حاصل مطالعہ

ننگے سر نماز پڑھنے کے متعلق خدا اور اس کے رسول کا فرمان

(مولانا محمد صدیق امرت سری)

ایک عرب عالم دین سے دلچسپ گفتگو

’’اب سے تیس پینتیس سال قبل کا واقعہ ہے کہ جولائی 1946ء کے دوران ایک روز یہ خاکسار اور مکرم چوہدری عبدالحق صاحب فاضل ننگلی سابق مبلغ سرالیون مسجد احمدیہ ’’بو‘‘ (سیرا لیون) میں نماز مغرب پڑھ کر درس ا لقرآن کے لیے احباب جماعت کے ساتھ بیٹھے تھے کہ موریطانیہ ( وسط افریقہ ) کے ایک عرب عالم دین الحاج احمد شریف اباِّ نامی مسجد میں داخل ہوئے اور بعد السلام علیکم نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔

مسیح موعود کی بعثت کی اصل غرض

گو وہ انگریزی نہیں جانتے تھے تاہم اپنی نماز ختم کر کے درس قرآن کریم سنتے رہے درس کے اختتام پر ان سے دینی باتیں شروع ہو گئیں اور ان کے بعض سوالات کے جواب میں خاکسار نے انہیں احمدیت کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم حضرت رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر فرزند اور عظیم غلام حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مو عود یقین کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ صرف یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطابق حضرت مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور وہ یعنی با نئ جماعت احمدیہ وہی موعودمسیح محمدی ہیں جن کی آخری زمانہ میں آمد کی پیشگوئی قرآن کریم اور احادیث میں موجود ہے۔ اور وہ اسی طرح کے غیرشرعی اور تابعی نبی ہیں جیسے کہ آپ کے عقیدہ کےمطابق حضرت مسیح ناصری آسمان سے نزول کے وقت ہوں گے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی کوئی نئی امت نہیں بنائی اور نہ اب کوئی بنا سکتا ہے بلکہ وہ خود اپنے متاع یعنی حضرت خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور محض اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔

اس پر وہ کہنے لگے حضرت عیسیٰ مسیح ناصریؑ اس وقت آسمان پر تو بے شک نبی ہیں لیکن جب وہ زمین پر نازل ہوں گے تو نبی نہیں بلکہ محض و لی ہوں گے۔ میں نے عرض کیا ان کے نزول کی حدیثوں میں تو انہیں بار بار نبی اللہ کہا گیا ہے اور

یَھبُطُ نَبِیُّ اللّٰہ

وغیرہ کے الفاظ ان کے لئے استعمال ہوئے ہیں آپ انہیں نزول کے وقت محض ولی کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ علمائے امّت اور اولیائے کرام بھی لکھ گئے ہیں کہ امّت کے موعود مسیح بحیثیت نبی آئیں گے نہ کہ محض بحیثیت ولی۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ بھی بصراحت اس عقیدے کا اظہار فرماتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا

مَنْ قَالَ بِسَلبِ نَبُوَّتِہٖ فَقَد کَفَر حَقًّا۔

آخری زمانہ میں آنے والے موعود عیسی کی نبوت کا انکار کرنا کفر ہے۔ ( حجج الکرامہ)

اس کے بعد کچھ دیر ہمارے درمیان حیات وفاتِ مسیح ناصری علیہ السلام پر بحث ہوئی جس میں وہ چند منٹوں میں ہی لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے۔

ننگے سر کیوں نماز ادا کی؟

چونکہ انہوں نے اپنے لمبے لمبے بالوں کے ساتھ ننگے سر ہی مسجد میں نماز ادا کی تھی اور اس کے بعد ہمارے پاس بھی وہ ویسے ہی ننگے سر آبیٹھےتھے اس لئے ہماری جماعت کے بعض افریقن دوستوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے عالم دین ہوتے ہوئے بلا عذر ننگے سر کیوں نماز ادا کی ہے؟ جب کہ آپ کے پاس تو لیہ اور چادر وغیرہ بھی موجود ہے۔ انہوں نے فورا ًجواب دیا کہ نماز میں سر ڈھانپنا کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف مرضی کی بات ہے اور میرے نزدیک بالکل غیر ضروری ہے کیونکہ اس بارے میں کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہیں ہے اور اس حقیقت سے آپ کے احمدی عالم بھی بے خبر نہیں ہیں۔

بلا عذر ایسا کرنا نماز سے مذاق ہے

چونکہ ان کا یہ جواب درست نہیں تھا اور نہ صرف ہمارے بلکہ دوسرے مسلمان بھائیوں کے مسلک کے بھی خلاف تھا اس لیے اس عاجز نے ان کی بات کاٹ کر اسی وقت انہیں عرض کیا کہ میرے نزدیک نماز پڑھتے وقت سر ڈھانپنا ضروری ہےگو اس کے بغیر بھی نماز ہو سکتی ہے۔ یعنی جب کوئی مجبوری ہو، یا سر ڈھانپنے کے لئے کوئی چیز یا کپڑاوغیرہ میسّرنہ ہو۔ یہ نہیں کہ گھر سے عمداً ٹوپی یا کپڑالے کر مسجد نہ آئے اور نماز پڑھتے وقت سمجھ لیا کہ مجبوری ہے۔ یہ مجبوری نہیں بلکہ نماز سے مذاق ہے۔ پس بلا معقول عذرننگے سر نماز ادا کرنا نہایت معیوب اور مکروہ فعل تصور ہو گا نیز عمومی طور پر بھی سر ڈھانپنا اور ڈھانپ کر مجالس میں جانا ہمیشہ اسلامی معاشرے کا جزو قرار دیا گیا ہے اور عزت و احترام کی علامت اور وقار کا معیار سمجھا گیا ہے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر ڈھانپنے کو اسلامی معاشرے کا جزو قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے اَنَّ الفرقَ مَابَینَنَاوَبَینَ ا لمُشرِکِینَ ا لعِمَائِمُ عَلَی ا لقَلَانِس کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہم پگڑیاں ٹوپیوں پر پہنتے ہیں اور مشرک لوگ ایسا نہیں کرتے۔ یعنی پگڑی یا ٹوپی پہننا اسلامی معاشرے کی علامت ہے ورنہ اگر سر ننگا رکھنا اسلامی معا شرے میں شامل ہوتا تو حضورﷺ فرماتے، ہم میں اور مشرکوں میں یہ فرق ہے کہ وہ پگڑیاں اور ٹوپیاں پہنتے ہیں اور ہم مسلمان نہیں پہنتے، بلکہ ننگے سر رہتے ہیں۔ پس سر ڈھانپنا نہ صرف نماز میں ضروری ہےبلکہ ہمارے معاشرے کا جزو ہے۔ ( ترمذی جلد 1 باب ا للباس)

کیا صحابہ نے بلا عذر ننگے سر نماز ادا کی؟

میرا یہ جواب سن کر کہنے لگے میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ میں بھی عالم دین ہوں۔ میں نے تو یہ پڑھا ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ننگے سر نماز پڑھا کرتے تھے۔ مگر یہ نہیں پڑھا کہ سر ڈھانپ کر بھی پڑھتے تھے۔ یا نماز میں سر ڈھانپنا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری قرار دیا تھا۔ میں نے عرض کیا آپ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کیونکہ آپ کی نظر سے ایسے حقائق نہیں گزرے۔ ہمارے علم میں تو اس بارے میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہایت واضح حکم موجود ہے کہ سر ڈھانپ کر نماز ادا کرنی چاہیے اور صحابہ کرام نے اگر کبھی ننگے سر نماز ادا کی تو وہ ہمارے نزدیک بلا عذر نہیں تھی بلکہ کسی عذر کی بنا پر ننگے سر پڑھی گئی۔

کتاب اللہ سے استدلال

نیز کتاب اللہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لئے مساجد میں جاتے وقت سر کو پگڑی ٹوپی یا کسی کپڑے سے ڈھانکنا اور مزیّن کرنا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ( اعراف) کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنی زینت کے سامان اختیار کر لیا کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کے وقت اپنا ظاہر و باطن اور روح و جسم پاک صاف اور ایسے بنا کر جاؤکہ آپ ہر طرح خوبصورت حسین اور مزیّن معلوم ہو ں گو تصنّع اور ضیاعِ مال کی حد تک نہیں بلکہ سادگی بھی مدّنظر رہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایک ننگے سر والا انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنے سارے جسم کی زینت اور خوبصورتی کا حتّی الوسع پورا پورا سامان کر کے نماز کے لیے مسجد آیا ہوں۔ تمام مفسّرین کے نزدیک اس آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ پگڑی ٹوپی رومال یا کوئی اور پہننے کی چیز نماز کے وقت سر پر ڈالنا یا لپیٹنا ننگے سر رہنے کی نسبت زیادہ خوبصورت زیادہ با وقار اور باعزّت لگتا ہے۔ نیز یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس آیت کے پیش نظر حضرت شا رع علیہ الصلوٰۃ وا لسلام مسجد میں ننگے سرنہیں آیا کرتے تھے۔ پس ننگے سر مسجد میں حاضر ہونے والا اور ننگے سر نماز پڑھنے والا شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے خدا کے گھر جانے یا خدا کے سامنے حاضری سے پہلے اپنے تمام جسم کی زینت اور حسن ظاہری کا حسب استطاعت پورا پورا خیال کر لیا تھا۔ بلکہ اس کا یہ فعل مذکورہ بالا آیت کی خلاف ورزی اور سنّت نبوی سے بے اعتنائی اور لاپروائی کا مظاہرہ ہوگا۔ کیوں کہ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍمسجد کے ارشاد کی صحیح طور پر تعمیل کرنے سے وہ قاصر رہا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے اور قابل در گذر ہے کہ غربت، بیماری یا اَور کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مسلمان کو ننگے سر ہی مسجد میں جانا یا خدا کے حضور حاضر ہونا پڑ جائے۔

رسولِؐ خدا کا واضح حکم

اس کے بعد خاکسار نے انہیں عرض کیا کہ اگر آپ اس وقت ہمارے ساتھ احمدیہ دارا لتبلیغ میں تشریف لے چلیں تووہاں پر لائبریری سے ہم آپ کو اپنے موقف کی تائید میں حدیثِ نبوی بھی دکھا سکتے ہیں۔ بلکہ ہم پسند کریں گے کہ آج آپ ہمیں اپنی مہمانی کا شرف عطا کریں۔ اور یہ رات ہمارے ساتھ ہی گزاریں تاکہ بے تکلفی سے برادرانہ طور پر باہم تبادلہ خیالات ہو سکے۔ اور غلط فہمیاں دور ہو جائیں۔ چنانچہ ہماری پیشکش پر انہوں نے وہ رات ہمارے ساتھ احمدیہ دارالتبلیغ میں گذاری جہاں پر خاکسار نے حدیث کی مشہور کتاب کَشْفُ الغُمَّۃِ عَنْ جمیْعِ الاُمَّۃِ سے مندرجہ ذیل حدیث اس مسئلہ پر انہیں دکھا ئی

کَانَ النَّبَیُّ صَلَی اللّٰہ علیہ وسلمَ یَأْ مُرُبِسِتْرِ الرَّأْسِ فِی صلٰوۃِ بِالْعَمَامَۃِ اَوِالْقَلَنْسُوَۃِ وَ نَھَی عَنْ کَشفِ الرَّأسِ فِی الصَّلٰوۃِ وَکَانَ یَقُولُ اِذَا اَتَیْتُمُ الْمَسَاجِدَ فَاْتُوْھَامُعَصِّبِیْنَ وَالْعِصَابَۃُ ھِیَ ا لْعَمَامَۃُ (جلد1 صفحہ 158)

کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو نماز کے دوران پگڑی یا ٹوپی پہننے کا حکم فرمایا کرتے تھے نیز فرمایا کرتے تھے کہ جب تم مسجدوں میں نماز کے لئے آؤ تو سر پر کچھ لپیٹ کر یعنی پگڑی کی طرح کچھ باندھ کر آیا کرو۔

غلط طریق کی ممانعت

اسی طرح خاکسار نے ان پر یہ بھی واضح کیا کہ سر پر کپڑا باندھنے سے یہ مراد نہیں کہ رومال کی طرح کا کوئی چھوٹا سا کپڑا سر کے گرد لپیٹ لیا جائے درآنحالیکہ سر کا وسطی حصہ ننگا رہے۔ بلکہ پوراسر ڈھانپنا مراد ہے۔ چنانچہ کتاب’’ نور ا لایضاح ‘‘ میں لکھا ہے

وَ یُکْرَہُ لِلمُصَلّی الْاِعْتِجَازُوَھُوَشَدُّالرَّأْسِ بِالْمنْدِیْلِ وَسْطِھَا مَکْشُوْفًااَوْمَکْشُوْفُ ا لرَّأْسِ۔

یعنی نماز میں سرکے گرد رومال کا سا کپڑا ایسے طور پر باندھ لینا کہ سر کا وسطی حصہ ننگا نہ رہے یا سر کو بالکل ننگا رکھنا دونوں صورتیں معیوب ہیں۔ (صفحہ 106-107)

چنانچہ مندرجہ بالا دونوں حوالے اصل اور مستند کتب میں دیکھ کر وہ عرب بھائی حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے بالکل درست فرمایا ہے اور اس مسئلہ میں آپ کا موقف درست ہے جب یہ حضرت سرور کائنات شارع علیہ ا لصلوٰۃ و ا لسلام کا حکم ہے تو ہمیں بہرحال سر ڈھانپ کر نماز پڑھنی چاہیے۔ اس کے بعد وہ تقریباًایک سال سیرالیون میں رہے اور اگر چہ احمدی نہ ہوئے لیکن احمدیت سے حسن ظن رکھتےرہے اور دوسرے عرب علماء کو بھی ہماری مخالفت سے باز رکھتے رہے اور کہا کرتے تھے کہ یہ احمدی عالم لوگ حقیقی معنوں میں مجا ہدین اسلام ہیں ان کی ہر مسلمان کو مدد کرنی چاہیے۔ نیز کبھی کبھی ہماری مسجد میں آکر ہمارے ساتھ سر ڈھانپ کر نماز بھی پڑھتے رہے۔ وفات مسیح اور ہمارے اکثر معتقدات کی صداقت کے معترف ہوگئے تھے۔ گو شاید اپنے خاندان یا ملک کے لوگوں کی مخالفت کے خوف سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں داخل نہ ہوسکے تاہم میرے سامنے علیحدگی میں کئی بار انہوں نے کہا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ امام مہدیؑ کے ظہور کا زمانہ یہی ہے اور آپ کی جماعت کے بانی علیہ ا لسلام یقیناً سچے مہدی ہیں اور میں دل میں انہیں اپنا امام تسلیم کر چکا ہوں مجھے بیعت پر مجبور نہ کریں۔

حضرت مصلح موعودؓ کا فرمان

ننگے سر نماز پڑھنے کے متعلق سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ

’’ایسی صورت میں ننگے سر نماز پڑھنا غلط ہے جب کے سر ڈھانپنے کے لئے کوئی کپڑا وغیرہ مل سکے کئی صحابہؓ ننگے سر نماز پڑھتے تھے مگر ان کے پاس سر ڈھانپنے کے لیے کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘( الفضل 17؍اکتوبر 1946)‘‘

(روح پر ور یادیں، صفحہ374تا379)

(مرسلہ: مرزا نصیر احمد۔ استاذ جامعہ احمدیہ یوکے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button