حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے (قسط 2)

خدا اپنی طرف آنے والے ہر قدم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے

جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے شکور کا لفظ استعمال کرتا ہے تو بندوں والی عاجزی اور شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہ جب شکور بنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی عاجزی اور شکرگزاری اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کو پسند کیا ہے اور خالص ہو کر اس کی خاطر کی گئی عبادتیں اور تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں۔ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غفور کے لفظ کے ساتھ شکور کا لفظ استعمال فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے اور قدردان ہے۔ انسان جو کمزور ہے جب اس کو احساس ہو جائے کہ میں نے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر بجا لانی ہے اور اس کا شکر گزار بندہ بننا ہے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھکنا ہے تو اللہ تعالیٰ جو بہت بخشنے والا ہے، جس کی رحمت بہت وسیع ہے وہ اپنی مغفرت کی چادر میں اپنے بندے کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اس کے گناہوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے اپنے بندے کے ہر قدم کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے انعامات میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے بندے کو نوازتا ہے۔ اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں۔ اگر ایسے مہربان اور قدر دان خدا کو چھوڑ کر بندہ اور طرف جائے تو ایسے شخص کو بیوقوف اور بدقسمت کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

پس آپ لوگ جو اس ملک میں آکر آباد ہوئے ہیں، اپنے جائزے لیں۔ آپ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس پر نظر رکھیں تو آپ میں سے اکثر یہی جواب پائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہے۔ اپنے وطن سے بے وطنی کوئی بِلاوجہ اختیار نہیں کرتا۔ یا تو ظالموں کی طرف سے زبردستی نکالا جاتا ہے یا ظلموں سے تنگ آ کر خود انسان نکلتا ہے، یا معاش کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اگر احمدی اپنے جائزے لیں تو صاف نظر آئے گا کہ جو صورتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے اگر پہلی صورت مکمل طور پر نہیں تو دوسری دو صورتیں بہر حال ہیں۔ ظلموں سے تنگ آکر نکلنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ذہنی سکون اور معاش کی تلاش کی وجہ سے ہی ہے۔ اور ان ملکوں کی حکومتوں نے آپ کے حالات کو حقیقی سمجھ کر آپ لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ سب فضل ہم پر احمدیت کی وجہ سے کئے ہیں۔ پس یہ پھر اس طرف توجہ دلانے والی چیز ہے کہ احمدیت کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جو ایک مثال ہو تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری ہو گی۔

جماعت کی قدر کریں

اگر جماعت کی قدر نہیں کریں گے اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے۔ پس غور کریں، سوچیں کہ اگر یہ دنیا آپ کو دین سے دور لے جا رہی ہے تو یہ انعام نہیں ہلاکت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر ہے۔ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جس کے لئے آنحضرتﷺ نے سلام بھیجا ہے۔ (المعجم الاوسط جلد 3 من اسمہ عیسیٰ حدیث نمبر 4898 صفحہ 383-384۔ دار الفکر، عمان اردن طبع اول 1999ء)

تو کیا ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی چیز ہے؟ یقیناً یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے۔ پس اس اعزاز کی قدر کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ یہ قدر پھر ایک حقیقی احمدی کو عبدِ شکور بنائے گی اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتے دیکھے گا۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے منسوب ہونا ایک عہد بیعت ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منسوب ہونا صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ایک عہدِ بیعت ہے جو ہم نے آپ سے کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے نام پر خلیفہ وقت سے وہ عہد کیا ہے۔ اس بیعت کے مضمون کو سمجھنے کی بھی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔ بیعت بیچ دینے کا نام ہے۔ یعنی اپنی خواہشات، تمام تر خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کے حکموں پر قربان کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا ایک عہد ہے۔ اپنی مرضی کو بالکل ختم کرنے کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا جاتا ہے اور اگر اس دن پر یقین ہو جو خدا تعالیٰ سے ملنے کا دن ہے، جس دن ہر عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے کن کن باتوں پر ہم سے عہد لیا ہے۔ ان کو میں مختصر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ہر ایک اپنے جائزے خود لے کہ کیا اس کی زندگی اس کے مطابق گزر رہی ہے یا گزارنے کی کوشش ہے۔ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر کہ

وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل: 35)

اور اپنے عہد کو پورا کرو، ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہو گی، ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک اخروی اور ہمیشہ کی زندگی کا دور شروع ہونا ہے۔

شرائط بیعت کا مختصر ذکر

1۔ ہر قسم کے شرک سے دور رہو

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے کیا عہد لیا ہے؟ اس کو مَیں مختصر بیان کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ سچے دل سے ہر قسم کے شرک سے دور رہنے کا عہد کرو۔ اور شرک کے بارے میں آپ نے بڑی وضاحت سے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ شرک صرف ظاہری بتوں اور پتھروں کا شرک نہیں ہے بلکہ ایک مخفی شرک بھی ہوتا ہے۔ اپنے کاموں کی خاطر اپنی نمازوں کو قربان کرنا یہ بھی شرک ہے۔ نمازوں سے بے توجہگی دوہرا گناہ ہے۔ ایک تو اپنے مقصدِ پیدائش سے دوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ دنیا کو اُس پر مقدم کرنا ہے۔ گویا کہ رازق خدا تعالیٰ نہیں بلکہ آپ کی کوششیں ہیں اور آپ کے کاروبار یا ملازمتیں ہیں۔ بعض دفعہ اولاد بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے۔ بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی یاد کو یہ چیزیں بھلا دیتی ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دور ہٹے ہیں تو اولاد کی وجہ سے۔ اولاد کے بے جا لاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولاد کو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (المنافقون: 10)

کہ اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں اللہ کے ذکرسے غافل نہ کر دیں۔ پس جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی دوسری چیز اہمیت حاصل کرے گی تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی یاد، اس کی عبادت سے غافل کرے گی اور یہی مخفی شرک ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر دوسری چیزوں کو ترجیح دی جا رہی ہو۔ یہ غفلت معمولی غفلت نہیں ہے بلکہ ہلاکت کی طرف لے جانے والی غفلت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ نہ سمجھناکہ ہمارا عہدِ بیعت کر لینا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو جانا کافی ہے بلکہ ہر لمحہ تمہیں خدا تعالیٰ کی یاد سے اپنے دل و دماغ کو تازہ رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر قسم کے شرک سے انتہائی دوری پیدا ہو جائے۔

2۔ برائیوں سے بچیں

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بدنظری، لڑائی جھگڑا، ظلم، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے۔ ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بچ رہا ہوں؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button