یادِ رفتگاں

ایک مخلص اور فدائی احمدی مکرم سالم عفیف صاحب کا ذکر خیر

(ناصر محمود طاہر۔ مربی سلسلہ کینیا)

مکر م سالم عفیف صاحب کا تعلق ممباسہ کینیا سے تھا۔ آپ نسلاً عرب تھے اور آپ کے آباو اجداد کا تعلق یمن کے علاقےحذر الموتسے تھا۔آپ پیدائشی طور پر آنکھو ں کے نور سے محروم تھے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے نور بصیرت سے منور تھے ۔آپ کا دل ودماغ اللہ کے نور سے روشن تھا یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں،لاکھوں آنکھوں والوں کو چھوڑ کر آپ کواپنے مسیح کی شناخت کرنے اوراس کی بیعت کی توفیق دی اور پھر تا دم مرگ اسے حقیقی معنوں میں نبھانے کی توفیق بھی بخشی جس کی مثال اس معاشرے میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔

خاکسار کا آپ سے تعارف جولائی سن 2006ء میں ہوا جب خاکسار کی تقرری ممباسہ ریجن میں بطور مبلغ ہوئی۔آپ کو ہمیشہ عاجز اوراخلاص و وفا کا پیکر اور جماعت اور خلافت کا مخلص خادم پایا۔آپ سے جڑی چند یادوں کا خاکسار بطور تحدیث نعمت یہاں ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہے تا زمانے کی دھول میں یہ ہیرےجیسے لوگ گم نہ ہو جا ئیں اوراب جب جماعت ترقی کی راہوں پر بڑی تیزی سے گامزن ہے توان لوگوں کی قربانیا ں اور اخلاص ہمارے لیے مشعل راہ ہوں اور ہمارےحوصلے بلندکرنے کا موجب ہوں اور ان کا ذکر اذکر محاسن موتاکم بن کر ان کی روحوں کو دائمی ثواب پہنچاتا رہے۔

جیسا کہ خاکسار نے اوپر ذکر کیا کہ خاکسار کا آپ سے تعارف جولائی 2006ء میں اس وقت ہواجب خاکسار کا تقرر بطور مبلغ سلسلہ ممباسہ میں ہوا ۔ممباسہ مسجد میں نماز جمعہ کے بعد آپ سے تعارف ہوا۔آپ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کےلیے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے ساتھ تشریف لائےہوئے تھے۔تعارف کے بعد میرے ساتھ دفتر آگئے اور باتیں کرتے رہے اور مجھ سے میرا فون نمبر لیا اور اپنا نمبر مجھے لکھوایا۔آپ ساؤتھ کوسٹ لیکونی کے علاقے میں رہتے تھے اور وہاں سے ممباسہ شہر اور مسجد آنے کے لیے آپ کو فیری کے ذریعہ سمندر پار کرنا پڑتا تھاجو ایک بینائی رکھنے والے شخص کے لیے بھی مشکل کام تھا۔ مگر آپ ہر جمعہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ اپنے کسی عزیز کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد حاضرہوتے ۔

آپ کا جماعت احمدیہ سے تعارف 1960ء کے اوائل میں مکر م عبدالکریم شرما صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ کے ذریعے سے ہوا۔ 1959ء میں جب ممباسہ میں جماعت کی مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو مکرم شرما صاحب یہاں بطور مبلغ تعینات ہوئے۔آپ کی تبلیغ سے کئی سعید روحوں کواحمدیت کی آغوش میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔عربوں میں تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔آپ کی تبلیغ سے جو عرب احمدی ہوئے ان میں سے ایک مکرم سالم عفیف صاحب بھی تھے۔آپ کے علاوہ جن عرب احمدی بزرگوں کو خاکسار جانتا ہے اور ان میں سے بعض کا مکرم شرما صاحب نےخود بھی ذکر کیا ہے جوالفضل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ان میں مکرم حسین صالح حفیظ صاحب ان کے چھوٹے بھائی مکرم محمد شریف صاحب جواپنے بڑے بھائی کی تبلیغ سے 1976ء میں احمدی ہوئے تھے۔ان کے علاوہ مزے علانی صاحب قابل ذکر ہیں۔

اس وقت مزے سالم عفیف صاحب سے متعلق بعض یادوں کا ذکر کرنا مقصو دہے لیکن یہاں یہ بات واضح کر دینا مناسب ہے کہ لفظ ’’مزے‘‘ سواحیلی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب بزرگ ، محترم ،وغیرہ ہے اور یہ عزت و تکریم کے لیے لوگوں کے نام سے پہلے لگایا جاتا ہے جیسے کہ اردو میں محترم، مکرم ،اور انگلش میں مسٹر ۔

آپ نے اپنے قبول احمدیت کے حوالے سےمجھ سے بیان کیا کہ جب 1959ء میں ممباسہ کی مسجد کی تعمیر ہوئی تو لوگوں میں جماعت کی بہت مخالفت تھی۔کیونکہ اس مسجد کا رنگ لال تھا اس وجہ سے سب اس کو لال مسجد کہتے اور طرح طرح کی بے بنیاد باتیں لوگوں میں مشہور کر دی گئیں ۔کیونکہ یہاں لال رنگ کو جادو ٹونے سے منسوب کیا جاتا ہے اس وجہ سے لوگوں میں یہ تاثر دیا گیا کہ جو یہاں جائے گا اس پر جادو ہو جائے گا۔ بات دراصل یہ تھی کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے جماعت کے ایک مخلص ممبر مکرم معراج الدین صاحب آف نیروبی اور ان کی اہلیہ نےا یک خطیر رقم دی تھی اور ان کی اہلیہ نے ایک خواب کی بنا پر اس مسجد کی تعمیر سرخ رنگ کے پلستر سے کرائی تھی جو اس کی خاص پہچان بنی ۔اب بھی ممباسہ میں پرانے لوگ اسے لال مسجد ہی کہتے ہیں۔ مکرم شرما صاحب تبلیغ کی غرض سے نمازمغرب کے بعد مسجد میں ایک عام مجلس کا اہتمام کیا کرتے تھے جس میں بہت سے غیر احمدی بھی شامل ہوتے تھے۔ مکرم سالم عفیف صاحب بیان کرتے تھے کہ جب میں نے بعض دوستوں سے اس بارے میں سنا تو چونکہ میں مسجد کے قریب ہی رہتا تھا اس لیے میں نے بھی اس مجلس میں حاضر ہونا شروع کر دیا کیونکہ میں پڑھ تو نہیں سکتا تھا اس وجہ سے تمام بیان کردہ مسائل کو بغور سنتا اور اگر کوئی سوال پیدا ہوتا تو پوچھتا۔رفتہ رفتہ یہ باتیں میرے دل میں گھر کرنے لگیں گو کہ میں ابھی احمدی نہیں ہوا تھا مگر بہت سے جماعتی عقائدسے متفق ہو چکا تھا۔ان دنوں کے بی سی ریڈیو پر ہر جمعہ کے روز مسلمانوں کی طرف کے ایک پروگرام نشر ہوتا تھا اور خاکسار اس کو باقاعدگی سے سنتا اور جو شیخ پروگرام پیش کرتا وہ بھی ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ایک دن اس نے اپنے پروگرام میں جماعت احمدیہ کے بارے میںبہت سی بے بنیاد باتیں کیں تو خاکسار اگلے روز اس کے گھر اسے ملنے چلا گیا اور کہا کہ آپ نے جماعت احمدیہ کے بارے میں یہ یہ با تیں کی ہیں اور میں تو قریباً ہر روز احمدیہ مسجد جاتا ہوں اوروہاں نماز بھی پڑھتا ہوں ، درس و دیگر مسائل بھی سنتا ہوں مگر میں نے ایسی کوئی بات وہاں نہ دیکھی نہ سنی ۔ اگر آپ اپنی ان باتوں کو درست خیال کر تے ہیں تو میر ےساتھ شام کو لال مسجد چلیں وہاں احمدیوں کا شیخ بھی ہو گا آپ ان کے سامنے یہ ساری باتیں کریں میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا اور سب غور سے سنوں گا ۔اگر آپ کا موقف درست نکلا تو میں وہاں جانا ترک کردوں گا۔کہتے ہیں کہ ان شیخ صاحب نے لیت و لعل سے کام لیا مگر خاکسار نے جب اصرار کیا تو اس نے کہا کہ میں آؤں گامگروہ کبھی نہ آیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے احمدیت سے متعلق شرح صدر عطا فرمایا اور میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔ الحمد اللہ۔ آج اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس بات پر قائم ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گذارہوں کہ اس نے مجھ نابینا کو راہ حق دکھائی۔ یہ محض اس کا فضل ہے ورنہ مجھ میں تو کوئی خوبی نہ تھی ۔

آپ چندہ باقاعدگی سے اور پوری شرح کے ساتھ ادا کرتے۔جب صحت اور عمر مسجد آنے کی اجازت نہ دیتی تو اپنے کسی بچےکے ہاتھ چندہ بھجوا دیتے۔یا فون کر کے کہتے چندہ لے جائیں ۔

نابینا ہونے کی وجہ سے آپ نے بریل (Braille)کے ذریعے پڑھائی کی اور ایک عیسائی تنظیم کے معذور بچوں کے سکول میں ایک لمبے عرصے تک درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے ۔آپ کہا کرتے تھے کہ کیونکہ یہ ایک عیسائی تنظیم تھی اس وجہ سے بعض دفعہ میر ی تبلیغ اور خاص کر وفات عیسیٰ کے مسئلے پر بات سکول کےمنتظمین پر گراں گزرتی تھی اور وہ مجھے اس سے بازرہنے کا کہا کرتے۔ بسااوقات کام سے نکال دینے کی دھمکی بھی دیتے بلکہ ایک دفعہ تو مجھے گھر سے دور اسی تنظیم کے ایک اور سکول میں بھیج دیا گیا جس کی وجہ سے مجھے خاصی مشکل کا سامنا تھا۔مگر میں کبھی بھی کلمہ حق کہنے سے نہیں ڈرا۔

باوجود معذوری کے آپ کبھی کسی کے محتاج نہیں رہے۔اورکہا کرتے تھے کہ یہ سب امام زمان کی بیعت کی برکت سے ہے ورنہ کہا ں میں اورکہاں یہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ مالی طور پر مستحکم تھے۔آپ کا اپنا ذاتی گھر تھا ۔شادی بھی کی اور اللہ تعالیٰ نےآپ کو اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔

آپ معذوری کی وجہ سے سفر بہت کم کرتے تھے ۔ مگر جب 2005ء میں پتہ چلا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کینیا تشریف لا رہے ہیں تو باوجود پیرانہ سالی کے اپنی چھوٹی بیٹی کو ساتھ لےکر مقامی ٹرین کے ذریعے ایک لمبا اور تکلیف دہ سفر کاٹ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استقبال اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے ممبا سہ سے نیروبی آئے ۔

خاکسار جب بھی دورے پر ساؤتھ کوسٹ جاتا تو آپ سے ضرور ملاقات ہوتی۔آپ نے اپنے گھر کے سامنے اپنے خرچ پر ایک کنواں کھدوا رکھا تھا ۔اس علاقے میں پانی کی قلت تھی جس کی وجہ سے آپ دن کا اکثر حصہ وہاں گزارتے اور مستحقین اورضرورت مندوں کو مفت پانی دیتےاور کہتے یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔محلے اور علاقے کے لوگ آپ کو بخوبی جانتے تھے اورآپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہاں سب لوگ آپ کو ’’بابو‘‘ یعنی داداکہہ کر پکارتے تھے۔شاید اکثر کو آپ کااصلی نام بھی معلوم نہ ہو۔

خاکسار جب بھی آپ سے ملنے جاتا صرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے پر ہی مجھےپہچان لیتےاور کھڑے ہو کر استقبال کرتے۔گھر کے اندر لے جاتے۔آپ عربی میں بات کرنے کو بہت پسند کرتے تھے ۔خاکسار نے مشاہدہ کیا ہے کہ یمن کے عربی لوگ اس طرح کی فصیح عربی نہیں بولتے جو ہم نے سیکھی کتابوں میں پڑھی ہے ۔مگر آپ فصح عربی بولتے اور سمجھتے ۔ خاکسار سے اکثر عربی میں ہی گفتگوکرتے۔خاکسار جب بھی آپ سے ملنے جاتا کچھ عربی کتب و رسائل ساتھ لے جاتا جس میں ماہنامہ رسالہ التقویٰ بھی ہوتا۔ جب میں یہ کتب و رسائل آپ کو دیتا توکہتے اب آپ مجھے یہ پڑھ کر سنائیں ۔آپ کی اس خواہش پر خاکسار بعض دفعہ دو دو گھنٹے تک آپ کو یہ کتب و رسائل پڑھ کر سناتا جس میں حضور انور ایدہ اللہ کا خطبہ جمعہ بھی شامل ہوتا۔آپ کے پاس بریل قرآن کریم بھی تھا۔مجھے کہتے میں پڑھتا ہوں آپ سنیں اگر کوئی غلطی کروں تو بتانا۔بعض دفعہ کئی کئی رکوع سناتے اور کوئی غلطی نہ کرتے جیسا کہ ان کو قرآن کریم حفظ ہو۔خاکسار نے زندگی میں بریل قرآن کریم اس عمدہ طریق پر پڑھتے کسی کو نہیں دیکھا۔

ایک دفعہ خاکسار آپ کو ملنے گیا تو میرے پاس کتاب قول الصریح تھی۔ کہا شیخ کچھ سناؤ۔ خاکسار نے کچھ حصہ پڑھ کر سنایا تو کہا بہت اچھی کتاب ہے اور سناؤ…اب میں نےپوری کتاب سنے بغیر آپ کو جانے نہیں دینا چاہے رات آپ میرے پاس ہی قیام کریں۔جب پوری کتاب سن چکے تو کہا کہ اصل میں مجھ سے یہ فون میں ریکاڑد کرلینی چاہیے تھی تا میں دوسرے لوگوں کو بھی سنا سکتا۔

خاکسار نے آپ کو ایم ٹی اے العربیہ گھرپر لگوانے کی تحریک کی ۔چنانچہ آپ نے اپنے خرچ پر اپنے گھر میں ایم ٹی اے بھی لگایا۔

مہمان نوازی کی صفت آپ میں بہت پائی جاتی تھی۔عمدہ قسم کے کھانے تیار کرواتے اور ساتھ بیٹھ کر کھاتے ،کسی بھی وقت کوئی ان سے ملنےآتا توحسب موقع عمدہ مہمان نوازی کرتے۔ آپ نےگھر میں ایک کمرہ نماز کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا۔ جب بھی خاکسار جاتا تو کہتے میں پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد تو نہیں آ سکتا اس لیے ایک دو نمازیں پڑھائے بغیر آپ کو جانے نہیں دوںگا۔

خاکسار جب اس علاقے کے دورے پر جاتا تو اکثر آپ کو ساتھ لےکر جاتا۔نہایت مدلل تقریر کرتے چاہے تربیتی پہلو ہو یا تبلیغی۔کئی دفعہ سارا سارا دن گزر جاتا اور رات دیر کو واپسی ہوتی مگر آپ کبھی تنگ نہیں ہوئے ۔آپ میں مزاح کی حس بھی بہت عمدہ تھی اور سفر میںلوگوں کو خوش رکھتے تھے۔ایک دفعہ ایک تبلیغی دورے سے واپس آ رہے تھے تو کافی دیر ہو گئی ۔ اندھیری رات تھی اور جنگل سے گزر رہے تھے آپ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھےتھے کسی خادم نے پچھلی سیٹ سے کہا کہ مزے آج بہت اندھیرا ہے جس پر بر جستہ کہا مجھے تو بالکل صاف نظر آرہاہے۔جس پر سب نے زور کاقہقہ لگایا اور آپ خود بھی بہت محظوظ ہوئے۔آپ کو اپنی معذوری کے بارے میں کبھی ملال یا احساس کمتری محسوس کرتے نہیں پایا بلکہ آپ رضا ئے الٰہی پر مکمل راضی تھے۔

خاکسار کو کہا کرتے تھے کہ شاید میں اپنی معذوری کی وجہ سے جماعت کی تبلیغ کا وہ حق ادانہیں کر سکا ۔ مگرآپ نےمجھ سےکچھ بوجھ ہلکا کر دیا ہے۔ریجن میں کوئی بھی پروگرام ہو تا جب تک صحت نے اجازت دی باقاعدگی سے شامل ہوتے۔

جب خاکسار کا تبادلہ ممباسہ سے دوسری جگہ ہو گیا تب بھی باقاعدگی کےساتھ فون کرتے اور خیریت دریافت کرتے اور کہتے میرا دل کرتا ہےکہ آپ سےملنے آؤں پر صحت اجازت نہیں دیتی مگر آپ جب بھی ممباسہ آئیں مجھے ضرور مل کر جائیں۔اپنی وفات سے چند روز قبل فون کر کے اپنی بیماری کے بارے میں بتایا اور دعا کی درخواست کی۔آپ کی وفات لیکونی ممباسہ میں 30؍اپریل 2018ء کو ہوئی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت امام الزمان علیہ السلام کے اس خادم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے اور جماعت کو ایسی لاکھو ں سعید روحیں عطا کرے جو اپنے ایمان و اخلاص اور کردار کے لحاظ سے احمدیت کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button