متفرق مضامین

عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب

اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں

بیویوں پر الزام تراشی اور ناروا سلوک

مورخہ10؍نومبر2006ء کو مسجد بیت الفتوح، لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے عائلی مسائل اور اُن کے حل پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس خطبہ جمعہ سےبعض اقتباسات پیش ہیں۔ فرمایا:

’’آجکل پھرعائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤنے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم ذَکِّرْ سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے رہو، نصیحت یقیناً فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں۔‘‘

ایسے لوگوں کے بارے میں حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’کیونکہ تقویٰ پر نہیں چل رہے ہوتے، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہوتا اس لئے بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آکر یاماحول کے اثر کی وجہ سے اپنی بیوی پر بڑے گھناؤنے الزام لگاتے ہیں یا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگادیتے ہیں۔ اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

پھرفرمایا:

’’پھر بعض دفعہ بہانہ جو مرد وں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نافرمان ہے، بات نہیں مانتی، میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتی ہے، میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے، بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے، یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کرکے ہمیں بدنام کر دیا ہے۔ تو اس بارے میں بڑے واضح احکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا۔ (النساء:35)

اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو ان کو پہلے تو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو۔

یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ، اگر نہ سمجھے اور انتہا ہو گئی ہے اور ارد گرد بدنامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ذرا ذرا سی بات پربیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کردو، یہ انتہائی ظالمانہ حرکت ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے، آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی بھی ضرورت پیش بھی آ جائے تو مار اس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے۔ یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اونچی آواز میں بولی تھی، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکائی تھی، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی، کیوں اس طرح بولی، عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور اس پر تمہیں اس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یاد رکھو کہ اب اپنے دل میں کینے نہ پالو۔ جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے، اطاعت کر لے توپھر اس پر زیادتی نہ کرو۔

فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا (النساء:35)

پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں ان پر زیادتی کا کوئی حق نہیں ہے۔ یقیناً اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ یاد رکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا، مضبوط اور طاقتور ہے۔ عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے لیکن تمہاری تو خداتعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ کو ان حرکتوں سے باز کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 93تا96)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button