یادِ رفتگاں

میری دادی جان سیدہ دولت بی بی صاحبہ مرحومہ کی یاد میں

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

یکم ستمبر 2021ء بروز بدھ خاکسار جب مسجد محمود ڈیٹرائٹ سے نماز فجر پڑھنے کے بعد نکلا تو آسمان کی طرف آنکھیں لگائے دیکھ رہا تھا کہ آسمان پر بادل ہیں یا ستارے نکلے ہوئے ہیں۔ ستارے تونظر نہ آئے لیکن ایک طرف ہٹ کر چاند ضرور تھا۔ یہ غالباً محرم الحرام کی 22-23تاریخ تھی۔

اس وقت مجھے اپنی دادی جان سیدہ دولت بی بی مرحومہ بہت یاد آئیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اپنے گاؤں میں رہتے تھے۔ تو آپ رات کو جلدی اٹھتی تھیں نماز تہجدپڑھتیں پھر دودھ دھوتیں اور پھر سب کے لیے ناشتہ تیار کرتیں۔ اس کے بعد دیگر گھریلو کاموں میں مصروف ہوتیں۔

اصل میں اس وقت گھڑیاں ایجاد تو ہوچکی تھیں۔ مگر ہمارے گھر میں کسی کے پاس نہ تھی۔ نہ ہی الارم وغیرہ یا ٹائم پیس تھا۔ دادی مرحومہ کو ستاروں کے ساتھ وقت شناخت کرنے کا ملکہ تھا۔ وہ بتایا کرتی تھیں کہ جب یہ ستارہ یہاں ہو تو میں اٹھتی ہوں۔ اور جب فلاں ستارہ وہاں پر ہو تو نماز فجر پڑھ لیتی ہوں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ رمضان میں بھی وہ ستاروں کی مدد سے ہی سحری پکاتیں اور سب کو روزے رکھواتی تھیں۔ یہ میری اپنی دادی جان مرحومہ کے بارے میں بچپن کی یادداشت ہے اور آج ستاروں کو دیکھتے ہی ان کی یاد آئی تو سوچا کہ کچھ مزید اپنی دادی جان کے بارے میں بھی لکھوں اور ان کی چند نیکیوں کا تذکرہ کروں۔ اور حدیث نبویﷺ

اُذْكُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ

پرعمل ہو۔

میرے دادا جان اور دادی جان، والدین اور تینوں بہن بھائی ہجرت کر کے گولیکی ضلع گجرات سے چنی گوٹھ میں موضع عاشق آباد میںآکر آباد ہوئے۔ میرے دادا جان سید امیر احمد شاہ صاحب مرحوم نے کچھ زمین خریدی تھی۔ یہاں آکر دادا جان نے سب سے پہلے گھر کے دروازے کے ساتھ ایک کچی مسجد گارے کی اینٹوں کے ساتھ بنائی۔ اس میں بمشکل 8، 10 نمازی نماز پڑھ سکتے ہوں گے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا خاندان چھوٹا سا تھا اور صرف ہم نے ہی اس میں نماز اداکرنی ہوتی۔ میری دادی جان بھی سوائے تہجد کےاسی مسجد میں تمام نماز یں ادا کر تیں۔

قرآن شریف کی اس طرح باقاعدہ تلاوت تو کرتے نہیں دیکھا لیکن ایک پنج سورۃ گھر میں انہوں نے اپنے لیے رکھا ہوا تھا وہ ضرور پڑھتیں اور تلاوت کرتی تھیں۔ میری دادی جان ایک غیر احمدی سید فیملی سے تعلق رکھتی تھیںاور میرے دادا جان نے حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں 1932ءمیں بیعت کی جبکہ دادی جان نے 1953ء میں جا کر بیعت کی۔ انہیں احمدیت اور اس کے عقائد کے بارے کچھ زیادہ علم بھی نہ تھا۔ ہندوستان میں ہمارے ابا جان کے پڑدادا سید محمد پناہ صاحب کی گدی تھی۔ جیسا کہ آج کل پاکستان یا ہندوستان میں مزارات ہیں۔ وہاں عرس بھی لگتا، نذریں، نیاز بھی آتیں اور چڑھاوے بھی چڑھتے تھے۔ یہ باتیں میری دادی جان کی زندگی پر اثر انداز رہیں۔

میری دادی جان کوئی پڑھی لکھی خاتون نہ تھیں بس یہ ان کو پتہ تھا کہ ہم احمدی ہیں اور احمدیت سچی ہے۔ جب یہ جانا پھر دل و جان سے احمدیت کی ہی ہو رہیں۔ آپ کو تین خلفاء کا زمانہ دیکھنے کی توفیق ملی۔ چنانچہ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ اور بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیعت کی تھی۔

ان کے نماز سے شغف کے بارے اوپر لکھ چکا ہوں کہ وہ مسجد ہی میں نماز پڑھتی تھیں اور وہ صرف خود ہی نماز کی پابند نہ تھیں بلکہ گھر میں بھی ہم سب کی نمازوں کا بہت خیال رکھتیں۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ مبلغ بننے کے بعد جب میں چھٹی پر ربوہ جاتا تو دادی جان کو گاؤں سے ربوہ ہی بلا لیتا تھا کہ جو چھٹی ہے ان کے ساتھ ربوہ میں گذاروں۔ جب بھی میں باہر سے گھر میں داخل ہوتا تو دادی جان کا سب سے پہلے سوال مجھے یہ ہوتا کہ نماز پڑھ لی ہے؟ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ بات سینکڑوں مرتبہ مجھے پوچھی ہوگی۔ باوجود اس کے کہ وہ جانتی تھیں میں مربی بن گیا ہوں۔ دوسروں کو بھی سکھاتا ہوں مگر وہ مجھ سے جب بھی میں گھر میں داخل ہوتا تھا یہی بات پوچھتی تھیں۔ اگر میں کہتا کہ میں تو بازار گیا تھا یا ابھی نماز کا وقت نہیں ہے تو انہیں تسلی ہوجاتی تھی۔ پھر جب انہیں بتا تا کہ اب نماز کا وقت ہے مسجد جارہا ہوں تو بہت خوش ہوتیں۔

نڈر اور بہادر خاتون

ہماری دادی جان بہت نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ 1974ء کا زمانہ اور حالات بہت مشکل تھے۔ اُن دنوں میرے ابا جان ربوہ آئے ہوئے تھے کہ اچانک حالات بگڑ گئے اور دادی جان اکیلی گاؤں میں تھیں۔ ہمارے موضع کے اور شہر کے لوگوں کو پتہ تھا کہ یہ احمدی گھرانہ ہے تو انہوں نے شہر سے بلوائی حملے کے لیے اکٹھے کیے اور ان کا خیال تھا کہ ہمارے گھر اور جائیداد کو لوٹ لیں یا آگ لگادیں اور ابا جان کو قتل کر دیں۔ اس وقت دشمنان احمدیت سے جو ہوپانا تھا انہوں نے کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس صورت میں سب نے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے اور کس طرح دادی جان کو ربوہ لایا جائے۔ جب اس کا پروگرام بنا لیا تو دادی جان نے کہا کہ آپ ربوہ آرام سے رہیں مَیں یہاں اکیلی رہتی ہوں دیکھ لوں گی کہ کون حملہ کرتا ہے۔ چنانچہ دادی جان 3 ماہ تک اکیلی وہاں رہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ جب خدا تعالیٰ کے فضل سے حالات بہتر ہوگئے تو ابا جان واپس چنی گوٹھ آگئے لیکن دادی جان نے یہ 3 ماہ کا عرصہ بلا خوف و خطر گذارا۔

ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک

جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہم گاؤں میں اکیلے احمدی تھے۔ ہمارے گھر کے بالکل ساتھ دو تین گھر تھے۔ درمیان میں صرف ایک دیوار تھی۔ ہماری ہی زمین پر ان کے مکانات تھے۔ ہمیشہ دادی جان مرحومہ نے ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کیا۔ ہمسایوں کے بچوں کے ناشتہ کے لیے صبح روزانہ دودھ بھیجتیں۔ دوپہر کو لسّی بھجواتیں۔ گھر میں جب گوشت، چاول یا کوئی اچھا سالن پکتا تو ہمسایوں کوبھجواتیں۔ جب پتہ چلتا کہ کسی کو دودھ کی ضرورت ہے تو اس ضرورت کوپورا کرتیں۔ اُس زمانے میں دودھ بیچنا شاید گناہ سمجھا جاتا تھا۔ یعنی اس حد تک وہ خیال رکھتیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نعمت دی ہے اور اس کا شکرانہ یہ ہوگا کہ ہم دوسروں کو بھی اس سے فیض پہنچائیں۔

نوکروں کے ساتھ حسن سلوک

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ہمارا گھرانہ زمیندارہ گھرانہ ہے۔ اور دادی جان مرحومہ کے پاس ایک یا دو نوکر گھر میں ہوتے تھے جو باہر کے کام کاج میں مدد کرتے۔ ان کو تین وقت چولہے کے ساتھ بٹھا کر تازہ کھانا پکا کر کھلاتی تھیں۔ مجھے ایک واقعہ کبھی نہیں بھولتا۔ ایک دفعہ میں بھی دادی جان اور دادا جان کو ملنے گاؤں گیا ہوا تھا( یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم تعلیم کی خاطر چنی گوٹھ سے احمد پور شرقیہ آکر آباد ہوگئے تھے) سردیوں کے دن تھے۔ دوپہر کا کھانا تھا۔ میں نے دادی جان سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے روٹی دیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چولہے پر لکڑیاں جلائیں اور آٹا لے کر بیٹھ گئیں۔ دال یا سالن جو بھی تھا وہ پہلے سے پکا ہوا تھا۔ جب پہلی روٹی پکائی تو میں نے سمجھا مجھے ملے گی۔ انہوں نے مجھے کہا جاؤ مجید کو بلا کر لاؤ۔ مجید ہمارا نوکر تھا جو باہر گھاس کاٹ رہا تھا۔ میں اسے بلا کر لایا۔ اتنے میں دوسری روٹی بھی پک چکی تھی۔ دادی جان نے وہ روٹیاں اور سالن پہلے اسے دیا اور پھر بہت سارا مکھن روٹی پر لگا کر دیا۔ میں اس بات پر حیران ہوا۔ اتنے میں ابا جان بھی باہر آگئے۔ میں نے سوچا شاید اب ابا جان کو کھانا ملے گا لیکن نہیں دادی جان نے پھر مجھے دیا اور جتنا مکھن مجید کو دیا تھا روٹی پر اس سے کم مجھے دیا۔ پھر تیسرے نمبر پر ابا جان کی باری آئی۔ اور انہیں مجھ سے بھی کم مکھن روٹی پر دیا۔ میں نے بعد میں وجہ پوچھی تو کہنے لگیں کہ وہ نوکر ہے اس کا حق پہلےہے۔ پھر وہ کام کر رہا تھا اس لیے اسے زیادہ ضرورت ہے۔ آپ تو گھر میں تھے اور کام بھی کچھ نہیں کر رہے۔

واقف زندگی کا احترام

ہمارے آباؤ اجداد گدی نشین اور پیر تھے۔ ہندوستان میں رجولی کے مقام ضلع انبالہ میں ہماری گدی تھی۔ اور اس کی 500 ایکٹر زمین بھی ہمارے استعمال میں تھی۔ بے شمار نذر نیاز، مال و دولت، اجناس اور چڑھاوے کی چیزیں گھرآتی تھیں۔ اس کے باوجود میری دادی جان سے ہمیشہ میں نے یہی سنا وہ کہتی تھیں کہ شمشاد اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی ہمارے گھر میں برکت بالکل نہ تھی۔ اور اب خدا کے فضل سے ہمارے تھوڑے میں بہت برکت ہےاور احمدیت کی وجہ سے برکت ہی برکت ہے۔

میری اپنی دادی جان کے مقابلے میں کچھ حیثیت اور مقام نہیں۔ وہ میری بزرگ تھیں لیکن جب میں نے وقف کیا اور جامعہ میں داخل ہوا تو میرا بے حد احترام کرتی تیں۔ مَیں نے جو کہہ دیا وہ انہوں نے پورا کرنا ہوتا تھا۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے میں جامعہ کی پہلی کلاس درجہ ممہدہ کا امتحان دے کر گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں میں دادی جان کے پاس گیا۔ گرمی کے دن تھے۔ ہمسایوں کے بچے اور میں شیشم (ٹاہلی) کے درخت کے نیچے دوپہر کو آرام کر رہے تھے کہ اتنے میں دو سپیرے آئے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سانپوں کا تماشہ دکھاتے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ انہوں نے اپنی پٹاری کھولی بین بجانا شروع کی اور ایک سانپ باہر نکلا جو جھومنے لگ گیا۔ اس نے اچانک بین بجانی بند کی اور مجھے کہنے لگا کہ جب میں بین بجا رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے گھر کی چھت میں سانپ ہے۔ میں تو سن کر گھبرا گیا۔ میں نے اسے کہا کہ بھئی سانپ فوراً نکالو۔ وہ کہنے لگا کہ ہم سانپ اس طرح نہیں نکالا کرتے۔ گگو پیر کی منت ہے۔ ایک من دانے لے کر نکالتے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بہت زیادہ ہے۔ کم کرو کہنے لگا چلو تیس سیر دے دو۔ میں نے کہا یہ بھی زیادہ ہے کہنے لگا کہ دیکھو 20 سیر لوں گا اور وہ بھی آپ یہاں میدان میں رکھ دو۔ میں اس پر بھی بین بجاؤں گا جب سانپ آپ کے گھر کی چھت سے نکال کر آپ کو دکھا دوں گا تب یہ دانے اٹھاؤں گا۔ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے ایک بچے سے کہا جاؤ ہمارے گھر میری دادی جان سے کہو کہ گھر کی چھت میں سانپ ہے اور 20 سیر دانے تول کر باہر بھجوا دیں۔ دادی جان نے 20 سیر گندم میرے پیغام پر ہی تول کر دو بچوں کے ہاتھ باہر بھجوا دیئے۔ سپیرے نے گھر کی چھت کے گرد بین بجائی اور ایک جھٹکے سے سانپ باہر نکال لیا اور یہ بھی ظاہر کیا کہ سانپ نے اس کی انگلی پر کاٹ لیا ہے۔ اور خون بھی نکل آیا ہے۔ جو ہم نے دیکھا۔ اور اسے درد بھی ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں تو اب بالکل مطمئن ہوگیا تھا کہ سانپ واقعی نکل گیا ہے۔ دوسرے سپیرے ساتھی نے گندم فوری اٹھائی اور اپنے قبضہ میں کر لی۔ اس پر چند منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ سپیرے نے کہا یہ تو مادہ تھی۔ نر سانپ دوسری چھت میں ہے۔ ہمیں تو یقین ہوگیا تھاکہ سانپ چھت سے نکلا ہے۔ بھلا گھر میں سانپ ہو تو پھر خوف تو ہوگا ہی۔ میں نے کہا اسے بھی نکال لو کہنے لگا کہ 20 سیر دانے اور لاؤ۔ میں نے کہا اب دس سیر دوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ ٹھیک ہے میں نے پھر دادی جان کو پیغام بھیجا کہ دس سیر مزید دانے بھجوا دو۔ چنانچہ سپیرے نے پھر بین بجائی اور دوسرا سانپ بھی نکال لیا۔ وہ دانے سمیٹ ہی رہا تھا کہ اتنے میں میرے ابا جان جو شہر گئے ہوئے تھے وہ بھی واپس آگئے۔ میں نے بھی اور سب بچے اور لوگ جو وہاں موجود تھے سب نے یک زبان ہو کر ابا جان کو بتایا کہ اس طرح دو سانپ نکالے ہیں۔ اباجان یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ وہ کہنے لگے کہ گھر کی چھت سرکنڈوں کی بنی ہوئی ہے۔ اور سرکنڈے کی چھت میں سانپ نہیں آسکتے۔ لیکن ہم سب سانپوں کے عینی شاہد تھے۔ اس لیے اباجان کی ایک نہ سنی گئی۔ اور سپیروں نے بھی عافیت سمجھی فوراً اپنا سامان سمیٹ کر دو تین منٹوں ہی میں رفو چکر ہوگئے۔ رات کو پھر ابا جان نے ہم سب کو اور واقعات سنائے اور کہنے لگے کہ چلو اچھا ہے کچھ دے کر ہی یا کھو کر ہی انسان کو تجربہ ہوتا ہے۔ اگلے دن پتہ چلا کہ وہ سپیرے ہمارے گاؤں کے متصل دو تین اور گاؤں میں یہ شغل کر کے دانے بٹور کر لے گئے۔

اس سارے واقعہ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میری دادی جان خود سانپ کو مار لیتی تھیں۔ یعنی اکثر ہمارے گھر میں سانپ آجاتے تھے۔ وہ خود تو نہیں مارتی تھیں لیکن قرآن شریف کی آیت

اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وَ اَکِیْدُ کَیْدًا

پڑھ کر سانپ پر پھونک دیتی تھیں اور ہاتھ کے اشارے سے گول دائرہ بنا دیتی تھیں تو سانپ وہاں سے ہل نہیں سکتا تھا۔ جب تک کوئی ایسا آدمی نہ آجاتا جو سانپ کو مار دے۔ پھر جب کوئی آجاتا تو سانپ کو چھوڑ دیتی تھیں۔ اور کہتی تھیں کہ اب اس کی قسمت جب تک وہ اسے اگلی آیت

فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا

پڑھ کر نہ پھونکتی مجال ہے کہ سانپ اپنی جگہ سے ہل جاتا۔

انہوں نے میرے ادب اور احترام میں پوچھا بھی نہیں کہ کیوں دانے منگوا رہے ہو۔ میں خود دیکھ لوں گی۔ یا اگر سانپ ہے تو خود اسے مار دوں گی۔ خاکسارکے کہنے پر فوراً عمل کیا اور 30 سیر گندم باہر بھجوا دی۔

میری دادی جان نے اپنی زندگی میں بہت کم سفر اختیار کئے تھے اور جب بھی کوئی انہیں کہتا کہ چلو کچھ عرصے کے لیے ہمارے پاس آکر رہ جائیں تو فوری انکار کر دیتی تھیں کہ میں گھر بار چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ لیکن میں نے جب بھی کہا کہ میں چھٹی پر آیا ہوں آپ یہاں ربوہ ہی آجائیں تو فوراً چلی آتیں اور دو دو ماہ میرے ساتھ ہی گزارتی تھیں۔

بیعت اور ایمان میں پختگی کا اظہار

میں نے اپنے ابا جان سے محترمہ دادی جان کی بیعت کا پوچھا تو انہوں نے کہا میرے دادا جان مرحوم نے بیعت 1932ء میں کی تھی۔ دادی جان نے اس وقت بیعت نہیں کی تھی۔ بلکہ 1953ء میں جا کر بیعت کی۔

دادی جان مرحومہ کے اپنے کوئی رشتہ دار نہ تھےبلکہ جس گھرانے میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی وہی ان کے رشتہ دار تھے۔ والدین بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ جب دادی جان مرحومہ نے بیعت کی تو گاؤں کے لوگ اور وہ رشتہ دار جن کے ساتھ ان کے روابط تھے وہ وفد کی صورت میں دادی جان کے پاس گولیکی ضلع گجرات میں آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے تم لوگ کافر ہوگئے ہو۔ پہلے تمہارا خاوند (میرے دادا جان سید امیر احمد شاہ صاحب مرحوم )کافر ہوئے اور اب تم نے بھی وہی مذہب اختیار کر لیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اپنے خاوند اور اس نئے مذہب کو چھوڑ دو ہم تمہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں لیے چلتے ہیں۔ تو میری دادی جان نے یہ جواب دیا کہ ہاں میرے میاں نے بقول تمہارے نیا مذہب اختیار کر لیا ہے لیکن ایک بات ہے کہ جب وہ ’’مسلمان‘‘ تھے تونہ نمازیں پڑھتے تھے اور نہ ہی کوئی اور نیکی کا کام میں نے کرتے انہیں دیکھا۔ تعویذ دیتے اور لکھتے تھے نیز مزار پر دھمال وغیرہ ڈلواتے تھے اور مشرکانہ رسوم کرتے رہتے تھے۔ لیکن جب سے انہوں نے وہ اسلام چھوڑا ہے اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ پانچوں نمازیں پڑھ رہے ہیں اور جن فضولیات میں وہ تھے وہ بھی ختم کر دی ہیں۔ آپ لوگ واپس چلے جائیں۔ مجھے یہ منظور ہے جو انہوں نےکام کیا ہے۔ پہلے والا اسلام ان کا ٹھیک نہیں تھا بلکہ جب سے تمہارے کہنے کے مطابق وہ مسلمان نہیں رہے وہ نیکی پر قائم ہوگئے ہیں۔ الحمد للہ۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔

اپنے پوتی اور پوتوں کے ساتھ محبت کا اظہار

میرے ابا جان سید شوکت علی صاحب ان کی بڑی اولاد تھیں۔ قدرتاً ابا جان کی اولاد کے ساتھ دادا اور دادی کے طور پر انہیں ہم سے بھی محبت تھی۔ میری بڑی بہن محترمہ سیدہ تنظیم النساء عمر میں مجھ سے ایک سال بڑی ہیں۔ اس وقت جرمنی میں اپنے میاں اور دیگر بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ دادا جان اور دادی جان کو بہت پیار تھا۔ جب ہماری عمر سکول میں جانے کی ہوئی تو مجھے دادا جان نے خود سکول جا کر داخل کرایا۔ لیکن جب میری بہن کو انہوں نے کہا تو وہ رونے لگ گئیں کہ میں نے سکول نہیں جانا۔ سکول میں استاد مارتے ہیں۔ دادا جان کو رحم آگیا کہنے لگے کہ ٹھیک تم میرے ساتھ گاؤں چلو اور وہیں رہنا کیونکہ ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ میں نے اس کو سکول میں ضرور داخل کرانا ہے۔ پس دادا جان آڑے آگئے اور کہنے لگے کہ نہیں جو بچی کہتی ہے میں نے وہی کرنا ہے۔ پس پھر کیا تھا ہماری بہن تنظیم دادا جان کے ساتھ گاؤں چلی گئیں وہیں دادی کے پاس ان کی پرورش ہوئی اور پھر سکول نہیں گئیں۔ جب ان کی شادی ہونے والی تھی تومیں جامعہ میں پڑھتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اسے کچھ تھوڑا بہت تو پڑھنا آنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی بڑی بہن کو ا، ب، پ والا قاعدہ اور تھوڑا بہت لکھنا سکھادیا۔ الحمدللہ کہ وہ کتاب پڑھ لیتی ہیں۔ اور اگر کچھ تھوڑا بہت لکھنا پڑ جائے تو وہ لکھ بھی لیتی ہیں۔ ان سے میں نے فون پر پوچھا کہ دادی جان کی کوئی بات سناؤ تو آواز بھرّا گئی محبت سے جذبات غالب آگئے کہنے لگیں کہ کیا بتاؤں انہوں نے مجھ سے کس قدر پیار کیا ہے میں نے کہا کچھ ان کی کوئی نیکی کی بات یا خصوصیت بتائیں۔ تو کہنے لگیں کہ گھر میں ہمارے ایک نوکر ہوتا تھا جن کا نام مقبول تھا۔ انہیں میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے کھانا ان کو ملتا تھا۔ اور روٹی پر گھی لگا کر دیتی تھیں۔ ہمسایوں کے ساتھ بھی بہت نیک سلوک کرتی تھیں۔ ہمسایوں کے گھر دودھ بھی بھجواتی تھیں اور عید پر بھی ان کے بچوں کو عیدی وغیرہ دیتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہمارے دونوں چچاؤں کی شادی ہوئی۔ چچا سید شبیر احمد صاحب آسٹریلیا اور چچا سید عاشق علی صاحب ربوہ، ہر دو کی بیویوں کو بیٹیوں کی طرح گھر میں رکھا۔ ان کے آرام کا خیال رکھا۔ اور بہت عزت و احترام سے ان کے ساتھ پیش آتی تھیں۔

ایک باہمت خاتون

میں نے اپنے شعور میں اپنی دادی جان کو بیمار نہیں دیکھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی باہمت خاتون تھیں۔ گاؤں میں ہمارا گھر خدا کے فضل سے بڑا تھا۔ سارے گھر کی روزانہ دو دفعہ صفائی کرتیں۔ پھر ہمارے گھر ہر قسم کے جانور تھے۔ کچھ تو ضرورت کے تحت تھے اور کچھ شوقیہ رکھے ہوئے تھے مثلاً 3، 4 گائیں تھیں۔ گائیوں کے بچے تھے۔ بیل تھے جو زمیندارہ کی وجہ سے ہل چلانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ پھر ایک دفعہ ابا جان نے بھینس بھی خرید لی۔ دادا جان بکری کا دودھ پسند کرتے تھےاس لیے اچھی خاصی بکریاں تھیں۔ گھوڑا دادا جان کی ضرورت کے لیے تھا۔ وہ گھوڑے کی سواری ہی پسند کرتے تھے۔ ایک گدھا بھی تھاجس پر گندم وغیرہ لاد کر شہر لے جاکر آٹا پسوایا جاتا تھا۔ ہرن بھی رکھا ہوا تھا۔ ایک دفعہ سردیوں کی رات ہرن اپنی جگہ سے آزاد ہوگیا اور اس نے ایک بکری کے پیٹ میں اپنا سینگ گھسیڑ دیا۔ جس کی وجہ سے اگلے دن ہرن کو ذبح کر لیا گیا۔ بھیڑیں بھی تھیں اور چکی والے دنبے بھی۔ ابا جان نے کچھ عرصہ کے لیے اونٹ بھی رکھا تھا۔ اس کے علاوہ طوطا، کبوتر، بلی، 4-5حفاظتی کتے اورمرغیاںتھیں۔ ان سب جانوروں کا خیال رکھنا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ اور ہماری دادی جان ان سب چیزوں کا خیال رکھتی تھیں۔

بعض اوقات نوکر چھٹی پر چلا جاتا یا کچھ عرصے کے لیے غائب ہوجاتا تو پھر دادی جان اکیلی ہی گھر میں، اتنے جانوروں کے لیے گھاس کا، پانی پلانے کا اور پھر گوبر وغیرہ کی صفائی روزانہ کی بنیاد پر، پھر رات کے وقت سارے جانور گھر کی چار دیواری میں باندھے جاتے تھے۔ جبکہ صبح سویرے باہر درختوں کے نیچے، ہر دو جگہ ان کے لیے کھیتوں میں سے گھاس کاٹ کر لاتیں۔ مشین میں ان کا چورا کر تیں۔ پھر سب جانوروں کو گھاس ڈالتیں اور پانی پلاتیں۔ یہ بہت ہی مشکل کام تھا مگر انہوں نے کبھی اس میں ناغہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی کبھی کسی تکلیف اور تھکان کا اظہار کیا۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ گھر کے اندر پانی کا نلکا نہ تھا۔ باہر کنویں سے ہی صبح و شام پانی گھر کے سارے استعمال کے لیے خود لے کر آتی تھیں۔ کھانا پکانا اس کے علاوہ تھا۔ رات کو بہت کم آرام کرتی تھیں۔ اس وجہ سے میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ میں نے ان جیسی بہادر اور باہمت خاتون نہیں دیکھی جو آدمیوں سے بھی زیادہ وہ کام کرلیتیں۔

انتہائی سادہ خاتون تھیں۔ مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے کبھی نیا کپڑا پہنا ہو۔ ہاں صاف، دھلے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں اور نئے کپڑوں کی بجائے اپنی بہوؤں کے کپڑے پہن کر گذارہ کرتی تھیں۔ کبھی کسی قسم کی کوئی فرمائش نہیں کی۔ آخری عمر میں صرف مجھے یہ کہا تھا کہ مجھے عینک لگوا دیں۔ اور مجھے موٹے حروف والا قرآن شریف لے دیں۔ جب میں نے ان کی آنکھوں کا معائنہ کرایا تو پتہ چلا کہ موتیا ہے۔ پھر اس کا آپریشن ربوہ ہی میں کرایا۔ مجھے ساری عمر میں بس ان کی یہی ایک فرمائش یاد ہےجسے خداتعالیٰ کے فضل سے پورا کرنے کی توفیق ملی۔

سخت پردے کی وجہ سےپہچانی نہ گئیں

اتنے گھریلو اور باہر کے کاموں کے باوجود بھی کبھی پردے سے غافل نہ ہوئیں۔ اول تو ہمارے ڈیرے پر باہر کا کوئی آدمی آتا ہی نہ تھا۔ لیکن اگر کوئی آجاتا تو بھرپور پردہ کرتی تھیں۔ برقعہ تو میں نےانہیں کبھی پہنے نہیں دیکھا لیکن قرآنی حکم کے ماتحت اپنی اوڑھنی اور چادر اس طرح لیتی تھیں کہ پہچانی بھی نہ جاتیں۔

ایک دفعہ تو لطیفہ ہی ہوگیا۔ اور وہ یہ کہ میں جب پہلی یا دوسری مرتبہ امریکہ سے چھٹی پر گیا تومیں نے ابا جان سےکہا کہ بجائے اس کے کہ میں دو چار دن کے لیے چنی گوٹھ دادی جان کو ملنے جاؤں میں چاہتا ہوں کہ جتنا عرصہ میں ربوہ رہوں دادی جان میرے پاس یہاں ہی رہیں۔ ابا جان کہنے لگے کہ ٹھیک ہے۔ ان دنوں چناب ایکسپریس چنی گوٹھ سٹیشن پر ٹھہرتی تھی اور ادھر سے سیدھی ربوہ تک آتی تھی۔ ابا جان نے دادی جان کو مقررہ تاریخ پر چنی گوٹھ سے چناب ایکسپریس پر بٹھا دیا۔ خط کے ذریعہ پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ فلاں تاریخ کو چناب پر سوار کر ا دوں گا آپ ربوہ اتار لیں۔

میں نے سوچا کہ ربوہ تو ایک دو منٹ کا سٹاپ ہے۔ پتہ نہیں کس ڈبے میں ہوں گی۔ تلاش کرتے کرتے کہیں گاڑی ہی نہ روانہ ہوجائےاس لیے میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور ہم دونوں فیصل آباد چلے گئے جہاں گاڑی 15 منٹ ٹھہرتی تھی۔ ہم نے ساری گاڑی دیکھ لی مگر ہمیں کچھ پتہ نہ چلا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ دعا بھی کی۔ اچانک ایک ڈبے میں دیکھا ایک خاتون ایک سیٹ پر سکڑ کر اور کپڑے میں لپٹ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ چونکہ سارے جسم پر چادر اس طرح لپٹی ہوئی تھی کہ نظر ہی نہ آتی تھیںصرف ان کےپاؤں کی انگلیاں دکھائی دیں جن کو میں نے پہچان لیا۔ چنانچہ میں نےپوچھا کہ آپ دولت بی بی ہو؟ کہنے لگیں ہاں۔ پھر ہم ان کو ربوہ لے کرآئے۔ دس سے گیارہ گھنٹے کا سفرانہوں نے اسی طرح چادر میں لپٹے، بغیر کچھ کھائے پیئے گزارا۔

میں نے جب اپنی سب سے چھوٹی بہن سیدہ ناصرہ شفقت صاحبہ حیدر آباد سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ دادی جان کی کوئی بات بتاؤ جو تمہیں یاد ہے تو اس نے لکھ کر بھیجا کہ ’’مجھے دادی جان کے گھریلو ملازم کے ساتھ اچھا سلوک یاد ہے کہ ان کو کھانا ہمیشہ پہلے دینا اور وہی دینا جو سب کے لیے ہوتا تھا۔ رات کو جس طرح سب کو دودھ کا گلاس دینا ویسے ان کو بھی دینا۔ اس کے علاوہ ہمسائے جن گھر میں دودھ نہیں ہوتا تھا صبح و شام ان کے گھر دودھ بھیجنا اور یہ کوئی ایک دو دن تک نہیں بلکہ جب تک ان کے گھر کے دودھ کا انتظام نہ ہوجاتا جس پر بعض اوقات 5، 6 ماہ کا عرصہ اور کبھی زائد بھی گذر جاتا۔ لیکن دادی جان بغیر کسی تکلیف اور دقت کے خوشی خوشی یہ خدمت انجام دیتی تھیں۔ ‘‘

میری ایک چچی جو ربوہ میں ہیں نے بتایا’’بڑی پیار کرنےوالی، اور خیال کرنے والی تھیں۔ ہمارے ساتھ بیٹیوں کا سا سلوک کرتی تھیں۔ ‘‘

میرے چچا سید عاشق احمد طاہر صاحب ربوہ نے بتایا کہ ہماری والدہ نے ہمارے والد کی آخری بیماری میں جو کہ تقریباً 6-7 ماہ کا عرصہ ہے اتنی خدمت، اتنی خدمت کی کہ انہیں ہاتھوں میں اٹھا کر رفع حاجت کے لیے لے جایا کرتی تھیں اور پھر خود ہی انہیں نہلاتی بھی تھیں۔ اخلاص، وفا داری اور محبت سے احسن رنگ میں حد درجہ خدمت کی۔

میرے ایک کزن عزیزم مبارک احمد صاحب جو میرے منجھلے چچا سید شبیرعلی صاحب کے بڑے بیٹے ہیں، نے جرمنی سے مجھے بتایا کیونکہ عزیزم مبارک احمد نے بھی ایک لمبا عرصہ دادی جان کے پاس گاؤں میں گذارا تھا انہوں نےبتایا کہ ایک چیز کا میری طبیعت پر بہت اثر ہے کہ کبھی کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ رواج کے مطابق آٹا، گڑ یا کوئی اور اجناس دیتیں۔

اس کے علاوہ اگر ہمسایوں سے کوئی خاتون یا بچہ کوئی چیز مانگنے آگیا تو بلا تامل ان کی ضرورت پوری کر دیتی تھیں۔ اور پھر اگر وہ واپس بھی لے کر آتے تو نہ لیتیں۔

نماز میں شغف

میری ایک کزن سیدہ پروین منصور آف جرمنی سے میں نے دادی جان کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بتایا کہ’’دادی جان کی سب سے زیادہ بات جو مجھے یاد ہے اور دل پر نقش ہے کہ وہ نماز کی بہت پابند تھیں۔ جب کام کرتے ہوئے نماز کا وقت آجاتا تو فوراً کام درمیان ہی میں چھوڑ دیتیں اور کپڑے بدل کر پہلے نماز ادا کرتیں۔ اور پھر اپنا کام دوبارہ شروع کر دیتیں۔ ‘‘

بیماری اور وفات

میں جب امریکہ آیا تو میری اہلیہ اور بچے پاکستان ہی تھے۔ جنہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کوارٹر تحریک جدید ملا ہوا تھا۔ میری والدہ کوارٹر تحریک جدید ہی میں فوت ہوئیں۔ دادی جان مرحومہ اس وقت گاؤں میں تھیں۔ وہ فوراً آگئیں۔ اور پھر اس کے بعد کہنے لگیں کہ میں بھی اب ربوہ ہی میں رہوں گی۔ چنانچہ آپ ربوہ میں رہائش پذیر ہوگئیں۔

میرے بچوں کے امریکہ چلے آنے کے بعد میرے چھوٹے بھائی نے ایک مکان کرایہ پر لیا اور وہاں پر آگئیں۔ ایک دن نہانے کے لیے غسل خانہ گئیں تو گر گئیں جس سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس کا علاج ہوا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور اسی بیماری میں چند ماہ بستر پر رہیں اور پھر ایک دن اللہ تعالیٰ کوپیاری ہوگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

میرے والد سید شوکت علی صاحب اور میرے چچا سید عاشق احمد طاہر صاحب ہر دو دسمبر 1993ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ابا جان نے بتایا کہ جس دن ہم واپس ربوہ پہنچے غالباً جنوری 1994ء کی پہلی یا دوسری تاریخ تھی توہماری دادی جان کا انتقال ہوا۔

عمررکھنے کا کوئی حساب نہیں تھا۔ جس سے بھی پوچھا سب نے یہی بتایا کہ 80 سال سے اوپر ان کی عمر تھی۔ خاکسار نے اپنی دادی مرحومہ کی وفات کی اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں دی۔ حضورؒ کی طرف سے تعزیت کا خط آیا جس میں حضور نے فرمایا کہ دیگر عزیز و اقارب کو بھی آپ کی طرف سے تعزیت کروں۔ خاکسار نے ہیوسٹن میں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھایا۔

بہرحال یہ ان کی چند خوبیاں لکھی ہیں۔ بات ستاروں کے دیکھنے سے چلی تھی حقیقت میں میرے لیے وہ ایک ’’ستارہ‘‘ ہی تھیں جس نے ہمارے سارے گھر کو روشن کر رکھا تھا اورہمارے لیے ہدایت کا موجب تھیں۔

آپ کی تدفین ربوہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button