متفرق مضامین

شادی۔ آپس کا حسن سلوک۔ جدائی۔ صبر (قسط اوّل)

(امۃ الباری ناصر)

یہ چند الفاظ جوعنوان بنائے ہیں میرے والدین کی مکمل داستان حیات ہے۔ جس میں ایک عہد کی پوری تاریخ ہے۔ جذبات کی قربانی کی دل گداز کہانی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے وابستگی کس طرح اسلام کے ابتدائی دَور کے بدری صحابہؓ جیسی قربانیوں کا مزاج بنا دیتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کیسے ان کا اجر عنایت فرماتا ہے سب اس کہانی میں ملے گا۔ راقم الحروف اپنے والدین کے آٹھ بچوں میں چھٹے نمبر پر پیدا ہوئی۔ چھ سال کی تھی جب پاکستان آگئے جب ہوش سنبھالا اباجان کو قادیان میں درویش پایا اور سادہ سی باوقار امی جان کو بچوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف دیکھا۔ دونوں کو ایک ساتھ رہتے سہتے دیکھنے کا بہت کم موقع ملا۔ پہلی دفعہ 1954ء میں ابا جان ربوہ آئے پھر 1980ء تک کبھی کبھی مختصر سی چھٹی لے کر آیا کرتے تھے۔ اگر یہ سارا عرصہ شمار کریں تو کتنا بن جائے گا۔ یہی کوئی اڑھائی تین سال۔ بس مجھے اباجان کا ساتھ اسی قدرمیسر آ سکا۔ اباجان امی جان کی کہانی کا ایک مآخذ اباجان کے خطوط ہیں۔ یہ خط عام طور پر بڑے بہن بھائی کے نام ہوتے اباجان کی شکستہ پختہ تحریر پڑھنے میں امی جان کو دقت ہوتی دوسرے وہ خود جواب نہ لکھ سکتی تھیں اس لیے یہ ایک طرح کے کھلے خط تھے۔ اس میں امی جان کے نام پیغام ہوتے جواب بھی بچے ہی لکھتے۔ اس خط و کتابت اور پھر اس کی حفاظت کے لیے میں اپنی امی جان اور بڑے بہن بھائیوں کی شکر گزار ہوں۔ جب یہ خطوط پڑھتی ہوں تو لگتا ہے کئی زندگیاں اپنے والدین کے ساتھ گزاری ہیں۔ یہ ایک جانی ہوئی حقیقت ہے کہ خطوط میں انسان تمام تر سچائی اور خلوص کے ساتھ دل کھول کے رکھ دیتا ہے۔ تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی ان خطوط میں سچے، کھرے، حقیقی، بے لاگ جذبات کا ایک جہان ہے جو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا مآخذ اباجان کی تحریر کردہ یادداشتیں ہیں اور تیسرا گھر اور خاندان کے بڑوں کی باتیں پھر اپنا مشاہدہ ہے۔ ان سب کو چشم تصور سے یک جا کرکے ایک سوانح مرتب کی ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کے درجات بلند فرماتا رہے۔ آمین

شادی

مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ کی بیٹی تھیں جوببّے ہالی (مشرقی پنجاب )نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ آپ مشہورعلم دوست شخصیت تھے۔ سکول ٹیچر تھے۔ پنجابی شاعر کی حیثیت سے معروف اور مقبول تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے، آپؑ کے دعویٰ سے پہلے کے، عقیدت مند تھے۔ قادیان کے صحابہؓ کی فہرست میں آپ کا نام درج ہے۔ ’’مولوی اللہ بخش صاحب دربان ولدمیاں شاہ دین صاحب بّبے ہالی ضلع و تحصیل گورداسپور سن بیعت 1905ء سن زیارت1880ء۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ 141)

رجسٹر روایات صحابہؓ میں بھی آپ کی روایات درج ہیں۔ احمدیت قبول کرنے کے حالات پر ایک طویل پنجابی نظم کہی جوایک تبلیغی دستاویز اور اس زمانے کے حالات کی عکاس ہے۔ حکیم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ آمنہ بیگم سب سے چھوٹی تھیں۔ حکیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان سے بہت پیار تھا۔ احمدیت کی لذّت سے آشنا ہوچکے تھے۔ بچی پیدا ہوئی تو سوچا کہ اس کی شادی احمدیوں میں کریں گے اس خیال سے اُن کا دھیان ایک احمدی دوست میاں فضل محمد صاحب کی طرف گیا جن کے ہاں نو عمر بیٹا تھا۔ اُن کو اپنی نوزائیدہ بیٹی کے لیے مناسب رشتہ مل گیا۔ حضرت منشی جھنڈے خان صاحبؓ کو پیغام دے کر قادیان بھیجا کہ جا کر فضل محمدصاحب کو ہمارا سلام کہیں اور یہ پیغام دیں کہ آپ کا جو بیٹا عبدالرحیم ہے وہ آج سے ہمارا ہوا۔ اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔

منشی صاحبؓ سے حکیم صا حبؓ کا پیغام سن کر میاں فضل محمد صاحبؓ نے کہا:

جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ میں لڑکے کی والد ہ کو آپ کے گاؤ ں بھیجوں گا۔

اس طرح ا س رشتے کی بنیاد صرف اور صرف احمدیت کی محبت پر رکھی گئی۔

آمنہ بیگم ابھی کم سن تھیں کہ والدہ کی وفات ہوگئی۔ بڑے بہن بھائیوں کی شادیاں ہوچکی تھیں گھر کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا ننھی بچی کو گھر سنبھالنا پڑا۔ گھر کا کام کرنا بہت مشکل تھا روٹی بنانی نہیں آتی تھی آٹے کے گولے سے بناکر کوئلوں پر ڈال دیتیں پھر باپ بیٹی اوپر سے جلا ہوا حصہ چھیل کے کھالیتے۔ گاؤں میں احمدیت کی مخالفت بہت زیادہ تھی بعض دفعہ اشیائے خورونوش حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا۔ ان حالات میں سکول جانا مشکل تھا ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہ کرسکیں۔

مکرم عبدالرحیم صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہرسیاں والے کے دوسرے بیٹے تھے۔ میاں صاحب اور ان کی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہ نے 1896ء میں احمدیت قبول کی تھی آپ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے خدائے قادر کی طرف سےبرکا ت کے دگنی ہونے کا مژدہ دیا تھا۔ حکیم صاحب کی طرف سے رشتے کی بات کے سات آٹھ سال بعد حضرت میاں صاحب کو خیال آیا کہ حکیم صاحب نے رشتہ بھیجا تھا ان کو ہاں تو کردی تھی لڑکی کو دیکھنا بھی چاہیے۔ چنانچہ آپ کی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہؓ اپنی ایک قریبی عزیزہ کے ساتھ ببّے ہالی گئیں۔ بچی کو حسن صورت اور حسن سیرت سے مزین دیکھ کر خوش ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر بات پکی کر آئیں۔ کوئی رسم ادا نہ کی۔ والدہ صاحبہ نے گھر آ کر اپنے بیٹے عبدالرحیم کو اپنے پاس بلایا گود میں لے کر بڑے پیار سے منہ چوما اور ہلکی سی پیار بھری تھپکی لگاتے ہوئے کہا: ’بچے تیری بیوی دیکھ کر آئی ہوں لڑکی کیا ہے جنت کی حُور ہے۔ ‘

حضرت برکت بی بی صاحبہؓ حضرت ام المومنینؓ سے بہت محبت اور عقیدت رکھتی تھیں آپس میں سہیلیوں کی طرح پیار تھا ان کی خدمت میں رہنے کے لیے بار بار قادیان آتیں۔ آکر ’الدّار‘ میں ٹھہرتیں۔ آپ نے قادیان کے قریب آنے کی خواہش میں قادیان کے جنوب میں آدھ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ننگل باغباناں میں ایک مکان لیا اور بچوں کے ساتھ اُس میں منتقل ہو گئیں۔ قادیان قریب تَر ہو گیا مگر اتنی دوری بھی گوارا نہ ہوئی اور بالآخر 1916-1917ء میں یہ خاندان ہجرت کرکے قادیان آبسا۔ قادیان جس محلے میں آپ نے مکان بنایا اُس کا نام حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے ’ محلہ دارالفضل‘ اور آپ کے مکان کا نام’ فضل منزل ‘ رکھا۔ قادیان آکر آپ کا انتقال ہو گیا اللہ پاک نے پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا۔

حضرت صاحبؓ کی تحریک اورتجویز پر میاں صاحب کی دوسری شادی محترمہ صوباں بیگم صاحبہ سے ہوئی جن کے اپنے پہلے شوہر سے تین بچے تھے۔ دو بچے یہاں آ کر ہوئے۔ موصوفہ بہت نیک فطرت، خدا ترس، غریبوں کی ہمدرد اور ہر ایک سے حسنِ سلوک کرنے والی تھیں، آپ کے مزاج میں جو پیار محبت تھا اُس نے گھر میں پیار محبت کی فضا بنائی ہوئی تھی۔

عبد الرحیم بہت ذہین طالب علم تھے۔ جماعت چہارم میں وظیفہ کے امتحان کے لیے منتخب ہوئے۔ امتحان کی خوب تیاری تھی۔ ایک بزرگ استاد نے جائزہ لیا تو اس بات پر حیران ہو گیا کہ بچہ بڑے بڑے سوال آسانی سے زبانی ہی حل کرتا جارہا ہے۔ استاد صاحب نے شاگرد کو اپنی خوشنودی سے نوازتے ہوئے بازار سے تمباکو خرید کر لانے کی خدمت تفویض کر دی۔ اس خدمت کے دوران امتحان کا وقت نکل گیا یا یوں کہہ لیں کہ قدرت نے لائن تبدیل کر دی۔ مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے ساتھ جگہ ملی۔ ایک بزرگ استاد کلاس میں داخل ہوتے ہی پیارومحبت کے اظہار کے طور پر پچھلے بنچ پر بیٹھے طالبعلموں کو ایک ایک ہاتھ رسیدکرتے ہوئے آگے نکل جاتے۔ یہ حسنِ سلوک عجیب لگا۔ والد صاحب سے ذکر کیا۔ انہیں اپنے کاروبار میں ایک مددگار کی ضرورت تھی۔ بڑے بھائی مدرسہ احمدیہ میں ہی پڑھ رہے تھے۔ فرمایا ’’بیٹا تم کاروبارمیں میری مدد کیا کرو۔ ‘‘اس طرح چھوٹی عمر میں ہی کاروباری ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

میاں عبدالرحیم صاحب جب اکیس سال کے ہوئے تو 1924ء میں ان کا نکاح آمنہ بیگم صاحبہ بعمر اندازاً پندرہ سال سے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے قادیان میں پڑھایا۔ شادی خانہ آبادی 26؍جنوری 1925ء کو ہوئی۔

بارات شہر سے گاؤں لے کر جانے کے لیے بس کرائے پر لی گئی اُس زمانے میں یہ انوکھی بات تھی۔ عرصے تک چرچا رہا۔ گاؤں گئے تو معلوم ہوا کہ باراتیوں کے لیے کھانا ہندو باورچیوں سے بنوایا گیا ہے۔ کچھ تردّد کا اظہار کرنے پر سارا کھانا وہاں کے مقامی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ کھانا نئے سرے سے مسلمانوں سے پکوایا گیا۔ گاؤں کی اَن پڑھ کم عمر دلہن جو حسنِ فطرت اور حسن تربیت سے مزیّن تھی فضل منزل میں ایک بھرے پُرے بابرکت گھر میں داخل ہوئی۔ بیوی کو دیکھا تو اپنی والدہ صاحبہ کے الفاظ یاد آئے۔ وہ تو واقعی حُور تھیں۔ صحن کے جنوب مشرقی کونے میں ایک کمرہ بنوایاگیا تھا۔ بڑے بیٹے حضرت عبد الغفور صاحبؓ کی فیملی کے لیے بھی ایک کمرہ کا اضافہ ہوا تھا۔

دلہن کی بیماری اور شفا

دلہن کو شادی کے بعد شدید بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔ اباجان نے اپنی ڈائری میں اس کا احوال یوں لکھا ہے کہ ’’دعوت ولیمہ ہو رہی تھی حضرت اقدس خلیفۃالمسیح الثانیؓ تشریف لائے ہوئے تھے میں نے بیوی کو کہا کہ آؤ دیکھو حضور تشریف لائے ہیں مگراُس کو بخار چڑھ رہا تھا۔ اچھی طرح دیکھ نہ پا رہی تھی پھر بخاربہت تیز ہو گیا اور خطرناک صورت اختیار کر گیا۔ کسی طرح آرام نہ آ رہا تھا میں حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کرنے گیا۔ میری پریشانی دیکھ کر حضور نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو معائنہ کی ہدایت فرمائی آپ اُس وقت قادیان کے نواحی علاقے میں ٹینس کھیل رہے تھے حضور کا ارشاد سن کر میرے ساتھ تشریف لائے ڈاکٹر رشیدالدین صاحب بھی تشریف لائے اور مشورہ سے نسخہ تجویز کیا۔

مکرم حکیم صاحب کو بھی ان کی بیٹی کی بیماری کی اطلاع دی گئی آپ نے سفر کے لئے ایک گھوڑا رکھا ہوا تھا گھوڑے پر قادیان آئے بچی کی حالت دیکھی خود حکیم تھے بیماری کی شدت کا اندازہ تھا افسردگی سے فرمایا۔ ’’اچھا اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا میری بچی تو زندگی میں ہی جنت میں آ گئی تھی۔ ‘‘ چند دن ٹھہر کر آپ واپس تشریف لے گئے آمنہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی۔ جس طرح میری والدہ صاحبہ کو وہ ایک نظر میں بھا گئی تھی میرے بھی دل میں گھر کر گئی تھی۔ ایک سچا عاشق جس طرح اپنے معشوق کی علالت میں تیمار داری کر سکتا ہے میں نے اس سے بڑھ کر کی۔ کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آخر سب نااُمید ہو کر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ تیمارداری، علاج معالجہ دیکھ پرداخت پر توجہ کم ہو گئی۔ مگر ایک میں تھا کہ راتوں کو جاگتا اور دن بھر پٹی سے لگا رہتا۔ بس نہ چلتا کہ خود کو قربان کر کے اُس کو بچا لوں۔ ایک رات ایسی آئی کہ والد صاحب آئے نبض دیکھی اور مایوس ہو کر لیٹ گئے۔ سب گھر والے سو گئے۔ میں جاگ رہا تھا اور حسب معمول اللہ تعالیٰ سے اُس کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اُس کی بیماری نے مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا تھا۔ بیماری کو ایک ماہ چودہ دن ہو گئے تھے۔ اتنے لمبے عرصے کے بعد اُس نے آنکھیں کھولیں اور گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور کہا آپ ابھی تک بیٹھے ہیں سو کیوں نہیں جاتے؟ میں نے بے ساختہ کہا تم کو اس حالت میں چھوڑ کر نیند کیسے آسکتی ہے؟ اس نے کہا

اچھا۔ جزاک اللہ۔ مجھے بھوک لگی ہے۔

پاس ہی یخنی پڑی تھی چند چمچ دیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے جا کر والد صاحب کو بتایا وہ بھی بے حد خوش ہوئے اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ اُس وقت میری بیوی نے مجھ سے پہلی فرمائش کی جس سے اُس کی قادیان سے محبت پھوٹی پڑتی ہے بے حد نحیف آواز میں کہا۔

آپ مجھے مسجد اقصیٰ کے کنوئیں کا پانی پلا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام استعمال کیا کرتے تھے؟

عقیدت و محبت کے عالم میں یہ پانی آبِ شفا بن گیا اور اللہ تعالیٰ نے آمنہ کو نئی زندگی عطا فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہم میاں بیوی کو آپس کی گہری محبت سے نوازا کچھ مدت کے بعد اُس کے بھائی میاں احمد دین صاحب اُسے گاؤں لے جانے کے لئے آئے تو بھیجنا مشکل ہو رہا تھا۔ اُس کو گھوڑے پر سوار کرکے روانہ تو کر دیا مگر واپسی پر گھر کا فاصلہ اس قدر دراز اور بوجھل لگا کہ طبیعت قابو میں نہ رہی۔ حضرت نواب صاحبؓ کے کنوئیں پر بیٹھ کر دل ہلکا کرنے کی کوشش کی پھر آنکھیں صاف کیں اور افسردگی سے گھر آ کر کام میں مصروف ہو کر غم غلط کیا۔ ‘‘

امی جان نے اپنے سسرال میں اپنی اطاعت، فرمانبرداری، محبت اور خوش مزاجی سے سب کے دل جیت لیے۔ گھر کے کاموں میں محنت سے ہاتھ بٹاتیں۔ بڑوں کے احترام اور چھوٹوں سے پیار نے ان کو ہر دلعزیز بنا دیا۔ داداجان کی دکان کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتیں اور دعائیں لیتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ پہلی بیٹی امۃاللطیف کی پیدائش کے بعد سے امی جان اباجان کو’’لطیف کے ابا‘‘کہنے لگیں پھر ہم نے ساری عمر ان کے منہ سے اباجان کے لیے’’لطیف کے ابا ‘‘ہی سنا۔ فضل منزل میں ماحول خوشگوار رہتا سب افراد خانہ ایک دوسرے سے بہت تعاون کرتے۔ گھر میں کبھی سگے سوتیلے کا سوال پیدا نہ ہوا۔ فضل منزل میں مجھ سے بڑی تین بہنیں اور دو بھائی پیدا ہوئے۔

اباجان دکان پر داداجان کے ساتھ کام کرتے۔ کاروبار اچھا تھا۔ کام بڑھ گیا تو اباجان نے مسجد مبارک کےچوک میں ڈاکٹر سیّد غلام غوث صاحب کی دکان کرایہ پر لے کر الگ کام شروع کیا اس دکان میں سولہ سال کام کیا جب الگ دکان شروع کی تو فاصلے کی وجہ سے روز آنا جانا مشکل لگتا۔ والدین کے مشورے اوراجازت سے ریتی چھلے کے سامنے دارالفتوح میں اپنا مکان بنایا اور اُس میں منتقل ہو گئے۔ بعد میں پہلی دکان کے بالکل سامنے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی دکان کرایہ پر لے کر کام کیا۔ (تاوفات یہ دکان آپ کے پاس رہی قریباً 46سال) جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا برکت ہی برکت دیکھی۔ اعلیٰ ترین سرکاری ملازمین سے زیادہ کمایا۔

امی جان کو قادیان کا مقدس ماحول اور علمی ذوق رکھنے والا گھرانا نصیب ہوا۔ آپ نے مکرمہ استانی بیگم جی صاحبہ سے قرآن مجید پڑھا اردو پڑھنا بھی سیکھ لیا۔ خطبات، درس، لجنہ کے اجلاسوں میں کمال اہتمام و باقاعدگی سے شمولیت کی وجہ سے علم وسیع ہوتا چلا گیا۔ درثمین اور الفضل شوق سے پڑھتیں۔ درثمین اور کلام محمود کے اشعار کثرت سے زبانی یاد تھے۔

ابا جان کی طبیعت کو اس طرح سمجھتی تھیں کہ بسا اوقات انہیں کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ اشارہ کرنے کی بھی نوبت نہ آتی اور ایک دوسرے کے منشا کے مطابق عمل ہو جاتا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے میاں بیوی کی باہم ناراضگی، ناخوشی اور جھوٹ وغیرہ کا بالکل کوئی دخل نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق مضبوط اور گہرا ہوتا گیا۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام گھر کے سکون میں اضافہ کرتا۔ دینی احکام کی کماحقہ تعمیل کرتیں۔ پردہ اور حیا اگر ایک احمدی عورت کا زیور اور خوبصورتی ہے تو آپ میں یہ جوہر بدرجہ ٔکمال موجود تھا۔ دونوں کا اپنے اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی قابلِ رشک تھا۔ اباجان کی کاروبار میں انہماک کی وجہ سے بعض نیک کاموں کی تحریک اور یاددہانی بھی کرواتیں۔ ایک دفعہ دادی اماں نے پوچھا عبدالرحیم صبح نماز کے لیے اٹھتا ہے۔ امی کے جواب میں ذرا ہچکچاہٹ دیکھ کر انہوں نے کہا نہ اٹھے تو پانی کا ہلکا چھینٹا مار دیا کرو۔ امی جان نے کہنا مانا اور اگلی صبح چھینٹا ماردیا اباجان نے حیرت اور خفگی سے امی کی طرف دیکھا تو آپ نے جھٹ کہہ دیا آپ کی اماں نے کہا تھا اس پر اباجان خاموش ہو گئے اور اس کے بعد پانی کا چھینٹا مارنے کی نوبت نہ آئی۔ نماز باجماعت اور جمعہ پر جانے کا خاص اہتمام ہوتا۔ پہلے سے تیاری شروع کردیتیں۔ جس کی وجہ سے غفلت کا امکان نہ رہتا۔ قادیان کے زمانےکی بات ہے۔ ابا جان کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں اکثر کبھی بٹالہ کبھی امرتسر جانا پڑتا تھا، تحریک جدید کے اجرا سے پہلے کا زمانہ تھا جب کبھی موقع ملتا سینما بھی چلے جاتے جس کی وجہ سے واپسی میں دیر ہوجاتی۔ امی جان کو یہ بات پسند نہیں تھی مگر کوئی حل نظر نہیں آتا تھا۔ ایک جمعہ کے دن یہ پروگرام بنایا کہ جمعہ سے واپسی کے بعد امرتسر جا ئیں گے اور وہاں سے شوق سینما بینی پورا کر کے واپسی ہو گی۔ امی جان نے کہا کہ خدا کرے حضور آج کے خطبہ میں سینما جانے پر پابندی لگا دیں۔ دعا بھی کی۔ خداکی قدرت حضور کے خطبہ کا موضوع سادہ زندگی تھا اور سینما بینی کی ناپسندیدگی کااظہار تھا۔ آپ جمعہ پڑھنے مسجد گئی ہوئی تھیں خوش خوش واپس آئیں۔ ابا جان کی نظر میں آپ کا مقام اور زیادہ بڑھ گیا اور اس کے بعد اس شوق سے مکمل اجتناب اختیار کیا۔

یہ واقعہ امی جان سے سنا ہوا تھا اب یہ مضمون لکھتے ہوئے تحریک جدید کے بارے میں خطبہ نکال کر دیکھا ہے یہ 23؍نومبر 1934ء کا خطبہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا تھا: ’’آج کل بڑا خرچ تماشوں وغیرہ پر ہوتا ہے اور یہ خرچ شہروں وغیرہ میں تو خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے…ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال کوئی احمدی کسی سینما، سرکس، تھیٹرغرضیکہ کسی تماشا وغیرہ میں بالکل نہ جائے آج سے تین سال تک کے لئے میری یہ جماعت کو ہدایت ہےاور ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدروقیمت کو سمجھتا ہے اس کے لئے سنیما یاکوئی اور تماشا وغیرہ دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا ناجائز ہے‘‘

ابا جان ہر سال ایک مہینہ وقف عارضی پر جماعتی انتظام کے تحت جاتے تھے۔ ابا جان کے لیے یہ نیکی بھی امی جان کے تعاون سے ممکن ہوئی۔ آپ حوصلہ بڑھاتیں اور گھر کی ذمہ داریاں عمدگی سے سنبھالتیں۔ اسی ماحول اور جذبہ نے بعد میں وقت پڑنے پر درویشی کی زیادہ بڑی نیکی کی توفیق عطا فرمائی۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح فراخی تھی ایک مصدقہ دستاویز کے مطابق تقسیمِ ہند کے وقت درویش کی قادیان میں جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔ (یہ اس وقت کی بات ہے جب گندم5 روپے من اور دیسی گھی ایک روپے سیر ملتا تھا) قربانی کی جھلک یہاں بھی نمایاں طورپر نظرآتی ہے۔ جب حضورؓ نے وقف جائیدادکا مطالبہ فرمایاتو وہ جائیداد جو موروثی یا پشتینی نہیں تھی بلکہ واقعی طور پر گاڑھے پسینے کی کمائی تھی پوری بشاشت کے ساتھ پیش کر دی۔

آپ کی آمد میں برکت تھی اور دل بھی کھلا تھا۔ خدمت خلق اور مہمان نوازی کا شوق تھا۔ بلکہ یہ شوق سانجھا تھا دونوں میاں بیوی کو ایتاء ذی القربیٰ کی بہت توفیق ملی بہت سے رشتہ داروں کو قادیان بلا کر بسنے میں مدد دی۔ کسی کو کوئی ہنر سکھایا کسی کو دکان بنانے میں مدد دی۔ کئی بچیوں کے رشتے طے کرائے کئی شادیاں اپنے خرچ پر کروائیں۔ کئی نادار مریضوں کے علاج معالجے میں مدد فرماتے تھے۔ غرباء یتامیٰ و مساکین کی دلجوئی اور خبر گیری بھی کرتے تھے۔ دارالشیوخ میں مقیم طلباء کو گاہے گاہے کھانا پکوا کر بھجوایا کرتے تھے ان سے فرمائش بھی پوچھتے اور من پسند کھانے کا سامان پیش کرنے میں خوشی محسوس کرتے۔ ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کرتے طلباء کی تعلیم کا خرچ بھی اُٹھاتے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال فراخ دلی و التزام کی وجہ سے مرکز سلسلہ احمدیہ قادیان میں ہمارا گھر سب رشتہ داروں کا مرکز بنا رہتا تھا۔

ایک یادگار واقعہ اباجان کے الفاظ میں درج ہے۔

’’ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کرامؓ ایک ایک کر کے ہم سے جُدا ہو رہے ہیں کیوں نہ ایسا پروگرام بناؤں کہ ہفتے دس دن بعد کسی ایک صحابیؓ کو گھر پہ دعوت دوں تاکہ بیوی بچے پاکیزہ کلام، سیرت و سوانح، ذکرِحبیب سُن کر اپنے ایمان کو تازہ کریں۔ چنانچہ اس پر عمل شروع ہوا گھر کے افراد اُن کے اردگرد بیٹھ جاتے۔ مل کر کھانا کھاتے اور باتیں سن کر لطف اندوز ہوتے۔ ایک دن ہم دونوں میاں بیوی نماز جمعہ کے لئے مسجد میں موجود تھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا اصحاب مسیحؓ دیکھنے کو بھی نہ ملیں گے ایک ایک کر کے جدا ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی صحبت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ میں نے اس ارشاد سے بہت لطف لیا۔ شام کو گھر واپس آیا تو میری بیوی بڑے اہتمام سے میرا انتظار کر رہی تھی جیسے کوئی مبلغ ایک عرصہ تک دعوت الی اللہ کر کے واپس آ رہا ہو اُس کی خوشی کی ایک ادا یہ تھی کہ موتیے کے پھولوں کے ہار میری چارپائی کے پائیوں پر لٹکا دیتی اُس کے چہرے پر حیا اور مسرت کی ملی جُلی کیفیت ہوتی تھی۔ اس دن یہ سب اہتمام دیکھ کر میں نے پوچھا کیا بات ہے کس بات کی خوشی ہے؟ کہنے لگی آپ کے گھر آنے کی کم خوشی ہونی چاہیے؟ میں نے کہا کہ کیا میں امریکہ سے تبلیغ کرکے آیا ہوں؟ کہنے لگی ایسا ہی لگتا ہے۔ پھر کھانا پیش کیا اور ساتھ ساتھ اپنی خوشی کا راز بھی بتایا کہ آج کے خطبہ سے میں بے حد خوش ہوئی کہ آپ نے ہمارے لئے پہلے سے صحابہ کرامؓ حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ میں نے بتایا کہ میں بھی خطبہ سن کر بہت خوش ہو رہا تھا۔ یہ تھیں ہماری خوشیاں! کہ خلیفۃ المسیحؓ کے ارشاد سے پہلے تعمیلِ ارشاد کی توفیق مل رہی تھی۔ ‘‘

امی جان کی دینداری کا ایک اور واقعہ اباجان نے تحریر کیا: ’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری بیوی سکینت و راحت کا بے مثل نمونہ ہے۔ اَن گنت واقعات میں سے ایک تحریر کرتا ہوں۔ باسط چھوٹا تھا۔ آموں کا موسم تھا۔ پٹھان کوٹ کے اچھے آم سرکنڈوں کی چوکور ٹوکریوں میں بکا کرتے تھے اُسے کھاری کہتے تھے سستے زمانے تھے ایک کھاری سے بیس سے پینتیس سیر تک آم نکلتے تھے قیمت صرف دو اڑھائی روپے ہوتی۔ کھاری منڈی والوں کو واپس کر دیتے۔ ایک دفعہ کھاری خرید کر لایا تو آم بہت مزے دار تھے باسط چھوٹا تھا کھاری پر بیٹھ گیا اور آم کھانے لگا۔ اچھے لگے تو کچھ زیادہ ہی کھا گیا۔ پیٹ خراب ہو گیا پیچش لگ گئی بے حد تکلیف تھی اُس کے لمبا کر کے ’ہائے اللہ ‘کہنےسے دل دہل جاتا۔ بہت علاج ہوا مگر فائدہ نہ ہو رہا تھا اُدھر میرے وقف برائے دعوت الی اللہ کے دن قریب آ رہے تھے میں نے ایک ماہ وقف کیا ہوا تھا اور مکیریاں جانا تھا۔ بچہ بہت بیمار تھا اس لئے میرے جانے میں تاخیر ہونے لگی۔ ایک دن اس کی والدہ نے بڑے صبر اور توکل سے کام لیتے ہوئے کہا ’’لطیف کے ابا جب تک آپ گھر سے باہر نہ جائیں گے بچہ تندرست نہ ہو گا۔ آپ نے خدا کے راستے پر جانا ہے اس کو خدا کے حوالے کر دیں انشاء اللہ بچے کو اللہ تعالیٰ صحت دے گا۔ ‘‘ یہ بات دل پر تیر کی طرح لگی رات کا وقت تھا صبح ہوتے ہی مکیریاں اپنے وقف کے لئے روانہ ہو گیا۔ چار دن کے بعد خط ملا کے بچہ آپ کے گھر سے جانے کے بعد ٹھیک ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اب بالکل ٹھیک ہے۔ اُس حکیم مطلق نے میری اہلیہ کے توکّل کی لاج رکھ لی۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کے ایسے پیارے سلوک سے میری زندگی بھری پڑی ہے۔ الحمدللہ‘‘

اب ایک واقعہ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم بنت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا تحریر کیا ہوا پیش کرتی ہوں جو امی جان کو قادیان کے زمانے سے جانتی ہیں: ’’بھائی عبد الرحیم صاحب درویش مرحوم کی بیگم صاحبہ نہایت ہی دین دار نیک اورپرخلوص خاتون تھیں۔ بہت ہی محبت کرنے والی، بہت ہی کم گو تھیں لیکن جب ملتیں مُسکراتے ہوئے چہرے سے ملتیں۔ عجیب سی معصومیت تھی اُن کے چہرے پر جو میں کبھی نہیں بھول سکتی مجھے تو زیادہ تر قادیان میں ہی اُن سے ملنے کا موقع مِلا کیونکہ جمعہ کی نماز کا مستورات کا انتظام ہمارے گھر کی نچلی منزل میں ہوتا تھا اور پھر ہفتہ کے دن صبح قرآن ِکریم کا درس بھی حضرت فضل عمرؓ وہیں پر دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ بغیر ناغہ کے جمعہ کی نماز اور درس میں شریک ہونے کے لئے آتیں ویسے وہ گھر سے شاید بہت ہی کم نکلتی تھیں۔ ان کی زندگی کا مقصد اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ہی تھا اُنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت نہایت ہی اعلیٰ رنگ میں کی۔ دینی تعلیم بھی پھر خدمتِ دین کا جذبہ اور دینی غیرت بھی ان کے اندر پیدا کی۔ اس پر بس نہیں کی بلکہ اپنی بچیوں کو گھر کا سلیقہ بھی خوب سکھایا۔ پھر شادی بیاہ کا بوجھ اُن پر ہی تھا ہر بچی کی شادی دین کو دُنیا پر مقدّم رکھنے کے اصول پر کی۔ ماشاء اللہ اُن کی سب بچیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں دین بھی ہے اور دنیابھی۔ بہت خوش ہوتی ہوں ان کی بچیوں سے مل کر۔ ماشاء اللہ وہ بھی اپنی والدہ کی تربیت کے نتیجہ میں اپنے بچوں کی ویسی ہی تعلیم و تربیت کر رہی ہیں اور خود بھی دینی کاموںمیں پیش پیش ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اور اُن کی قیامت تک کی نسلوں کو خادم دین اور سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ رکھے۔ ‘‘

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button