خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ دسمبر 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

٭… حضرت ابوبکرؓ شعبِ ابی طالب میں بھی حضوراکرمﷺ کے ساتھ تھے

٭…جب اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو عرب قبائل میں تبلیغ کا حکم دیا تو آپؐ حج کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کے ساتھ اَوس اور خزرج نیز بعض دیگر قبائل کی مجالس میں تشریف لے گئے اورانہیں تبلیغ کی

٭… افغانستان اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے خصوصی دعا کی تحریک

پانچ مرحومین، مکرم الحاج عبدالرحمٰن عینن صاحب سابق سیکرٹری امورِ عامہ اور افسر جلسہ سالانہ غانا،مکرم اذیاب علی محمد الجبالی صاحب آف اردن، مکرم دین محمد شاہد صاحب ریٹائرڈ مربی سلسلہ حال مقیم کینیڈا، مکرم میاں رفیق احمد صاحب کارکن دفتر جلسہ سالانہ اورمکرمہ قانتہ ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیرجماعت امریکہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ دسمبر 2021ء بمطابق 17؍فتح1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 17؍ دسمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروزعالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکرؓ کےذکرمیں غلاموں کو آزادکرنے کے کچھ مزید واقعات ہیں۔ آپؓ نے نہدیہ اور ان کی بیٹی کومنہ مانگی قیمت ادا کرکے آزاد کرایا تھا۔ اسی طرح عمر بن خطاب جوابھی مسلمان نہ ہوئے تھےبنومؤمّل کی ایک لونڈی کو ایذا دے رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسے بھی آزاد کرایا۔ حضرت ابوبکرؓ کے والد نے ایک بار آپؓ کو یہ مشورہ دیا کہ تم طاقتور مردوں کو آزاد کراؤ تاکہ وہ تمہاری حفاظت تو کریں، اس پرآپؓ نے جواب دیا کہ مَیں تو محض اللہ عزوجل کی رضا چاہتاہوں۔ علامہ قرطبی و علامہ آلوسی اور بعض دیگرمفسرین کہتےہیں کہ سورة اللیل کی آیات

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی

سے

وَلَسَوْفَ یَرْضٰی

تک حضرت ابوبکرؓ کےاسی عمل کی وجہ سے آپؓ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت خباب بن ارتؓ کے آزاد کیے جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خبابؓ جو کسی دَور میں غلام تھے، ان کی پیٹھ کو ایک شخص نے دیکھا کہ وہ نہایت سخت اور بھینس کی کھال کی طرح کھردری ہے تو وہ حیران رہ گیا۔ دریافت کرنے پر حضرت خبابؓ نے فرمایا کہ اسلام قبول کرنے پر ہمارا مالک ہمیں تپتی دھوپ میں لٹاکر مارتا اور کہتاکہ کہو کہ ہم محمدﷺکو نہیں مانتے، ہم اس پر کلمہ شہادت پڑھتے رہتے تو وہ ہمیں اور مارتا اور نہایت سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹتا۔جوکچھ تم نے دیکھا وہ اسی مار پیٹ اور گھسیٹے جانےکا نتیجہ ہے۔ سالہا سال ان پر ظلم ہوا، آخر حضرت ابوبکرؓ نے اپنی جائیداد کا بہت ساحصّہ فروخت کرکے انہیں آزاد کرایا۔

ایک اَور موقعے پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جو غلام رسول کریمﷺ پرایمان لائے ان میں حبشی بھی تھےجیسےبلالؓ،ان میں رومی بھی تھے جیسےصہیبؓ،ان میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیرؓ اور صہیب ؓ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ۔ بلالؓ کو اس کے مالک تپتی ریت پر لٹاکر اوپر یاتو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینے پر کودنے کےلیے مقرر کردیتے۔حضرت ابوبکرؓ نے جب ان پر یہ مظالم دیکھے تو قیمت اداکرکے انہیں آزاد کرایا۔

جب کفار کےمظالم حدسے بڑھ گئے توحضورﷺ نے رجب 5؍نبوی میں مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کا ارشاد فرمایا چنانچہ گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔حضرت ابوبکرؓ بھی ہجرت کے ارادے سے نکلے تھے لیکن برک الغماد مقام پر قارہ قبیلے کے سردار ابن دغنہ نے آپؓ کے ارادے کو جان کر پناہ دینے کا عہد کیا اور واپس مکّہ لے آیا۔ مکّے پہنچ کر اس نےقریش کے سرداروں سے کہا کہ ابوبکرؓ ایسے آدمی کو نہ وطن سے نکالا جاتا ہے اور نہ وہ وطن سے نکلتا ہے۔ تم ایسے شخص کو نکالتےہو جو ایسی خوبیاں بجالاتا ہے جو معدوم ہوچکی ہیں اور وہ صلہ رحمی کرتا ہے، تھکے ہاروں کے بوجھ اٹھاتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے۔ قریش نے ابن دغنہ کی پناہ قبول کی لیکن کہا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں ہی کیا کرے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر میں ہی نماز اور تلاوتِ قرآن کیاکرتے۔ کچھ عرصے بعد آپؓ نے اپنے گھر سے ملحقہ صحن میں عبادت کی جگہ بنالی جہاں مشرک عورتیں اور بچے آپؓ کی پُرسوز عبادت کی کیفیت کو حیرت سے دیکھتے۔ اس پر قریشِ مکہ نے ابنِ دغنہ کو آگاہ کیا اورحضرت ابوبکرؓ نے ابن دغنہ کو فرمایا کہ مَیں آپ کی پناہ واپس کرتا ہوں اور اللہ کی پناہ پر راضی ہوں۔

حضرت ابوبکرؓشعبِ ابی طالب میں بھی حضوراکرمﷺ کے ساتھ تھے۔حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ ان مشکل ترین حالات میں بھی حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریمﷺ کا ساتھ نہ چھوڑاتھا۔

حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب

غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ

والی آیات نازل ہوئیں تو مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آجائیں کیونکہ وہ بھی بت پرست تھے جبکہ مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آجائیں کیونکہ اہلِ روم بھی اہلِ کتاب تھے۔ رسولِ کریمﷺ کے یہ فرمانےکےبعدکہ اہلِ روم ضرور غالب آجائیں گے ،حضرت ابوبکرؓ نے مشرکین کے ساتھ شرط قائم کرلی۔

صحیح بخاری میں رسولِ کریمﷺ کی چار ایسی پیشگوئیوں کا ذکر کیاگیا ہے جو بڑی شان سے پوری ہوئیں۔ ان پیش گوئیوں میں غلبۂ روم والی پیش گوئی بھی ہے۔علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور ابوجہل کے درمیان چند سال کی مدت پرشرط لگی تھی، حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ ’بِضْع‘ کا لفظ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں نَو برس یا سات برس کا اطلاق ہوتا ہو پس مدت بڑھالو۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے مدت بڑھالی اور بالآخر اہلِ روم غالب آگئے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’بِضْع‘ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نَو برس تک اطلاق پاتا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب آپؐ مکّے میں مقیم تھے اور ہجرت نہیں ہوئی تھی اس کے بعد مقررہ میعاد کے اندر اندر ہی جنگ نے اچانک پلٹا کھایا اور روم نے فارس کو زیر کرکے تھوڑے عرصے میں ہی اپنا علاقہ واپس چھین لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓسے بعض کفار نے سَو سَو اونٹوں کی شرط باندھی تھی۔ بظاہر اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا امکان دُور سے دُورتر ہوتا چلاجاتا تھا، لیکن فیصلہ کُن جنگ میں رومی سپاہی باوجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیش گوئی کےمطابق ایرانیوں پر غالب آئے۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو عرب قبائل میں تبلیغ کا حکم دیا تو آپؐ حج کے موقعےپر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کے ساتھ اَوس اور خزرج نیز بعض دیگر قبائل کی مجالس میں تشریف لے گئے اورانہیں تبلیغ کی۔اسی طرح ایک حج کےموقعے پر آپؐ نے قبیلہ بکر بن وائل کی جانب حضرت ابوبکرؓ کو تبلیغ کےلیے بھجوایا۔ایک قبیلہ بنی شیبان بن ثعلبہ حضورﷺ کی دعوت سے متاثر تو بہت ہوا تاہم ان کے سرداروں میں سے ایک مثنّٰیبن حارثہ نے کسریٰ کے ساتھ اپنے معاہدے کا ذکر کیا جس کےمطابق وہ کوئی نیاکام کرسکتے تھے اور نہ کسی نئےکام کےکرنے والے کو پناہ دے سکتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا کہ اگر تھوڑے عرصےمیں اللہ تعالیٰ تمہیں کسریٰ کی زمین کا وارث بنادے تو کیا تم اللہ کی تسبیح و تقدیس کروگے؟یہ سن کروہ آمادہ ہوگئے۔ خداکی قدرت کہ وہی مثنّٰیجو کسریٰ سے مرعوب ہوکر اسلام قبول کرنے سے ہچکچارہے تھےحضرت ابوبکرؓکی خلافت میں کسریٰ سے لڑائی کے وقت اسلامی فوج کے سپہ سالار تھے۔

حضرت ابوبکرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنےکا ارشاد فرمانے کےبعدحضورِانورنے افغانستان اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ افغانستان میں احمدی بہت تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ بعض گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، لوگ بےگھر بھی ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ پاکستان میں بھی عمومی طورپر حالات خراب ہی ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو حضرت مسیح موعودؑ کو پہچاننے کی توفیق دے اور ہرشر کو ختم کرے، دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی حقیقت کو پہچان لے۔ آمین

اس کےبعدحضورِانور نےدرج ذیل مرحومین کا ذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

1۔مکرم الحاج عبدالرحمٰن عینن صاحب سابق سیکرٹری امورِ عامہ اور افسر جلسہ سالانہ گھانا۔ آپ 81 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ مرحوم گریٹر اکرا ریجن کے لمبا عرصہ صدر بھی رہے۔ مرحوم بےحدسخی مزاج، دعاگو،عبادت گزار اور جماعت و خلافت کے جاں نثار سپاہی تھے۔

2۔مکرم اذیاب علی محمد الجبالی صاحب آف اردن جو گذشتہ دنوں وفات پاگئے۔اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ مرحوم نے 2010ءمیں بیعت کی تھی اور اپنے علاقے میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدیت اور خلافت کےلیے بڑی غیرت رکھنےوالے، پہاڑوں کی طرح مضبوط ایمان کے حامل تھے۔

3۔مکرم دین محمد شاہد صاحب ریٹائرڈ مربی سلسلہ حال مقیم کینیڈا جو 92 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ مرحوم نے پاکستان کے علاوہ چار برس جزائر فجی میں بطور مشنری انچارج خدمت کی توفیق پائی۔ چار کتابوں کے مصنف اور بےشمار علمی مضامین لکھنے کا موقع ملا۔ مرحوم لمبا عرصہ ربوہ میں بطور پریس سیکرٹری بھی کام کرتے رہے۔

4۔مکرم میاں رفیق احمد صاحب کارکن دفتر جلسہ سالانہ جو 87 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ مرحوم مکینیکل انجنیئر تھے اور پہلے 1986ءمیں وقفِ عارضی کرکے دفترجلسہ سالانہ میں خدمت بجالاتے رہے اور پھر 1989ء میں باقاعدہ زندگی وقف کرکے دفتر جلسہ سالانہ ربوہ میں بطور ناظم ٹیکنیکل امور خدمات بجالانا شروع کیا اور تادمِ آخر اسی خدمت پر مامور رہے۔ مرحوم نہایت مخلص،عبادت گزار، غریبوں کی مدد کرنےوالے، خلافت کے عاشق اور شریف النفس انسان تھے۔

5۔مکرمہ قانتہ ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیرجماعت امریکہ جو گزشتہ دنوں کار حادثے میں وفات پاگئی تھیں۔اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ مرحومہ1941ء میں پیدا ہوئیں اور آپ نے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی۔ خلافت،حضرت اقدس مسیح موعودؑ، رسولِ کریمﷺ اور قرآنِ کریم سے بڑا گہرا عشق کا تعلق تھا۔ مرحومہ نہایت سادہ، منکسرالمزاج، غریب پرور،مہربان اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔

حضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کےلیے دعا کی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button