ارجنٹائن میں اسلام احمدیت کا پیغام غیروں کے لیے تسکین کا باعث
دو سال قبل ارجنٹائن میں ایک نو جوان Fernando Baez کو نہایت ظالمانہ طور پر قتل کیا گیا جس کے قتل کی تشہیر ملک بھر میں ہوئی اور مختلف مظاہرے اور میڈیا میں مباحثات منعقد کیے گئے۔ ایک بین المذاہب پروگرام کے موقع پر خاکسار کو بھی دعوت دی گئی تاکہ اسلام احمدیت کی نمائندگی میں اس مقتول نوجوان کے والدین سے براہِ راست خطاب کروں۔
خاکسار کے لیے یہ ایک نہایت مشکل امر تھا کیونکہ مقتول کی فیملی کےسامنے الفاظ اورمضمون کا چناؤ نہایت احتیاط طلب کام تھا تاکہ ان کی حوصلہ افزائی کا حق ادا کیا جاسکے۔ نیز یہ فکر بھی تھی کہ غیر مسلموں کے سامنے کس طرح سے مؤثر رنگ میں اسلامی تعلیمات پیش کی جائیں تا کہ انہیں بھی ذاتی فائدہ پہنچے۔
چنانچہ خاکسار نے قرآنی تعلیم پیش کی کہ جب کسی شخص کی وفات ہوتی ہے تو ہم انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا کہ خدا ہی ہماری جان کا مالک ہے اور ہر جان وفات کے بعد خدا کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ نیز وفات کے موقع پر اسلام لواحقین کو صبر کی تلقین کرتا ہے۔ صبر کے مفہوم کو پیش کرنے کے لیے خاکسار نے آنحضرت ﷺ کی سیرت کے کچھ واقعات پیش کیے کہ جب آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تو اس صدمہ پر آپ نے کس طرح اپنے ذاتی نمونہ سے ہماری راہنمائی فرمائی۔ بے شک آپ ﷺ کا دل غمگین تھا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے لیکن آپ کو اپنی زبان اور جذبات پر مکمل قابو تھا۔ ایک لمحہ کے لیے بھی آپ کے خدا پر ایمان اور توکل میں کوئی تذبذ ب یا خلل واقع نہ ہوا بلکہ مکمل استقامت کے ساتھ آپ یہی دہراتے کہ ہم خدا کی قضا پر راضی ہیں۔ نیز حاضرین کے سامنے آنحضرتﷺ کا یہ قول بھی پیش کیا کہ جب ایک مومن اپنے بچے کی وفات پر خدا تعالیٰ کی خاطر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے لیے جنت میں ایک خاص مقام تیار کیا جاتا ہے ۔
جب خاکسار نے اپنی گفتگو مکمل کی تو پورا اندازہ نہ تھا کہ حاضرین اور بالخصوص اس مقتول نوجوان کے والدین کے کیا تاثرات ہیں لیکن کچھ وقفہ کے بعد جب والدین سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ practicing عیسائی ہیں اور ان کے بچے کی وفات پر ان کو Pope کی طرف سے ایک ذاتی تعزیت کا خط بھی وصول ہوا لیکن کہنے لگے کہ جو اسلام کی تعلیمات اور پیغام سن کر ہمیں تسکین اور راحت پہنچی وہ ہمیں اپنےمذہب میں بھی نہیں ملی۔ چنانچہ ہماری اس پہلی ملاقات کو تقریباً ایک سال گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی اسلام کا پیغام ان کی زندگیوں میں نہ صرف مستحضر ہے بلکہ وہ اپنے حلقۂ احباب میں بھی اس کو بیان کرتے ہیں۔
نیز جب بھی اپنے بیٹے کی یاد میں کوئی انسانی ہمدردی یا خدمتِ خلق کا پروگرام منعقد کرتے ہیں تو جماعت کو بھی دعوت دیتے ہیں تا کہ ہم اسلام احمدیت کے پیغام کو بھی حاضرین کے سامنے پیش کریں، بلکہ اپنے پروگراموں میں با قاعدہ طور پر ہمارے ماٹو “محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کو نمایاں طور پر پیش کرتے ہیں۔
یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے غیر مسلموں کے لیے بھی اسلام احمدیت کے پیغام کو اطمینان قلب اور سکینت کا باعث بنایا اور مقتول نوجوان کے والدین کو اسلامی تعلیمات کے بدولت صبر اور قوت پہنچ رہی ہے۔
(رپورٹ: مروان سرور گِل۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)