متفرق مضامین

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ مثل گلاب ہے

(الرحیق المختوم۔ یوکے)

گُلاب ایسا پھول ہےجو ذہن میں آتے ہی خوشبو بکھیر دیتا ہے۔ محبت کی علامت سمجھا جانے والا ساری دُنیا میں مشترکہ جو پھول ہے وہ گلاب ہے۔ ایران، امریکہ ،برطانیہ سمیت بہت سے ممالک کا قومی پھول گلاب ہے۔ یونانی اور رومن لوگ اپنے غسل میں گلاب کی پتیوں کااستعمال کرتے رہے ہیں۔ انسان کے لیے تمام پھولوں میں سب سے بڑھ کر مفید پھول گلاب ہے۔ آنکھوں میں اس کا حسن لاثانی ہے۔ حکماء اطباءقدیم سے گلاب سے بیماریوں کا علاج کرتے آ رہے ہیں۔ گلاب جلد کو تادیر جوان رکھتا ہے اینٹی بیکٹیریل ہوتا ہے۔پسینے کی کثرت کو روکتا ہے، خشک جلد کے لیے اکسیر ہے قبض کا بہترین علاج ہے۔ خشک آنتوں کو تر کرتا ہے۔ گویا عرق گلاب حسن اورصحت کا ایسا مظہر ہے جس کے اندر قدرت نے انسانوں کےلیے شفا رکھی ہے۔ عرق گلاب جلدی امراض کے علاوہ جسم انسانی کے دیگراعضاء کےلیے بھی کارآمد دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔طب نے عرق گلاب کو آنکھوں کا نور کہا ہے ۔ ذہن کو پرسکون اور اعصاب کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس [یعنی گلاب ]کا رنگ نہایت خوشنما اور خوب ہے ا س کی خوشبو نہایت دلارام اور دلکش ہےاور اس کے ظاہر بدن میں نہایت درجہ کی ملائمت اور تروتازگی اور نرمی اور نزاکت اور صفائی ہے اور دوسری وہ خوبیاں ہیں جو باطنی طور پر حکیمِ مطلق نے اِس میں ڈال رکھی ہیں یعنی وہ خواص کہ جو اس کے جوہر میں پوشیدہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ مفرح اور مقوّیٔ قلب اور مُسکن صفراہے اور تمام قویٰ اور ارواح کوتقویت بخشتا ہےاور صفراور بلغم رقیق کا مسہل بھی ہے اور اسی طرح معدہ اور جگر اور گردہ اور امعا اور رِحم اور پھیپھڑہ کو بھی قوّت بخشتا ہے اور خفقان حارّ اور غشی اور ضعفِ قلب کے لئے نہایت مفید ہے اور اسی طرح کئی امراضِ بدنی کو فائدہ مند ہے ۔…ہرگز کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا پھول بنا دے جو اس پھول کی طرح رنگ میں خوشنما اورخوشبو میں دلکش اور بدن میں نہایت تروتازہ اور نرم اور نازک اور مصفا ہو اور باوجود اس کے باطنی طور پر وہ خواص رکھتا ہو جو گلاب کےپھول میں پائے جاتے ہیں‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ396تا397،حاشیہ نمبر11)

اب میں آپ کی خدمت میں امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام مہدی کا ایک پاکیزہ کشف بیان کرتا ہوں جس کو پڑھ کر گلاب سے محبت مزید بڑھ جائےگی۔اور اس کشف سے ایک اَور مزید وجہ سامنے آتی ہے جس کی وجہ سے گلاب کا پھول پھولوں کا شہنشاہ ہے اوراسے بےنظیر حُسن عطا ہوا ہے۔

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ایک مرتبہ اِس عاجز نے اپنی نظرِ کشفی میں سورۃ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اِس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی خوبصورت اور دلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہےسُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اِس قدر لداہوا ہے کہ جس کا کوئی انتہا نہیں اور جب یہ عاجز اِس سورتہ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اِس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اُوپر کی طرف اُڑتے ہیں اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بارے سُندر اور تروتازہ اور خوشبودارہیں جن کےاُوپر چڑھتے وقت دل و دماغ نہایت معطّر ہوجاتا ہے اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنی بےمثل لذتوں کی کشش سے دُنیاو مافیہا سے نہایت درجہ کی نفرت دلاتے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ 395،حاشیہ نمبر11)

اِس کشف سے معلوم ہوا کہ گلاب کے پھول کو سورت فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے اور اِسی مناسبت کے لحاظ سے اِس مثال کو اِختیار کیا گیا ہے۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مناسبت میں ہم گلاب کے فوائد تو جان چکے ہیں۔ سورت فاتحہ کی خصوصیات کیا ہیں اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور حضور علیہ السلام کے ہی الفاظ میں دیکھتے ہیں کہ آپ کیا فرماتے ہیں۔

ایک جگہ حضرت احمد علیہ السلام امام مہدی و امام الزماں فرماتے ہیں:’’اِس سورۃ کو قرآن کریم کے مضامین کے لئے حَکَمقرار دیا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:’’یہ وہی سورۃ فاتحہ ہےجس کی خبر خدا تعالیٰ کے انبیاء میں سے ایک نبی نے دی اُس نبی نے کہا کہ میں نے ایک قوی فرشتہ دیکھا جو آسمان سےاُترا، اُس کے ہاتھ میں سورۃ فاتحہ ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل میں تھی اور خدائے قادر کے حُکم سے اُس کا دایاں پاؤں سمندر اور بایاںپاؤں خشکی پر پڑا اور وہ شیر کے غرانے کی مانند بلند آواز میں پکارا۔ اُس کی آواز سے سات گرجیں پیدا ہوئیں جن میں سے ہر ایک میں ایک مخصوص کلام (جملہ) سنائی دیا گیا اور کہا گیا کہ ان گرجوں میں سے پیدا ہونے والے کلمات کو سربمہر کردے اور اُنہیں مت لکھ۔

خدائے مہربان نے ایسا ہی فرمایا اور نازل ہونے والے فرشتہ نے اِس زندہ خدا کی قسم کھا کر جس کے نور نے سمندروں اور آبادیوں کوروشن کیا ہے کہا کہ اِس (مسیح موعود) کے زمانہ کے بعد اِس شان و مرتبہ کا زمانہ نا آئےگا۔ اور مفسرین کا اِس بات پر اِتفاق ہے کہ یہ پیشگوئی مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہے۔(اردو ترجمہ از اعجاز المسیح،روحانی خزائن جلد 18 صفحہ71تا72)

اب ہم مختصراً مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں۔

سب سے پہلے یاد رہے کہ قرآن نے ماموریت اور مدعی کے متعلق ایک دائمی اصول سورت المومن آیت 29 میں مقرر فرمایا ہے جس میںوضاحت سے فرما دیا گیا ہے کہ ماموریت کے دعوےدار کو اگر لوگ سچانہ سمجھیں تو اس کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہیے۔

فرمایا:وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ۔(المومن:29)

اور فرعون کی آل میں سے ایک مومن مرد نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم محض اس لئے ایک شخص کو قتل کروگے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے۔ اگر وہ جھوٹا نکلا تو یقیناً اُس کا جھوٹ اُسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہوا تو جن چیزوں سے وہ تمہیں ڈراتا ہے ان میں سے کچھ ضرور تمہیں آپکڑیں گی۔ یقیناً اللہ اُسے ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھا ہوا (اور) سخت جھوٹا ہو۔

اب اصل مضمون کی طرف آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعوؑد کی پیش گوئیاں کتب سابقہ اور اسلام کے دینی ادب میں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاًانجیل میں ہے ’’میں تمہیں یتیم نہیں چھوڑوںگا۔ میں تمہارے پاس آؤںگا…تم سُن چکے ہو کہ میں نے تُم سے کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارےپاس پھر آتا ہوں‘‘

(یوحنا باب 14آیت 18تا28)

اس کے ساتھ ایک مزید عظیم الشان پیش گوئی ہم دیکھتے ہیں:’’جیسا کہ نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِ آدم کے آنے کے وقت ہوگا کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتےاور بیاہ کرتے تھے اُس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوا اور جب تک طوفان آکر اُن کو بہا نہ لےگیا ان کو خبر نہ ہوئی اس طرح ابنِ آدم کاآنا ہوگا…پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کس دن آئے گا…جس گھڑی تُم کو گمان بھی نا ہوگا ابنِ آدم آجائے گا‘‘(متی باب 24آیت 37تا44)

اسلامی کتب میں ہم اگر دیکھیں تو مختلف بیان مسیح موعود کے متعلق جا بجا ملیں گے۔سورت النور اور سورت الجمعہ کے بیان اور ان کی متعلقہ تفاسیر کو ایک طرف رکھ کر اگرہم صحیح بخاری میں دیکھتے ہیں جس کی ایک حدیث کے مطابق’’اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا گو ایک فارسی النسل شخص یا اشخاص ایمان کو واپس لے آئیں گے‘‘ پھر ایک حدیث میں بیان ہوا ’’تُم کیسے نازک حالت سے گزر رہے ہوگے جب تم میںابنِ مریم نازل ہوںگے‘‘ صحیح مسلم میں اضافہ ہے کہ ’’جو تمہاری امامت اور قیادت کا فریضہ سر انجام دیں گے اور تم میں شامل ہوںگے‘‘

قارئین جو شخص اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہے وہ یہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ مسلمانوں کے انتہائی تنزل اور نازک زمانے میں ایک خاص شان کے موعود نے آنا ہے یہ علیحدہ معاملہ ہے کہ آیا اُس نے مادی ہتھیاروں سے لیس ہونا ہے یا آسمانی اور روحانی حربوں سے کام لے گا۔

ان موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ مسیح الزمان مہدئ دوراں قادیان (انڈیا) میں مبعوث ہوئے جن کا نام مرزا غلام احمد ہے جن کے والدغلام مرتضیٰ اور خاندان مغل قبیلہ برلاس آبائی علاقہ سمرقند ہے۔ آپؑ کی پیدائش 1835ء سےلےکر آپؑ کی وفات 1908ء تک کا زمانہ ایک حیرت انگیززمانہ ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ قدم قدم پر خدا کی مدد اور نصرت کے لاتعداد ثبوت ملتے ہیں۔ آپؑ کا خمیر عشقِ محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے گوندھا گیا، آپؑ کی سرشت سے ناکامی کو مٹا دیا گیا، آپؑ کے وجود سے تجدیدِ دین ہوئی،لوگوں کو زندہ خدا ملا، خواب میں دیدارِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرنے والے کھلی آنکھوں سے ملاقات کرنے لگے۔قرآن طاقوں سے نکل کر لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہونے لگا،اِس رجل ِموعود کی خاطر ایسی نشانیاں ظاہر ہوئیں جو روزِ ازل سے کبھی نا ظہور پذیر ہوئی تھیں یعنی تیس دِنوں کے اندر اندر چاند اورسورج گرہن، فتنۂ صلیب توڑا گیا، خنزیری صفت لوگوں کو مار کر الٰہی وجودوں کی صورت زندہ کیا گیا، ناسخ منسوخ ختم کیا، آپ کی برکت سے تثلیث و ابنیت کاخاتمہ ہوا، آپ کی انگلیاں انقلاب کے تاروں پر رہی، مزید برآں آپ کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نظم و ضبط، اتحاد،اتفاق اوراس کی برکات کے شعور کو عملی شکل دی اور جماعت احمدیہ جیسی منظم اور عظیم الشان جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نصب العین ہے کہ پہلےاپنے نفس کی اصلاح پھر ساری دُنیا کے لیے دعوتِ خیر۔ پھر آپ کا کارنامہ جہاد کے حقیقی معنوں میںاحیا ہے جو آپ کی برکت سے دُنیا کو نصیب ہوا۔ ربِ کعبہ کی بےشمار رحمتیں اور فضل ہوں آپ علیہ السلام پر۔ آپ کی پوری دُنیا کے منکرین کو، للکار ہے: ’’میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا ہے اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گااور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے‘‘(تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 67)

اس لحاظ سے خاکسار کا ماننا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی مثلِ گلاب ہے جو اپنی مثال آپ ہے دُنیا کی کوئی طاقت کوئی تنظیم کوئی منصوبہ بندی اس زمانے کی نظیرنہیں پیدا کر سکتی۔ میرے حبیب کے مطابق گلاب کی کھاد خون اور ہڈیاں ہے۔ یہ کھاد جتنی ملے گلاب اُتنا ہی سُرخ اور خوبصورت کھلتے ہیں اور مہکتے ہیں۔ یہ کھاد کبھی نبی بنتے ہیں تو کبھی شہید۔ پس اس مسیح کے گلاب نما زمانے کوایک زمانے سے نبیوں نے دُعائیں دی ہیں عرشِ الٰہی پر اس کی منصوبہ بندی ہوئی ہے۔صدیقوں نے گواہیاں دی ہیں۔شہیدوں کا خون پہنچاہے۔اِس زمانے کو تب جا کر چودھویں صدی میں یہ گلاب کھِلا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اوڑھنا بچھونا قرآنِ کریم رہا ہے۔ آپؑ کو ایسا معارفِ قرآن عطا ہوا جو آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کو نہ عطا ہوا۔ آپؑ کےقلم سے قرآن کے وہ مطالب دُنیا کو ملے جنہوں نے عارفین کی آنکھیں کھول دیں، آپؑ کی تفسیرِ قرآن بھی ایک الگ شان رکھتی ہے اِک بحرِبےکنار ہے جو ہر ذوق کے قاری کو سیراب کرتی ہے۔

شہنشاہِ گُل سورت فاتحہ کے تناظر میں ہم اختصار کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس سورت کی کونسی خوبیوں کا ذکر فرمایا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآنِ شریف کا تو ایک نکتہ نکتہ تواتر کے نیچے ہے مگر سورت فاتحہ بہت ہی بڑے تواتر سے ثابت ہے‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلد اوّل صفحہ 20)

نیز فرماتے ہیں کہ’’ فاتحہ ایک پاکیزہ درخت ہے جو ہر وقت معرفت کے پھل دیتا ہے اور حق و حکمت کے جام سے سیراب کرتا ہے جب کوئی شخص اپنےدل کے دروازے کو اِس کا نور قبول کرنے کے لئے کھول دیتا ہے تو اس کا نور اس کے اندر داخل ہوجاتا ہے اور وہ اس سورت کے پوشیدہ اسرار سے آگاہ ہو جاتا ہےاور جو شخص اس دروازہ کو بند کر دیتا ہے وہ خود اپنے ہی فعل سے اپنی گمراہی کو دعوت دیتا ہے اور اپنی تباہی کامشاہدہ کرتا ہےاور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہو جاتا ہے‘‘(کرامات الصادقین،روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 145تا146)

جب ہم حضرت احمد علیہ السلام کا سورت فاتحہ کے متعلق معرکہ آرا کلام پڑھیں تو یہ بھید کھلتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی شان کیا ہے،کیا مقام ہےاور آپ کا قلم کس قدر پُرجوش ہے جس سے انوار کا دریا بہا ہے۔سورت فاتحہ کےوہ خزائن جو چودہ سو سال سے کسی پر ظاہر نہ ہوئے آپؑ پر کھلے۔کیسی کیسی خوشخبریاں آپ علیہ السلام نے اِن سات آیتوںسے کشید کیں اور تمام امراضِ روحانی کا اس ایک سورت سے حیات بخش علاج کیا۔اور یہ سب کچھ آپؑ کو اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیروی کی برکت سے ملا۔

حضرت صاحبؑ کا قلم ذولفقار تھا جو ہر طرح کے مزاج، مذاق، سوچ کو قلم کرکے ان کی جگہ معرفتِ الٰہی بھرتا ہے اس ذوالفقار سےشاہکار نکلتے تھے۔مثال کے طور پر سورت فاتحہ کی شان بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا:’’پس حق بات یہی ہے کہ سورت فاتحہ ہر علم و معرفت پر محیط ہے وہ سچائی اور حکمت کے تمام نکات پر مشتمل ہے اور یہ ہر سائل کےسوال کا جواب دیتی اور ہر حملہ آور دُشمن کو تباہ کرتی ہے نیز ہر مسافر کو جو مہمان نوازی چاہتا ہے کھلاتی اور آنے اور جانے والوں کو پلاتی ہے بے شک وہ ہر شُبہ کو جو ناکامی کی حد تک پہنچانے والا ہو زائل کر دیتی ہے اور ہر غم کو جس نے بوڑھا کردیا ہو جڑ سے اُکھیڑ دیتی ہےاور ہر گمشدہ راہنما کو (راہ راست پر) واپس لاتی اور ہر خطرناک دُشمن کو شرمندہ کرتی ہے طالبانِ ہدایت کو بشارت دیتی ہے گناہوں کے زہراور دلوں کی کجی کے لئے اِس جیسا کوئی اور معالج نہیں اور وہ حق اور یقین تک پہنچانے والی ہے‘‘(کرامات الصادقین ،روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 145)

حضرت مسیح موعود اِس زمانے کا گلاب ہیں جسکی خوشبو ہم ہر وقت آپؑ کے کلام سے محسوس کر سکتے ہیں۔آپؑ کی تحریرات سے جو روحانی خزائن ہیں ہم اپنے گھر بھر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے ان کے تقویٰ و طہارت کی وجہ سے خوشبو آتی ہے۔ہم اپنے بدنوںکے ساتھ اپنے گھروں کو بھی اِس گلاب سے معطر کر سکتے ہیں۔اُس گلاب یعنی شہنشاہ گل کا نام مرزا غلام احمد ہے فداہ نفسی و امی وابی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button