متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں عمارات سلسلہ میں ترقی

(عبد الباسط شاہد۔لندن)

مذہبی جماعتوں کے ابتدائی ایام سراسر دعوت و اصلاح میں صرف ہوتے ہیں تاکہ وہ بیج جو دلوں کی سر زمین میں بویا جارہا ہے جڑپکڑ لے۔ اس لیے عمارتوں کی تعمیر اور دیگر اس قسم کے ثانوی حیثیت کے کام دعوت الیٰ اللہ کی کوششوں کے بار آور ہونے کے بعد کیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسجد نبوی کی توسیع و مرمت خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوئی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے ابتدائی دَور یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں تمام کوششیں اشاعت اسلام کے لیے وقف رہیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابتدائی دَور میں تعمیر کے کام کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے بلکہ کسی حد تک مکانات کی تعمیر (قومی اغراض کے لیے)ضروری اور لابدی ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ’’الدار‘‘ کے مختلف حصوں کو مہمان خانہ ،لنگر خانہ اور کتب خانہ کے طور پر استعمال کیاجاتا تھا اور جب کوئی مزید ضرورت پیش آتی تو ’’الدار‘‘ میں ہی گنجائش پیدا کی جاتی۔چنانچہ طاعون کی وبا پھوٹنے پرآپؑ نے ’’الدار‘‘کو وسیع کرنے کے لیے ’’کشتی نوح‘‘کے ساتھ ایک اعلان شائع فرمایا تھا۔ پھر جوں جوں ضروریات بڑھنے لگیں مکانات کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا یہاں تک کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عہد سعادت میں بعض عظیم الشان قومی عمارات تیار ہوئیں جو روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ مرکز سلسلہ کی ظاہری شان و شوکت کا باعث بنیں ۔

نمبر 1: توسیع مسجد اقصیٰ

مسجد اقصیٰ قادیان کی قدیم ترین چار مساجد (مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ ، مسجد آرائیاں ،مسجد شیخاں ) میں سے ایک مسجد ہے جس کو حضرت اقد س مسیح موعود ؑکے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب رئیس قادیان نے اپنی عمر کے آخری ایام میں بنوایا تھا۔حضرت خلیفہ اوّلؓ کے زمانے میں نمازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس مسجد میں سما نہ سکتی تھی۔لہٰذا اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی توسیع کی جائے۔چنانچہ 1910ء کے ابتدائی ایام میں پرانی عمارت کے جنوب میں پہلے کمرے کے برابر چوڑا 64فٹ لمبا اور اس کے سامنے قریباً 80فٹ لمبا برآمدہ تیار کیا گیا جس سے مسجد پہلے سے قریباً دُگنی ہو گئی۔

مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت کی ایک تصویر

اللہ کی شان ہے اس مسجد کی تعمیر کے وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ یہ مسجد نمازیوں سے بھری رہے گی بلکہ بظاہر حالات معلوم ہوتا تھا کہ باقی مساجد کی طرح یہ بھی ویران ہی رہے گی ۔ لیکن بانی مسجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی خلوص نیت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازاکہ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی توسیع کی ضرورت پیدا ہو گئی ۔ اس توسیع کے متعلق اخبار الحکم نے لکھا کہ’’مسجدجامع کی توسیع نے مسجد کی شان کو دوبالا کر دیا ہے نہایت شاندار کمرہ جنوبی پہلو میں تیار ہو گیاہے ۔ جلسہ پر آنے والے احباب مسجدکی اس شان کو دیکھ کر انشاء اللہ ضرور محظوظ ہوں گے۔مسجد کی ترقی سلسلہ کی ترقی کی ایک خوشگوار نسیم ہے اور میں تو دیکھتا ہوں کہ جمعہ میں مسجد جامع میں اور دوسری نمازوں میں مسجد مبارک میں جگہ نہیں ملتی مسجدمبارک اپنی توسیع کی ضروریات زبان حال سے بیان کر رہی ہے ۔ اللّٰھم زد فزد‘‘(الحکم 7؍فروری 1910ء)

نمبر2:مسجدنور

قادیان کے بیرونی محلوں میں دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے محلہ دارالعلوم میں ایک مسجد کی ضرورت پیدا ہوئی۔ جس کو پورا کرنے کے لیے حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اس مسجد کی بنیادی اینٹ 5؍مارچ 1910ءکو ایک لمبی دُعا کے بعد رکھی اور بظاہر مخالف حالات میں جبکہ سرمایہ کی فراہمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی بتوکل علیٰ اللہ اس کام کو شروع کر دیا گیا۔ خدا تعالیٰ نے بھی اپنے متوکل بندے کی حوصلہ افزائی کے لیے غیر معمولی طور پر سرمایہ کا انتظام کر دیا ۔چنانچہ حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓکے دل میں خدا تعالیٰ نے اس کام کے لیے خاص جوش بھر دیا اور آپؓ نے باوجود بڑھاپے کے دہ بدہ اور قریہ بقریہ پھر کر اس بابرکت کا م کے لیے چندہ اکٹھا کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں 2500روپے کی رقم جمع کر لی اور قریباًاتنی ہی رقم ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی ہمشیرہ کی وصیت کے مطابق مسجد کی تعمیر کے لیے مل گئی اور اس طرح غیر معمولی طور پر اس عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا سامان ہو گیا جسے مسجد نور کہا جاتا ہے۔

اپریل 1910ء تک اس مسجد کا اکثر حصہ مکمل ہو گیا اور اس دن حضرت خلیفہ اوّلؓ نے عصر کی نماز پڑھائی اور بعد نماز قرآن مجید کا درس روایتی شان کے ساتھ دیا اور اس طرح اس مسجد کا افتتاح (جو بعد میں ظہور قدرت ثانیہ کا مقام بنی) نماز اور خدا کے کلام کے مطالب و معانی بیان کرتے ہوئے کیا۔حضرت خلیفہ اوّل کے بعد خلافت ثانیہ کا انتخاب اِسی مسجد میں عمل میں آیا۔

نمبر3:محلہ دارالعلوم

بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول

تعلیم الاسلام ہائی سکول میں طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے پرانی عمارت (جو شہر میں تھی) کفایت نہ کر سکتی تھی نیز شہر کے اندر ہونے کی وجہ سے پڑھائی کے لیے ماحول بھی مناسب نہ تھا۔ اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ قصبے کے باہر کھلی فضا میں ایک وسیع عمارت بورڈنگ ہاؤس کی تیار کی جائے۔اس غرض کے لیے قادیان کی شمالی جانب ایک نیامحلہ دارالعلوم آباد کیا چالیس بیگھے زمین حاصل کی گئی اور اس میں 5؍مارچ 1910ء کو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ایک لمبی رقت انگیز دُعا کے بعد بورڈنگ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کے ہونہار طالب علموں کے لیے مناسب فضا میں یکسوئی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرنے اور سلسلے کے لیے مفید وجود بننے کی داغ بیل ڈال دی۔یہ وسیع اورشاندار عمارت جو 200طالب علموں کی رہائش کے لیے کافی تھی۔اس میں پانی مہیا کرنے کے لیے واٹر پمپ لگایاگیا اور بڑے بڑے ٹینک بنائے گئے جن میں ہر وقت پانی موجود رہے۔ سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ کے لیے اسی عمارت کے اُوپر ایک بالا خانہ بنایا گیا جس سے عمارت کی شان اور عظمت دو چند ہوگئی ۔ نیز کھلی جگہ میں ہونے کی وجہ سے رہائش کے لیے بہترین جگہ تیار ہوگئی۔

نمبر4:تعلیم الاسلام ہائی سکول

مسجد نور اور بورڈنگ ہاؤس کے ساتھ ہی تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ایک شاندار عمارت حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانے میں تیار ہوئی کیونکہ شہر کے اندر ایسی کوئی عمارت نہ تھی جس میں سکول باقاعدگی سے جاری رہ سکتا۔ نیز اندرون شہر میں جوعمارت سکول کے پاس تھی اس میں مدرسہ احمدیہ کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ چنانچہ سیکرٹری صاحب صدر انجمن احمدیہ کے ایک اعلان سے اس وقت کے حالات اور اسکول کی عمارت کی ضرورت پر روشنی پڑتی ہے وہ لکھتے ہیں:’’حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد سے ایک نقشہ عمارت مدرسہ کا جو سکولوں کی عمارتوں میں انشاء اللہ اسی طرح ممتاز ہو گا جس طرح بورڈنگ ہاؤس کی عمارت اس قسم کی عمارتوں میں ممتاز ہے۔ تیار کر دیا گیا ہے۔ اور اب عنقریب اس کام کو شروع کرنے کی ضرورت درپیش ہے بلکہ اینٹ تیار کرنے کا کام توکلاً علیٰ اللہ شروع ہو گیا۔ ضروریات کا تو یہ حال ہے کہ نہ ہائی سکول کی جماعتیں موجودہ تنگ کمروں میں سما سکتی ہیں نہ مدرسہ احمدیہ کے نئے بورڈروں کے لئے کوئی جگہ رہی ہے اور اس پر دقت یہ ہے کہ کوئی عمارت کرایہ پر اس قسم کی نہیں مل سکتی اس لئے منتظمین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ اور مدرسہ میں جماعت بندی کے بعد جب نئے لڑکے داخل ہوں گے یعنی شروع اپریل میں تو مکان کی دقت کو رفع کرنے کی کوئی صورت سر دست نظر نہیں آتی…کیا منتظمین اب ان کاموں کو ادھورے چھوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں ۔ یا آنے والے طلباء کو کہہ دیں کہ ہمارے پاس جگہ نہیں اس لئے ہم داخل نہیں کرتےان حالات میں سکول کی عمارت کا ایک نقشہ تیار کرایا گیا لیکن پھر یہ دیکھتے ہوئے کہ اس نقشہ کی عمارت پر ایک لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہو جائے گا ۔ مجلس معتمدینِ صدر انجمن احمدیہ نے اس نقشہ کو مسترد کر تے ہوئے کوئی معمولی نقشہ بنوانا چاہا لیکن حضرت خلیفہ اولؓ نے اس عمارت کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر مجلس معتمدین کے اس فیصلہ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے وہی نقشہ منظور فرما لیا جس کی عمارت کا تخمینہ ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ تھا۔

25؍جولائی 1912ء کو بروز جمعرات حضرت خلیفہ اولؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد رکھی اور حضرت مسیح موعودؑکے ہر سہ صاحبزادگان سے بھی ایک ایک اینٹ رکھوائی اور اس موقع پر ایک لمبی اور رقت انگیز دعا فرمائی۔ بنیاد رکھنے سے قبل آپ نے مندرجہ ذیل مختصر مگر مؤثر تقریر فرمائی:اگر اکیلا آدمی چالیس دن تک یا چالیس آدمی ایک وقت میں مل کر کسی امر کے لئے دعا کریں تو بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جاتی ہے اس وقت ہم چالیس سے بہت زیادہ ہیں خدا کی جناب میں سب مل کر دعا کرو کہ اس مدرسہ میں جس کی بنیادی اینٹ رکھنے کے لئے ہم آئے ہیں بڑے بڑے نیک اور خادم دین لڑکے تعلیم حاصل کر کے باہر نکلیں اور گندے اور شریر اور بدکار لڑکے یہاں نہ آئیں اور اگر آئیں تو خدا انہیں ہدایت دے آمین۔‘‘(ریویوآف ریلیجنز اردو اگست 1912ء)

ہائی اسکول کی یہ400فٹ لمبی 104فٹ چوڑی 36فٹ اونچی(دو منزلہ)اور 64فٹ اونچے برجوں والی عمارت پنجاب بھر کے سکولوں میں نمایاں اور ممتاز بلڈنگ ہے ۔چنانچہ 11و12؍دسمبر کو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ضلع گورداسپور نے بورڈنگ اورسکول کی عمارتیں دیکھ کرکہا کہ ’’مجھے ان تمام چیزوں نے نہایت مسرور کیا ہے اور جماعت احمدیہ نے جس جوش اور کمال کے ساتھ یہ کام شروع کیا ہے میں اس کا مداح ہوں ‘‘ اور عمارت کے متعلق لکھا کہ ’’مکمل ہونے پر پنجاب میں ایک ہی عمارت ہو گی۔‘‘(الفضل 17؍دسمبر 1913ء)

اگر ہم موجودہ حالت سے قطع نظر کرتے ہوئے اس زمانےکا تصور کریں تو یقیناً احمدیوں کی بظاہر چھوٹی سی اور غریب جماعت کا ایسا عظیم الشان سکول تیار کرنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے جس کی عام حالات میں عام لوگوں سے توقع نہیں کی جا سکتی لیکن حضرت مسیح موعودؑکی تیار کردہ جماعت کے افراد جن کی باگ ڈوران دنوں ایک ایسے عظیم الشان متوکّل شخص کے سپرد تھی جس کا نام آسمان پر ’’عبدالباسط‘‘ رکھا گیا تھا ۔ وسعت حوصلہ کا بے نظیر نمونہ دکھاتے ہوئے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ اس کام میں دے کر روایتی جنوں کا سا کام کر دکھایا۔ اس عمارت پر جیسا کہ اندازہ تھا ایک لاکھ رپیہ کے قریب خرچ ہوا۔

خلافت اولیٰ ہی میں ایک جائیداد گرلز ہائی سکول کے لیے خریدی گئی۔ اور اس طرح طبقہ اناث و ذکور دونوںکی تعلیم کابنیادی کام باقاعدہ شروع ہوگیا۔

نمبر5:دارالقرآن

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ جن کی زندگی قرآن کریم کی خدمت و اشاعت کے لیے وقف تھی اس بات کے شدید طور پر خواہش مند تھے کہ قرآن مجید کی قراءت و تلاوت علم تجوید کے مطابق نہایت عمدگی اورصحت کے ساتھ ہو اور اس غرض کے لیے آپ کی خواہش تھی کہ حجاز یا موصل سے کسی خوش الحان کی خدمات حاصل کی جائیں۔آپؓ نے اس کے لیے ایک مرتبہ کوشش بھی کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہو سکی ۔ اسی طرح آپؓ کی یہ خواہش تھی کہ درس القرآن کے لیے ایک خاص کمرہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپؓ نے فرمایا:’’اس وقت میری تین بڑی خواہشیں ہیں ایک یہ کہ قرآن مجید کے درس کے لئےوسیع کمرہ ہو اس پر گیارہ ہزار (11000) کے قریب خرچ ہوتاہے۔‘‘(ریویو آف ریلیجنز اردو فروری 1913ء)

اس پاک خواہش کی تکمیل کے لیے آپ نے آخری ایام میں حضرت میرناصر نواب صاحبؓ کو دارالقرآن کی تعمیر کے لیے مقرر فرمایا جس کے متعلق اخبارالحکم نے تحریک کرتے ہوئے لکھا:’’حضرت خلیفۃ المسیح نے حضرت میر ناصر نوب صاحبؓ قبلہ کو یہ خدمت سپرد کی ہے کہ اس دارالقرآن کی تعمیر کا کام شروع کر دیں اس کے لئے دس ہزارروپیہ بکار ہو گا مگر اس قوم کے لئے جو دین کو دنیا پرمقدم کرنے کا عہد دو مرتبہ کر چکی ہے…اس رقم کو پورا کر دینا کوئی مشکل کام نہیں … اس مقصد کے لئے کل روپیہ حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓکے نام آنا چاہیے اور کوپن پر تعمیر دارالقرآن لکھ دینا ضروری ہو گا۔‘‘(الحکم 21تا28؍فروری 1913ء)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت کی یہ خواہش اس طرح پوری ہوئی کہ آپ کے مشورے سے الگ ہال کی بجائے مسجد اقصیٰ میں ایک بڑا ہال کمرہ بنایا گیا جس میں درس کے کام کے علاوہ نمازیوں کے آرام سے نماز پڑھنے کا انتظام بھی ہو گیا۔

نمبر6:نور ہسپتال

مندرجہ عنوان نام ہسپتال حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے اخلاص کی زندہ جاوید یادگار ہےجو حضرت خلیفہ اولؓ کے منشائے مبارک کے ماتحت حضرت میر صاحبؓ موصوف کی شبانہ روز کوششوں اور جدوجہد سے تعمیر ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ایام میں اسے ’’نور ہسپتال‘‘ کی بجائے ناصر وارڈ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

نور ہسپتال کی موجودہ عمارت

ہسپتال کی تعمیر کے لیے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے قادیان اور مضافات کی آبادی سے بلا لحاظ مذہب و ملت یہاں تک کہ قادیان کے خاکروبوں سے بھی بلا تکلف چندہ لیا۔ آ پ کے اس اخلاص اور جدوجہد کوسراہتے ہوئے حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا:’’مکرم معظم میر صاحب!

آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش اور دل میں تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفاخانہ زنانہ ،مردانہ ،مسجد اور دورالضعفاء کے لئے چندہ ہو اور آپ ان میں سچے دل سے کوشش اور سعی فرمارہے ہیں اور بحمدللہ آپ کے اخلاص،صدق و سچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہورہا ہے ان کاموں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پُر جوش ہیں ہمارے اور تمام کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں

و ماذالک علی اللہ عزیز۔

دستخط‘‘(حیات ناصر)

اگرچہ نور ہسپتال سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی ذات بابرکات کی وجہ سے قادیان میں ایک خیراتی ہسپتال جاری تھا جس سے تمام مذاہب وملل کے مریض استفادہ کرتے تھے لیکن مریضوں کو ہر وقت طبی امداد مہیا نہ ہو سکتی تھی اس لیے نور ہسپتال نے قادیان اور مضافات کے مریضوں کی نہایت قیمتی خدمات سر انجام دیں۔

اس ہسپتا ل کے بانیوں کے خلوص کا اس امر سے پتہ چلتا ہے کہ نور ہسپتال تقسیم ملک کے عظیم دھکے سے متأثرہوئے بغیر مسلسل و متواتر قوم کی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ ہاں تقسیم سے قبل اس ہسپتال کی سرپرست و منتظم صدر انجمن احمدیہ تھی اور تقسیم کے بعد گورنمنٹ کی نگرانی میں کام ہو رہا ہے۔(اب اس نام کا ایک اور بہت بڑاہسپتال قادیان میں خدمت خلق کا کام بہت وسیع پیمانے پر کر رہا ہے)

نمبر7:دورا لضعفاء

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ( جن کا ذکر نور ہسپتال اور مسجد نور کے سلسلے میں پہلے ہو چکا ہے)کے کارہائے نمایاں میں سے ایک کارنامہ دورا لضعفاء کی تعمیر ہے۔حضرت میر صاحبؓ حساس اور ذکی دل کے مالک تھے غرباء کی حالت دیکھ کر آپ کا دل گداز ہو جاتا اور آپ کسی غریب کو مصیبت میں دیکھنا برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ نے حضرت خلیفہ اولؓ کے عہد سعادت مہد میں انجمن ضعفاء کی بنیاد رکھی جس میں قادیان کے غریب و محتاج لوگ شامل تھے حضرت میر صاحبؓ مرحوم ان لوگوں کی حالت کو سدھارنے اور ان میں احساس برتری پیدا کرنے کے مختلف طریقے سوچتے رہتے تھے کبھی ان کو ایک جگہ جمع کر کے مجلس مذاکرہ قائم کر لیتے اور کبھی ان کے ساتھ مل کر ایک جگہ کھانا کھاتے۔

ان تجویزوں میں سے ایک عظیم الشان اور دیر پا تجویز ’’دورالضعفاء‘‘کی تعمیر تھی۔ یعنی قادیان کے ایسے باشندے جو نہ اپنا ذاتی مکان بنا سکتے تھے اور نہ ہی کرایہ دینے کی سکت رکھتے تھے ان کے لیے آپ نے ایک جگہ اور ایک ہی طرز کے مکان بنانے کی تجویز قوم کے سامنے پیش کی تاکہ یہ خدام جماعت گرمی و سردی سے بچتے ہوئے اپنے دن گزار سکیں ۔

آپؓ نے ابتداً22مکانات بنانے کی تجویز کی اور قوم سے اس امر کے لیے تعاون کرنے کی اپیل کی جس کا نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔چنانچہ خود حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک مکان اپنی جیب خاص سے بنوانے کا وعدہ کیا اور اس کے علاوہ 10/-روپے اسی وقت چندہ دیا۔

مذکورہ بالا بائیس مکانات میں سے آٹھ مکان 1913ء کے آخر میں تعمیر ہوئے اور باقی مکانات 1914ء کے شروع میں بنائے گئے۔ اس کام کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس ایک امر سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانے کے بنوائے ہوئے مکانوں سے تقسیم ملک کے بعد بھی آج تک متعدد غرباء استفادہ کر رہے ہیں اور یہ محلہ حضرت میر ناصرنواب صاحبؓ کی باقیات صالحات میں سے نمایاں اور امتیازی شان رکھتا ہے۔

نمبر8:چاہ بہشتی مقبرہ

بہشتی مقبرہ کی خوبصورتی اور زیبائش کے لیے ایک باغیچہ لگایا گیا اس کی آب رسانی کی کوئی معقول صورت نہ ہونے کی وجہ سے باغ میں ایک کنواں تعمیر کیا گیا تا کہ آب رسانی کا کا م آسانی اور سہولت سے ہو سکے۔اس کنوئیں کی وجہ سے نہ صرف بہشتی مقبرہ کا باغیچہ سیراب ہوتا تھا بلکہ آس پاس کی بہت سی افتادہ زمین بھی کاشت ہونے لگی۔

نمبر9:پُل بہشتی مقبرہ

قادیان کے قصبے سے بہشتی مقبرہ کو جاتے ہوئے رستےمیں ایک گہرا اور چوڑا جوہڑ آتا ہے جو برسات کے دنوں میں بڑی نہر کا نظارہ پیش کرتا ہے اور دو تین ماہ کے لیے ناقابل عبور ہو جاتا ہے۔اس طرح بہشتی مقبرہ اور قصبے تک پہنچنے کے لیے ایک طویل مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بابرکت زمانے میں اس جوہڑ پر ایک پُل تعمیرکیا گیا تاکہ بہشتی مقبرہ اور ملحقہ دیہات سے سال بھر ربط قائم رہے اور آمدورفت منقطع نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بہشتی مقبرہ کو جانے والا رستہ صرف چھ فٹ چوڑا تھا جو اس سڑک کی آمدورفت کے مقابلہ میں بہت تنگ تھا خاص طور پر جب شہر سے کوئی جنازہ بہشتی مقبرہ لے جایا جاتا تو بہت تکلیف ہوتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عہد میں اس رستہ کو بارہ فٹ کی ایک چوڑی سڑک میں تبدیل کر دیا گیا تا کہ آمدورفت میں آسانی ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّ لؓ کے عہد میں جماعت کی تربیت،دعوت الیٰ اللہ اور اشاعت قرآن کے ساتھ ساتھ مرکز احمدیت قادیان نے بھی خوب ترقی کی ۔آپؓ کے چھ سالہ عرصہ خلافت میں تیا رہونے والی عمارتوں کا مختصراًاور سرسری جائزہ اوپر دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ جماعت کی جملہ ضروریات پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان کو باحسن پورا فرماتے تھے۔-

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button