متفرق مضامین

جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھنے والے دو فتنوں کا احوال

(آصف محمود باسط)

شریروں پر پڑے ان کے شرارے

نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے

پس منظر

1920ء کی دہائی میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کئی خوبیاں دنیا پر ظاہر ہوئیں۔

اس دہائی کے آغاز میں لندن میں مسجد بنانے کے لیے زمین خریدی گئی۔ پھر 1924ء میں حضورؓکا دورۂ لندن نہایت کامیاب رہا۔ اسی دورہ میں مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔1926ء میں لندن میں پہلی مسجد بنانے کا سہرا خدا تعالیٰ نے حضورؓ کے سر باندھا۔

اسی دہائی میں جماعت احمدیہ کے مبلغین انگلستان، امریکہ اور افریقہ کے ممالک میں تبلیغ کے لیے جانے لگے اور اسلام کا پیغام حضورؓ کے انہی مبلغین کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلنے لگا۔

یہ کامیابیاں کسی دعوے کی محتاج نہ تھیں اور سب دنیا کے سامنے تھیں۔

اسی زمانہ میں آنحضورﷺ پر ناپاک حملے کیے گئے تو ناموسِ رسالتﷺ کے لیے سب سے آگے حضورؓ اور آپؓ کی جماعت رہی۔ اس راہ میں پہلی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا بھی حضورؓ کی جماعت کے حصہ میں آیا جب انگریزی اخبار ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے احمدی ایڈیٹر سید دلاور شاہ بخاری صاحب اور ایک اور احمدی کو گستاخی رسولﷺ کے مرتکب ہونے والوں اور ناروا فیصلے کرنے والوں کے خلاف قلم اٹھانے پر قید کی سزا دی گئی۔ یوں ناموسِ رسالت کا پرچم بھی جماعت احمدیہ کے ہاتھوں سب سے کٹھن حالات میں بلند ہوا۔

جب ترکی کا مسئلہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، تو حضرت مصلح موعودؓ کی تجاویز جو کتابی شکل میں بعنوان ’’معاہدہ ترکیہ اورمسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ شائع ہوا اور مسلم دنیا کے باشعور طبقہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

1923ءمیں جب شدھی تحریک کے نام سے ہندووں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کا کام شروع کیا تو حضرت مصلح موعودؓ کی رہنمائی میں سب سے بہترین خدمات حضورؓ کی جماعت نے ادا کیں۔

عرب دنیا میں فلسطین، شام اور مصر میں جماعت احمدیہ کو مشن قائم کرنے کی توفیق ملی۔

یہ وہ دور تھا جب ہندو مسلم تنازعات پورے ہندوستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ برطانیہ ہندوستان کو خود مختاری دینا چاہتا تھا مگر ہندو مسلم تنازعات سیاسی معاملات پر اس قدر گہرے تھے کہ خودمختاری دینے کی کوئی صورت قابلِ عمل نظر نہیں آتی تھی۔

ایسے میں حضرت مصلح موعودؓ کی تجاویز سامنے آتیں جو بہترین تدبر اور قابل عمل اقدامات کی طرف رہنمائی پر مبنی ہوتیں ۔ اس بات کا اعتراف ہندوستان بھر کا باشعور طبقہ کرتا۔

1918/1917ءمیں جب انگلستان کی حکومت کے وزیر برائے ہندوستان Edwin Montagu ہندوستان تشریف لے گئے تو ہندوستان کے مختلف سیاسی حلقوں سے ہندوستان کی خود مختاری کے سلسلہ میں تجاویز پیش کی گئیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جو ایڈریس اسے پیش کیا، اس پر اس نے انگلستان واپسی پر بیان دیا کہ یہ اس کے سامنے پیش ہونے والی سب سے بہترین تجاویز پر مبنی تھا۔

یوں حضرت مصلح موعودؓ دنیائے اسلام کے افق پر ایک اہم ترین مسلم رہنما کے طور پر طلوع ہوئے۔

ایسے میں معاندین اور مخالفین کا حسد میں مبتلا ہونا فطری بات تھی۔ سو اپنے حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی ذات پر گھٹیا اور اخلاق سوز الزام لگا کر نہ صرف آپؓ کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش ہوئی، بلکہ اقدامِ قتل کا جھوٹا مقدمہ دائر کر کے حکومت کی نظر میں بدنام کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

1927ء میں اٹھنے والا فتنہ

یہ 1927ءکا واقعہ ہے۔قادیان میں مقیم ایک خاندان جو مستریوں کے خاندان کے نام سے جانا جاتا تھا، نے حضرت مصلح موعودؓ پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ دراصل یہ سب سازش حضرت مصلح موعودؓ کو معاذاللہ بدنام کرنے کی ایک نہایت ناپاک سازش تھی۔

اس فتنہ کے مرکزی کردار نے ’’مباہلہ‘‘ نامی ایک اخبار جاری کیا اور اس میں حضرت مصلح موعودؓ کے کردار پر سخت بدزبانی کرتے رہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اس فتنہ کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’پچھلے دنوں بعض وجوہ سے جو خیالی طور پر گھڑی گئیں ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ان کے خلاف کوشش کی جارہی ہے۔ان لوگوں نے بعض ایسی وجوہات سے جو اخبار(مباہلہ) میں بھی بیان کردی گئی ہیں کئی قسم کی ناجائز حرکات کیں۔ ان کو ایک تو اس بات کا غصہ تھا کہ ان میں سے ایک کی شادی اس جگہ نہ ہوئی جس جگہ شادی کرانے کے لیے کہتا تھا۔ پھر اسی جگہ اس کے داماد نے شادی کرلی۔ جو لوگ اخلاق میں گرجاتے ہیں وہ اپنے بغض کا بدلہ غیر اخلاقی طور پر لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں جو الزامات اور اتہامات سے تعلق رکھتی ہیں۔ مجھے جب اس کے متعلق اطلاع ہوئی تو میں نے باپ بیٹے کو بلایا اور کہا : سنا ہے تم لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہو۔ مذہبی لحاظ سے نہ سہی مگر تم جانتے ہو کہ میرا خاندان اس قصبہ کا واحد مالک ہے۔ میں تمہاری نیت کو نیک ہی سمجھ لوں اگر تم کسی گاؤں جا کر وہاں کے واحد مالک کے متعلق نہیں بلکہ دس گھماؤں زمین رکھنے والے زمیندار پر ہی کوئی اتہام بلکہ اس کے متعلق کوئی سچا واقعہ ہی بیان کرو۔

یہاں اگر تم کسی پنڈورے میں جا کر کسی چوہڑے کے متعلق بھی الزام لگانے کی جرأت نہیں کرسکتے اور ادھر ہمارے متعلق گندی اور ناپاک باتیں کرتے ہو۔ اس تمہارے اپنے فعل میں یہ اعتراف موجود ہے کہ میں نے تمہاری اس کمینگی کا بدلہ نہیں لینا اور اسی وجہ سے تم اس قسم کی جرأت کررہے ہو۔ ورنہ یا تو تم کہہ دو کہ اس گاؤں میں کوئی اور ایسا شخص نہیں جس پر الزام لگ سکے۔ یا اگر یہ تسلیم کرتے ہو کہ الزام لگ سکتا ہے تو کیوں کسی اور کے متعلق اس طرح جرأت نہیں کرتے ہو؟

پس میرے خلاف جو باتیں تم بناتے ہو، اس کی وجہ تمہاری سچائی نہیں بلکہ میری شرافت ہے۔ تم جانتے ہو کہ اگر کسی اور کے متعلق کوئی بات ہم کہیں گے تو وہ ہر طرح اس کے مقابلہ کے لیے تیار ہوجائے گا۔ مگر میری طرف سے تم کو اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ۔ تمہارا یہ طریق ہی میری شرافت کا اعتراف اوراپنی کمینگی کا اظہار ہے۔‘‘

ان شریروں کا مقصد ہی حضرت مصلح موعودؓ کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کرنا تھا۔ پھر انہیں غیر مبائعین کی پشت پناہی بھی حاصل تھی (جس کا ذکر آگے آئے گا)۔

حضورؓ کی طرف سےانہیں سمجھانے کی اس کوشش کو بھی شرارت کا رنگ دے دیا۔ حضورؓ خود فرماتے ہیں:

’’اس وقت میرے سامنے انہوں نے کہا جو کچھ ہمارے متعلق کہا جاتا ہے یہ غلط ہے اور لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ پھر ایک نے اپنا خواب سنایا کہ مجھے بتلایا گیا ہے آپ سے دعا کراؤں۔ مگر مجھے معلوم ہوا کہ لوگوں سے جا کر انہوں نے کہا ہماری تسلی کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر نہیں ہوئی اوراب عدالت میں جا کر یہ لکھایا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ باز آجاؤ ورنہ تمہیں سیدھا کردیں گے۔‘‘

(تقریر دلپذیر، برموقع جلسہ سالانہ 1927، بتاریخ 27؍دسمبر1927ء)

حضور ؓنے اسی تقریر میں فرمایا:

’’غرض یہ فتنہ ہے جو پچھلے دنوں میں اٹھا ہے مگر جو فتنہ پیدا ہونا ہوتا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ پہلے ہی بتادیتا ہے۔ اس فتنہ کے متعلق بھی کئی سال ہوئے ایک رویا میں نے دیکھی تھی اور وہ رویا کئی آدمیوں کو سنائی تھی…

جو کچھ میں نے دیکھا اس کا خلاصہ یہ ہے: میں شملہ کی ایک وادی میں سے گزررہا ہوں جہاں کئی طرح کے جِنّات ہیں اور وہ اشتعال انگیز طریق سے اپنی باتوں کی طرف مجھے متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مجھے بتایا گیا کہ تم ان کی طرف متوجہ نہ ہونا اور ‘خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ’ کہتے جانا۔‘‘

اس سے قبل 22؍نومبر 1927ء کو حضور ؓ کی طرف سے ایک اعلان اسی فتنہ کے متعلق الفضل میں شائع ہوا۔ جس میں حضورؓ نے فرمایا:

’’جماعت کو اس نوٹ کے ذریعہ سے جو چند دن ہوئی الفضل نے شائع کیا تھا معلوم ہو چکا ہوگا کہ بعض لوگوں نے جو ظاہر میں جماعت میں کہلاتے تھے لیکن باطن میں بوجہ نفاق ان کو کوئی تعلق نہ تھا۔ میرے اور نظام سلسلہ کے خلاف شورش برپا کررکھی ہے۔ میں اب تک اس لیے خاموش تھا کہ دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ شاید ان لوگوں کو ہدایت ہوجائے لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے بعض بیرونی دشمنوں کی شہ پر اپنے اس ناپاک فعل کو ایک شغل سمجھ لیا ہے اور یہ اور ان کے بعض دوست مختلف جماعتوں میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں…

میں ان کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں جو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اور یقیناً اپنے زبردست نشانات سے سلسلہ کی حفاظت فرمائے گا۔‘‘

ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ سے حضرت مصلح موعودؓ اور کُل جماعت احمدیہ کی حفاظت فرمائی۔ نہ تو ان کے جھوٹے الزامات ثابت ہوئے نہ ہی یہ مقدمہ اقدامِ قتل چلانے میں کامیاب ہوئے۔

نہ صرف یہ بلکہ ان فتنہ پردازوں کی اصلی حقیقت کھل کر سامنے آتی چلی گئی جو مخالف مولویوں، غیر مسلم معاندین اور امیرِ غیر مبائعین مولوی محمد علی صاحب کے سہارے سے یہ فتنے کھڑے کررہے تھے۔

ماسٹر فقیر اللہ صاحب، جو غیر مبائعین کی جماعت کے آڈیٹر تھے اور احمدیہ بلڈنگ کی مسجد کے امام بھی، نے بیان دیا:

’’انجمن کی انتظامیہ کمیٹی کے سارے ممبروں کو علم ہے کہ مولوی صاحب اپنی خاص منظوری کے ساتھ مباہلہ والوں(مستریوں) کی نقدی سے مدد کرتے رہے۔ ان کے اشتہارات چھپوا کر خاص ملازم انجمن کی معرفت دوسرے شہروں میں تقسیم کرواتے رہے…‘‘

(رسالہ فرقان، قادیان، جولائی 1944ء)

اسی طرح غیر مبائعین کی جماعت کے جنرل سیکرٹری نے مولوی محمد علی صاحب کے نام ایک کھلے خط میں لکھا کہ

’’آپ نے خلیفہ صاحب قادیان کے خلاف الزامات کی تشہیر میں ہمیشہ اخلاقی اور مالی مدد کی ہے‘‘۔

(رسالہ فرقان،قادیان،مئی1942ء)

اخبار ’’فاروق‘‘ نے 7؍جون 1931ء کے شمارہ میں مولوی محمد علی صاحب کے خطوط کی نقلیں شائع کیں اور لکھا کہ

’’اخبار مباہلہ سینکڑوں کی تعداد میں ان کے دفاتر میں فروخت ہوتا رہا۔ رات کے دو دو بجے تک ’’مباہلہ‘‘ کے پیکٹ تیار ہوتے تھے۔ اگر کسی قسم کا شبہ ہو تو پیغام بلڈنگ بک ڈپو کے حساب میں ’’مباہلہ‘‘ کی خریدوفروخت کا حساب دیکھ لے۔‘‘

پس یوں یہ فتنہ جو خدا تعالیٰ کے منتخب فرمودہ خلیفہ کے خلاف اٹھا، نہ صرف نیست و نابود ہوگیا، بلکہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کس طرح جماعت مخالف عناصر جماعت کے خلاف ہمیشہ برسرِپیکار رہے ہیں۔

1937ء کے فتنہ کا پس منظر

اب ہم 1930ءکی دہائی کی طرف آتے ہیں۔ یہ دہائی بھی جماعت احمدیہ کو کامیابیوں اور کامرانیوں کی نئی منازل کی طرف سے جانے والی دہائی تھی۔

اس دہائی کے آغاز میں جب کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی سب کوششیں ناکام ہوتی نظر آئیں، تو مسلم عمائدین نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ اور بالاتفاق رائے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو اس کا سربراہ منتخب کیا۔

اس کمیٹی کی زمام حضرت مصلح موعودؓ کے سپرد ہونے کی دیر تھی کہ ہندوستان بھر میں کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے حوالہ سے شعور اور آگاہی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ ہندوستان بھر میں ’’یومِ کشمیر‘‘ منائے جانے لگے جس میں ہر مسلم مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شریک ہوتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے خود مالی اعانت سب سے بڑھ چڑھ کر کی۔اور حضورؓ کی ایک تحریک پر ہندوستان بھر کے مسلمان تحریکِ کشمیر کے لیے چندے دینے میں فراخدلی سے کام لینے لگے۔ مذاکرات کی سطح پر بھی حضرت مصلح موعودؓ کی مساعی بے مثال رہیں۔

ایسے میں مجلس احرارِ اسلام کو احساس ہوا کہ جماعت احمدیہ ایک ایسی طاقت ہے جس کے مقابلے پر وہ شریفانہ طور پر کبھی اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کرسکیں گے۔ ان کی ریشہ دوانیوں اور معاملے کو حقوق کی جنگ سے بڑھ کر سیاسی اکھاڑا بنتا دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہوگئے۔ مشہور مورخ ڈاکٹر عائشہ جلال نے اپنی کتاب Self and Sovereignty میں اس صورت حال کا نہایت باریکی سے تجزیہ پیش کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ حضرت صاحبؓ کے کشمیر کمیٹی سے علیحدہ ہوجانے کے بعد کشمیر کمیٹی نے کوئی کام درکنار، کمیٹی کی مجلسِ عاملہ کا ایک اجلاس بھی نہ بلا سکی۔

تاہم احرار کی حسد کی آگ ایسی بھڑک چکی تھی کہ اسے سرد کرنے کی ان سے جو بن پڑا انہوں نے کیا۔ پہلے تو قادیان میں ہنگامہ آرائی کی اور جلسہ کے نام پر دریدہ دہنی کرتے رہے۔ پھر قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیاں دیں۔

اس دریدہ دہنی، ہنگامہ آرائی اور ان دھمکیوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓکے قلبِ مطہر پر تحریک جدید کا خیال نازل فرمایا اور جماعت احمدیہ ترقیات کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ کو خیر کوئی کیا بجاتا، خدا تعالیٰ کی توحید اور آنحضورﷺ کی پاکیزہ تعلیمات قادیان سےپھیلتی ہوئی زمین کے کناروں تک پہنچنے لگیں۔ دنیا کے مختلف برِ اعظموں میں مشن قائم ہوئے، مساجد تعمیر ہونے لگیں، مبلغین دنیا بھر میں پھیل کر تبلیغِ اسلام کا مقدس فریضہ سرانجام دینے لگے۔

ایسے میں معاندین اور مخالفین صرف حسد کی آگ میں جلتے رہے اور حسبِ عادت، اخلاق سوز حملوں پر اترا ٓئے۔

1937ء کا فتنہ

1937ءکا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت اہم ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پہلی مرتبہ منافقین، مرتدین ، غیر مبائعین اور مخالفین متحد ہو کر جماعت احمدیہ پر حملہ آور ہوئے۔

اس مقصد کے لیے انہیں ہمیشہ کسی ایسے شخص کی ضرورت رہتی تھی جو جماعت سے بظاہر بہت قریب ہو، مگر اس کے ایمان میں کھوٹ آچکی ہو۔اس موقع پر انہوں نے شیخ عبدالرحمٰن مصری صاحب کا انتخاب کیا۔ مصری صاحب 1905ءمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت ہو کر جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوئے تھے۔

جب 1914ءمیں غیر مبائعین کا فتنہ اٹھا تو وہ حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کر کے مبائعین کی جماعت میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد دو دہائیوں تک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو خلیفہ برحق نہ صرف مانتے رہے بلکہ اس مضمون پر تقاریر بھی کرتے رہے۔ تحریری عہد نامے بھی دیے۔

بعض ذاتی خواہشات کی ناکامی کی بنا پر انہیں حضرت مصلح موعودؓ سے اختلافات پیدا ہوئے اور 1935ءمیں انہیں اچانک یہ خیال آیا کہ حضورؓ خلیفہ برحق نہیں ہیں۔ اس پر انہوں نے ایک رسالہ لکھا جس کا عنوان تھا:

’’کیا تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے؟‘‘

اس میں انہوں نے اپنے نئے عقائد کا اظہار یوں کیا کہ ’’انبیا اور مشائخ کی وفات کے بعد صرف پہلا خلیفہ ہی خدائی انتخاب ہوتا ہے۔ باقی منتخب شدہ خلفا ءآیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتے اور متنازعہ فیہ خلافت پہلی خلافت نہیں ہے بلکہ دوسری خلافت ہے اور اس لیے یہ آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آسکتی ، اور جب یہ خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں تو اس کا انتخاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی ذاتی خواہشات کے پورا نہ ہونے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خلافت سے برگشتہ ہو گئے تھے ۔ نہ صرف یہ بلکہ جماعت میں فتنہ کی بنیاد رکھ رہے تھے۔

ان کی اس چپقلش کو اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر نےکے لیے غیر مبائعین اور مخالفین اور منافقین تو گویا تیار بیٹھے تھے۔

جون 1937ءمیں شیخ عبدالرحمٰن مصری نے حضرت مصلح موعودؓ پر طرح طرح کے من گھڑت الزامات لگانے شروع کردیے۔اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے مزعومہ مقاصد کے حصول کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں 10 اور 14 اور 23؍جون 1937ء کو تین خطوط تحریر کیے۔ پہلے خط میں یہ حضور کے کردار پر الزامات لگائے۔ دوسرے اور تیسرے میں حضورؓ سے اس بنا پر خلافت سے دستبردار ہوجانے کا مطالبہ کیا کہ معاذاللہ حضور ؓکا کردار ایسا نہیں کہ وہ خلیفۃ المسیح کہلاسکیں۔

تیسرے میں لکھا کہ میں آپ کو معزول کرواکر نئے خلیفہ کا انتخاب کروانا چاہتا ہوں کیونکہ میں آپ سے الگ ہونا چاہتا ہوں مگر جماعت سے نہیں۔

اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں 24؍جون 1937ءکو جوابی خط تحریر فرمایا جس کے کچھ حصے ذیل میں پیش ہیں:

’’آپ کے تین خط ملے۔ پہلے خط کا مضمون اس قدر گندہ اور گالیوں سے پر تھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہیں بالکل خلاف عقل تھا…

’’… آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ سو میں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے۔ جب سے آپ کے دل میں وہ گند پیدا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے، آپ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں۔

’’…آپ نے مجھے بہت سی دھمکیاں دی ہیں۔ میں ان کا جواب کچھ نہیں دیتا۔ میرا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ اگر میں اس کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں۔ اگر وہ الہامات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میرے بارہ میں ہوئے ہیں اور وہ بیسیوں خوابیں جو دوسروں کو آئی ہیں درست ہیں تو خدا تعالیٰ باوجود آپ کے ادّعا رسوخ و اثر کے آپ کو ناکام کرے گا۔‘‘

حضورؓ کا یہ خط 26؍جون 1937ءکے الفضل میں شائع ہوا۔ اگلے روز یعنی 27؍جون کو مصری صاحب نے اپنی ایک الگ جماعت ’’مجلسِ احمدیہ‘‘ کے نام سے قائم کر لی اور حضرت مصلح موعودؓ پر الزامات اور معزول ہوجانے کے مطالبات پر مبنی پوسٹر اور پمفلٹ بنا کر چسپاں اور مشتہر کرنا شروع کردیے۔

معاندینِ سلسلہ کی موقع پرستی

اس صورت حال کا مخالفین نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اخبار ’’زمیندار‘‘ نے سرخی جمائی کہ

’’قادیان میں نیا امیرالمومنین منتخب کر لیا گیا۔ خلیفہ بشیر کو تخت سلطنت سے علیحدہ ہوجانے کا حکم‘‘۔ اس کے تحت خبر کے متن میں شیخ عبدالرحمٰن مصری کو ’’نیا امیر المومنین‘‘ قراردیاجاتا رہا۔ اور یہ بھی لکھا گیا کہ جو حضرات خفیہ طور پر مجلس احمدیہ کے دائرہ رکنیت میں شامل ہوں ان کے اسما گرامی صیغہ راز میں رکھے جائیں گے‘‘۔

(اخبار ’’زمیندار‘‘، 29؍جولائی1937ء)

غیر مبائعین تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے زمیندار اخبار کی اس خبر کو اپنے رسالہ ’’پیغامِ صلح‘‘ میں 30؍جولائی کی اشاعت میں شائع کیا ۔

مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالے ’’پیغام صلح‘‘ میں حضرت مصلح موعودؓ کے کردار پر سخت حملے شروع کردیے۔ مصری صاحب کی اس شرارت کو ’’کارنامہ‘‘ قرار دیا اور لکھا کہ ’’شیخ صاحب اس بارے میں واقعی مستحقِ مبارکباد ہیں‘‘۔ اور یہ بھی کہ ’’پیر پرستی کے بت توڑنے والے ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں‘‘۔

(پیغامِ صلح، 9؍ اگست، 1937ء)

مصری صاحب کو مخالفین اور غیر مبائعین کی طرف سے اس قدر پذیرائی ملی تو انہوں نے ایک اور رسالہ ’’جماعت سے خطاب‘‘ شائع کیا، جس میں لکھا:

’’وہ دن آئے گا اور انشا اللہ ضرور آئے گا جب جماعت

جَاءَالْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل

کہتی ہوئی اس حقیقت پر قائم ہو جائے گی جو شریعت اسلامی نے خلفا ءکے مقام اور ان کے اور امت کے اختیارات اور حقوق کے متعلق بتائی ہے۔ اور یہ کہ آپ خلافت کے اہل نہیں اور جس حقیقت کو آشکارا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

…میں نے جو قدم اٹھایا ہے، محض خدا کے لیے اٹھایا ہے اور جماعت کے اندر ایک بہت بڑا بگاڑ مشاہدہ کر کے جو بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے اور بہتوں کو لے جانے والا ہے۔ اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس کر کے بلکہ اس کو ضروری جان کر اٹھایا ہے۔میری آواز آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں سنی جاوے گی‘‘۔

مزید لکھا: ’’دوستو اٹھو! اور خوف کی چادر اتار کر مومنانہ دلیری سے کام لیتے ہوئے تحقیق شروع کردو۔‘‘

مصری صاحب نے اپنے جوشِ غیض میں حکومتی عدالتوں کا دروازہ بھی جا کھٹکھٹایا اور حضور ؓ پر الزامات کے علاوہ اعانت قتل تک کے مقدمات دائر کیے۔ پہلے یہ مقدمات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت سے خارج ہوئے۔ پھر سیشن جج کی عدالت سے بھی خارج کر دیے گئے۔

اگرچہ ان مقدمات میں انہیں کامیابی تو نہ ہوئی، مگر ان مراحل میں انہیں مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے خوب تعاون حاصل رہا۔ مولوی صاحب نے اپنے مرید ایک وکیل حافظ محمد حسن چیمہ صاحب کو 26؍اگست1937ء کو خط میں لکھا:

’’آپ کو قادیان کے حالات کا کم و بیش علم تو ہوگا۔ شیخ عبدالرحمن مصری پر ضمانت کا مقدمہ ہے… ان کا کام اس وقت احراری وکیل شریف حسین کررہا ہے۔ ہماری جماعت کی طرف سے اگر ان کی امداد اس موقعہ پر ہوجائے تو نہایت موزوں ہے…ان حالات میں ان مظلومین کی امداد کار ثواب ہے…والسلام۔ محمد علی‘‘

اس خط سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ اور جماعت احمدیہ کی تمام مخالف طاقتیں متحد ہو کر خلافتِ احمدیہ کے خلاف برسرِ پیکار تھیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کا بصیرت افروز ردِّ عمل

حضرت مصلح موعود ؓ کو ان حالات میں اس خدا کی طرف سے بلند حوصلہ اور عزم عطا فرمایا گیا جس نے آپؓ کو منصبِ خلافت پر بٹھایا تھا ۔ حضورؓ نے ان حالات کے پیش نظر جون 1937ء سے نومبر 1937ء تک خطبات جمعہ میں غلط فہمیوں کے ازالہ کی غرض سے اصل حقائق بیان فرمائے۔

12؍نومبر1937ءکے خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’وہ مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جو وہ مجھ پر لگاتے ہیں ، جھوٹے ہیں تو میں موکد بعذاب قسم کھاؤں۔ حالانکہ مستریوں کے مقابلہ میں بھی میں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کے لیے جن کے متعلق حدود مقررہیں، اور گواہی کے خاص طریق بتائے گئے ہیں، قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں۔ بلکہ ایسے مطابلہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کردیتا ہے جس کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے ۔

… لیکن چونکہ وساوس و شبہات میں مبتلا رہنے والا انسان خیال کرسکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کے لیے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے، اس لیے کم سے کم اس شخص کی تسلی کے لیے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا،میں کہتا ہوں کہ میں اس خدائے قادر و توانا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھا کر شدید لعنتوں کا انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو۔

پھر ایک اور سوال جو شیخ عبدالرحمٰن مصری کی طرف سے کیا گیا تھا اور آج بھی کیا جارہا ہے کہ خلیفہ معزول ہوسکتا ہےاور وہ اس بنا پر مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے خلافت سے الگ ہوجانا چاہیے یا یہ کہ جماعت کو چاہیے کہ مجھے اس عہدہ سے الگ کردے۔

میں اس دعویٰ کے جواب میں اسی قادر و توانا خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خدا تعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے آج سے 23،22سال پہلے مجھے رؤیا کے ذریعہ بتادیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہوسکتا ہو تو اسے علیحدہ کر دیا جائے۔ مگر تو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا۔ اور یہ کام تجھے بہر حال نباہنا پڑے گا۔ اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو…

پھر اللہ تعالیٰ کے وعید

لَعَنَۃ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ

کے ماتحت کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے، میں اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں۔ اور میرا عزل ہر گز جائز نہیں۔ اگر حوادث میرے سامنے آئیں، جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ میرے لیے بعض اندھیرے مقدر ہیں۔ اور اگر وہ ساری کی ساری جماعت کو بھی مجھ سے برگشتہ کرلیں، تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت نہیں دے گا۔ جب تک وہ پھر ایک زبردست جماعت میرے ساتھ پیدا نہ کردے…

مجھے بندوں پر یقین نہیں۔ مجھے اپنے خدا پر یقین ہے۔ اس خدا نے اس وقت جب کہ مجھے خلافت کا خیال تک بھی نہ تھا، مجھے خبر دی تھی کہ

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ

کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص میری بیعت کا اقرار کرے گا، وہ قیامت تک میرے منکروں پر غالب رہے گا۔ یہ خداکی پیش گوئی ہے جو پوری ہوئی اور پوری ہوتی رہے گی…

اب بھی جب یہ فتنہ اٹھا ہے تو میں نے جلدی نہیں کی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضوردعائیں کیں۔ اور خدا تعالیٰ نے مجھے خبردی کہ میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کردوں گا۔‘‘

(الفضل،20؍نومبر1937ء)

اسی خطبہ میں حضورؓ نے ان کے پراپیگنڈا کے بارے میں فرمایا:

’’جو اشتہارات وہ بورڈوں پر چسپاں کرتے رہے ہیں ، ان کے متعلق کیا میں نے کبھی یہ اعلان کیا ہے کہ لوگ انہیں نہ پڑھیں۔ بلکہ ایک دفعہ انہوں نے بورڈ پر اشتہار لگایا تو غالباً مولوی ابو العطا صاحب کی چٹھی مجھے آئی کہ لوگ اسے پڑھنے کے لیے بہت جمع ہوگئے۔ اور وہ اسے پڑھ کر غیظ و غضب سے بھر گئے جس سے فساد کا خطرہ ہے۔ مناسب ہے کہ ایک اعلان کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کے اشتہارات پڑھنے سے روک دیا جائے۔

مگر میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ اس قسم کی ممانعت میں پسند نہیں کرتا کیونکہ اس کے یہ معنی لیے جائیں گے کہ میں لوگوں کو تحقیق سے روکتا ہوں ۔ میں دلائل اور صحیح طریقِ تبلیغ کا مخالف نہیں ہوں۔ میں خود ہمیشہ ہی حق کا متلاشی رہا ہوں اور یہی میری روح کی غذا ہے۔

اگر وہ دلائل سے مجھ پر غالب آسکتے ہیں تو شوق سے آجائیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔میرا اعتراض یہ ہے کہ وہ ناجائز کارروائیاں کرتے ہیں جو کسی مذہب میں بھی جائز نہیں۔ اور چونکہ وہ تہذیب اور شرافت اور اسلامی احکام سے تجاوز کرکے ایسی حرکات کے مرتکب ہیں، اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی جماعت کے احباب کو ان کے ایسے تعلقات سے روکیں جو فساد کا موجب ہوسکیں…

ورنہ اگر کسی کے افعال میں سازش نہ ہو اور وہ علی الاعلان ہم سے الگ ہو کر کسی اور گروہ میں شامل ہوجائے تو ہم اس سے کبھی بولنا منع نہیں کرتے۔ غیر مبائعین میں ہی آجکل کئی ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہماری جماعت میں تھے مگر بعد میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ لیکن ہم نے ان کے متعلق یہ اعلان نہیں کیا کہ ان سے کوئی شخص گفتگو نہ کرے…

شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ دو سال سے خفیہ تحقیق میرے خلاف کررہے تھے اور اس بارہ میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ اگر جس دن انہیں میرے متعلق شبہ پیدا ہوا تھا، اور میرے خلاف انہیں کوئی بات پہنچی تھی اس دن وہ میرے پاس آتے اور کہتے کہ میرے دل میں آپ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہوگیا ہے تو میں یقیناً انہیں جواب دیتا اور اپنی طرف سے ان کو اطمینان دلانے اور ان کے شکوک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتا۔ چنانچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے دیانت داری سے اپنے شکوک پیش کر کے ان کا ازالہ کرنا چاہا اور میں ان پر ناراض نہیں ہوا۔ بلکہ میں نے ٹھنڈے دل سے ان کی بات کو سنا اور آرام سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی…

اگر پہلے ہی دن جب انہوں نے میرے متعلق کوئی بات سنی تھی میرے پاس آتے اور مجھے سےکہتے کہ میں نے فلاں بات سنی ہے مجھے اس کے متعلق سمجھایا جائے۔ تو جس رنگ میں بھی ممکن ہوتا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا۔ اور گو تسلی دینا خدا کا کام ہے، میرا نہیں، مگر اپنی طرف سے میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن انہوں نے تقویٰ کے خلاف طریق اختیار کیا اور پھر ہر قدم جو انہوں نے اٹھایا، وہ تقویٰ کے خلاف اٹھایا…

…خدا تعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا۔ اس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے۔ جو ساری عمر دنیا کے غموں میں گھلتا رہا ہے اور گھل رہا ہے۔ ایک محبت کرنے والا دل جس میں سب دنیا کی خیر خواہی ہے۔ ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں۔ ان امور میں مجبوریوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آجائے تو آجائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آتی۔‘‘

خطبہ کے آخر پر حضورؓ نے فرمایا:

’’میں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھانا میرے لیے ممکن تھا میں نے قسمیں کھا لی ہیں اوران کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ میں نے ان کی باتوں کو سنا اور صبر کیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کرسکتے۔ مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ ان کو یقین دلادے گا۔ اور اگر انہیں اس دنیا میں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین ظلم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پر کرسکتا ہے۔انہوں نے ان حربوں کو استعمال کیا ہے جن حربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا۔ میں نے آج تک خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دوسرے پر ظلم نہیں کیا۔ اور اگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ میرے پاس آجائے جس سے مجھے کوئی ذاتی رنجش ہو تو میرا طریق یہ ہے کہ ہر وقت یہ دعا کرتا ہوں کہ الٰہی یہ میرے امتحان کا وقت ہے۔ تو اپنا فضل میرے شامل حال رکھ۔ ایسا نہ ہو کہ میں فیل ہوجاؤں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی کوئی رنجش اس فیصلہ پر اثر انداز ہوجائے اور میں انصاف کے خلاف فیصلہ کردوں…

میں خدا تعالیٰ سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا! اگر تو نے مجھے عہدۂ خلافت پر قائم کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تو آپ ان مظالم کا جواب دینے کے لیے آسمان سے اتر۔ نہ میرے لیے بلکہ اپنی ذات کے لیے۔ نہ میرے لیے بلکہ اپنے سلسلہ کے لیے۔‘‘

پھر فرمایا:

’’پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے گا!‘‘

(الفضل،20؍نومبر1937ء)

فتنہ پردازوں اور ان کے حامیوں کا انجام

حضور ؓ کے یہ مبارک الفاظ پیش گوئی کے رنگ میں پورے ہوئے۔ شیخ عبدالرحمٰن مصری لاہور جاکر غیر مبائعین کی جماعت سے جا ملے۔ وہاں جا کر ایسے اشتہارات دینے لگے کہ آج تک وہ دھوکے میں رہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نبی ہیں۔ مگر اب میرا ایمان یہ ہے کہ وہ محدث تھے نا کہ نبی اللہ۔

یوں ان کا اپنا ہی ایک دعویٰ غلط ثابت ہوگیا۔ وہ خلیفہ کو معزول کر کے نیا خلیفہ لانا چاہتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ ان کی نظر میں نبی ہی نہ رہے، تو خلیفہ کا کیا سوال؟ یوں نظریاتی شکست سے جو ذلت اٹھائی وہ عبرت ناک بن گئی۔

مولوی محمد علی صاحب جنہوں نے کھلی بانہوں سے مصری صاحب اور ان کے فتنہ کو گلے سے لگایا تھا، خود بعد میں مصری صاحب کے فتنوں کا نشانہ بن گئے۔ جس شخص نے خدا کے چنیدہ خلیفہ سے وفا نہ کی، وہ کسی انجمن یا اس کے سربراہ سے کیا وفا کرتا؟

مولوی محمد علی صاحب نے اپنے آخری ایام میں اپنے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے بارہ میں ایک سرکلر اپنی جماعت کو بھیجا۔ یہ سرکلر 5؍جولائی 1951ء کو تحریر کیا تھا۔ اس میں لکھا:

’’جب میں گزشتہ بیماری سے اٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ اور شیخ مصری میرے خلاف پراپیگنڈا میں اپنی پوری قوت صرف کررہے ہیں۔ اور ہر ایک تنکے کو ایک پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔وہ نہ صرف میری بیماری سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر کے میری بیماری کو بڑھا رہے ہیں…

جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی ہے۔ اور امیر ِ جماعت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا گیا ہے۔‘‘

اس کے بعد مولانا کی ایک تحریر ان کی زندگی کے آخری ایام میں ’’حضرت امیر مرحوم کے دکھوں کی داستان‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔اس میں بھی انہی سازشوں کا تذکرہ تھا۔

اس ’’دکھوں کی داستان‘‘ کو تحریر کرنے کےقریباً دو ماہ بعداسی دکھ کو دل میں لیے اکتوبر 1951ءمیں وفات پاگئے۔

مولانا ظفر علی خان، جنہوں نے اس فتنہ کو خوب ہوا دی تھی، ان کا انجام تو سبھی کو معلوم ہے۔ آخری دنوں میں جب بالکل لاچار ہوگئےاور کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔تو اگر کسی نے خبر گیری کی اور علاج معالجہ اور دیکھ ریکھ کا انتظام کیا تو وہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کے سوا کوئی نہ تھا۔

اختتامیہ

ایسے فتنوں کے اٹھنے اور پھر خس و خاشاک کی طرح اڑ جانے کو دیکھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ

یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف

قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار

اختتام کرتے ہیں حضرت مصلح موعود ؓکے مذکورہ بالا جواب پرجو آپ نے ان بظاہر بڑے فتنوں کے مقابلہ پر بیان فرمایا:

’’پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے گا!‘‘

حضرت مصلح موعودؓ کا یہ جواب ایسا آفاقی ہے کہ نہ صرف اُس دور میں مومنوں کے ازدیادِ ایمان کا باعث تھا بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے کئی فتنے آئے اور گئے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے مقررکردہ خلیفہ کی اور اپنی جماعت کے لیے غیرت کا اظہار فرمایا اور دشمنوں کی سازشوں کو نیست و نابود فرمایا۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوا، آج بھی ایسا ہی ہےاور آئندہ ہردور میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ انشا اللہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button