کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسیح موعود کی تیرھویں صدی میں پیدائش ہوگی اور چودھویں صدی میں اُس کا ظہور ہوگا

یہ تمام وہ باتیں ہیں کہ کئی دفعہ اور کئی پیرایوں میں مَیں نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سنائی تھیں اور تعجب کہ انہوںنے میرے پاس بیان کیا کہ یہ باتیں پہلے سے میرے علم میں ہیں اور بہت سے ایسے عجیب دلائل حضرت مسیح کی وفات اور اِس بات پر سُنائے کہ اسی زمانہ میں اوراسی اُمّت سے مسیح موعود ہونا چاہئے جس سے مجھے بہت تعجب ہوا اور اس وقت شعر حسن زبصرہ بلال از حبش یاد آیا۔ اور اکثر ان کا استدلال قرآن شریف سے تھا اور وہ بار بار کہتے تھے۔ کہ کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ مسیح موعود کی پیشگوئی صرف حدیثوں میں ہے۔حالانکہ جس قدر قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ فوت ہوگیا اور مسیح موعود اسی اُمّت میں سے آنے والا ہے۔ اس قدر ثبوت حدیثوںسے نہیں ملتا۔ غرض خدا تعالیٰ نے اُن کے دل کو حق الیقین سے پُر کر دیا تھا اور وہ پوری معرفت سے اِس طرح پر مجھے شناخت کرتے تھے جس طرح درحقیقت ایک شخص کو آسمان سے اُترتا مع فرشتوں کے دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت سے مجھے یہ خیال آیا ہے کہ حدیثوں میں جو مسیح موعود کے نزول کا ذکر ہے اگرچہ یہ لفظ اکرام اور اعزاز کیلئے محاورہ عرب میں آتا ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں لشکر فلاں جگہ اُترا ہے اور جیسا کہ کسی شہر کے نووارد کو کہا جاتا ہے کہ آپ کہاں اُترے ہیں اور جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیںنے ہی اس رسول کو اُتارا ہے اور جیسا کہ انجیل میں آیا ہے کہ عیسیٰ اور یحییٰ آسمان سے اُترے لیکن باایں ہمہ یہ نزول کا لفظ اِس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس قدر مسیح کی سچائی پر دلائل جمع ہو جائیں گے کہ اہلِ فراست کو اس کے مسیح موعود ہونے میں یقین تام ہو جائےگا گویا وہ ان کے روبرو آسمان سے ہی اُترا ہے۔ چنانچہ ایسے یقین کامل کا نمونہ شہزادہ مولوی عبداللطیف شہید نے دکھا دیا۔ جان دینے سے بڑھ کر کوئی امر نہیں اور ایسی استقامت سے جان دینا صاف بتلارہا ہے کہ انہوں نے مجھے آسمان سے اُترتے دیکھ لیا اور دوسرے لوگوں کیلئے بھی یہ امر صاف ہے کہ میرے دعوے کے تمام پہلو آفتاب کی طرح چمک رہے ہیں۔ اوّل قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم فوت ہوگیا ہے اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا۔ اور اگر بغرض محال قرآن کریم کے مخالف ایک لاکھ حدیث بھی ہو۔ وہ سب باطل اور جھوٹ اور کسی باطل پرست کی بناوٹ ہے۔ حق وہی ہے جو قرآن نے فرمایا۔ اور حدیثیں وہ ماننے کے لائق ہیں جو اپنے قصوں میں قرآن کے بیان کردہ قصّوں سے مخالف نہیں پھر بعد اس کے یہ فیصلہ بھی قرآن شریف نے ہی سورہ نور میں لفظ منکمکے ساتھ ہی کر دیا ہے کہ اس کے تمام خلیفےاسی اُمّت میںسے پیدا ہوںگے اور وہ خلفاء سلسلہ موسوی کے مثیل ہوںگے اور صرف ایک اُن میںسے سلسلہ کے آخر میں موعود ہوگا جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہوگا باقی موعود نہیں ہوںگے یعنی نام لے کر اُن کیلئے کوئی پیشگوئی نہیں ہو گی اور یہ منکم کا لفظ بخاری میں بھی موجود ہے اور مسلم میں بھی ہے جس کے یہی معنے ہیں کہ وہ مسیح موعود اسی اُمّت میں سے پیدا ہوگا۔ پس اگر ایک غور کرنے والا اس جگہ پورا غور کرے اورطریق خیانت اختیار نہ کرے تو اس کو ان تین منکمکے لفظوں پر نظر ڈالنے سے یقین ہو جائےگا کہ یہ امر قطعی فیصلہ تک پہنچ چکا ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے پیدا ہوگا۔ اب رہا میرا دعویٰ سو میرے دعویٰ کےساتھ اس قدر دلائل ہیں کہ کوئی انسان نِرا بے حیا نہ ہو تو اُس کیلئے اس سے چارہ نہیں ہے کہ میرے دعویٰ کو اسی طرح مان لے جیسا کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کو مانا ہے۔ کیا یہ دلائل میرے دعوے کے ثبوت کے لئے کم ہیں کہ میری نسبت قرآن کریم نے اس قدر پورے پورے قرائن اور علامات کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ایک طور سے میرا نام بتلادیا ہے اور حدیثوں میں کدعہ کے لفظ سے میرے گاؤں کا نام موجود ہے اور حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسیح موعود کی تیرھویں صدی میں پیدائش ہوگی اور چودھویں صدی میں اُس کا ظہور ہوگا۔ اور صحیح بخاری میں میرا تمام حُلیہ لکھا ہے اور پہلے مسیح کی نسبت جو بڑا مرکز مشرق یعنی ہند قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود دمشق سے مشرق کی طرف ظاہر ہوگا۔ سو قادیان دمشق سے مشرق کی طرف ہے اور پھر دعوے کے وقت میں اور لوگوں کی تکذیب کے دنوں میں آسمان پر رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہونا۔ زمین پر طاعون کا پھیلنا۔ حدیث اور قرآن کے مطابق ریل کی سواری پیدا ہو جانا۔ اونٹ بیکار ہو جانے۔ حج روکا جانا۔ صلیب کے غلبہ کا وقت ہونا۔ میرے ہاتھ پر صدہا نشانوں کا ظاہر ہونا نبیوں کے مقرر کردہ وقت مسیح موعود کیلئے یہی وقت ہونا۔ صدی کے سر پر میرا مبعوث ہونا۔ ہزارہا نیک لوگوں کا میری تصدیق کیلئے خوابیں دیکھنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وہ مسیح موعود میری اُمّت میں سے پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰ کی تائیدات کا میرے شامل حال ہونا اورہزارہا لوگوں کا دو لاکھ کے قریب میرے ہاتھ پر بیعت کر کے راستبازی اور پاکدلی اختیار کرنا۔ اور میرے وقت میں عیسائی مذہب میں ایک عام تزلزل پڑنا یہانتک کہ تثلیث کی طلسم کا برف کی طرح گداز ہونا شروع ہو جانا اور میرے وقت میں مسلمانوں کا بہت فرقوں پر منقسم ہو کر تنزّل کی حالت میں ہونا اور طرح طرح کی بدعات اور شرک اور میخواری اور حرامکاری اور خیانت اور دروغگوئی دنیا میں شائع ہو کر ایک عام تغیر دنیا میں پیدا ہو جانا اور ہر ایک پہلو سے انقلاب عظیم اس عالم میں پیدا ہو جانا۔ اور ہر ایک دانشمند کی شہادت سے دنیا کا ایک مصلح کا محتاج ہونا۔ اور میرے مقابلہ سے خواہ اعجازی کلام میں اور خواہ آسمانی نشانوں میں تمام لوگوں کا عاجز آجانا۔ اَور میری تائید میں خدا تعالیٰ کی لاکھوں پیشگوئیاں پوری ہونا۔ یہ تمام نشان اور علامات اور قرائن ایک خدا ترس کیلئے میرے قبول کرنے کیلئے کافی ہیں۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ38تا 41)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button