مجھے منع فرمایا ہے کہ میں کسی معاہد شخص سے یا کسی اور پر ظلم کروں۔‘‘ جب دن چڑھا تو اس یہودی نے کلمہ پڑھ کر گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اورمحمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ پھروہ کہنے لگا میں مال دار آدمی ہوں اورمیرا آدھا مال اللہ کی راہ میں پیش ہے۔ میں نے آپؐ کے ساتھ جو سلوک کیا توریت میں آپؐ کے متعلق بیان کردہ صفات حلم و تحمل جانچنے کے لیے کیا ہے۔جودرست ثابت ہوئی ہیں۔

(مستدرک حاکم جلد2صفحہ678)

اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کی برکت سے رسول کریم ؐکی طبیعت اورمزاج میں ہی نرمی اور آسانی رکھی گئی تھی۔(آل عمران 160) آپؐ کا واسطہ ایک اجڈ اور ان پڑھ قوم سے تھا مگر ان کی ہر قسم کی درشتی برداشت فرماتے اور بڑے تحمل سے ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔

بدوؤں سے حلم و تحمل کا معاملہ

مدینہ کے اردگرد رہنے والے اجڈبدوؤں اور درشت رُو بادیہ نشینوں سے بھی آپؐ ہمیشہ رأفت کا سلوک فرماتے جن کے اخلاق و عادات کے بارہ میں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’بادیہ نشین کفر اور منافقت میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور زیادہ رجحان رکھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا اس کی حدود کو نہ پہچانیں اور اللہ دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے۔‘‘

(سورۃ التوبہ:97)

اکثر و بیشترجنگلی بدو آکر عجیب وغریب سوال آپؐ کی مجلس میں کرتے ہیں اور آپؐ ہیں کہ نرمی سے جواب دیتے چلے جارہے ہیں۔آپؐ صحابہ سے محوگفتگو ہیں۔ ایک بدو آکر مخل ہوتاہے اور درمیان میں ٹوک کر سوال کرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ اب جسے علم دین کی سوجھ بوجھ ہی نہیں اسے انسان اس کا کیا جواب دے اور کیسے سمجھائے۔حضورؐ اپنی بات جاری رکھتے ہیں اور اصحاب رسول چہ میگوئیاں کررہے ہیں کہ شاید حضورؐ نے اس کا سوال سناہی نہیں اس لیے جواباً خاموش ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ حضورؐ نے اس کا سوال ہی پسند نہیں فرمایا اس لیے جواب نہیں دے رہے۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد حضورؐ کو اس بدّو سائل کا خیال آیاتوفرمایا قیامت کی بابت پوچھنے والا کہاں ہے؟اس نےعرض کیا اے خدا کے رسولؐ! میں حاضر ہوں۔آپؐ نے فرمایا! جب امانت ضائع ہوجائے گی تو اس وقت قیامت کا انتظار کرنا۔ بدّو نے جواب پاکر ایک اور سوال کردیا کہ جناب! امانت کے ضائع ہونے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔آپؐ ازراہ شفقت پھر اسے سمجھانے لگ جاتے ہیں کہ امانت کے ضائع ہونے کا یہ مطلب ہے کہ حکومت نااہل لوگوں کے سپرد کردی جائے تو سمجھنا کہ یہ قیامت کی علامت ہے۔

(بخاری کتاب العلم )

ایک دفعہ نبی کریم ؐ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک بدو آیااور آپؐ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا میرا ایک چھوٹا سا کام ہے ایسا نہ ہوکہ میں بھول جاؤں آپؐ میرے ساتھ مسجد سے باہر تشریف لاکر پہلے میرا کام کردیں۔آپؐ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور اس کا کام انجام دے کرتشریف لائے اور نماز پڑھائی۔

(ابو داؤد کتاب الصلاۃ)

نبی کریم ؐ دینی مصروفیات کے باوجود باہر سے مدینہ میں آئے ہوئے بدّوؤں کی تالیف قلبی کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے۔ایک دفعہ ایک اعرابی بیمارہوگیا۔ آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اُسے تسلّی دلاتے ہوئے دعائیہ انداز میں فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو جلد بیماری دور ہوجائے گی اور ظاہری و باطنی صفائی ہوجائے گی۔اس نے مایوسی سے کہا آپؐ یہ کہتے ہیں مجھے تو یہ ایسا بخار لگتا ہے جو ایک بڈھے میں جوش مار رہا ہے اور اسے قبر کی طرف لے جارہا ہے۔رسول کریم ؐنے فرمایا اگر تمہارا یہی خیال ہے تو پھر یہی سہی۔

(بخاری کتاب المرضی )

حضورؐ کی شفقت تو یہ تھی کہ اعرابی کی عیادت کے لیے بنفس نفیس تشریف لے گئے پھر اُسے تسلّی دلائی اور اُس کے حق میں دعا کی، مگر اس نے ان تمام باتوں کے باوجود ادب رسولؐ کا لحاظ نہ کیا۔ پھر بھی آپؐ نے ایک بیمار اور بوڑھے سے تکرار مناسب نہیں سمجھی اور اس کی کہی بات کا لحاظ کرتے ہوئے اس پر خاموشی فرمائی ۔

ایک دفعہ نبی کریمؐ توہم پرستی کی تردیدکرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ دراصل کوئی بیماری اپنی ذات میں متعدی نہیں ہوتی۔اس پر ایک اعرابی بول پڑا کہ میرے اونٹ جو ہرن کی طرح صحت مندہوتے ہیں کسی خارش زدہ اونٹ کے قریب آ نے سے انہیں کیوں خارش ہوجاتی ہے؟ نبی کریم ؐ نے کیسے پیار اور حکمت سے اسے سمجھایا کہ اگر تمہاری بات ہی درست ہو تو پھر یہ بتاؤ کہ سب سے پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی تھی؟(بخاری کتاب الطب )اور یوں ایک بدّو کو بھی دوران گفتگو سوال کرنے پر آپؐ نے جھڑکا نہیں،نہ ہی حقیر سمجھا بلکہ معقولیت سے قائل کرکے خاموش کیا۔

حضرت اسامہ بن شَریکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کرکے بیٹھ گیا بدّو لوگ آکر آپؐ سے سوال کرنے لگے کسی نے کہا اے اللہ کے رسول ؐ! ہم علاج معالجہ کرتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟آپؐ نے فرمایا ضرور علاج کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں پیدا کی مگر اس کی دوا بنائی ہے سوائے بڑھاپے کے کہ اس کی کوئی دوا نہیں۔ کسی اور بدّو نے پوچھا کہ فلاں فلاں بات میں کیاکوئی حرج ہے؟نبی کریمؐ نے فرمایا اے خدا کے بندو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے حرج اُٹھادیا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی کسی مسلمان بھائی پر ظلم کرے تو اس میں حرج ہے بلکہ ہلاکت ہے۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہؐ! لوگوں کو جو کچھ عطاکیا گیا ہے اس میں سے سب سے بہتر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’اچھے اخلاق‘‘ سب سے بہتر عطیہ الٰہی ہیں۔

(ابن ماجہ کتاب الطب )

ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا ،ایک کی آنکھیں سرخ اور رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا۔ مجھے ایک کلمے کا پتہ ہے اگر یہ شخص پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے گا اور وہ ہے۔

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔

یعنی میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں راندے ہوئے شیطان سے۔

(بخاری کتاب الادب)

حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ہمیں فرمایا کرتے تھے جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جایا کرے اگر غصّہ دور ہوجائے تو ٹھیک ورنہ وہ لیٹ جائے۔(ابوداؤدکتاب الادب باب4)اسی طرح فرمایا کہ نرم روی اور دھیما پن ہرکام میں ہونا چاہیے، سوائے آخرت کے نیک کام کے کہ وہ جلدی کرلینا چاہیے۔

(مستدرک حاکم جلد1ص132)

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک شخص بول بول کر رسول اللہؐ کے کان کھاگیا ہو اور رسول اللہ ؐنے اس سے رُخ پھیرا ہو۔ وہ شخص ہی آخرتھک ہار کر اپنا منہ پرے ہٹاتا تھا۔

(ابوداؤدکتاب الادب)

وسعت حوصلہ میں حضورﷺ کے خوبصورت نمونے

حلم کے خُلق میں رسول اللہؐ کی عظیم شان تھی۔ رسول اللہ ؐکے نواسے حضرت امام حسینؓ اپنے ماموں ہندبن ابی ہالہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ دنیا کی کسی بات کی وجہ سے کبھی غصہ میں نہ آتے تھے۔البتہ ناحق ظلم کی کوئی بات ہوتی تو پھر آپؐ کے غصہ کے آگے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی اور اس کی سزا آپؐ ضرور دیتے تھے لیکن اپنی ذات کی خاطر نہ کبھی آپؐ کوغصہ آیا نہ کبھی آپؐ نےبدلہ لینا پسند کیا۔

(شمائل ترمذی باب کیف کان کلام رسول اللہؐ)

نبی کریمؐ سخت باتیں سن کر بھی نہ صرف عفو سے کام لیتے بلکہ بسااوقات احسان کا سلوک فرماتے۔حضرت بہزبن حکیمؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کا بھائی نبی کریمؐ کے پاس آیا۔اس کے ہمسائے کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کی وجہ سے ماخوذ تھے۔ اس نے اپنے ہمسایوں کی سفارش کی کہ اس کی ضمانت پر ان کو چھوڑ دیا جائے۔ نبی کریمؐ نے پہلے اس کی بات پر توجہ نہیں فرمائی۔دریں اثناء وہ آپؐ پر کھلم کھلا اعتراض کرنے لگا۔آپؐ نے فرمایا ’’اگر میں ایسا کرو ں اس کی پُرسش مجھ سے ہوگی تم سے نہیں ہوگی۔‘‘

(مستدرک حاکم جلد1صفحہ214)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ یہودی نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوتے اور سلام کی بجائے کہتے السام علیکم یعنی تم پر لعنت اور ہلاکت کی مار ہو۔ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کوجواب دیا تکرار سے کہا تم پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’اے عائشہؓ! نرمی اختیار کرو۔ سختی اور درشت گوئی سے بچو۔‘‘ حضر ت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! آپؐ نے سنا نہیں ان یہود نے کن الفاظ سے آپؐ کو سلام کیا ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا ’’اور کیا تم نے میرا جواب نہیں سناتھا۔ میں نے بھی صرف ’علیکم‘ ہی کہا تھا کہ جو تم نے کہا وہی تم پرہو اور میری دعا تو ان کے بارہ میں قبول ہوگی مگر ان کی دعا میرے خلاف کبھی قبول نہ ہوگی۔‘‘

(بخاری کتاب الادب )

پھر رسول کریمؐ نے حضرت عائشہ ؓکو اپنے پاکیزہ نمونہ کے موافق نرمی اور حلم کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عائشہ! نرمی جس چیز میں بھی پائی جائے اسے زینت عطاکردیتی ہے اور جس بات میں نرمی نہ رہے اس میں سختی بدصورتی اور عیب پیداکردیتی ہے۔نیزفرمایاکہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی پسند فرماتا ہے۔

(مسنداحمد بن حنبل جلد3ص241،بخاری کتاب الدعوات باب 158)

مملکت مدینہ کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی رسول کریمؐ نے یہود مدینہ کی گستاخیوں کے باوجود ہمیشہ ان سے رواداری اور حلم کا سلوک کیا۔حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس کھڑا تھا کہ ایک یہودی عالم آیا اور کہنے لگا اے محمد! آپؐ پر سلام ہو۔ میں نے اسے زور سے پیچھے دھکا دیا ۔قریب تھا کہ وہ گِرجائے۔ اس نے کہا تم نے مجھے دھکا کیوں دیا؟ میں نے کہاکیا تم اللہ کا رسول کہہ کر حضورؐ کو مخاطب نہیں کرسکتےتھے؟ یہودی عالم کہنے لگا ہم تو اسے اسی نام سے پکاریں گے جو اس کے گھر والوں نے اس کا رکھا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے۔ میرے گھر والوں نے میرا نام محمدؐہی رکھا ہے۔ اس کے بعد اس یہودی نے کچھ سوالات کیے۔ اس کے جانے کے بعد نبی کریمؐ نے فرمایا ابھی اس نے جو سوالات کیے تھے مجھے ان کا کوئی علم نہ تھا مگراللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا علم عطافرمایا۔

(تفسیرابن کثیر جلد4ص519سورۃ ابراہیم آیت 47)

روز مرہ معاملات میں بھی نبی کریمؐ سے گھریلو خادم حلم کایہی نمونہ دیکھتے تھے۔آپؐ دن میں ستّرسے بھی زائد مرتبہ خادم سے عفو کا سلوک فرماتے تھے۔خادم رسولؐ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہؐ کی خدمت کی۔کبھی آپؐ نے مجھے برا بھلا نہیں کہا کبھی مارا نہیں نہ ہی ڈانٹا اور نہ کبھی منہ پر تیوری چڑھائی نہ کبھی کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے پر سرزنش فرمائی۔ بلکہ اگر اہل خانہ میں بھی کوئی مجھے ڈانٹنے لگتا تو آپؐ فرماتے جانے بھی دو جو چیز مقدر ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔

(مسلم کتاب الفضائل )

رسول کریمؐ سے عرب کے نادان بدوؤں کی درشتی کے مقابل پر بھی ہمیشہ حلم ہی ظاہر ہوا۔

ایک دفعہ رسول کریمؐ نے ایک بدّو سے کچھ کھجورکے عوض ایک اونٹ خریدا۔ مگرگھرآئے تواتنی کھجور موجود نہ پاکربدّو سے معذرت کی۔وہ بدّو کہنے لگا اے دھوکے باز۔ لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے کہ رسول اللہؐ کو اس طرح کہتے ہو۔مگر رسول کریمؐ نے فرمایا اسے جانے دو۔

(مسند احمد جلد6صفحہ268بیروت)

مخالفین کے غلط الزامات اور نامناسب اعتراضات پر بھی رسول کریمؐ کبھی طیش میں نہیں آئے بلکہ ہمیشہ حلم دکھایا۔غزوۂ حنین کے موقع پر آپؐ نے بعض سردارانِ قریش کو اسلام سے قریب کرنے کے لیے ازراہِ تالیف قلب انعام و اکرام سے نوازا اور سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ اس پر ایک عام شخص نے اعتراض کردیا کہ اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیا گیا۔(اس کا مطلب ہوگا کہ اسے تو سو اونٹ نہیں ملے) نبی کریمؐ نے فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ان پر اس سے زیادہ نکتہ چینی کر کے ایذا دی گئی۔ مگر انہوں نے صبر کیا۔گویا میں بھی صبر سے کام لیتاہوں۔ پھرآپؐ نے اسے معاف کردیا۔

(بخاری کتاب الادب)

بخاری کی بعض دوسری روایات میں رسول کریمﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایاہے کہ ایسے لوگ آئندہ بھی پیدا ہوں گے جو بے دین ہوجائیں گے۔جن سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ زمانہ میں حلم کی ضرورت

ہمارا زمانہ جو مادی ترقی اور سہولت کا زمانہ ہے اور جس میں دجّال کے ظہور کے ساتھ ظاہری جنت کی آسائشیں بھی دنیا میں پیدا ہوچکی ہیں،بجلی،گیس،مشینوں کی ایجاد،سواریوں اور سفر کی سہولتیں میسر ہیں اور دنیا میں مال و دولت کے ساتھ کھانے پینے کی فراوانی ایسی میسر ہے جو پہلے زمانہ میں بادشاہوں کو بھی میسر نہ تھی جس پر انسان کو صبروشکر کرنا چاہیے مگر اس کی بجائے آسائشوں کے عادی ہوکر فی زمانہ تنگیٔ حوصلہ، بے صبری، غصہ اور جوش زیادہ نظر آتا ہے جس کےلیے حلم اور تحمل کے خلق کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

دورحاضر کے امام کی بعثت کا مقصد

اسی لیے آنحضرتﷺ کے غلام صادق اوراس زمانہ کے امام نے اپنی آمد کا مقصد یہ بیان فرمایا:

’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق او رنرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اوروہ نور جو مجھے دیا گیاہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہِ راست پر چلاؤں۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ143)

نیز فرمایا:

’’میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور بُردباری اور حلم اور انصاف اور را ستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلاؤں۔‘‘

(اربعین روحانی خزائن جلد17 صفحہ344)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے اس زمانہ میں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ حلم اور صبر بیان کرتے ہوئےفرمایا:

’’خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہيں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہيں ان کی جگہ درندگی ہو اگر تم ان صفات حسنہ ميں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ99 جديد ايڈ يشن البدر صفحہ 3تا 8 مورخہ 8/ ستمبر 1904ء)

پس خدا کے مامور اور خلفاء پہلے حلم و صبر کا بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔جیساکہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور بھیجا۔ اپنی رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے 27جولائی 1898ء کے الحکم میں اس کیفیت کو درج کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ آج قریباً تیس سال ہوئے جب اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوصلہ، ضبطِ نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ462-463)

مامورین اور خلفاء کی بنیادی صفات

حضرت مسیح موعودؑ مامورین اورروئے زمین پر اپنے قائمقام برگزیدہ وجودوں کی صفات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’خدا کے نبیوں کی زندگی سادہ ہوتی ہے … اُن کی فطرت ہی ایسی واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت سے ہزار کوس دُور بھاگتے ہیں اور گمنام رہنا چاہتے ہیں مگر وہ خدا جو اُن کے دلوں کو دیکھتاہے اور اُن کو اس کام کے لئے لائق سمجھتا ہے کہ وہ اپنے گوشوں اور حجروں سے باہر نکلیں اور خدا کے بندوں کو سیدھی راہ کی دعوت کریں وہ جبراً اُن کو خلوت سے جلوت کی طرف لے آتا ہے اور زمین پر اپنے قائم مقام بناکر اُن کے ذریعہ سے دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتا ہے اور اُن کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے او ردُنیا پر اُن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اُن کی تائید میں وہ قدرت کے نمونے ظاہر کرتا ہے کہ آخر ہر ایک عقلمند کو ماننا پڑتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں اور چونکہ وہ زمین پر خدا کے قائم مقام ہوتے ہیں اس لئے ہر ایک مناسب وقت پر خدا کی صفات اُن سے ظاہر ہوتی ہیں اور کوئی امر اُن سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی صفات کے برخلاف ہو بیشک یہ سچ بات ہے کہ جیسا کہ خدا حلیم و کریم ہے ایسا ہی حلم و کرم اُن سے بھی ظاہر ہوتاہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ 296)

یہ وہ پاکیزہ صفات ہیں جن کا ایک بہترین نمونہ آج ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے وجودباجود میں ظاہروباہرہے۔جس کی تقلید خاص طورپرموجودہ حالات میں پوری جماعت کو کرنی چاہیے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button