ایڈیٹر کے نام خطوط

پاکستان کا مطلب کیا؟

نقض امن کے ساتھ ساتھ غیر مسلم رعایا کے حقوق، انسانیت، قرآنی احکام و شریعت، سنت و حدیث، آئین و قانون حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں

مکرم ذیشان محمود صاحب مربی سلسلہ سیرالیون تحریر کرتے ہیں:

جمعہ کا دن اسلامی دنیا میں ایک مقدس اجتماع کا دن ہے۔ اس دن تمام مسلمان مساجد میں جمع ہو کر دین سے آگاہی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خدائے واحد کے سامنے اجتماعی طور پر جھکتے ہیں۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے اس مقدس دن کی توہین اس طور بھی ہو رہی ہے کہ مساجد کا منبر استعمال کرتے ہوئے یا خطبات جمعہ کے ذریعہ عام مسلمانوں خصوصاً نوجوان نسل کو شدت پسندی پر اکسایا جاتا ہے اور پھر کوئی بڑا واقعہ جمعہ کو یا اگلے روز پیش آتا ہے۔

شدت پسندی ایک ایسا جزو ہے جو مختلف نوعیت میں دنیا پر چھا رہا ہے۔ وطنیت ہو یا قومیت، عائلی معاملات ہوں یا سماجی معاملات، معاشی ہوں یا معاشرتی ہر طور پر لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوئے جا رہے ہیں۔ ان سب کے علاوہ مذہبی جنونیت یا جسے مذہبی شدت پسندی کا نام دیا گیا ہے، ایسا عنصر ہے جو ان سب میں بالا ہے۔اس آخر المذکور شے کا استعمال ترپ کے پتے کی طرح بھی کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ مذہب کی آڑ میں اس پتے کا استعمال اپنی ذاتی یا سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے بھی کرتے ہیں۔

23دسمبر2021ءبروز جمعہ کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں فیکٹری کے ایک غیر مسلم سری لنکن مینیجر کو توہین مذہب کی آڑ میں سفاکانہ طریق پر زدو کوب کر کے ہلاک کرنے کے بعد جلا دیا گیا۔ اسلام اور بانی اسلام کے نام پر ایسا گھناؤنا کام کرنے والے اسلام اور اپنے معشوق کی تعلیم سے نابلد لبیک لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے نظر آئے۔ نقض امن کے ساتھ ساتھ غیر مسلم رعایا کے حقوق، انسانیت، قرآنی احکام و شریعت، سنت و حدیث، آئین و قانون حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں۔

یہ دن پاکستان کا سیاہ دن قرار دیا گیا لیکن پاکستان کی تاریخ ایسے سیاہ ایام سے لبریز ہے۔ سال کے 52 جمعوں میں ہر جمعہ کوتو نہیں لیکن ہر ہفتے رونما ہونے والے ایسے پر تشدد واقعات سال بھر میں 52سے زائد مرتبہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اسلام دوسرے مذاہب اور غیر مسلم رعایا کو امن اور ہر طرح کی آزادی دینے کی تعلیم کے ساتھ تلقین بھی کرتا ہے۔

پاکستان میں دیگر مذاہب سے بدسلوکی اور ان کی توہین ایک عام بات ہے۔ آئے دن ہم ہندو، عیسائی، بدھ اور سکھ مذہب کے پیروکاروں اور ان کی مذہبی اور مقدس خیال کیے جانےوالے مقامات و اشیاء کی بے حرمتی اور توہین کی خبریں سنتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اسلام کے نمایاں فرقوں جیسے اہلِ تشیع اور جماعت احمدیہ کو بھی ایسے تشدد پسندانہ حالات کا سامنا ہے۔ مساجد میں توڑ پھوڑ اور قبروں کی بے حرمتی کرنا آئے روز کی بات ہے۔

پاکستان میں مذہب اور آگ کا کھیل نیا نہیں۔پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے واقعات ماضی کا حصہ ہیں جن میں توہین مذہب کے بے بنیاد الزام کے تحت مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مذہبی و مقدس املاک کو آگ سے نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ انسانی جان کا ضیاع بھی ہوا۔

اگر ہم گوجرہ واقعہ سے آغاز کریں تو کئی ایسے واقعات گذشتہ دہائی میں مشتعل ہجوم کے بے قابو ہونے کے ہمارے سامنے ہیں۔

اگست 2009ء: صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل گوجرہ میں عیسائی برادری کی ایک شادی کے دوران قرآن کریم کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہو کر گاؤں کے مشتعل مسلمان مظاہرین نے عیسائیوں کی ایک بستی میں 7؍افراد کو زندہ جلا دیا جبکہ 2؍گرجوں اور 40؍گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ بعد ازاں مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالا اور کرسچیئنکالونی کا گھیراؤ کر کے پتھراؤ شروع کیا تو عیسائیوں نے چھتوں پر چڑھ کر دفاع میں فائرنگ کی۔ مشتعل مسلمان ہجوم نے ایک بار پھر آگ کا کھیل کھیلا اور بعض گھروں میں لوٹ مار بھی کی۔

جولائی 2012ء: پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہاولپور کے نواحی علاقے احمد پور شرقیہ میں چار سے پانچ ہزار مشتعل مسلمان مظاہرین نے قرآن کریم کی بے حرمتی کے الزام میں ایک ذہنی طور پر معذور شخص کو پولیس اسٹیشن سے زبردستی نکال کر زد و کوب کیا اور چوراہے میں پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ مشتعل مظاہرین نے تھانے کے ایک حصے کو آگ لگائی اور چار گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ تھانے سے ملحقہ ایک پولیس ملازم کے گھر کو بھی آگ لگائی تھی جس میں پولیس ملازم کی بیٹی کے جہیز کا سامان اور قرآن کریم کے دو نسخے بھی جل گئے۔

مارچ 2013ء: بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی میں 7؍ہزار افراد پر مشتمل مشتعل مسلمان ہجوم نے مسیحی برادری کے 150؍گھروں، 18؍دکانوں اور دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی۔ واقعہ ایک مسیحی شہری پر توہین مذہب کے الزام کے بعد پیش آیا۔ تحقیقات پر یہ واقعہ ذاتی رنجش کا نتیجہ نکلا۔ حملے کے بعد پولیس نے 100؍سے زائد افراد کو توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ تاہم ان تمام افراد کو بعد ازاں ناکافی شواہد کے باعث رہا کر دیا گیا تھا۔ ملزم ساون مسیح کو لاہور کی سیشن کورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی جبکہ سات برس بعد لاہور ہائی کورٹ نے اسے بری کرنے کا حکم دیا۔

نومبر 2014ء : لاہور سے 60؍کلومیٹر دور شہر کوٹ رادھا کشن میں ایک اینٹوں کے بھٹہ پر تین گاؤں سے ایک ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں ایک مسیحی جوڑے 25 سالہ حاملہ بیوی شمع اور 34سالہ شوہر شہزاد کو تشدد کرکے جان سے مار ڈالا اور بعد ازاں سفاکی سے ان کی لاشوں کو بھٹے میں ڈال کر جلا دیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مسیحی جوڑے کو بھٹہ میں زندہ جلانے کے 20 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ گویا تین معصوم جانوں کو ملکی آئین انصاف نہ دے سکا۔

جولائی 2014ء: گوجرانوالہ میں سماجی نیٹ ورک کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک احمدی کی جانب سے خانہ کعبہ کی تصویر لائک کرنے کو توہین قرار دیتے ہوئے مشتعل مسلمان ہجوم نے احمدیوں کے 5گھر نذرِ آتش کر دیے۔ جس میں ایک 55 سال سے زیادہ عمر کی خاتون اور ان کی 2کم سن پوتیوں سمیت ایک حاملہ خاتون کے پیٹ میں دم گھٹنے سے بچہ بھی جاںبحق ہوا۔

نومبر 2015ء: جہلم کے قریب پاکستان کے ایک معروف چِپ بورڈ بنانے والے کارخانے میں قرآن کریم کے اوراق نذر آتش کرنے پر مبنی مبہم اطلاع پر مشتعل مسلمان ہجوم نے کارخانے کو آگ لگا دی۔ اس کارخانہ کے مالک اور بیشتر کاریگر احمدی تھے۔

12؍دسمبر 2016ء :عید میلاد النبیﷺ کے بابرکت موقع پر ضلع چکوال کے گاؤں دوالمیال میں ایک ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل متشدد مسلمان ہجوم نے جماعت احمدیہ کی مسجدپر حملہ کیا ۔اس حملے کے دوران ہجوم نے مسجدپر قبضہ کرنے کے لیے شدید فائرنگ کی اور پتھراؤ کیا۔ مشتعل جلوس پولیس کو ہٹاتے ہوئے احمدیہ مسجد میں داخل ہوگیا اور وہاں موجود سامان اکٹھا کرکے آگ لگادی۔ مسجدمیں موجود ایک احمدی صدمے سے ہارٹ اٹیک میں وفات پا گئے۔

اپریل 2017ء: مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن کے طالب علم مشال خان کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی بنا پر مشتعل ہجوم نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ یہ توہین آمیز ہے، انتہائی تشدد کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس پوسٹ نے معاشرے میں صرف سیکولرازم کا مطالبہ کیا ہے۔

اپریل 2018ء: رضوان نامی مسلمان لڑکے نے عاصمہ نامی عیسائی لڑکی کی جانب سے شادی کے لیے مذہب نہ تبدیل کرنے پر اسے جمعہ کے روز آگ لگا دی۔ پولیس کے مطابق ملزم لڑکا مبینہ طور پر لڑکی کو مذہب تبدیل کرنے پر اکسا رہا تھا جبکہ جواب میں لڑکی اس کو اپنا مذہب اپنانے کا کہہ رہی تھی۔

اگست 2018ء: فیصل آباد کی تحصیل کھُڑیانوالہ کے ایک گاؤں میں ایک ہجوم نے معمولی نوعیت کے تنازعے کو ہوا دےکر اور مذہبی ایشو بنا کر احمدیہ مسجدپر حملہ کیا توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ ایس ایچ او کے مطابق واقعہ مقامی احمدی کی مرغی کو مارنے سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے لڑائی بڑھ گئی اور مقامی دیہات کے گروہ نے احمدی مسجدپر حملہ کر دیا۔ اس موقع پر دونوں گروہوں میں فائرنگ اور پتھراؤ کا مقابلہ ہوا اور 5؍احمدیوں سمیت کل 18؍لوگ زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو الگ الگ ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

اگست 2020:میں رحیم یار خان کے علاقے بھونگ شریف میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر میں گھس کر توڑپھوڑ کی اور وہاں نصب مورتیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ جس کا سبب یہ تھا کہ مقامی مدرسے کی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ لائبریری میں ایک بچے نے آکر پیشاب کیا ہے۔ جس پر آٹھ سال کے بچے کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ چونکہ بچہ نابالغ تھا اس لیے قانون کے مطابق 295 اے کی سخت سزا اسے دی نہیں جا سکتی تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ لڑکے کو چھوڑنے کے بعد علاقے میں دوبارہ سے فساد شروع ہو گیا۔ نامعلوم ملزمان نے مندر پر حملہ کرنے سے پہلے اس سے ملحقہ امام بارگاہ کے علم کو جلایا اور اس کے بعد مندر پر حملہ کیا۔

مندر پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ ان افراد کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی جن کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر مسجد کو گرا دیا جاتا تو پھر مسلمانوں کے کیا جذبات ہوتے؟

نومبر 2021ء: پاکستانی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں تھانے میں ایک ذہنی معذور شخص موجود تھا جس پر توہین مذہب کا الزام تھا۔ ہزاروں مشتعل مسلمان ہجوم کی جانب سے پولیس سے یہ مطالبہ تھا کہ پولیس تحویل میں موجود اس شخص کو ان کے حوالے کرے۔ مطالبہ پورا نہ ہونےپر مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ مشتعل افراد ان کی تحویل میں موجود شخص کو مارنا پیٹنا چاہتے تھے لیکن اس شخص کو کسی اور تھانے منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس افسران نے پہلے حملے کو روکنے کی کوشش کی لیکن پھر انہیں وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ پولیس نے لوگوں کے زخمی اور ہلاک ہوجانے کے خدشے کے باعث طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

ان مذکورہ بالا واقعات میں صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی اقلیتوں سمیت غیر مسلم ملازمین پر ایک خوف کی حالت طاری ہے۔ گذشتہ برسوں میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہلاکت خیز ردعمل سامنے آچکا ہے جب کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس پر نظر ثانی کرنے کے بیان پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور ایک وفاقی وزیر شہباز بھٹی قتل بھی کیے جا چکے ہیں۔

ان مذکورہ بالا واقعات میں ہجوم کے آگ لگانے یا زندہ جلانے یا جان لینے کے عنصر کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

کچھ روز قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ‘‘سیالکوٹ میں مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے اور آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ خود کو عاشق رسول ﷺ ثابت کرنے کےلیے حضورﷺ کی سیرت پر چلنا ہوگا۔ یہاں اسلام اور نبی کریم ﷺ کے نام پر لوگوں کو جلایا اور مارا جا رہا ہے۔ توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں بغیر مقدمہ چلائے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ کوئی وکیل ملزم کا کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جج بھی مقدمہ سننے سے گریز کرتے ہیں۔’’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سے جنہوں نے دین کو استعمال کیا، خاص طور پر رحمۃ للعالمین ﷺ کے نام پر ظلم کیا ان کو نہیں چھوڑنا۔ جب تک زندہ ہوں سانحہ سیالکوٹ جیسا واقعہ دوبارہ ہونے نہیں دوں گا۔’’

اللہ انہیں لمبی زندگی دے اور وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی عملی اقدام اٹھانے والے ہوں اور گذشتہ حکومتوں کی طرح صرف زبانی دعوے نہ کرنے والے ہوں۔

آخر میں خاکسار جلیل حیدر لاشاری کی ایک غزل درج کرتا ہے جو ایسے نام نہاد عاشقان دین کا حال واضح طور پر بیان کرتی ہے:

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے

شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے

کیسا عاشق ہے ترے نام پہ قرباں ہے مگر

تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے

ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے

اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے

شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے

صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button