خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ دسمبر 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

٭… مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک پلّے پر آنحضرتﷺ کو اوردوسرے پر حضرت صدیق کو رکھا ہے

٭…نئے سال کے آغاز پر عالَم گیر جماعتِ احمدیہ کو دعاؤں،نوافل ،انفرادی و اجتماعی تہجد ،درود شریف، استغفار اور

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُاور رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ

یہ دعائیں پڑھنے کی تلقین

تین مرحومین مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب سابق امیر ضلع ملتا ن، مکرم رحمت اللہ صاحب انڈونیشیا اور مکرم الحاج عبدالحمید ٹاک صاحب یاری پورہ کشمیر کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ دسمبر 2021ء بمطابق 31؍فتح1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 31؍ دسمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ، سورةالفاتحہ اور سورۃ التوبۃ آیت 40کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

گذشتہ خطبے میں حضرت ابوبکرؓ کے غارِ ثور کے واقعے کا ذکر چل رہا تھا۔ اس واقعےکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تم اس رسول کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ پہلے بھی اس کی مدد کرچکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا وطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اس پر سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا۔ اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اور بہت حکمت والا ہے۔

جب کفارِ مکہ غار کے دہانے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے تو حضرت ابوبکرؓرسول اللہﷺکے پکڑے جانےکے خوف سےگھبرا گئے ایسےمیں حضورﷺ نے فرمایا کہ

لَا تَحْزَن اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔

غم نہ کرو یقیناً ہماراخدا ہمارے ساتھ ہے۔ غارِ ثور کے پہاڑ کے پاس پہنچ کر سراغ رساں نے کہا کہ وہ لوگ یہاں سے آگے نہیں گئے۔ اس پر کسی نے غار کے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو امیّہ بن خلف نے تلخی اور بےپروائی سے کہا کہ یہ جالا اور درخت تو مَیں محمد(ﷺ) کی پیدائش سے پہلے یہاں دیکھ رہا ہوں، تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے، وہ یہاں کہاں ہوسکتا ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ قریشِ مکہ نے محمدﷺ کو زندہ یا مردہ پکڑکر لانے پر ایک سَو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا تھا، اس انعام کی طمع میں کئی لوگ مکّے کے چاروں طرف ادھر ادھر نکل گئے۔جب رؤسائے قریش غار پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ غار کے منہ پر جو درخت تھا اس کی عین منہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دےدیے تھے اور ایک مکڑی نے جالا بُن دیا تھا۔ بظاہر یہ روایت کمزور ہے لیکن اگر ایسا ہوا بھی ہو تو تعجب کی بات نہیں۔ جب کفار کو اتنے قریب پاکر حضرت ابوبکرؓ گھبرائے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اے ابوبکر! تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا اُن کاخدا ہے۔اس پر حضرت ابوبکرؓ نے رقّت بھری آواز میں کہا کہ یارسول اللہﷺ! اگر مَیں مارا جاؤں تو مَیں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امّت کی امّت مٹ گئی۔

سیّدناحضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعے کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰ کے ساتھیوں نے گھبرا کر کہا کہ اےموسیٰ! ہم پکڑے گئے مگر محمدﷺ کے توکّل نے آپؐ کے ساتھی پربھی ایسا اثر ڈالا کہ اس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے۔ اس نےکہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگر وہ ہمیں دیکھنا چاہےتودیکھ سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں آنحضرتﷺ کا یہ انتخاب ہی حضرت ابوبکرؓ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی زبردست دلیل ہے۔آنحضرتﷺ کو کشف اور الہام سے بتادیا گیا تھا کہ اس کام کےلیے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکرؓ ہیں۔یہ وقت خطرناک آزمائش کا تھا۔ حضرت مسیح پر جب اس قسم کا وقت آیا تو ان کے شاگرد ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے لعنت بھی کی۔مگر صحابہ کرام میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا… اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرتﷺ حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں چنانچہ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک پلّے پر آنحضرتﷺ کو اوردوسرے پر حضرت صدیق کو رکھا ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ طےشدہ پروگرام کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے ہونہار صاحبزادے حضرت عبداللہ بن ابوبکررات کو غارِثور آتے اور دن بھر کی خبریں دیتے، ہدایات لیتے اور علی الصبح اس طور مکّہ واپس جاتے کہ جیسے رات مکّے میں ہی بسر کی ہو۔ عامر بن فہیرہ کی ذہانت یہ تھی کہ رات کو دودھ والی بکریوں کا دودھ دینےکےبعد بکریوں کو اس طرح واپس لاتے کہ حضرت عبداللہ بن ابوبکرکےقدموں کے نشانوں کو مٹادیتے۔

صحیح بخاری کی روایت کےمطابق عبداللہ بن اریقط سے یہ وعدہ ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ تین دن بعد صبح کے وقت اونٹ لےکر پہنچے گا چنانچہ تیسرے دن وہ اونٹنیاں لےکر غارِثورپر پہنچ گیا۔آنحضرتﷺ کی ایک اونٹنی کا نام قصوا ملتا ہے اس پر آپؐ سوار ہوئے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنی اونٹنی پر اپنے ساتھ عامر بن فہیرہ کو سوار کیا اور اریقط اپنے اونٹ پر سوار ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گھرپر کُل سرمایہ پانچ یا چھ ہزار درہم تھا،آپؓ نے روانہ ہوتے وقت وہ سرمایہ اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔آپؓ نے مکّے سے نکلتے ہوئے نہایت افسوس سے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔

جب مکّے سے تقریباً بیاسی مِیل کے فاصلے پر جحفہ مقام پر پہنچے تو آیتِ کریمہ

اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ

نازل ہوئی یعنی وہ جس نے قرآن کو تجھ پر فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔

اریقط جیسے ماہر راستہ شناس کی نگرانی میں ساحلی بستیوں کی جانب سے مدینے کی طرف یہ سفر شروع ہوا تو انعام کے لالچ میں تعاقب کرنے والوں میں ایک نام سراقہ بن مالک کا بھی تھا۔ سراقہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے انہوں نے خود اس واقعےکی تفاصیل بیان کی ہیں۔ ان کے مطابق باربار اس تعاقب کے خلاف فال نکلنے کےباوجود وہ کوشش کرتے رہے۔ ان کی اونٹنی بُری طرح ٹھوکر کھاگئی، اس کے پاؤں ریت میں دھنس گئے۔ بالآخر انہیں یقین ہوگیا کہ یہ تعاقب درست نہ تھا۔ انہوں نے امان کی آواز لگائی اور حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے یقین ہے کہ آپؐ ایک دن ضرور بادشاہ ہوں گے، مجھے کوئی عہدوپیمان لکھ دیں کہ اس روز مجھ سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔حضورﷺ نے انہیں وہ تحریر لکھوا دی۔

یہ ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورنے نئے سال کے آغاز پر عالَم گیر جماعتِ احمدیہ کو دعاؤں،نوافل اورانفرادی و اجتماعی تہجد کی طرف توجہ دلائی۔درود شریف، استغفار اور

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُاور رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ

یہ دعائیں پڑھنے کی تلقین فرمائی۔

خطبے کے آخر میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل تین مرحومین کاذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب سابق امیر ضلع ملتا ن جو 18؍دسمبر کو 80 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم لمبا عرصہ قائد ضلع ملتان ،قائد مجلس اور قائد علاقہ بھی رہے۔آپ کی شادی مرزا عزیز احمد صاحب کی بیٹی دردانہ صاحبہ سے ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹے اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔1984ء کے حکومتی آرڈیننس کے بعد کے آزمائشی دَور میں بڑی دلیری کے ساتھ ضلع ملتان کے تمام ساتھیوں کو ہمت دلاتے رہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے سفرِ ہجرت میں بھی خدمت کا موقع ملا۔ ایک موقعے پر قافلےکو لِیڈ بھی کیا۔ مرحوم بڑے عبادت گزار،تلاوت کلامِ پاک کا شوق رکھنے والے، تہجد کے پابند،متوکل، خلافت اور نظام کا احترام کرنےوالے، وسیع القب،مہمان نواز، دلیر، رشتے داروں اور غریبوں کا خیال رکھنے والے تھے۔

مکرم رحمت اللہ صاحب انڈونیشیا جو چھیاسٹھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم مشرقی جاوا میں پیدا ہوئے تھے اور 1980ءمیں انہوں نے بیعت کی تھی۔1993ء میں نظامِ وصیت سے منسلک ہوئے۔ بیعت کےبعد مقامی جماعت کے علاوہ لوکل مجالس انصار اللہ میں خدمت بجالاتے رہے۔ مخالفت کے باوجود ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ خلافت کا بڑا احترام کرنے والے اطاعت گزار تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بچے اور چھ نواسے شامل ہیں۔

مکرم الحاج عبدالحمید ٹاک صاحب یاری پورہ کشمیر۔ یہ 24؍دسمبر کو 94 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم صوبائی امیر جموں و کشمیر کے علاوہ ضلعی امیر اورناظم انصاراللہ کے طور پر خدمات کی توفیق پاتے رہے۔ آپ کی صوبائی امارت کے دوران وادی کشمیر میں پانچ جماعتی سکولوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔ مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کے لیے بھی انہوں نے بڑی محنت کی۔مرحوم سال ہا سال انجمن تحریکِ جدید بھارت کے اعزازی ممبر اور رکن رہے۔ یاری پورہ کے علاقے میں سماجی خدمات کی وجہ سے ان کی بڑی عزت تھی۔ مرحوم نہایت نیک، نرم مزاج، ملنسار، ہر دل عزیز، سنجیدہ اور خاموش طبع بزرگ تھے۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button