متفرق مضامین

اسلام میں مساوات کا تصور (قسط ہفتم۔ آخری)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

اظہار رائے کا حق

جس طرح اللہ تعاليٰ نے ہر انسان کوآزاد پيدا کيا ہے، اسي طرح آزاد ئ اظہار بھي اُس کا پيدائشي اور بنيادي حق ہے۔ اسلام نے بھي ہر انسان کو اظہاررائے کي آزادي دي ہے جبکہ ترقي کے موجود دَور ميں اقوام عالم نےآزادئ رائے کو اپني دساتير ميں شامل کرليا ہے۔ اظہار رائے کا مطلب يہ ہے کہ ہر انسان کو تقرير و تحرير اور عمل کے ذريعہ اپنے خيالات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ اسلام نےنہ صرف ہر انسان کے اس بنيادي حق کو تسليم کيا ہے بلکہ اس کے ليے ايک مکمل ضابطہ حيات بھي پيش فرمايا ہے۔ چنانچہ اسلام نے ہر انسان کا ايک اہم حق يہ مقرر کيا ہے کہ اُسے اظہار رائے کي آزادي ہو اور وہ اپنے نقطہ نظر اور عقيدہ و رائے کي تبليغ و اشاعت کرسکے۔ قرآن کريم کي متعدد آيات ميں اللہ تعاليٰ نے اس حقيقت کا اظہار فرمايا ہے کہ جس بات کو انسان دوسروں کے لیے خير اور بھلائي کا موجب خيال کرتا ہے اُنہيں دوسروں تک پہنچانا اللہ تعاليٰ کي صفت رحمانيت کے فيض کو عام کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ قرآن شريف کے متعدد مقامات پر اپنے عقيدے کي تبليغ اوراس کي اشاعت کي طرف توجہ دلائي گئي ہے۔جيسا کہ فرمايا :قُمْ فَاَنْذِرْ (المدثر:3) اُٹھ کھڑا ہواور انتباہ کر۔

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ (المائدہ:68)

اے رسول! اچھي طرح پہنچادے جو تيرے ربّ کي طرف سے تيري طرف اُتارا گيا ہے۔

اللہ تعاليٰ نے ہر شخص کو آزائ مذہب اورآزاد ئ ضمير کا حق ديتے ہوئے فرماياہے:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ(النحل:126)

اپنے ربّ کے راستہ کي طرف حکمت کے ساتھ اور اچھي نصيحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ايسي دليل کے ساتھ بحث کر جو بہترين ہو۔

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ اس آيت کريمہ کي تشريح ميں فرماتے ہيں :

’’اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّکَ

ميں آزادئ مذہب کا بھي اعلان کرديا گيا اور وہ اس طرح کہ اگرآنحضرتؐ کو اپنے ربّ کي طرف بلانے کا حق ہے تو لازماً تمام دنيا ميں ہر شخص کو اپنے اپنے تصور کے مطابق ربّ کي طرف بلانے کا حق ہے…آنحضرت ؐکو جو يہ حق ديا کہ آپؐ اپنے ربّ کي طرف لوگوں کو بلائيں تو اس ميں گويا آزادئ مذہب اور آزاد ئ ضمير کا بھي اعلان کر ديا گيا۔ کيونکہ اگر ايک شخص کو يہ حق ہے کہ اس ربّ کي طرف دنيا کو بلائے جس ربّ کو وہ حقيقتاً ربّ سمجھتا ہو تو تمام دنيا ميں ہر انسان کو يہ حق مل جاتا ہے ورنہ ايک کو بھي نہيں ملتا اس لئے اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّکَ ميں ايک عظيم الشان اعلان ہے اور اس کے ذريعہ تمام دنيا کے ہر انسان کو اپنے ربّ کي طرف بلانے کي ايک ايسي آزادي دي گئي ہے جسے دنيا ميں کوئي چھين نہيں سکتا۔ اگر ايک کي آزادي پر تبر رکھو گے تو تمام دنيا ميں ہر انسان کي آزادي پر تبر پڑ جائے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍فروري 1983ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 2صفحہ 112)

ہجرت مدينہ کے بعد رسول اللہ ؐکے ذريعہ جو اسلامي معاشرہ قائم ہوا اُس ميں ہر مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے عقيدے پر عمل کرنے اور اُسے پھيلانے کي مکمل آزادي دی گئي تھي۔ آپؐ نے مدينہ ميں يہودي قبائل کے ساتھ جو معاہدہ طے کيا اُس ميں ديگر شقوں کے علاوہ آزادئ ضميرومذہب بھي شامل تھي۔ سيرت ابن ہشام ميں لکھا ہے کہ آنحضرت ؐکي ہجرت مدينہ کے بعد مسلمانوں اور ديگر قبائل کے درميان ميثاق مدينہ طے پايا جس کي ايک شق يہ تھي کہ يہود بني عوف مومنوں کے ساتھ مل کر ايک قوم ہوں گے۔ يہود کو اپنے دين پر اور مسلمانوں کو اپنے دين پر قائم رہنے کي آزادي ہے۔ وہاں جو ظلم کرے اور گناہ کرے وہ اپنے نفس کو اور اپنے اہل بيت کو نقصان پہنچائے گا۔(سيرت ابن ہشام جلد 1صفحہ 503۔ کتابہ بين المہاجرين والانصار موادعة يہود)

نبي کريم ؐ کے مبارک اسوے سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے ہر فرد بشر کو آزادئ رائے کا حق ديا اور اُس ميں کسي قسم کي مذہبي تفريق نہيں فرمائي۔ بخاري کي روايت ہے کہ ايک بار ايک يہودي اپنا تجارتي مال بيچ رہا تھا، اس کو اس سامان کي کچھ ايسي ہي قيمت پيش کي گئي کہ جس کو اُس نے بُرا منايا اور اس نے کہا: اس ذات کي قسم جس نے موسيٰ ؑکو تمام بشر سے بہتر چنا۔انصار ميں سے ايک شخص نے يہ بات سني وہ اُٹھا اور اس نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا: تو يہ کہتا ہے کہ اسي ذات کي قسم جس نے موسيٰ ؑکو تمام بشر سے بہتر سمجھ کر چنا ہے۔ حالانکہ نبي کریم ؐ ہم ميں موجود ہيں۔ وہ يہودي آپؐ کے پاس گيا اور کہا :ابوالقاسم! ميري حفاظت کا آپؐ نے ذمہ ليا ہوا ہے اور ميرے ساتھ معاہدہ ہے۔ پھر فلاں کو کيا شہ تھي کہ اس نے ميرے منہ پر طمانچہ مارا۔آپؐ نے (انصاري سے بلا کر) پوچھا: تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کيوں مارا؟اس نے واقعہ بيان کيا۔ نبی کریم ؐيہ سن کر اس قدر غصہ ميں آئے کہ آپؐ کے چہرہ سے وہ غصہ دکھائي ديا۔ پھر آپؐ نے فرمايا: اللہ کے نبيوں کو ايک دوسرے پر فضيلت مت دو۔

(صحيح البخاري کتاب احاديث الانبياء باب35:قَوْلُ اللّٰہِ تَعَالٰي وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ حديث :3414)

گو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ کا مقام تمام انبیاء سے بلند و برتر ہے تاہم اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامي تعليم ميں احترام آدميت اور شرف انساني کے قيام کے ليے بہت زور ديا گيا ہے تاکہ اس کے نتيجے ميں کسي بھي معاشرے ميں بسنے والے لوگ ايک دوسرے کے قريب ہوں اور اُن ميں باہمي تعاون کا جذبہ فروغ پائے۔

اگرچہ اسلام نے دنيا کے ہر انسان کو آزاد ئ رائے کا حق ديا ہے ليکن اس کي کچھ حدود وقيود بھي مقرر فرمائي ہيں تاکہ تحريروتقرير يا کسي بھي طرح کي آزادي کےبے جا استعمال سے کسي انسان کي عزت نفس مجروح نہ ہو اور نہ ہي کسي قوم اور قبيلے کا تمسخر اڑايا جاسکے۔اسلام نے پيشوايان مذاہب کي عزت و تکريم کو ہميشہ مقدم رکھا ہے اور آزادي اظہار کے نام پر اُن کي توہين کي ہرگز اجازت نہيں دي۔ گويا اسلام ايسي مادر پدر آزاد ئ اظہار کے حق ميں نہيں جس کے نتيجے ميں انسانوں کے درميان نفرت کي ديواريں حائل ہوں۔ زمين ميں فساد پھيلے اور معاشرتي امن تباہ ہو۔

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: ’’معاشرے کے حوالے سے مطلق آزادي کا نعرہ بالکل کھوکھلا بے معني غير فطري اور غير حقيقي نعرہ ہے۔ بعض اوقات آزادي کے ايسے غلط معنے ليے جاتے ہيں اور اس کے تصور کو اتنا غلط استعمال کيا جاتا ہے کہ آزادئ تقرير کا حسين اصول بے حد بدنما اور بدصورت بن کر رہ جاتا ہے۔ گالي گلوچ دوسروں کي عزت و آبرو پر حملے اور پاک اور مقدس وجودوں کي توہين آخر کہاں کي آزادي ہے؟‘‘(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل ،صفحہ 44)

اچھے اخلاق اور اچھے رويوں کو انساني فطرت قبول کرتي ہے جبکہ ترش روي اور بري بات عموماً انساني اذہان پر برا اثر ڈالتي ہے۔پس جو بات اچھے طريق اور اچھے انداز ميں کي جائے گي اُس کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اوروہ بات لوگوں کے دلوں پر اثر کرے گي۔ چنانچہ قرآن کريم نے اظہار رائے کے وقت اچھي گفتگو کي طرف متوجہ کرتے ہوئے يہي راہ نما اصول بيان فرمايا ہے کہ

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة:84)

اور لوگوں سے نيک بات کہا کرو۔

قرآن کريم کے ايک اور مقام پر نبي کريمؐ کو مخاطب کرکے فرمايا ہے :

وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ۔(بني اسرائيل:54)

اور تُو میرے بندوں سے کہہ دے کہ ایسی بات کیا کریں جو سب سے اچھی ہو۔ یقیناً شیطان اُن کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان بے شک انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے۔

گويا لوگوں کواچھي بات نہ کہنا يا اُن سے اچھي گفتگو نہ کرنا بھي شيطاني عمل ہے۔پس ايسي گفتگو سے ہميشہ پرہيز کرنا چاہیے جس سے کسي کي توہين وتضحيک کا پہلو نکلے اور کسي انسان کو شرمندگي کا سامنا کرنا پڑے۔ آزاد ئ رائے کے ضمن ميں اسلام نے ايک اور راہ نما اصول يہ بيان فرمايا ہے کہ جو بات کي جائے اُسے غلط بياني اور جھوٹ کي آميزش سے پاک ہونا چاہیے۔اس ليے مسلمانوں کو يہي حکم ديا کہ

وَقُوْلُوا قَوْلًا سَدِيْدًا (الاحزاب:71)

اورصاف اور سيدھي بات کيا کرو۔پھرآزادئ رائے کے ضمن ميں ايک اور راہ نماطريق يہ بيان فرمايا ہے کہ

وَاِذَا قُلْتُمْ فاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰي(الانعام:153)

اور جب بھي تُم کوئي بات کرو تو عدل سے کام لو خواہ کوئي قريبي ہي (کيوں نہ )ہو۔

پس جب حق اور سچ بات کہي جائے گي اور ہر بات ميں عدل سے کام ليا جائے گا تو اس کے نتيجے ميں معاشرے ميں امن کي راہ ہموار ہوگي۔يہي وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کي ذمہ داري لگائي ہے کہ وہ اپنے قول وفعل اور تحريروتقرير کے ذريعہ خير اور بھلائي کي باتوں کو پھيلاتے رہيں تاکہ اس کے نتيجے ميں امن ، سلامتي ، بھلائي اور خير کا يہ پيغام ساري دنيا ميں پھيلے اور اس کے نتيجے ميں شر اور فساد کا خاتمہ ہو اور دنيا امن اور سلامتي کے حصار ميں آجائے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :

کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمران:111)

تم بہترين امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے ليے نکالي گئي ہو۔ تم اچھي باتوں کا حکم ديتے ہو اور بُري باتوں سے روکتے ہو۔

زمين ميں سفر کا حق

اسلام کا مطمح نظر يہ ہے کہ انسانوں کا تخليق کنندہ ربّ العالمين ہے جس نے يہ دنيا سب کے ليے بنائي ہے تاکہ وہ اُس کي وديعت کردہ صلاحيتوں کو بروئے کار لائيں اور دنيا ميں موجود اشياء سے فائدہ اٹھائيں۔ يہي وجہ ہے کہ اسلام نے ديگر حقوق کے ساتھ انسان کو يہ حق بھي ديا ہے کہ وہ زمين ميں آزادي کے ساتھ جہاں جانا چاہے جائے اور جس جگہ پسند کرے اپني زندگي کے دن گزارے۔اس ليے کسي انسان پر کسي خاص ملک يا علاقے ميں سفر يا رہائش کي پابندي نہيں ہوني چاہیے۔ اللہ تعاليٰ نے قرآن کريم کے ابتدا ميں ہي انسانوں کے اس حق کو تسليم کرتے ہوئے فرمايا ہے:

وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا (البقرة:36)

اور ہم نے کہا اے آدم! تُو اور تيري زوجہ جنت ميں سکونت اختيار کرو اور تم دونوں اس ميں جہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ۔

حضرت مصلح موعود رضي اللہ عنہ اس آيت کريمہ کي تفسير بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ

’’حَیۡثُ شِئۡتُمَا

جہاں چاہو کے الفاظ سے يہ بتايا ہے کہ انساني تمدن کے کمال کا ايک ضروري جزو يہ بھي ہے کہ انسان کو سفر اور اقامت کي سہولت حاصل ہو۔اور اس پر سے غير ضروري پابندياں اُٹھا دي جائيں۔ موجودہ زمانہ کے فسادات کي ايک بڑي وجہ اس حکم کي طرف سے عدم اعتنا بھي ہے مختلف اقوام ايک دوسرے کے خلاف پابندياں لگاتي ہيں کہ فلاں قوم ہمارے ملک ميں نہ آئے يا ہمارے ملک ميں نہ رہے اور اس طرح خدا تعاليٰ کي نعمتوں کو اپنے ليے مخصوص کرنا چاہتي ہيں حالانکہ اللہ تعاليٰ نے سب دنيا کو سب انسانوں کے ليے پيدا کيا ہے اور اس قسم کي روکيں پيدا کرکے دوسروں کو خدا ئي نعمتوں سے محروم کرنا بڑا گناہ ہے اس وقت بعض بڑے بڑے برّ اعظموں ميں صرف چند لاکھ آدمي رہ رہے ہيں اور دوسروں کو ان ممالک ميں آکر بسنے سے روکا جاتا ہے۔ہندوستان ميں چاليس کروڑ کے قريب آبادي ہے اور آسٹريليا جو اُس سے دُگنے کے قريب ہے اس ميں کل ستر لاکھ آبادي ہے۔[بوقت اشاعت تفسير کبير1948ء]ليکن ہندوستانيوں کو اس ميں جاکر بسنے سے روکا جاتا ہے۔ اسي طرح جنوبي افريقہ ميں ہندوستانيوں کو کامل شہري کے حقوق نہيں بلکہ اس ملک کے قديم باشندوں کو بھي يہ حقوق حاصل نہيں…اس قسم کے امتياز سے دلوں ميں بغض اور کشيدگي پيدا ہوجاتي ہے۔ اسلام نے آدم عليہ السلام کے زمانہ سے ہي اس قسم کي پابنديوں سے منع فرمايا ہے۔ اور تمام بني نوع انسان کو دنيا سے يکساں فائدہ اٹھانے کي اجازت دي ہے کاش لوگ اس تعليم پر عمل کرتے اور بغض اور فساد کا قلع قمع ہوکر يہ دنيا جو اس وقت بعض لوگوں کے ليے جہنم بن رہي ہے سب کے لئے جنت بن جاتي۔

شايد اس جگہ کسي کے دل ميں يہ شبہ پيدا ہو کہ اسلام نے بھي تو حجازميں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا داخلہ منع کيا ہے سو اس کا جواب يہ ہے کہ بے شک اسلام نے حجاز ميں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا داخلہ منع کيا ہے ليکن اس کا اثر دنيا کے اقتصادي معاملات پر نہيں پڑتا ، حجاز ايک وادي غير ذي زرع ہے جہاں نہ کچھ پيدا ہوتا ہے نہ اُگتا ہے پس اس علاقہ کے ساتھ دنيا کے کھانے پينے کا تعلق نہيں، جس علاقہ ميں نہ فصل ہوتي ہو نہ ميٹھا پاني ملتا ہو۔ اقتصادي ضرورتوں کے لئے لوگوں نے وہاں جاکر کرنا کيا ہے وہاں تو وہي لوگ جاکر بسنے کي خواہش کريں گے جن کو اس جگہ سے مذہبي لگاؤ ہو اور وہ لوگ خواہ کسي قوم کے ہوں اس جگہ جاسکتے ہيں شايد اللہ تعاليٰ نے اپني اوّل اور آخر مسجد کے لئے اس وادي غير ذي زرع کو چنا ہي اس لئے تھا تاکہ اس کے مذہبي نظام کے قيام کے ليے دوسرے مذاہب کو اس سے روکا جائے تو کسي کو يہ اعتراض نہ ہو کہ اس طرح ہميں دنيوي فوائد اور ثمرات سے محروم کردياگيا ہے ورنہ ہوسکتا تھا کہ کعبہ کو کسي سرسبز جگہ بنايا جاتا مگر ايسا ہوتا تو دوسرے مذاہب کے لوگ دنيوي فوائد سے محروم رہ جاتے ياپھر اسے دين کے ليے محفوظ قلعہ نہ بنايا جاسکتا۔‘‘(تفسير کبير جلد اوّل صفحہ 337)

مَيں اقوام متحدہ کي طرف سے جاري ہونے والے حقوق انساني کے چارٹر کا قبل ازیں ذکر کر چکا ہوں۔ اقوام متحدہ کي طرف سے جاري کردہ Universal Declaration of Human Rightsکي شق نمبر 13تا 15 ميں آزادئ سفر ، نقل مکاني ، شہريت ، اسائلم اور ہجرت وغيرہ کے متعلق تجاويز دي گئي ہيں۔ شق نمبر 13ميں کہا گيا ہے کہ

’’Everyone has the right to freeedom of movement and residence within the borders of each state.‘‘

يعني رياستي حدود کے اندر نقل وحرکت اور اقامت کي آزادي ہر فردِ واحد کا حق ہے۔

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب رضي اللہ عنہ نے اپني کتاب Islam and Human Rights(اسلام اور انساني حقوق)ميں اسلامي تعليم کي روشني ميں اقوام متحدہ کے چارٹر کي ان شقوں کا جائزہ ليتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’From the standpoint of Islam the scope and effect of these articles, by virtue of the underlying implications, are restrictive of the freedom of the individual rather than enlarging and protective. For instance, the first paragraph of article 13, though expressed in wide and general terms, is subject to the implied condition that the person claiming the right must either be a national of the State within the borders of which he wishes freely to move and reside, or must have obtained adission to its territory in compliance with its laws and regulations pertaining to such admission. The second paragraph spells out the right to leave a country, but, with the exception of a persons own country, does not concern itself with the right of entry into a country.Thus the operation of the article is circumscribed by the immigration laws of different States and their regulations concerning passports, visas, and entry and exit permits. In todays conditions that is perhaps unavoidable but it is none-the-less regrettable.‘‘(Islam and Human Rights page 81to 82)

ترجمہ : اسلامي نقطہ نظر سے ديکھا جائے تو ان آرٹيکلز کا دائرہ عمل اور اطلاق ان ميں پوشيدہ مضمرات کي وجہ سے فرد کي آزادي کو وسعت اور تحفظ فراہم کرنے کي بجائے اسے محدود کررہا ہے۔ مثال کے طور پرآرٹيکل 13کا پہلا پيراگراف جو بظاہر عمومي الفاظ ميں لکھا گيا ہے اور ايک وسيع تر تاثر ديتا نظر آتا ہے ، اس کے اندر يہ شرط بہرحال پنہاں ہے کہ رياست کے اندر آزادي سے نقل وحرکت کرنے اور اس ميں قيام کا حق صرف اسي کو حاصل ہوگا جو يا تو اس رياست کا شہري ہوگا اور يا پھر اس نے اس رياست کے اندر رہنے کے ليے جملہ قواعدوضوابط کي پاسداري ميں اس رياست ميں داخلہ کے ليے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کيا ہوگا۔

اسي طرح دوسرے پيرا گراف میںيہ تو بتايا گيا ہے کہ ہر فرد کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ سکتا ہے ليکن اس کا ملک چھوڑنا اس بات کي ہرگز ضمانت نہيں ديتا کہ اسے کسي دوسرے ملک ميں داخلے کا حق بھي خود بخود حاصل ہوگيا ہے ، واپس اپنے ملک آنے کا استثنا البتہ اسے ضرور حاصل ہے۔ پس اس آرٹيکل کے ذريعہ دي گئي آزادي مختلف ممالک کے اميگريشن قوانين اور ان کے پاسپورٹوں ، ويزے جات، انٹري اور ايگزٹ سے متعلقہ قواعد وضوابط پر موقوف ہیں۔ آج کل کے حالات ميں شايد ايسا کرنا ناگزير ہو مگر بہرحال يہ ہے افسوسناک۔

انساني حقوق کے اس پہلو کے حوالہ سے اسلام کيا تعليم ديتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت چوہدري صاحب تحرير فرماتے ہيں کہ

’’Islam does not contemplate any restriction on freedom of movement and residence, whether within a State or beyond its borders. Indeed the Quran accounts facilities for easy and secure travel as a bounty of Allah, neglect or non-appreciation of which might attract its own penalty.‘‘(Islam and Human Rights page 83)

ترجمہ:اسلام (کسي فرد بشر کي)اندرون ملک يا ملي حدود سے باہر نقل وحرکت اور اقامت پہ کوئي قدغن عائد نہيں کرتا۔ حقيقت تو يہ ہے کہ قرآن مجيد سفر کو آسان اور محفوظ بنانے کي سہولتوں کو اللہ تعاليٰ کي طرف سے ايک طرح کي نعمت قرار ديتا ہے۔ اور اس سلسلے ميں غفلت برتنا يا بے حسي کا رويہ اپنائے رکھنا سزا کا مستحق بھي ٹھہر سکتاہے۔

پس قرآن کريم نے کسي بھي انسان کودنيا ميں آزادي سے گھومنے پھرنے سےمنع نہيں کيا بلکہ اگر تمام انسانوں کو آزادي کے ساتھ دنيا ميں گھومنے پھرنے اور سيرو تفريح کي اجازت ہوتودنيا ہر انسان کي صلاحيتوں سے فائدہ اٹھا سکتي ہے اور اس کے نتيجے ميں ترقي کي بے شمار راہيں کھل سکتي ہيں۔

قرآن کريم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعاليٰ کي ذات والا صفات کا فہم وادراک حاصل کرنے ،انسان کي علمي و عقلي وسعت اور اُس کي معاشي وتمدني ترقي کے ليے سفر انتہائي ناگزير ہے۔ اللہ تعاليٰ انسانوں کے سفرکي اہميت بيان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَيْفَ بَدَاَالْخَلْقَ (العنکبوت:21)

تُو کہہ دے کہ زمين ميں سير کرو پھر غور کرو کہ کيسے اُس نے تخليق کاآغاز کيا۔

اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِھَاۤ(الحج:47)

پس کيا وہ زمين ميں نہيں پھرے تا انہيں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام ليتے۔

ايک اور آيت کريمہ ميں سفر کي افاديت بيان کرتے ہوئےفرمايا:

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَيْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ ط کَانَ اکْثَرُھُمْ مُّشْرِکِيْنَ۔(الرّوم:43)

تُو کہہ دے کہ زمين ميں خوب سياحت کرو اور غور کرو کہ پہلے لوگوں کا کيسا انجام ہوا۔ ان ميں سے اکثر مشرکين تھے۔

اللہ تعاليٰ سورت الملک ميں ہر انسان کو اپني معاشي ترقي اور رزق کي تلاش کے ليے دنيا کے سفرکا حق ديتے ہوئے فرماتاہے :

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ ۔(الملک:16)

وہي ہے جس نے زمين کو تمہارے ماتحت کرديا پس اس کے راستوں پر چلو اور اس (يعني اللہ ) کے رزق ميں سے کھاؤ اور اسي کي طرف اُٹھايا جانا ہے۔

قرآن کريم نے ايک حکومت سے دوسري حکومت ميں پناہ کے ليے سفر کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا(النساء:98)

یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ (اُن سے) کہتے ہیں تم کس حال میں رہے؟ وہ (جواباً) کہتے ہیں ہم تو وطن میں بہت کمزور بنا دیئے گئے تھے۔ وہ (فرشتے) کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟

نيز فرمايا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ(الممتحنة:11)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں مہاجر ہونے کی حالت میں آئیں تو اُن کا امتحان لے لیا کرو۔

اسلام نے جہاں ہر فرد بشرکو دنيا ميں سفر کي اجازت دي ہے وہيں اس کے کچھ اصول وضوابط اور آداب و قرينے بھي سکھائے ہيں تاکہ يہ اسفار انسان کي صلاحيتوں کو نکھارنے اور اُس کي دنيا وآخرت کو سنوارنے کا باعث ہوں۔ليکن اگرکسي سفر کرنے والے کے ذريعہ فساد پھيلنے اور نقض امن کا خطرہ ہو تو ايسے لوگوں پر پابندي لگانا ہي مناسب اقدام ہوگا۔ اللہ تعاليٰ نے جہاں

سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ

کے الفاظ سے ہر فرد بشر کو دنيا ميں سفر کي اجازت مرحمت فرمائي ہے وہيں باربار

لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ

زمين ميں فساد نہ کرو۔فرماکر دنيا کے امن کو خراب کرنے سے بھي منع فرمايا ہے۔ پس بلا وجہ انسانوں کے سفر پر پابندي لگا کرملک وعلاقہ کے نام پر آہني ديواريں کھڑي کرنا اسلامي تعليم ميں ہرگز پسنديدہ عمل نہيں۔

حقيقي مالک صرف اللہ ہے

اللہ تعاليٰ نے ہر انسان کو آزاد پيدا کيا ہے اور اُسے اس دنيا کي تمام نعمتوں سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کي اجازت دي ہے۔ اُس پر حقيقي طور پر حکومت و اختيار صرف اللہ تعاليٰ کو حاصل ہے کيونکہ وہي اُس کا پيدا کرنے والا ، اُس کا پالنے والايعني اُس کي ربوبيت کرنے والا اور اُس کامالک حقيقي ہے اس ليے اُس پر حکومت کا کلّي اختيار بھي اُس کے ہاتھ ميں ہے جبکہ انسانوں کو جو اقتدارواختيار ديا جاتا ہے وہ وقتي، عارضي اور محدود ہے۔ اللہ تعاليٰ نے رسول کريم ؐکو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا ہے:

لَيْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ (آل عمران:129)

تيرے پاس کچھ اختيار نہيں۔ يعني آپؐ کو ذاتي طور پرکسي پر کوئي اختيار نہيں بلکہ آپؐ کو جو اختيار دياگيا ہے وہ سب اللہ کي طرف سے تفويض کيا گياہے کيونکہ اصل اختيارو حکومت اللہ ہي کے ہاتھ ميں ہيں۔ جيسا کہ فرماتا ہے:

اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ(آل عمران:155)

يقيناً فيصلے کا اختيار کليةً اللہ ہي کو ہے۔

پس جب اللہ تعاليٰ دنيا ميں کسي کو کچھ اختيار تفويض کرتا ہے تو وہ اُس کي طرف سے ايک امانت کے طور پرہے۔ جو اُس کے بندوں کے ذريعہ اُسے منتقل کي جاتي ہے۔ اللہ تعاليٰ نے اس امانت کواپنے ميں سے ايسے لوگوں کے سپرد کرنے کا حکم ديا ہے جو تقويٰ پر چلنے والے اور اُس کے احکامات کے پابند ہوں تاکہ وہ اقتدار يا اختيار ملنے کے بعد اُس کے احکامات کے مطابق فيصلے کريں اور لوگوں کے ليے آسانياں پيدا کريں۔ اللہ تعاليٰ کا ارشاد مبارک ہے :

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النساء:59)

يقيناً اللہ تمہيں حکم ديتا ہے کہ تم امانتيں ان کے حقداروں کے سپرد کيا کرو۔

پس منتخب ہونے والوں کو چاہیے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد اس ذمہ داري کو اللہ تعاليٰ کي طرف سے ايک امانت سمجھتے ہوئے اُس کے حکموں کے مطابق اپنے اختيارات کا استعمال کريں اور عدل و انصاف کو کبھي ہاتھ سے نہ جانے ديں۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :

وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا (النساء:59)

اور جب تم لوگوں کے درميان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔يقيناً بہت ہي عمدہ ہے جو اللہ تمہيں نصيحت کرتا ہے۔ يقيناً اللہ بہت سننے والا(اور) گہري نظر رکھنے والا ہے۔

اللہ تعاليٰ نے جہاں عہديداروں کو انصاف سے کام لينے کا حکم ديا ہے ،وہيں اپني ذمہ داري کو احسن رنگ ميں نبھانے کے ليے اپنے ساتھيوں سے مشورے کا بھي حکم ديا ہے تاکہ باہمي مشاورت سے تمام امور کوزيادہ بہتر رنگ ميں چلايا جاسکے۔باہمي مشورے کي اہميت کا اندازہ اس بات سے بخوبي لگايا جاسکتا ہے کہ اللہ تعاليٰ نے نبي کريم ؐ کو اپنے صحابہ سے مشورے کا حکم دے کرمشورے کي اہميت و افاديت اور اس کي برکات کو خوب واضح کرديا ہے۔ اللہ تعاليٰ نبي کريمؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے :

وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ(آل عمران:160)

اور (ہر) اہم معاملہ ميں ان سے مشورہ کر۔

قرآن کريم کے ايک اور مقام پرعہديداروں کو يہي حکم ديا گيا ہے کہ اپني ذمہ داريوں کو ادا کرتے ہوئے جہاں تم نے انصاف سے کام لينا ہے وہيںان ذمہ داريوں کو احسن رنگ ميں چلانے کے ليے تم اُن لوگوں سے بھي مشورہ ليتے رہا کرو جنہوں نے يہ امانت تمہارے سپر د کي ہے۔اس طرح باہمي مشورے کي برکت سے تمام امور کو زيادہ بہتر اور احسن رنگ ميں چلايا جاسکے گا۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :

وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰي بَيْنَھُمْ (الشوريٰ:39)

اور اُن کا امر باہمي مشورے سے طے ہوتا ہے۔

خلاصہ کلام يہ کہ اگر انصاف کي نظر سے ديکھا جائے تو انسانوں کے درميان مساوات کا قيام 10؍دسمبر 1948ء کو نہيں بلکہ 9 اور 10؍ذوالحجہ سن 10ہجري ميں عرفات اور منيٰ کے ميدانوں ميں عمل ميں آيا۔ جب انسانيت کے سرتاج رحمة للعالمين ؐنے انساني حقوق کا عالمي چارٹر پيش فرمايا۔

روايات ميں آتا ہے کہ نبي کريم ؐ اونٹني پر سوار تھے۔ آپؐ کے سامنے سوالاکھ سے زائد عاشقان کا جم غفير وفورِ محبت سے ہوش گوش کھڑا تھا۔کہنے والے کہتے ہيں کہ خاموشي کا اعلان کيا گيااور اتنے وسيع ميدان ميں اتنے بڑے مجمع ميں سکون و خاموشي کا يہ عالم ہوگيا کہ ايک صحابي ؓکہتے ہيں کہ ميري اونٹني کے منہ سے لعاب ميرے اوپر گر رہا تھا مگر مَيں اپني جگہ سے ہلتا نہ تھا کہ مبادا ہلنے سے آواز پيدا ہو۔ان عظيم مجمعوں ميں حضور ؐکي آواز بلند ہوئي اور آپؐ نے فرمايا:

اَيُّھَاالنَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ

اے سب انسانو! سن لو کہ تم سب کا ايک خدا ہے وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ اور تم سب کا باپ ايک ہے

اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيِّ عَلَي اَ عْجَمِيِّ

کسي عربي کو عجمي پر فضيلت نہيں

وَلَا لِعَجَمِيِّ عَلَي عَرَبِيِّ

نہ عجمي کو عربي پر برتري حاصل ہے

وَلَا لِاَسْوَدَ عَلَي اَحْمَرَ

نہ ہي سرخ کو سياہ پر کوئي برتري حاصل ہے۔

اَلَا وَانَّ کل دمٍ ومَالٍ ومأثرةٍ کانت في الجاھلية تحت قدمي ھٰذا الٰي يوم القيامة

سن لو کہ انساني جان کي بے حرمتي اور مال کي بے حرمتي يا انسان کو دوسرے پر ترجيحي سلوک جو جاہليت ميں قائم تھا۔ مَيں آج قيامت کے دن تک کے لیے اپنے پاؤں کے نيچے مَسلتا ہوں۔ آپؐ نے فرمايا:

اَلَا لَا تَظْلِمُوْا ، اَلَا لَا تَظْلِمُوْا، اَلَا لَا تَظْلِمُوْا

خبردارکوئي حق تلفي نہ کرو،خبردارکوئي حق تلفي نہ کرو،خبردارکوئي حق تلفي نہ کرو۔ انساني جان کي حُرمت قائم کرتے ہوئے فرمايا:

دِماءِ الجاھلية موضوعة وَ انّ اوّلَ دَمٍ اَمنَع من دِمَائِنَا دَم ربيعة بن الحارث بن عبدالملطب

کہ جاہليت کے زمانہ کے خون در خون انتقام کا سلسلہ موقوف کيا جاتا ہے اور سب سے پہلے ميں اپنے بھائي ربيع کا خون معاف کرتا ہوں۔ سود انسان کے معاشي حقوق کو تلف کا ذريعہ تھا۔ فرمايا:

اَلا اِن کلُّ رِبًا في الجاھلية موضوع۔

جاہليت کے تمام سود موقوف کیے جاتے ہيں۔

لکم رؤوس اموالکم

صرف راس المال ملے گا۔

غير ربًا العباس بن عبدالمطلب انہ، موضوع کلّہ

مگر ہمارے خاندان کو ملنے والا سود ہي موقوف نہيں بلکہ تمام قرض معاف ہے۔جنس و صنف کے امتياز کي بنا پر حق تلفي ہوتي تھي فرمايا:

فَاتَّقُوااللّٰہ في النساء۔

عورتوں کے حقوق کے متعلق اللہ تعاليٰ سے ڈرو۔

ان لکم علٰي نسائکم حقّا ولھن عليکم حقًا۔

جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہيں بالکل اسي طرح عورتوں کے تم پر حقوق ہيں۔

قيديوں کے حقوق کے متعلق توجہ دلائي اور فرمايا:ارقاءَ کم ارقاءَ کم۔اپنے قيديوں کا خيال رکھو۔ اپنے قيديوں کا خيال رکھو۔

اطعموھم مما تاکلون۔

جو خود کھاتے ہو ان کو کھلاؤ۔

واکسوھم مما تلبسون۔

جو خود پہنتے ہو ان کو پہناؤ ، اور فرمايا:

انّ دمائھم و اموالکم واعراضکم حرامٌ عليکم الٰي ان تلقوا ربّکم

کہ تمہاري جان اور تمہارے مال اور تمہاري عزت کي حرمت تم پر واجب کر دي گئي ہے۔اس روز تک کہ تم اپنے ربّ سے ملو۔

خطبے کے آخر ميں حضور ؐنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے اور بلند آواز سے فرمايا:

الاھل بلّغت ، الاھل بلّغت۔ الاھل بلّغت۔

کيا ميں نے يہ پيغام پہنچا ديا ہے ؟اور مجمع نے ايک آواز سے کہا :

نعم

پھرآپؐ نے اللہ تعاليٰ کو مخاطب کرکے فرمايا:

اللّٰھمّ اشھد، اللّٰھم اشھد ، اللّٰھم اشھد۔

اے خدا تو گواہ رہ !اور پھر مجمع کو مخاطب کرکے حکم ديا :

ليبلّغ الشاھد الغائب

جو آج يہاں موجود ہيں وہ ان کو يہ پيغام پہنچاديں جو آج موجود نہيں۔(ماخوذ از ماہنامہ خالد اگست 1971ء صفحہ 21تا22)

جناب کونسٹن درجبل جارجيو (وزير خارجہ رومانيہ) نے اپني کتاب ’’ محمد‘‘ ميں رسول اللہ ﷺ کے انقلاب کو دنيا کا عظيم ترين انقلاب قرار ديتے ہوئے لکھا ہے کہ’’عربستان ميں جو انقلاب حضرت محمدؐ برپا کرنا چاہتے تھے وہ انقلاب فرانس سے کہيں بڑا تھا۔انقلاب فرانس فرانسيسيوں کے درميان مساوات پيدا نہ کرسکا مگر پيغمبر اسلام کے لائے ہوئے انقلاب نے مسلمانوں کے درميان مساوات قائم کردي اور ہر قسم کے خانداني طبقاتي اور مادي امتيازات کو مٹا ديا۔ ‘‘(بحوالہ پيغمبر اسلام غير مسلموں کي نظر ميں ،صفحہ 153)

خلاصہ کلام يہ کہ انساني مساوات کا جوپيغام ہمارے نبي کريم ،رحمة للعالمين ﷺکے ذريعے ہم تک پہنچا ہے اُس پر نہ صرف خودعمل کيا جائے بلکہ امن ،سلامتي ، خير ، بھلائي ، انساني بھائي چارے پر مشتمل اس پيغام کوساري دنيا ميں پھيلايا جائے تاکہ انسانوں کے درميان حائل نفرت کي ديواريں پاش پاش ہوں اور وہ ايک دوسرے کے قريب ہوکر انسانيت کی فلاح اور اُس کي ترقي ميں ايک دوسرے کي ممدومعاون بن جائيں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button