حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ سنگاپور کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍دسمبر 2021ء کو مجلس خدام الاحمدیہ سنگا پور کے ممبران سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ19 ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے طٰہٰ مسجد سنگا پور سے شرکت کی۔

ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہواجس کے بعد جملہ شاملین ملاقات کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے سوال کیاکہ آپ ایمان اور روحانیت کے لحاظ سے یہاں سنگا پور کے نوجوان خدام کو کیا نصیحت فرمائیں گے؟

حضور انور نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ مجھے ایک فقرے میں کوئی نصیحت فرمائیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور پھر سب کام کرو۔ اگر آپ کو خدا تعالیٰ کا تقویٰ ہوگا تو آ پ پھر سیدھے راستے سے نہیں بھٹکیں گے۔ آپ برے کام نہیں کریں گے، آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں گے۔ آپ ہمیشہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے ہوں گے۔ تو اگر آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے پھر آپ سب نیکیاں بجا لا سکتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، اللہ ہمیں ہمیشہ دیکھ رہا ہے۔

ایک اَور خادم نے سوال کیاکہ حضور انور نے کینیڈا کے خدام سے ملاقات کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرما یا تھا کہ جو لوگ ویکسین نہیں لگواتے وہ بڑے نادان ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو عہدیدار نہیں ہو نا چاہیے۔ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو ویکسین نہیں لگوانا چاہتے تھے لیکن جب میں نے حضور انور کا یہ پیغام سنا تو میں نے فوراً ویکسین لگوالی۔ تو حضور میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیوں فرمایا کہ ہم بڑے نادان ہیں؟ وہ کیا بات ہے جس سے ہم بے خبر ہیں؟ کیا حضور اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں ؟

حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ انسان جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ دوسروں کے لیے بھی پسند کرنی چاہیے۔ تو چونکہ میں نے ویکسین لگوائی ہوئی ہے اس لیے میں نے سب کو کہا کہ آپ کے لیے ویکسین لگوانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ نہ لگوائی جائے۔ اس لیے میں نے یہ کہا تھا ۔ میرے نظریئے کے مطابق اگر آپ ویکسین نہیں لگواتے تو آپ صرف اپنے آپ کو ہی اس وبا کے حوالہ سے خطرے میں نہیں ڈال رہے بلکہ آپ دوسروں میں یہ بیماری پھیلانے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ تو اس لیے دوسروں کی خاطر ہمیں کووڈ کی ویکسین لگوانی چاہیے۔ اور جہاں تک مجھے اس کا علم ہے میں نے بہت سے سائنسدانوں اور ڈاکٹرز سے بات کی ہے جن میں اکثر یہی کہتے ہیں اور ثبوت دیتے ہیں کہ ویکسین لگوانے کے نتائج بڑے مثبت ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سے سو فیصد لوگ شفا پاجائیں گے اور بیماری سے بچ جائیں گے، ایسا نہیں ہے۔ لیکن (ویکسین لگوانے والوں کی) ایک بھاری اکثریت ایسی ہے جن میں بیماری لاحق ہونے کی صورت میں بھی مثبت نتائج نظر آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بیماری جان لیوا ثابت نہیں ہوئی۔ اس لیے میرے نظریے کے مطابق یہ بہتر ہے کہ احمدی احباب ویکسین لگوائیں۔ لیکن میں بھی کسی پر جبر تو نہیں کر سکتا۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ تمام عہدیداران جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی انہیں اپنے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے۔ یہ میرا پاسنگ ریمارک تھا کہ ایسے لوگوں کو اپنے عہدے پر فائز نہیں رہنا چاہیے۔ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کو خود بہت محتاط ہونا چاہیے۔ اور یہ سمجھنا چاہیے کہ میں اس ویکسین کو کس قدر ضروری سمجھتا ہوں۔ ورنہ میں نے نہیں کہاتھا کہ آپ میں حکمت نہیں ہے۔ آپ ایک نہایت داناشخص ہو سکتے ہیں ، آپ ایک مذہبی آدمی ہیں، آپ کو دین کا علم ہے۔ اس لحاظ سے آپ نادان نہیں ہیں۔ لیکن اس ویکسین کے لحاظ سے یا بیماری کے علاج کے حوالہ سے آپ نادان ہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ ہر پہلو سے نادان ہیں، نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔

شاملین مجلس میں سے ایک خادم نے سوال کیا کہ ایک مسلمان اپنے دل کو نفرت سے کیسے پاک کرسکتا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ ہم ایک ایسے رسول کے پیروکار ہیں جو آخری نبی ہیںﷺ اور جن کا دل ایسی تمام برائیوں اور نفرتوں سے پاک تھا۔ مزید یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دور میں آنحضرت ﷺ کے ظلی نبی کے طور پر تشریف لائے ہیں ۔ آپؑ نے فرمایا کہ میں اس دور میں بنی نوع انسان کو ان کے خالق سے جوڑنے کے لئے آیا ہوں اور دوسرا یہ کہ انہیں حقوق العباد کی طرف توجہ دلاؤں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ہم یہ حقوق ادا نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمارے دل پاک نہ ہو جائیں اورہمارے دلوں میں کوئی دشمنی ، عناد اور حسد نہیں ہونا چاہیے۔ صرف تب ہی ہم ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں۔ ہم یہ ٹارگٹ خود بخود حاصل نہیں کر سکتے، اس کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ آپ کو اپنی پنجوقتہ نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو پاک کرے اور کسی بھی شخص کے لیے آپ کے دل سے نفرت مٹا دے۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عفو و درگزر کی عادت ڈالو۔ اور انسان کے دل میں کسی کے لیے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے ہم استغفار کرتے ہیں۔ ہمیشہ استغفار کرتے رہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ (پڑھیں)۔پھر اپنی پنجوقتہ نمازوں میں بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل سے ہر قسم کی برائیاں اور کسی سے بھی نفرت مٹا دے۔

ایک دوسرے خادم نے بتایا کہ احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف فتویٰ ابھی بھی مسلم اٹھارٹی آف سنگا پور کی ویب سائٹ پر موجودہے۔ آپ کے نزدیک اس کے خلاف بہترین رد عمل کیا ہونا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں وہ کہتے ہیں کہ آپ مسلمان نہیں ہیں لیکن اگر آپ حقیقی مسلمان ہیں تو آپ کو اپنے دوستوں کو بتانا چاہیے کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں کیونکہ ہم واحد اور قادرخدا کو مانتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ ہم آپ کو آخری نبی ماننے والے ہیں مگر ہماری تشریح کچھ مختلف ہےکہ آپﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ایک وجود نے آخری زمانہ میں مبعوث ہونا تھااور ہمارا ماننا ہے کہ وہ وجود حضرت مرزا غلام احمد صاحب آف قادیان کی صورت میں تشریف لا چکے ہیں (جو مسیح موعود اور امام مہدی ہیں)۔ آپ آنحضرت ﷺ کےامتی نبی ہیں جو آپ ﷺ کے تابع ہیں۔ آپ ﷺ کی پیشگوئی تھی کہ وہ (مسیح موعود اور امام مہدی) آئے گا۔ اور قرآن میں بھی یہی لکھا ہوا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک نبی آئے گا۔ تو ہم مانتے ہیں کہ وہ وجود آچکاہے اور ان کا مقام مسیح موعود اور امام مہدی کا ہے اور آپ کا نام آنحضرتﷺ نے اپنی ایک حدیث میں چار مرتبہ نبی بیان فرمایا ہے۔ یوں ختم نبوت بھی نہیں ٹوٹتی کیونکہ آپ علیہ السلام آنحضرتﷺ کے سچے متبع ہیں۔ چنانچہ جو آپ کے قریبی دوست ہیں ان کو بتائیں کہ یہ فتویٰ بالکل غلط ہے اور وہ (مخالفین) ہمارے اعتقادات کو نہیں سمجھتے۔ وہ ہمارے ساتھ کوئی بحث نہیں کرتے اور وہ ہماری تشریح کو غلط سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی حدیث جو سمجھنے میں ان کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر آپ مسیح کی آمد کے منتظر ہیں تو جب وہ آئیں گے تو آپ کے مطابق ان کا مقام نبی کا ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ مانتے ہیں کہ (حضرت)عیسیٰ دوبارہ آئیں گے تو انہیں تو نبوت کا مقام دیا جا چکا ہے۔ جب وہ ایک دفعہ نبی بن گئے تو اللہ تعالیٰ ان سے یہ ٹائیٹل واپس نہیں لے گا اور وہ نبی ہی رہیں گے۔ اور جب وہ نبی ہیں اور اگر وہ خود آئیں تو اس سے ختم نبوت ٹوٹ جائے گی۔ لیکن ہم یہاں جو تشریح کرتے ہیں وہ درست ہے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ جس نے آنا تھا یہ ایک تمثیل تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود آنا تھامگر مراد یہ تھی کہ ایک شخص حضرت عیسیٰ کے نقش قدم پر آئے گا جو آنحضرت ﷺ کا متبع ہوگا اور جسے نبوت کا مقام آنحضرت ﷺ کےامتی کے طور پر دیا جائے گا۔ اس طرح اس انداز میں آپ اپنے دوستوں سے بات چیت کرتے ہوئے لوگوں کا یہ شک و شبہ دور کرسکتے ہیں۔تو یہ تبلیغ ہے، جتنی بھی تبلیغ آپ کر سکتے ہیں۔ اس سے آپ یہ پیغام پھیلائیں گے اور لوگوں کے شکوک و شبہات دور کریں گے۔ تو یہ سب آپ کی تبلیغ پر منحصر ہے کہ آپ کس قدر مؤثر تبلیغ کرتے ہیں اور کس جرأت سے اپنے خیالات کو بیان کر سکتے ہیں۔ جہاں تک فتاویٰ کا ذکرہے تو وہ تو ہمیشہ سے ہی لگتے رہے ہیں۔ غیر احمدی ہمیشہ ہمارے خلاف بولتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم حقیقی مسلمانوں کا طرزعمل اختیار کرتے ہیں اور اس حوالے سے اپنا مثالی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ہمارا ہر عمل اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہونا چاہیے اور جب لوگ دیکھیں گے کہ ہم ایک مسلمان کی طرح طرز عمل اختیار کر رہے ہیں تو انہیں خود بخود سمجھ آجائے گی کہ یہ فتاویٰ سب غلط ہیں۔

اللہ حافظ و ناصر۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button