کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

شہید مرحوم… بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاسکتا۔

اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں مسیح موعود کی نبوّت ظلّی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ایک وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔ یا احمد جُعلتَ مُرسلاً۔ اے احمد تو مرسل بنایا گیا۔ یعنی جیسے کہ تو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے۔ کیونکہ احمد نبی ہے۔ نبوت اس سے منفک نہیں ہو سکتی۔ اور ایک دفعہ یہ ذکر آیا کہ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد رنگ چادروں میں اُترے گا۔ ایک چادر بدن کے اوپر کے حصّہ میں ہوگی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصّہ میں۔ سو مَیں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھاکہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مُراد بیماری ہے۔ اور وہ دونوںبیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔ ابھی وہ اسی جگہ تھے کہ بہت سے یقین اور بھاری تبدیلی کی وجہ سے اُن پر الہام اور وحی کا دروازہ کھولا گیا۔اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کھلے لفظوں میں میری تصدیق کے بارے میں اُنہوں نے شہادتیں پائیں جن کی وجہ سے آخرکار اُنہوں نے اس شہادت کا شربت اپنے لئے منظور کیا جس کے مفصل لکھنے کے لئے اب وقت آگیا ہے۔ یقیناًیاد رکھو کہ جس طرز سے انہوں نے میری تصدیق کی راہ میں مرنا قبول کیا اِس قسم کی موت اسلام کے تیرہ سو برس کے سلسلہ میں بجز نمونہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کسی جگہ نہیں پاؤگے۔ پس بلاشبہ اس طرح ان کا مرنا اور میری تصدیق میں نقد جان خدا تعالیٰ کے حوالہ کرنا یہ میری سچائی پر ایک عظیم الشان نشان ہے مگراُن کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔ انسان شک و شبہ کی حالت میں کب چاہتا ہے کہ اپنی جان دےدے اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو تباہی میں ڈالے۔ پھر عجب تریہ کہ یہ بزرگ معمولی انسان نہیں تھا بلکہ ریاست کابل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی۔ اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سردار قرار دیا تھا۔ وہ سب سے زیادہ عالم علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھے جاتے تھے اور نئے امیر کی دستاربندی کی رسم بھی انہیں کے ہاتھ سے ہوتی تھی۔ اور اگر امیر فوت ہو جائے تو اُس کے جنازہ پڑھنے کے لئے بھی وہی مقرر تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں معتبر ذریعہ سے پہنچی ہیں۔ اور ان کی خاص زبان سے مَیں نے سُنا تھا کہ ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب اُن کے معتقد اور ارادتمند ہیں جن میں سے بعض ارکان ریاست بھی تھے۔ غرض یہ بزرگ ملک کابل میں ایک فرد تھا۔ اور کیا علم کے لحاظ سے اور کیا تقویٰ کے لحاظ سے اور کیا جاہ اور مرتبہ کے لحاظ سے اور کیا خاندان کے لحاظ سے اُس ملک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا۔ اور علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحبزادہ اور اخوان زادہ اور شاہزادہ کے لقب سے اُس ملک میں مشہور تھے۔ اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور تفسیر اور فقہ اور تاریخ کا اپنے پاس رکھتے تھے۔ اور نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص تھے۔ اور ہمیشہ درس تدریس کا شغل جاری تھا اور صدہا آدمی اُن کی شاگردی کا فخر حاصل کر کے مولویت کا خطاب پاتے تھے لیکن باایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاسکتا۔ ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے۔ اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھنے لگتا ہے۔ اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اُس کو مانع ہو جاتی ہےمگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجودیکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھامگر تب بھی کسی حقیقت حقّہ کے قبول کرنے سے اُس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی۔ اور آخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشاء خدا کا ہے۔ اب ہم ذیل میں اس بزرگ کی شہادت کے واقعہ کو لکھتے ہیں کہ کس دردناک طریق سے وہ قتل کیا گیا اور اس راہ میں کیا استقامت اُس نے دکھلائی کہ بجُز کامل قوّت ایمانی کے اس دارالغرور میں کوئی نہیں دکھلا سکتا۔ اور بالآخر ہم یہ بھی لکھیں گےکہ ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ آج سے تئیس برس پہلے اُن کی شہادت اور ان کے ایک شاگرد کی شہادت کی نسبت خدا تعالیٰ نے مجھے خبردی تھی جس کو اُسی زمانہ میں مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کیا تھا۔ سو اس بزرگ مرحوم نے نہ فقط وہ نشان دکھلایا جو کامل استقامت کے رنگ میں اُس سے ظہورمیں آیا بلکہ یہ دوسرانشان بھی اُس کے ذریعہ سے ظاہر ہوگیا جو ایک مدّت دراز کی پیشگوئی اس کی شہادت سے پوری ہوگئی جیسا کہ ہم انشاء اللہ اخیرمیں اس پیشگوئی کو درج کریں گے۔

واضح رہے کہ براہین احمدیہ کی پیشگوئی میں دو شہادتوں کا ذکر ہے۔ اور پہلی شہادت میاں عبدالرحمٰن مولوی صاحب موصوف کے شاگرد کی تھی۔ جس کی تکمیل امیر عبدالرحمٰن یعنی اس امیر کے باپ سے ہوئی۔ اِس لئے ہم بلحاظ ترتیب زمانی پہلے میاں عبدالرحمٰن مرحوم کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ45تا 47)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button