از مرکزجلسہ سالانہ

امن عالم کے قیام کے لیے اسلام کے سنہری اصولوں کا بیان۔ جلسہ سالانہ قادیان 2021ء کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور کا بصیرت افروز خطاب

(اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے، 26؍دسمبر 2021ء، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کا 126واں جلسہ سالانہ بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس بستی قادیان دارالامان میں 24، 25و 26دسمبر 2021ء کو اپنی تمام تر عظیم الشان اسلامی روایات کے ساتھ بخیروخوبی منعقد ہوا جس میں 6 ہزار کے قریب افراد نے شمولیت کی سعادت پائی۔

قادیان دارالامان میں منعقد ہونے والا یہ جلسہ اُس وقت ایک عالمگیرصورت اختیار کر گیا جب امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت صدارت میں ایوان مسرور، اسلام آباد سے ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ اس جلسہ کی اختتامی کارروائی تمام عالم میں براہ راست نشر ہوئی۔

اختتامی اجلاس کی کارروائی کے لیے حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 10بج کر 31منٹ پر ایوان مسرور، اسلام آباد میں رونق افروز ہوئے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شاملین کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ پیش فرمایا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت مکرم محمود احمد وردی صاحب کو حاصل ہوئی۔ آپ نے سورت آل عمران کی آیات 20تا 23کی تلاوت کی اور ان آیات کا اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کیا۔

بعد ازاں مکرم عمر شریف صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم

اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے

اے سونے والو جاگو شمس الضّحیٰ یہی ہے

کے چند اشعار مترنّم آواز میں پڑھے۔

10 بج کر 48 منٹ پر اس جلسہ سالانہ کا وہ مبارک لمحہ آیا جب قادیان اور اسلام آباد یوکے سے بلند ہونے والے پُر جوش نعروں کے بعد امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب کا آغاز فرمایا۔

تشہد، تعوذ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج قادیان کے جلسہ سالانہ کا آخری سیشن ہے۔ اسی طرح افریقہ کے ایک ملک گنی بساؤ میں بھی جلسہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے بھی درخواست کی تھی کہ ہمیں بھی شامل کر لیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان جلسے کے دنوں میں اور بھی ملک ہیں جہاں جلسے ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ بہر حال قادیان کے جلسے کے ساتھ کیونکہ ان کا جلسہ بھی تھا اس لیے ان کا ذکر ہو گیا ہے۔

اس کے بعد اپنےخطاب کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ہم یہ دعویٰ کر تے ہیں کہ اسلام کی تعلیم ہی اپنی اصلی حالت میں ہونے کی وجہ سےوہ تعلیم ہے جو خوبصورت معاشرہ قائم کرنے کے لیےاعلیٰ ترین تعلیم ہے۔ یہی وہ تعلیم ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائےتو خدا تعالیٰ کے قریب بھی کرتی ہے اور پھر اس قرب کی وجہ سےاور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کی وجہ سےایک حقیقی مسلمان کوایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف ایسی راہنمائی کرتی ہے جو بے مثال ہے۔یہ حقوق کی ادائیگی ہےجو معاشرے کے امن و سلامتی کی بھی ضمانت ہے۔

آج کل امن و سلامتی کی باتیں ہوتی ہیں کہ کس طرح امن و سلامتی پیدا کی جائے۔

حالیہ وبا کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ اس نے دلوں کی کدورتیں دور نہیں کیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ سے انسان کوئی سبق حاصل نہیں کر رہا۔ اگر یہی رویہ رہا تو بڑے خطر ناک نتائج پیدا ہوں گے۔ آج میں اسلام کی امن کی تعلیم کے چند پہلو بیان کروں گا۔ اگر ان پر عمل ہو تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارا بن سکتی ہے۔

حضور انور نے مذہبی رواداری کو قائم رکھنے کے بارے میں فرمایا کہ گو دنیا مذہب سے دور ہو رہی ہے لیکن پھر بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو مذہب کے حوالے سے دوسرے مذہب کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ ایک دوسرے مذہب کے بانی کو غلط کہہ کر اس پر الزام نہ لگاؤ۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ وہ آخری مذہب ہے لیکن یہ نہیں کہتا ہے کہ باقی مذہب جھوٹے تھے۔ اسلام کہتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے۔

قرآن کریم کی آیت

وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ (فاطر:25)

کی روشنی میں حضور انور نے فرمایا کہ ایک مسلمان حضرت عیسیٰ کو حضرت موسیٰؑ کو یا ہندوؤں کے اوتاروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارشاد کی روشنی میں حضور انور نے اس امر کو واضح فرمایا کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں۔ اور ابتدا میں تمام مذاہب کی بنیاد حق راستی پر تھی مگر بعد میں مرور زمانہ کے باعث ان کی تعلیمات میں تبدیلی آ گئی۔ خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں، تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہے تا کوئی قوم یا زمانہ بے نصیب نہ ٹھہرے۔ پس اسلام کہتا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے کی عزت کرو اور ہر مذہب کے بانی کی عزت کرو۔

اسلام کے بارے میں ایک غلط تصور قائم کیا گیا ہے کہ اسلام شدت پسند مذہب ہے اور ابتدا میں زبردستی مسلمان بنائے گئے ۔ حالانکہ اسلام اس کی نفی کرتا ہے جیسا کہ فرمایا

وَلَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًاؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (یونس:100)

حضور انور نے فرمایا کہ اسلام میں تبلیغ کا حکم، اسلام کا پیغام پہنچانے کا حکم اور راستہ دکھانے کا حکم ہے۔ اس کے بعد حکم ہے کہ

قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکہف:30)

پس اسلام نے اس دنیا میں نہ ماننے کی وجہ کسی کو سزا نہیں دی۔

اگر آج بھی مسلمانوں کے عمل اس تعلیم کے مطابق ہوجائیں تو دنیا کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو جائے۔ اور دنیا بھی دیکھےکہ اس سے جہاں دنیا میں امن قائم ہوگا وہاں مسلمانوں کی ساکھ بھی قائم ہوجائے گی۔

پھر دنیا میں امن قائم کرنے کے لیےایک اصول یہ بتایا کہ کسی غلطی یا دشمنی پر معاف کرنا یا سزا دینا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَاۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ(الشوریٰ:41)

اصلاح مد نظر ہونی چاہیے کہ آیا سزا دینے سے یا معاف کرنے سے لیکن مقصد اصلام ہونی چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا کہ پھر امن قائم رکھنے کے لیے آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ ایک سنہری اصول بتایا کہ ظالم اور مظلوم دونوں سے ہمدردی کرو۔ اب مظلوم سے تو ہمدردی واضح ہے کہ کس طرح کرنی ہے۔ ظالم کی ہمدردی کس طرح کی جائے۔ تو آپﷺ نے فرمایا ہے ظالم کو ظلم سے روک کر اس سے ہمدردی کرو۔ اس چیز میں بہت کمی نظر آتی ہے۔ پس پائدار امن اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب متوازن رویہ ہر سطح کے بااختیار لوگ اپنائیں۔

پھر ایک برائی جس سے اسلام بڑی سختی سے روکتا ہے وہ بد ظنی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والا بد ظنی کی بجائے حسن ظنی رکھتا ہے۔ صحابہ اتنا حسن ظن رکھتے تھے کہ اس کی انتہا تھی۔ اس کے بعد حضور انور نے حضرت عمرؓ کے دور میں حسن ظن کا ایک واقعہ سنایا جس میں ایک قاتل کو حسن ظنی کی وجہ سے ضمانت دی گئی۔

حضور انور نے فرمایا کہ مندرجہ بالا آیت میں ظلم سے بھی بچایا گیا ہے۔ جو غیبت کرتا ہے وہ بھی ظلم کرتا ہے۔ اور جو غیبت کرتا ہے وہ گویا اپنے بھائی کا مردہ گوشت کھاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف میں اس کو بہت ہی برا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے

اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ (الحجرات:13)

خداتعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یادشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں۔

حضور انور نے فرمایا:

وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ

یعنی اور اپنے ہی اموال اپنے درمیان جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو۔

حضور انور نے فرمایا: یہ ظلم ہے۔ اس سے پھر رنجشیں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں جبکہ مادیت کی دوڑ بہت زیادہ ہو چکی ہے غلط رنگ میں دھوکا دے کر ایک دوسرے کا مال کھانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ ظلم ہو رہا ہے۔ امیر ممالک غریب ممالک کی دولت غلط رنگ میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے کھا رہے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا : پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض تجارتیں ظلم کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ چھوٹی سطح پر بھی اور بڑی سطح، بڑی تجارتوں کی شکل میں بھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے بچنے کی بھی تلقین فرمائی ہے کہ یہ ظلم معاشرے اور دنیا کے امن اور سلامتی کو برباد کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ۔الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ۔

ہلاکت ہے تول میں ناانصافی کرنے والوں کے لئے۔ یعنی وہ لوگ کہ جب وہ لوگوں سے تول لیتے ہیں بھرپور (پیمانوں کے ساتھ) لیتے ہیں۔

اسلام کہتا ہے کہ ہر قسم کے لین دین میں دوسرے کے حقوق کا خیال رکھوں۔

حضور انور نے فرمایا کہ امن و سلامتی کو برباد کرنے میں تکبر ایک بہت بڑی وجہ ہے اسلام اس کو سختی سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًاۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا۔ (بنی اسرائیل:38)

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ تکبر نہ کرو اور اردگرد کے لوگوں کو ذلیل، حقیر نہ سمجھو۔ اگر تم نے اپنے سے کم لوگوں کی عزت نفس کا خیال نہ رکھا تولوگ تم سے دور ہٹتے چلے جائیں گے۔ تم ذلیل ہو گے اور یہ لوگ تمہارے خلاف ہوں گے جو بغاوت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے جس سے معاشرے کا امن خراب ہوتا ہے۔

اللہ تعا لیٰ فرماتا کہ

وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا

یاد رکھو کہ اس طرح کے لوگ حقوق غضب کر کے اور ایسےفاصلہ رکھ کر قوم کے سردار نہیں بن سکتے۔ جبال سردار اور بڑے امراء کو بھی کہتے ہیں۔ پس تکبر کر کے کوئی حقیقی مقام نہیں ملتا۔ عاجزی ہی ہے جو حقیقی سردار ی دیتی ہے اور لیڈر بنا تی ہے۔ یہی سرداری ہے جو دیر پا امن قائم کرنے والی بن سکتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے حضور انور نے فرمایا کہ قومی ظلموں میں سے ایک ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے۔ قرآنی آیت

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا(النساء:149)

کی وضاحت میں فرمایا کہ مظلوم کو توجہ دلائی کہ اگر بدلہ لینا ہے تو شور مچانے کی بجائے متعلقہ ادارے تک جاؤ اور فیصلے کا انتظار کرو۔ کیونکہ ظلم کا شور ڈالنے سے قوم کے اخلاق تباہ ہوتے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا۔(النساء:37)

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

حضور انور نے فرمایا کہ توحید کا قیام کرو۔ اگر توحید کے حقیقی ماننے والے ہو گے تو ظلم کرنے والے بھی نہیں ہو گے۔ساتھ ہی ان لوگوں کی فہرست دے دی جن سے حسن سلوک ایک مومن کے لیے ضروری ہے۔اس کے مطابق اگر انسان زندگی گزارے تو امن برباد کرنے والے تمام اسباب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ معاشرے کے تمام لوگ جن سے اس کا واسطہ پڑتا ہےاس میں آ جاتے ہیں۔

غصے کے حوالے سے حضور انور نے فرمایا کہ غصے سے جھگڑے شروع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اصولی ہدایت فرما دی کہ ہم نے تمہیں امۃ وسطاً بنایا ہے۔ نہ غصے میں اتنا بہ جاؤ کہ معاف نہ کر سکو۔ نہ محبت میں اتنا بہ جاؤ۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں اس کی بہت زیادہ کمی ہو گئی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں حضور انور نے فرمایا کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جو شخص غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے حکمت اور معرفت کی باتیں ہر گز نہیں نکل سکتیں۔

اسلام کی تعلیم کا اصل مقصد معاشرے کی اصلاح ہے ، سزا دینا ہے۔فرمایا جب معاف کردو تو احسان کا رنگ اختیار کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

سورت النحل کی آیت91 کی روشنی میں حضور انور نے فرمایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپس میں عدل کا سلوک کرو۔ اگر بدلہ لینا ہے تو اس حد تک جس حد تک ظلم ہوا۔ وہ بھی صاحب اختیار دے۔ دوسرا درجہ احسان کا ہے۔ اس میں عفو ،درگزر،غریب کی مدد، صدقہ ،خیرات تمام چیزیں آ جاتی ہیں۔ اس سے بڑھ کر ایک درجہ ایتاء ذی القربیٰ ہے جہاں رشتہ داروں جیسا سلوک ہو جہاں کوئی ذاتی غرض نہ ہوجیسے ایک ماں اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا کہ لینے سے زیادہ دینے کا خیال آئے۔ سب بنی نوع تمہیں اپنے بچے نظر آئیں۔ جب ایسے سلوک ہوں اور یہ معیار ہو تو کتنا خوبصورت اور امن و سلامتی والا معاشرہ ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو آجکل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے۔ دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے۔ جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی(النحل:91)۔

تو یہ کامل طریق ہے۔ یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے۔ جو لوگ اس سے دُور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گندنظر آئے گا۔فرمایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔ نماز، (اور) صدق و صفا میں ترقی کرو۔

حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے بعد اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے لیے اپنے ہر عمل میں نمونہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امن کے حوالے سے جو بعض باتیں میں نے بیان کی ہیں ان پر ہم لوگ خود حقیقی رنگ میں عمل کرنے والے ہوں اور اس کے علاوہ باقی جو باتیں ہیں ان پر بھی اور پھر دنیا کو اس سے آگاہ کریں تاکہ دنیا جو اپنے خود غرضانہ مفادات کے حصول کی وجہ سے تباہی کے گھڑے کی طرف جا رہی ہے اس حقیقت کو سمجھے کہ حقیقی امن خدا تعالیٰ کے حکموں پر چل کر ہی قائم ہو سکتا ہے۔اور کوئی دنیاوی نظام اس کے پائدار قیام میں مددگار نہیں ہو سکتا، امن کے نظام میں۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ، ہر احمدی کی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ جلسے کی برکات کو بھی شاملین ساتھ لے کر جانے والے ہوں۔ دنیا میں ہر جگہ اس جلسے کے پروگرام کو سننے والے ایک جوش اور جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں۔اور اپنے علاقوں میں اسلام کی پاک تعلیم کی روشنی میں ایک انقلاب پیدا کرنے والے بن جائیں۔ سب شاملین کو اللہ تعالیٰ خیریت سے اپنے گھروں کو لے کر جائے۔قادیان میں جو آئے ہوئے ہیں وہ بھی ، جو افریقہ میں گنی بساؤ میں ہیں وہ بھی ۔ اور بھی اگر کہیں بھی جلسے ہو رہے ہیں وہاں بھی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

اب ہم دعا کریں گے۔ خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔ اور ہمیں حقیقی رنگ میں وہ حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ایک بیعت کا حق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہم سے توقع کی ہے۔ اب دعا کر لیں۔

حضورِ انور نے گیارہ بج کر 55 منٹ پر دعا کروائی اور اسلام آباد اور قادیان کے علاوہ دنیا کے تمام خطوں میں بسنے والے احمدی مسلمان ایم ٹی اے کے بابرکت مواصلاتی رابطے کے ذریعہ سے اپنے امام کی معیّت میں دعا میں شامل ہوئے۔

دعا کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت وہاں جو جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں ان کی حاضری 2118 ہے، 8ممالک کی نمائندگی ہے، اس کے علاوہ بھی لوگ مختلف جگہوں پر وہاں بیٹھے ہوئے جلسہ سن رہے ہیں۔ ان کی تعداد کافی ہے۔ کُل تعداد وہاں قادیان میں جلسہ سننے والوں کی شاید 6 ہزار سے زیادہ ہی ہوگی۔

بعد ازاں حضور انور نے ازراہِ شفقت قادیان والوں کو اپنا اگلا پروگرام پیش کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔

قادیان سے مردانہ جلسہ گاہ سے 8جبکہ زنانہ جلسہ گاہ سے ادو گروپس نے اردو، عربی اور تامل زبانوں میں ترانے پیش کیے۔

ترانوں کے بعد 12بج کر 22 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا بھر کے تمام شاملین کو السلام علیہ و رحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ پیش کیا۔ بعد ازاں حضور انور تشریف لے گئے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زریں نصائح اور ہدایات پر عمل کرنے کی توفی عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button