متفرق مضامین

جلسہ سالانہ پر لنگروں میں روٹی پلانٹ کی تنصیب کی تاریخ

(محمد اسلم)

افسر جلسہ حضرت میر داؤد احمد صاحب اور احمدی انجینئرز کی ناقابل فراموش خدمات

سب سے بڑا کارنامہ لنگر خانوں میں گیس آجانے کا ہے۔ 3عدد لنگروں میں گیس فٹ ہو گئی۔ 1968ء میں لنگر نمبر 1دارالصدر میں گیس فٹ ہوئی۔

’’حضرت میر داؤد احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ تھے اور پرنسپل جامعہ احمدیہ بھی تھے اور کئی ادارہ جات کی بھی نگرانی کرتے تھے۔ علمی کارنامے تو ان کے بہت ہوں گے۔ حضرت میر داؤد احمد صاحب نے صرف جلسہ سالانہ کے لنگر خانہ کے لئے جو دن رات کوشش کی اس کے متعلق میں کچھ عرض کروں گا۔

سب سے بڑا کارنامہ لنگر خانوں میں گیس آجانے کا ہے۔ 3عدد لنگروں میں گیس فٹ ہو گئی۔ 1968ء میں لنگر نمبر1 دارالصدر میں گیس فٹ ہوئی۔ یہاں تندور لگ گئے۔ گیس کمپنی نے گیس لنگر میں فٹ کر دی۔ بڑے انجیکٹروالو وغیرہ گیس چالو اور بند کرنے کا سامان مکمل فٹ کر دیا۔ باقی تندوروں میں پائپ فٹنگ اور والو وغیرہ لگانے کا کام ہمارے ربوہ کے کاریگر وں نے کیا۔ دن رات کام ہوتا رہا۔ اس تمام کام کے انچارج محترم چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب ناظم سوئی گیس تھے۔

یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ تندور کس طرح گرم ہوتا ہے۔تندور میں ایک سٹارٹر لگایا جاتا ہے اس کے اوپر لوہے کی پلیٹ ہوتی ہے۔ سٹارٹر کے قریب نوزل ہوتی ہے۔ اس نوزل سے گیس آتی ہے جس کو آگ لگا دی جاتی ہے تو لوہے کی پلیٹیں گرم ہو جاتی ہیں۔ جب تندور گرم ہو جائے تو روٹی لگنی شروع ہو جاتی ہے۔ جب تندروں میں پائپ فٹنگ ہو رہی تھی تو خاکسار چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ خاکسار کو کام دیا جائے۔ میرے پاس خراد مشین تھی جو گول بازار میں لگائی تھی تو چوہدری صاحب نے مجھے پائپوں پر چوڑیاں ڈالنے کا کام دے دیا۔ میرا یہ جلسہ سالانہ کا پہلا کام تھا۔ 2یا 3دن میں تقریباً 200چوڑیاں خراد مشین پر مکمل ہو گئیں جس کا بل 30؍- روپے بنا جو مل گیا۔ بہت خوش ہوا کہ میں نے جلسہ سالانہ کا کام کیا ہے۔

لنگر خانہ نمبر1کا کام مکمل ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ یہ لنگر خانہ دوسرے دن چالو ہو گیا۔ تندوروں میں روٹی لگنی شروع ہو گئی۔ روٹی لگانے والوں اور پیڑے تیار کرنے والوں کے ٹھیکیدار کی اس موقع پر بہت ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان سب کاموں کی ذمہ داری لنگر خانہ کے ناظم صاحب پر ہوتی ہے۔ اسی طرح سالن تیار کرنے والوں کا ٹھیکا الگ ہوتا ہے جو دیگوں میں سالن گوشت وغیرہ تیار کرتے ہیں۔روٹی سالن وقت پر تیار ہونا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ وقت پر کھانا تقسیم ہو سکے۔ یہ کام بھی ناظم صاحب لنگر خانہ کی زیر نگرانی ہوتا ہے اب ایک مرحلہ آ گیا کہ تندوروں میں روٹی پوری نہیں ہوتی تھی۔ نانبائی روٹی تیزی سے نہیں لگاتے تھے۔ تو یہ سوال جلسہ سالانہ کے بعد اٹھا کہ اس کا حل کیا ہو۔ حضرت میر داؤد احمد صاحب نے تمام ناظمین لنگر خانہ کی میٹنگ بلائی کہ اس کا کیا حل کیا جائے۔ اس میٹنگ میں کئی انجینئرز شامل ہوئے۔ مکرم چوہدری حمیداللہ صاحب اور دیگر نائب افسران جلسہ سالانہ بھی شامل تھے۔ آخر فیصلہ ہوا کہ روٹی پلانٹ تیار کیا جائے۔ اس لئے محترم منیر احمد خان صاحب انجینئر اور محترم نعیم احمد خان صاحب انجینئر سے کہا گیا کہ آپ کراچی میں اس کی کوشش کریں۔ یہ کراچی جماعت سے آئے ہوئے تھے۔ کوشش شروع ہو گئی۔ کراچی میں ایک کارخانہ ہے وہاں پر روٹی پلانٹ کی تیاری کا کام شروع ہو گیا۔ انہوں نے ایک چھوٹی مشین تیار کروائی اور ربوہ بھجوا دی جو دارالضیافت میں لگائی گئی۔ اس میں ایک ایک کرکے روٹی لگائی جاتی تھی۔ وہ چلتی تھی لیکن بہت اچھا کام نہیں کرتی تھی۔ روٹی مشین پر لگی رہ جاتی تھی۔ حضرت میر داؤد احمد صاحب نے اس کارخانہ والوں کو بڑی مشین تیار کرنے کا کہا۔ اس ہدایت کے مطابق کراچی کے انجینئرز محترم منیر احمد خان صاحب اور محترم نعیم احمد خان صاحب نے بڑی مشین جس میں 2-2کرکے دو قطاروں میں روٹی لگتی تھی بنانی شروع کی۔ اس طرح 10مشینیں بنوانے کا آرڈر دے دیا گیا۔ اس کمپنی نے 10عدد مشینیں تیار کرکے ربوہ بھیج دیں جو کہ لنگر خانہ نمبر2میں فٹ کر دی گئیں۔ جلسہ سالانہ بھی شروع ہو گیا۔ مشینوں کو چلایا گیا، روٹی لگانی شروع کی لیکن صورت حال یہ پیش آئی کہ جس مشین کو چلایا جاتا کچھ چل کر جام ہوجاتی۔ پھر گریس وغیرہ دے کر چلانا پڑتا۔ مشینوں میں بڑا نقص یہ تھا کہ مشین کی پلیٹوں کا کنویر جس میں تقریباً80 عدد پلیٹیں ہوتی ہیں پلیٹوں میں چین فٹ ہوتی ہے، ایک شافٹ فٹ کی جاتی ہے۔ ان کارخانے والوں نے شافٹ کے اندر بش لگا رکھے تھے۔ جب گیس کو چلایا جاتا تھا تو کچھ دیر چلنے کے بعد جام ہو جاتی۔ پھر ہم اس کو گریس اور تیل وغیرہ لگا کر چلا دیتے۔ یہ تمام صورت حال حضرت میر داؤد احمد صاحب کو بتائی گئی۔ خاکسار اور میرے شاگرد 3دن اور رات مشین چلاتے رہے۔ جلسہ کے بعد اس صورت حال کی رپورٹ ناظم صاحب لنگر خانہ نے جناب افسر صاحب جلسہ سالانہ کی خدمت میں پیش کی۔ پھر میٹنگ ہوئی جس میں نائب افسران جلسہ اور تمام ناظمین شامل ہوئے۔ پوری طرح غور و فکر کیا گیا۔ خاکسار نے ایک ڈرائنگ بنا کر دی کہ شافٹوں کو لمبا کرکے اس کے باہر بریکٹ لوہے کے تیار کرکے ان میں بیرے فٹ کئے جائیں۔ میری اس گزارش کو منظور کر لیا گیا۔ صرف ایک مشین کی منظوری ہوئی۔10یا 12دن میں ایک عدد مشین کا کام مکمل کر لیا گیا۔ پھر اس کی ٹرائی کی گئی۔ تقریباً 12 گھنٹے مشین چلتی رہی۔ خدا کے فضل سے یہ کام ہوا۔ پھر مشین کا معائنہ کیا گیا۔ مشین کو گیس دے کر چلا دیا گیا۔ حضرت میر داؤد احمد صاحب بہت خوش ہوئے۔ حضرت میر صاحب نے حکم دیا کہ جو سامان مشین میں فٹ ہوا ہے کراچی والے تیار کر کے دیں۔ کیونکہ انہوں نے گارنٹی دی تھی کہ اگر نقص ہوا تو کمپنی ذمہ وار ہو گی۔ اس صورت میں ان کو تمام سامان بنا کر دینا ہو گا۔ حکم ہوا خاکسار اور مبارک مصلح الدین صاحب کراچی جانے کی تیاری کر لیں۔ تمام خرچہ وغیرہ کمپنی والے ادا کریں گے۔ بہرحال کچھ دن کے بعد ہم کراچی روانہ ہو گئے۔ ان کے کارخانہ جا کر جس طرح یہ مشین تیار کی تھی خاکسار نے ان کے انجینئر صاحب کو سمجھایا۔ انہوں نے سب کچھ سمجھ لیا اور کام شروع کر دیا۔ ہم 4یا 6دن کراچی میں رہے۔ میں روزانہ فیکٹری جاتا اور سامان تیار کرواتا۔ 2ماہ کے بعد تمام سامان تیار کرکے کمپنی والوں نے ربوہ بھیج دیا۔ پھر ہم نے اس سامان کی فٹنگ لنگر خانہ نمبر2کی باقی 9عدد مشینوں میں شروع کر دی۔

تقریباً 2ماہ میں یہ کام مکمل ہو گیا۔ ہم نے گیس چلا کر موٹر وغیرہ کو چلا دیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے سب مشینیں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔پھر اس کے بعد ایک کارخانہ جس کا نام یاد نہیں رہا ان کو 20 مشینوں کا آرڈر دے دیا گیا۔ انہوں نے کام شروع کر دیا۔ تقریباً 11ماہ میں یہ کام مکمل ہوا۔ جلسہ سالانہ میں ایک ماہ باقی تھا۔ پھر حضرت میر داؤد احمد صاحب نے کہا کہ کراچی سے مشینیں لے آؤ۔ کراچی جا کر اس کارخانہ پر گئے تو معلوم ہوا کہ مشینوں کا کام مکمل نہیں ہوا۔ ان کے انجینئر صاحب سے بات ہوئی اور ان سے کہا گیا کہ فوری کام مکمل کیا جائے۔ ہمارے جلسہ سالانہ میں صرف ایک ماہ باقی ہے تو انہوں نے مشینوں کا کام کرنے والوں سے کہا کہ دن رات کام کرکے کام مکمل کرو۔ خاکسار روزانہ اس فیکٹری میں جاتا اور ان سے کہتا کہ کام بہت جلدی کرو۔ پھر بھی ایک ہفتہ لگ گیا۔ پھر ٹرکوں کا انتظام کیا گیا۔ 3عدد ٹرکوں میں 20 عدد مشینوں کو لوڈ کر دیا گیا۔ سامان لنگر خانہ 1میں اتروا لیا گیا اور مشینوں کی فٹنگ شروع ہو گئی۔ سوئچ سٹارٹر وغیرہ بجلی کا کام بجلی کے کاریگر کرتے تھے۔ ہم نے مشینوں کی فٹنگ کا کام شروع کیا۔ صرف 8دن میں فٹنگ مکمل ہو گئی۔ گیس وغیرہ سب فٹ ہو گئی۔ کراچی میں مشینوں کی ٹرائی نہ ہو سکی۔ لنگر خانہ نمبر1جلسہ سے تین یوم پہلے 23دسمبر کو چلایا جاتا ہے۔ بہرحال مشینوں کو چلایا گیا۔ جس مشین کو چلاتے وہ جام ہو کر رک جاتی۔ بہت پریشان کن صورت حال ہو گئی۔ خاکسار اور میرے شاگرددن رات ان کو چلانے کے لئے کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ماہرین سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے ایک تیل دیا کہ یہ لگا کر دیکھو لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ رات ہو چکی تھی۔ 4دن سے رات دن کام کرتے میرے شاگرد تھک چکے تھے۔ میں نے رات کو ان سے کہا کہ اب سب آرام کرو اور سو جاؤ۔ وہ تو آرام سے سو گئے لیکن خاکسار جاگتا رہا۔ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے لگ گیا۔ تقریباً 2گھنٹے نماز میں خداتعالیٰ کے حضور روتا رہا۔ خدا کے حضور عرض کیا کہ یہ سب کچھ حضرت مسیح موعوؑدکے مہمانوں کے لئے ہے۔ خدایا ہماری مدد فرما۔ بہت دعا کی۔ تقریباً رات کے 12بج چکے تھے۔ مجھے نیند آ گئی۔ ہم کمرہ میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک بڑی زور سے آواز آئی پلیٹیں نکال دو۔میں نیند سے جاگ اٹھا۔ اور اپنے شاگردوں کو جگانا شروع کیا بڑی مشکل سے ان کو ساتھ لیا۔ ان سے کہا کہ تمام اوزار پلاس وغیرہ لے لو۔ ہر مشین کے کنویر سے ایک پلیٹ نکال دو۔ پہلے نمبر 1 مشین سے پلیٹ نکالو۔کنویر سے ایک پلیٹ نکل گئی تو مشین چلا دی گئی۔ اس کی گیس بھی چالو کر دی گئی۔ مشین بالکل ٹھیک چلتی رہی۔ باقی 19عدد کے کنویر سے بھی پلیٹ نکال دی گئی۔ تمام کی گیس چالو کر دی گئی۔ تمام 20عدد مشینوں کو 4گھنٹے تک چالو رکھا گیا۔ یہ سب خدا کا فضل ہوا۔ حضرت سید میر داؤد احمد صاحب کو اطلاع کر دی گئی کہ تمام مشینیں چل گئی ہیں۔ دن کے 12بجے مشینوں کو چلایا گیا۔ روٹی لگنی شروع ہو گئی۔ 6دن تک مشینیں چلتی رہیں۔ کوئی بھی مشین بند نہیں ہوئی۔ ہم 6دن تک جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی پر حاضر رہے۔ بہت مستقل مزاجی کے ساتھ ڈیوٹی دیتے رہے۔ میرے سب شاگرد ساتھ ہی رہے لنگر خانہ میں ہی سوتے تھے۔

اس جلسہ کے بعد حضرت سید میر داؤ د احمدصاحب نے سب ناظمین اور تمام نائب افسران جلسہ سالانہ کا اجلاس بلایا اور فیصلہ ہوا کہ اب مشین ربوہ میں ہی تیار کی جائے۔

اس کام کے لئے محترم مرزا لقمان احمد صاحب جو تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں لیکچرار تھے وہ اب جلسہ کے ناظم سوئی گیس تھے اور ان کے ساتھ جناب منور احمد لاہوری صاحب (لیکچرار کالج) نائب ناظم شامل ہوئے۔ یہ دونوں بے حد ذہین اورمخلص نوجوان تھے۔ حضرت میر داؤد احمدصاحب ان پر اعتماد کرتے تھے۔ ایک عددمشین تیار کرنے کے لئے محترم مرزا لقمان احمد صاحب کے ساتھ سامان خریدا گیا اوران کی نگرانی میںکام شروع کر دیا۔ یہ مشین 15یا 20 دن میں تیار ہو گئی۔ جب مشین مکمل ہو گئی تو دارالضیافت میں چلائی گئی۔ روٹی لگائی تو بہت ہی کامیاب ہوئی۔ ہمارے ساتھ مرزا لقمان احمد صاحب نے بہت کام کیا۔ دن رات سب کام کی نگرانی کرتے رہے۔ یہ شاید 32سال پہلے کی بات ہے۔ پھر 3عدد مشین روٹی پلانٹ ان کی نگرانی میں تیار ہوئے جو دارالضیافت میں اب تک چل رہے ہیں۔ اس کے بعد خاکسار کو 20عدد اور مشینوں کا آرڈر مل گیا۔اس وقت محترم چوہدری حمیداللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ تھے خدا کے فضل سے صرف ایک دن میں 20عدد مشینوں کا سامان خرید لیا گیا۔ سامان کی لوڈنگ کے لئے ٹرک لیا گیا۔ تمام سامان ٹرک میں لوڈ کر دیا گیا۔ خاکسار اور فتح محمد صاحب کارکن جلسہ سالانہ اس ٹرک پر ہی ربوہ آئے۔ تمام سامان لنگر خانہ نمبر3میں اتار لیا گیا۔ کیونکہ کام بھی اس لنگر خانہ میں کرنا تھا۔ ایگریمنٹ کے مطابق 6ماہ میں یہ کام مکمل کرنا تھا۔ لاہور میں ہی مرزا لقمان احمد صاحب نے مجھے کچھ پیشگی منظور کروا دی جس سے خاکسار نے راڈ اور تمام اوزار وغیرہ خرید لئے تاکہ کام میں کوئی رکاوٹ نہ پڑے۔ ہم نے بہت دعا کرکے کام شروع کر دیا۔ 6عدد شاگرد میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ …

خدا کے فضل سے 20عدد مشینیں ہم نے جلسہ سالانہ کے لئے تیار کر لیں۔ لنگر خانہ نمبر3میں لگائی گئیں۔… جلسہ سالانہ میں مشین چلائی گئی۔ ان مشینوں پر روٹی بہت اچھی پکتی رہی۔ یہ وہ لنگر خانہ ہے جہاں پر فتح محمد صاحب کارکن جلسہ سالانہ رہتے ہیں۔ پھر خاکسار نے دو اور لنگر خانوں کی مشینیں تیار کیں۔ جن کی تعداد تقریباً 20عدد ہے۔ محترم مرزا لقمان احمد صاحب اور منور احمد لاہوری صاحب امریکہ چلے گئے۔

اب ایک اور دورشروع ہوتا ہے۔ یہ حضرت سید میر داؤد احمدصاحب کے وقت آٹو میٹک روٹی پلانٹ کا ہے۔ جناب منیر احمد خان صاحب انجینئر کراچی سے تشریف لائے۔ انہوں نے ایک ڈرائنگ روٹی پلانٹ کی تیارکی ہوئی تھی۔ وہ محترم سید میر داؤد احمد صاحب کو بتائی۔ محترم میر داؤد احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کر دی تو حضور نے اس کی منظوری دے دی۔ حضرت میر داؤد احمد صاحب میری دکان جو گول بازار میں تھی پر تشریف لائے۔ جناب انجینئر منیر احمدصاحب ساتھ تھے اور مجھ سے کہا کہ کیا تم یہ کام کر لو گے۔ منیر احمدصاحب نے یہ ڈرائنگ مجھے دکھائی۔ میں نے عرض کیا میری خراد مشین ہے۔ کچھ کام یہاں ہو گا۔ کچھ چنیوٹ سے کرانا پڑے گا۔ ڈھلائی فیصل آباد سے ہو گی۔ یہ کام بہت بڑا ہے۔ جلسہ سالانہ میں تو 2 یا اڑھائی ماہ باقی ہیں۔ بہرحال آٹو میٹک پلانٹ کا کام شروع کر دیا گیا۔ کچھ چنیوٹ سے اور کچھ ربوہ میں کیا۔ کچھ کام ہائی سکول کی ورکشاپ پر کیا۔ ابھی سکول جماعت کے پاس ہی تھا۔ جب تمام سامان تیار ہو گیا تو دارالضیافت لاکر فٹنگ شروع کر دی گئی۔ پلانٹ فٹ ہو گیا۔6یا 8کاریگر اس کام میں دن رات لگے رہے۔ انجینئر صاحب بھی ساتھ کام کرواتے رہے۔ لیکن جب بھی مشین کو چلایا جاتا کوئی نہ کوئی نقص پڑ جاتا۔ پھر اسی طرح جب اس کو درست کیا جاتا اور پھر چلایا جاتا تو کوئی مشکل پیدا ہو جاتی تھی۔ اس کی گیس وغیرہ سب کچھ فٹ ہو چکا تھا۔ جب روٹی پلانٹ چلایا جاتا تو کوئی مشکل ہو جاتی ۔ کبھی اس کا گیئر بکس جواب دے جاتا۔ جب آٹااوپر ڈالتے تو شیٹ کی صورت روٹی تیار ہوتی تھی۔ یہ کام دن رات ہو رہا تھا۔ تمام کام کرنے والے تھک ٹوٹ چکے تھے۔ 28 تاریخ ہو گئی لیکن کوئی خاص کامیابی نہ ہو سکی۔ تو تمام صورت حال کا جب حضرت میر داؤد احمد صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اب اس کام کو بند کر دیا جائے۔ سب آرام کریں۔ بہرحال بہت تجربات ہوئے جو نوٹ کر لئے گئے۔ گیئر جو مشین چلاتا تھا وہ جواب دے گیا۔ اس طرح کوئی خاص کامیابی نہ ہو سکی۔ اس تجربہ سے فائدہ یہ ہوا کہ ایک نیا راستہ مل گیا۔ ایک نیا دور شروع ہوا۔

محترم میاں رفیق احمد صاحب انجینئر جلسہ سالانہ میں آگئے تو انہوں نے روٹی آٹو میٹک کا جو کام منیر احمد خاں صاحب کرچکے تھے اس پر ازسر نو دوبارہ کام شروع کیا۔ ایک نیا سسٹم رولر بکس کی ڈرائنگ تیار کی جو مجھے دکھائی۔ خاکسار نے لکڑی کے رولر تیار کیے جو ایک بکس بنا کر ان میں چلایا گیا تو آٹا چلانے کا مسئلہ حل ہو گیا۔ پھر سلور کے رولر تیار کئے۔ بہرحال یہ تجربہ کافی کامیاب رہا۔ خاکسار نے اس قسم کے 12 بکس تیار کئے۔ اب بھی اس کی ٹرائی ہو رہی ہے اور چورس روٹی کو کامیاب کرنے کے لئے کام جاری ہے۔ اب بھی جناب چوہدری حمیداللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ ہیں۔ اس وقت بہت سے نئے لنگر خانے تیار ہو چکے ہیں۔ خدا کے فضل سے روٹی کا مسئلہ حل ہو رہا ہے۔ پھر مکرم مبشر احمد صاحب دہلوی تشریف لائے جو آنریری طورپر کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ میاں رفیق احمد صاحب انجینئر نے مل کر بہت محنت کی ہے اور روٹی آٹو میٹک کامیاب ہوئی ہے۔خداتعالیٰ اپنے فضل سے جلسہ سالانہ کی اجازت دلوا دے اور وہ دن خداتعالیٰ جلدی لے آئے اور پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی جلسہ میں شریک ہوں۔ تمام لنگر خانے چلائے جائیں اور روٹی لگنی شروع ہو جائے۔ وہ دن خوشی کا دن ہو گا۔ اب آخری بات یہ ہے کہ میرے تمام شاگرد جرمنی جا چکے ہیں۔مجھے امید ہے وہ جرمنی میں جلسہ سالانہ کی ڈیوٹی دیتے ہوں گے۔ خداتعالیٰ ان کا حافظ وناصر ہو۔

خاکسار نے کچھ دیگر کام جلسہ سالانہ کے لئے کئے۔ پیاز کاٹنے کی مشین تیار کی۔ خدا کے فضل سے لنگر خانہ میں پیاز کی کٹائی کے لئے ایک مشین کافی ہے۔ اس طرح کی 12مشینیں تیار کی گئیں۔ یہ مشین ہاتھ سے چلائی جاتی ہے۔ ایک سال ہوا خاکسار نے تیار کرکے ایک مشین پیاز کی کٹائی کی جرمنی کے لئے ارسال کی۔ خاکسار صرف دس سال کا تھا جب کام سیکھا تھا۔ تقریباً 12سال ملتان میں مختلف جگہوں پر کام کرتا رہا۔ پھر میں ربوہ آ گیا۔میرے تمام رشتہ دار ربوہ میں ہی رہتے تھے۔ یہاں آ کر حضرت صاحبزادہ منصور احمدصاحب کے کارخانہ میں ملازمت مل گئی۔ 4ماہ میاں صاحب کے کارخانہ میں ملازمت کرتا رہا۔میں نے حضرت میاں صاحب سے عرض کی مجھے فارغ کر دیں تو آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔ میرے پاس خراد ہے وہ چلا کر گزارہ کر لوں گا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ کارخانہ سے کوئی خاص آمد نہیں ہو رہی۔ اس وقت حضرت میاں منصور احمد صاحب ناظر امور عامہ تھے۔ میاں صاحب نے مجھے کہا تم کام کرتے رہو۔ لیکن میں نے عرض کیا کہ میں مجبور ہوں اپنا ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔ بڑی مشکل سے حضرت میاں صاحب نے مجھے اجازت دی۔ میں خراد کے علاوہ سلائی مشین کا بھی کچھ کام کر لیتا تھا۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ ہر ہفتہ آکر مجھے بتاؤ کہ کام کا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت میاں صاحب مجھے تو آپ کی دعا کی ضرورت ہے۔ پھر خدا کے فضل سے مجھے جلسہ سالانہ کا کام ملتا رہا۔ اب بھی کچھ مل جاتا ہے۔ خاکسار نے تقریباً 40 سال جلسہ سالانہ کا کام کیا۔ بہت خوشی ہوتی ہے۔ آخر میں اپنے مضمون کو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔؎

مرے مولا کٹھن ہے راستہ اس زندگانی کا

مرے ہر ہر قدم پر خود رہِ آسان پیدا کر

تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہو جائیں

ہزاروں رحمتیں ہوں فضل کے سامان پیدا کر‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 12؍اپریل 2008ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button