از افاضاتِ خلفائے احمدیت

ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍اپریل 2010ء)

تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں اکثر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں اور حقیقی شکر گزاری اسی صورت میں ادا ہو سکتی ہے جب ہمارے دل میں تقویٰ ہو، جب ہم اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اس دورے کے دوران جو میں نے یورپ کے مختلف ممالک کا کیا ہے میں نے گزشتہ دو تین خطبات میں خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ باتیں دوہرانے کی مجھے اس وجہ سے بھی توجہ پیدا ہوئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں MTA کی سہولت سے نوازا ہوا ہے جس میں میرے خطبات باقاعدہ آتے ہیں اور دوسرے ایسے پروگرام بھی جاری رہتے ہیں جو ہماری روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں پھر بھی سو فیصد افرادِ جماعت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ایک خاصی تعداد مردوں، عورتوں اور نوجوانوں میں ایسے افراد کی ہے جو باقاعدگی سے خطبہ بھی نہیں سنتے۔ یا سن لیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید جس جگہ خطبہ دیا جا رہا ہے وہاں کے لوگوں کے لئے ہے۔

خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو

حالانکہ ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو۔ خاص طور پر جوپرانے احمدی ہیں ان میں یہ بڑی غلط رَو پیدا ہو گئی ہے۔ نئے ہونے والے احمدیوں میں عربوں میں سے بھی لکھتے ہیں، یا جو نو مبائعین ہیں ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ بعض خطبات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حالات کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے رشین میں بھی باقاعدہ خطبہ کا ترجمہ MTA سے نشر کیا جاتا ہے اور روس کے مختلف ممالک سے احمدیوں کے، جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں، خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پر یوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دئیے جا رہے ہیں۔ بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑا ہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت سا تربیتی سامان مہیا فرمایا ہے۔ تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہاایک تعداد ایسی بھی ہے جو یا تو خطبات کو سنتی نہیں یا اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتی یا رسمی طور پر سن لیتی ہے۔ اس لئے میں بعض معاملات کی طرف ہر ملک میں بار بار اپنے خطبات میں توجہ دلاتا ہوں کیونکہ دورے کی وجہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعدادجمعہ پر حاضر ہو جاتی ہے۔ ہر احمدی کے اندر ایک نیکی کا بیج تو ہے۔ خلافت سے ایک تعلق تو ہے جس کی وجہ سے باوجود عمومی کمزوریوں کے جب سنتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے اور خطبہ ہے، جلسہ ہے تو ایک خاص شوق اور جذبے سے اس پروگرام میں شامل ہوتے ہیں چاہے خطبہ ہو یا کوئی اور پروگرام ہو۔

خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں

پس آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سوئٹزرلینڈ کے احمدیوں کو بھی بعض امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور سب سے پہلی بات تو یہی ہے جو شروع میں مَیں نے کہی کہ عبدِ شکور بنیں، شکر گزار بندے بنیں۔ خاص طور پر یورپ کے ممالک میں آنے والے احمدی اور آپ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے سوئٹزرلینڈ میں آ کر رہنے اور مالی سکون و کشائش عطا فرمائے، ان کو بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8)

اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری اور اس کا اظہار کیا ہے؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے۔ اس کے حکموں کی پابندی ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سرانجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے اور عبدِ شکور بننے کے لئے اپنے دل و دماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھے۔ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے ذکر سے تَر رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے انہیں یاد رکھے اور انہیں یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری رہے اور صرف زبان پر نہ جاری ہو بلکہ ایک حقیقی مومن کا اظہار اس کے ہر عضو سے ہوتا ہو، اس کی ہر حرکت و سکون سے ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ بننے کی کوشش ہو۔ یہ عاجزی اس وقت ہو سکتی ہے جب حقیقت میں تمام نعمتوں کا دینے والا خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا پیار دل میں ہو۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان کا استعمال اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو۔ صحت مند جسم دیا ہے تو عبادت اور اس کے راستے میں اس کے دین کی خدمت کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ اگر کشائش عطا فرمائی ہے تو کسی قسم کی رعونت، تکبر اور فخر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور استعدادوں اور مال اور اولادکے صحیح مصارف خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہیں تو طبعی شکر گزاری بھی ہے اور پھر خدا تعالیٰ جو اپنے بندے پر بہت رحم کرنے والا ہے اور ایک کے بدلے کئی گنا دینے والا ہے۔ وہ استعدادیں بھی بڑھاتا ہے، صحت بھی دیتا ہے، کشائش بھی دیتا ہے، ایک عابد بندے کو اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے۔ اس کا جو مقصدِ پیدائش ہے اس کے حصول کی بھی توفیق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان اپنے زورِ بازو سے عبادت یعنی مقبول عبادت بھی نہیں کر سکتا۔ اگر عبادت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ قابلِ قبول نہیں تو ایسی عبادت بھی بے فائدہ ہے۔ پس یہ شکر گزاری کا مضمون ہے جو نیکیوں میں بڑھنے کی بھی توفیق دیتا ہے۔ تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔ کیونکہ انسان اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شکر گزار بندوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہوَ

مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ (آل عمران: 116)

اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

پس تقویٰ بھی شکر گزاری سے بڑھتا ہے کیونکہ شکر گزاری بھی ایک نیکی ہے۔ اور حقیقی نیکیوں کی توفیق بھی اپنے تمام تر وجود، مال، صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرنے سے ملتی ہے اور ایسے نیکیوں میں بڑھنے والے اور شکر گزار مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ خودکس طرح اپنے شکور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کی مزید وضاحت کے لئے اس طرح بیان فرمایا کہ

لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ (فاطر: 31)

یعنی تا کہ وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے اجر دے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ بڑھا دے یقیناً وہ بہت بخشنے والا اور بہت قدردان ہے۔

…………………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button