قرآنِ کریم

قرآن فہمی کے معاملے میں علمی اختلاف میں کوئی حرج نہیں

سوال: ایک دوست نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ سورت النساء کی آیت 16 اور 17 کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو مختلف تفاسیر بیان فرمائی ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 19؍جولائی 2020ءمیں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:

جواب:قرآن کریم کسی ایک زمانے یا ایک قوم کےلیے نازل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک تمام دنیا کی راہنمائی کےلیے نازل فرمایا ہے اور ہر زمانے میں وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو اس زمانے کے حالات کے مطابق اس سے مسائل کے استنباط کا علم بھی عطاء فرماتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ (سورۃ الحجر:22)

یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے (غیر محدود) خزانے ہیں ۔ لیکن ہم اسے (ہر زمانہ میں اس کی ضرورت کے مطابق) ایک معین اندازہ کے مطابق نازل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ سے کیے گئے وعدے کے مطابق آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زما نے میں دین محمدی کی تجدید اور دنیا کی ہدایت کےلیے مبعوث فرمایا اور اسی قرآنی بشارت کے مطابق آپ کو قرآنی علوم اور اس کے روحانی معارف سے وافر حصہ عطا فرمایا۔ اور پھر آپ کے وسیلہ اور برکت سے آپؑ کے بعد جاری ہونے والی خلافت کی مسند پر متمکن ہونے والے ہر فرد کو علوم قرآنی سے نوازا۔ ان وجودوں نے اپنے اپنے دَور میں، اُس زمانے کے حالات کے مطابق خدا تعالیٰ سے علم پا کر اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کریم کے معارف دنیا کےلیے بیان فرمائے۔

آنحضورﷺ نے قرآن کریم کے مختلف متن اور مختلف بطون ہونےکی جو بشارت دی ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ سے علم لدنی کا فیض پانے والے لوگ مختلف زمانوں میں اس سے ایسے مسائل اور علوم کا استنباط کرتے رہیں گے جس کے نتیجے میں یہ کتاب ہر زمانے میں ترو تازہ رہے گی۔

آپ نے اپنے خط میں جن آیات کا ذکر کیا ہے ، حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سب نے اپنے اپنے خداداد علم کے نتیجے میں ان آیات کی تفسیر بیان فرمائی ہے۔ جس کے مطابق ان آیات سے معاشرے میں پائی جانے والی مختلف قسم کی برائیوں کا استنباط کر کے ان کی شناعت بیان کی اور اپنے متبعین کو ان برائیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات سے ایسے ناپسندیدہ افعال اور بُرے اخلاق کی باتیں مراد لی ہیں، جن کا تعلق جھگڑا فساد جیسے قبیح امور سے ہے۔اورآج سے ستّر اسی سال قبل ایسے مردو خواتین جو اپنے گرد و نواح میں بلا وجہ جھگڑا فساد کی فضا پیدا کرتے تھے، اخلاقاً بہت بُرے سمجھے جاتے تھے اور اُس زمانے میں مردوں کی مردوں اور عورتوں کی عورتوں کے ساتھ جنسی بے راہ روی معاشرے میں عام نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اُس زمانے میں ان آیات میں بیان ناپسندیدہ افعال کی وہی تشریح فرمائی جو اُس زمانے میں عام طور پر شناعت کے دائرہ میں داخل تھی۔

اور اب اس نئے زمانے میں مرد و خواتین کی اس قسم کی جنسی بے راہ روی جسےGay Movement کہا جاتا ہے، معاشرے میں عام ہو رہی ہے، اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے اس زمانے کے حالات کے مطابق قرآن کریم کی ان آیات کی یہ تشریح فرمائی ہے اور ان آیات میں بیان بُرائی سے موجودہ زمانے میں پھیلنے والی جنسی بے راہ روی مراد لی ہے۔

قرآن فہمی کے معاملے میں اس قسم کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں بلکہ حضورﷺ نے اپنی امت میں پائے جانے والے اس قسم کے علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں قرآن کریم سے مختلف قسم کے استدلال کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button