اختلافی مسائل

کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج کے رنگ میں تحریر فرمایا کہ’’اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے ؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں مگر یاد رہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لیے آتا ہے اور نزول مسافر کو کہتے ہیں ۔چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اُترے ہیں اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اُترا ہے ۔اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤگے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے ۔اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور توبہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہوگا ۔جس طرح چاہیں تسلی کر لیں ۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ225تا226،حاشیہ)

موجودہ زمانے کے غیر احمدی علماء کے بڑے بزرگوں نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں دیا ۔اگر وہ اس چیلنج کا جواب دے دیتے اور ایک بھی مثال پیش کردیتے تو آج اس زمانے کے علماء کو مخالفت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔

چیلنج کاجواب دینے کی بجائے بعض غیر احمدی علماء اپنی کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دلائل پیش کرتے نظر آتے ہیں جن دلائل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے ۔

علامہ غلام احمد پرویز (پیدائش:9؍جولائی 1903ء ،وفات: 24؍فروری 1985ء )بیسویں صدی کے ایک ممتاز سکالر تھے۔ محمد اقبال کی خواہش اور محمد علی جناح صاحب کے مشورے سے انہوں نے ماہنامہ طلوعِ اسلام کی بنیاد رکھی ۔وہ وفات مسیحؑ کے دلائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھالیے گئے تھے تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی ،بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نےد وسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت پوری کرنے کے بعد وفات پائی۔سورہ آل عمران کی جو آیت اوپر درج کی جاچکی ہے اس میں وفات کا ذکر صاف طور پر موجود ہے۔

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا(آل عمران: 56)

جب ایسا ہوا تھا کہ اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ ! میں تیرا وقت پورا کروں گا (وفات دے دوں گا ) اور تجھے (یعنی تیرے درجات کو )اپنی طرف بلند کروں گا ،تیرے مخالفین (کی تہمتوں ) سے پاک کر دوں گا ۔

سورہ مائدہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ تیری اور تیری والدہ کو پرستش کیا کریں ۔وہ اس کے جواب میں کہیں گے کہ معاذ اللہ ! میں بھلا ایسا کیسے کہہ سکتا تھا ۔باقی رہے یہ لوگ (میرے متبعین)۔سو

كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائدة 118)

جب تک میں ان میں موجود رہا ۔میں ان کی نگرانی کرتا رہا (کہ اس قسم کے مشرکانہ عقائد اس میں پیدا نہ ہوں )لیکن جب تو نے مجھے وفا ت دے دی تو اس کے بعد ان کا نگران تو ہی ہو سکتاتھا (میں نہیں )علاوہ ازیں قرآن کریم کے اکثر مقامات سے یہ واضح ہے کہ حضرات انبیائے کرام ؑ میں سے کسی کو خلود اور زندگی دوام حاصل نہیں ہوئی تھی ۔سورۂ انبیاء میں ہے :

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ وَ مَا جَعَلۡنٰہُمۡ جَسَدًا لَّا یَاۡکُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوۡا خٰلِدِیۡنَ۔(الانبياء 8-9)

اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا ،مگر اسی طرح کہ آدمی تھے ۔ان پر ہماری وحی اترتی تھی ۔پھر (اے گروہِ منکرین )اگر تمہیں یہ بات معلوم نہیں تو ان لوگوں سے پوچھ کر معلوم کر لو جو اہل کتاب ہیں ۔اور ہم نے ان پیغمبروں کو کبھی ایسے جسم کا نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے تھے ۔

اسی سورہ میں ذرا آگے چل کر ارشاد ہوا

وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ۔کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ۔(الانبياء:35-36)

اور (اے پیغمبر ) ہم نے تجھ سے پہلے کسی کو ہمیشگی نہیں دی (اور نہ تیرے لیے ہمیشہ زندہ رہنا ہے) ۔پھر اگر تجھے مرنا ہے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں ؟ہرجان کے لیے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں (زندگی کی )اچھی بری حالتوں سے نمودِ ذات کے مواقع بہم پہنچاتے ہیں اور پھر (بالآخر) تم سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے ۔

اسی حقیقت کو دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ۔(آل عمران:145)

اور محمدﷺ اس کے سوا کیا ہیں کہ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی اللہ کے رسول گزر چکے ہیں (جو اپنے اپنے وقتوں میں ظاہر ہوئے اور راہِ حق کی دعوت دے کر دنیا سے چلے گئے )پھر اگر ایسا ہو کہ وہ وفات پائیں (اور بہرحال انہیں ایک دن وفات پانا ہے )یا (فرض کرو) ایسا ہو کہ قتل ہوجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں راہِ حق سے پھرجاؤ گے (اور ان کے مرنے کے ساتھ ہی تمہاری حق پرستی بھی ختم ہوجائے گی ؟)اور جو کوئی راہِ حق سے الٹے پاؤں پھر جائے گا ،تو وہ (اپنا ہی نقصان کرے گا)خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔اور جو لوگ شکر گزار ہیں (یعنی نعمتِ حق کی قدر دانی کرنے والے ہیں ) تو قریب ہے کہ خدا انہیں ان کا اجر عطا فرمائے ۔

اسی قسم کا فقرہ حضرت مسیحؑ کے متعلق بھی ارشاد ہوا ہے۔

مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ انۡظُرۡ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ۔(المائدة:76)

مریم کا بیٹا مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کا ایک رسول ہے ۔اس سے پہلے کتنے رسول (اپنے وقتوں میں ) گزر چکے ۔اور اس کی ماں (بھی اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ )صدیقہ تھی (یعنی بڑی ہی راستباز تھی)یہ دونوں (تمام انسانوں کی طرح ) کھاتے پیتے تھے (یعنی غذا کی احتیاج رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ جسے زندہ رہنے کے لیے غذا کی احتیاج ہو ،اس میں ما وراء بشریت کوئی بات کیونکر ہو سکتی ہے)دیکھو ،کس طرح ہم ان لوگوں کے لیے دلیلیں واضح کرتے ہیں اور پھر دیکھو کس طرف کو یہ لوگ پھرے ہوئے جا رہے ہیں ؟(کہ اتنی موٹی سی بات بھی سمجھ نہیں سکتے ؟)

جو شخص ان تصریحات پر خالی الذہن ہو کر غور کرے گا وہ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچ جائے گا کہ نزولِ قرآن کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کے زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم کی آیات سے نہیں ملتی بلکہ اس کے برعکس آپ کے ’’گزر جانے ‘‘او ر وفات پاجانے کی شہادت قرآن میں موجود ہے ۔وفات کے معنی ہیں اس طرح پورا ہوجانا (یا پورا کر دیا جانا ) کہ اس میں سے کچھ بقایا نہ رہے (تفصیل کے لیے میری لغات القرآن دیکھیے )لہٰذا وفات کے معنی ہوں گے ’’کسی کے وقت کا پورا ہوجانا‘‘یعنی دنیا میں قیام کی مدت کا پورا ہوجانا ۔قرآن کریم میں وفات کا لفظ ان معنوں میں متعدد مقامات پر مستعمل ہوا ہے ۔سورۃ آل عمران میں مومنین کی ایک دعا مذکور ہے کہ

رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران: 194)

پس خدایا ہمیں سامانِ حفاظت عطا فرما دے ۔ہماری برائیاں مٹا دے اور (اپنے فضل وکرم سے ) ایسا کر کہ ہماری موت نیک کرداروں کے ساتھ ہو ۔یہاں تَوَفَّنَاکے معنی ظاہر ہیں ۔اسی طرح سورۃ اعراف میں ہے ۔

رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ (الاعراف: 127)

پروردگار ! ہمیں صبر وشکیبائی سے معمور کر دے ۔(تاکہ زندگی کی کوئی اذیت ہمیں اس راہ میں ڈگمگا نہ سکے )اور ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ تیرے فرماں بردار ہوں ۔حضرت یوسف کی یہ دعا کہ

تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِيْنَ (يوسف: 102)

بھی اسی مفہوم کو لیے ہوئے ہے ۔سورۃ محمد میں اس لفظ کے معنی اور بھی واضح ہوگئے ہیں ۔

فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (محمد :28)

تو(غور تو کرو ان کا ) کیسا حال ہوگا جب ملائکہ انہیں وفات دیں گے ان کے مونہوں اور ان کی پیٹھوں کو مارتے ہوں گے ۔ان کے علاوہ کئی ایک اور مقامات بھی ہیں جن میں یتوفی کے معنی مار دینے کے ہیں ،مثلاً(15/4)،(70/16)،(5/22)،(11/32)۔بغرضِ اختصار ان آیات کو درج نہیں کیا جاتا ۔قرآن کریم میں خود دیکھ لیجئے ۔ان کے معانی میں کسی قسم کا اشکال نہیں ،بلکہ ان مندرجہ صدر آیات سے بھی زیادہ واضح طور پر معانی سامنے آجاتے ہیں ۔

اب ان مقامات کو پھر سے سامنے لائیے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے او ر جو پہلے درج کی جاچکی ہیں (یعنی 54/3،117/5)۔سورہ مائدہ کی آیت (117/5)میں کہا گیا ہے کہ

كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَا دُمْتُ فِيْهِمْ

(جب تک میں ان میں زندہ موجود تھا ،میں ان پر نگران تھا ) اس میں

’’ مَا دُمْتُ فِيْهِمْ‘‘

کے الفاظ غور طلب ہیں ۔سورہ مریم میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اربابِ قوم کے استفسار کے جواب میں فرمایا

وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (مريم:32)

کہ اللہ نے مجھے صلوٰۃ وزکوٰۃ کا حکم دے رکھا ہے جب تک میں زندہ ہوں ۔آیت کے آخری الفاظ

(مَا دُمْتُ حَيًّا)

اپنی تفسیر آپ کر رہے ہیں ۔اسی سورہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے ۔

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا (مريم: 16)

اور اس پر سلامتی ہے (اس کی )پیدائش کے دن (سے )موت کے دن (تک اور )جس دن وہ زندہ اٹھایا جائے گا ۔یہی الفاظ (تھوڑا اورآگے چل کر)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتے ہیں۔

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (مريم:34)

اور مجھ پر سلامتی ہے میری پیدائش کے دن سے موت کے دن تک اور جس دن مجھے زندہ اٹھایا جائے گا ۔

ان آیات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں اپنی طبعی زندگی تک رہے …۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں توفی کے معنی وفات پا جانا ہے ،سو جانا نہیں ۔اس کی تائید سورۃ الصف کی اس مشہور آیت سے بھی واضح ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ

وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ (الصف:7)

(میں بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا اسمِ گرامی احمد ہوگا )’’میرے بعد‘‘ کا مفہوم بالکل واضح ہے۔اب اسے سورہ مائدہ کی مندرجہ صدر آیت کے ساتھ ملا کر دیکھئے ۔آپ نے فرمایا کہ ’’جب تک میں ان میں رہا ان کی حالت سے باخبر رہا ۔پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کا نگہبان تھا ‘‘بات صاف ہے کہ اس وفات کے بعد آپ دنیا سے تشریف لے گئے(یعنی وفات پاگئے )اور پھر آپ کے بعد وہ رسول اکرم ﷺ تشریف لائے جن کی بشارت آپ نے دی تھی ۔ان تصریحات سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اب تک زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم سے نہیں ملتی ۔قرآن کریم آپ کے وفات پا جانے کا بصراحت ذکر کرتا ہے ۔‘‘(شعلۂ مستور از غلام احمد پرویز صفحہ 80تا86شائع کردہ طلوع اسلام ٹرسٹ (رجسٹرڈ )25بی گلبرگ 2،لاہور )

علامہ پرویز صاحب کی تحریر پڑھ کر صاف نظر آتا ہے کہ انہوں نے وفات عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےبیان کردہ دلائل ہی لیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ باقی غیر احمدی احباب کو نہ صرف وفات عیسیٰ علیہ السلام کے دلائل بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور دیگر دلائل کو بھی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button