متفرق مضامین

محمد قدسی صاحب شامی…اندازاً 1898ء

(عمانوایل حارث)

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (نمبر12)

قادیان میں دو شخص ایک بغدادی اور ایک شامی بقصدِ زیارت حضرت مسیح موعودؑ وارد ہوئے

جماعتی اخبار الحکم کے 24؍نومبر1904ء کے صفحہ 11 پر ’’ایک شامی کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہےکہ

’’قریباً عرصہ چھ سال کا گزرا ہے کہ قادیان میں دو شخص ایک بغدادی اور ایک شامی بقصدِ زیارت حضرت مسیح موعودؑ وارد ہوئے۔ شامی جوقوی ہیکل نوجوان آدمی تھا اس نے قادیان میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ حضرت حکیم الامت کے حلقہ درس میں شامل ہو گیا ۔اور کتب وغیرہ جس چیز کا اس نے احتیاج ظاہر کیا اس کے لئے مہیا کیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعوؑد کو یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ شخص یہاں سے اپنی تعلیم کا نصاب پورا کرکے عربی بولنے والے ممالک میں جا کر تبلیغ کرے گا ۔مگرقادیان چونکہ ایک معمولی قصبہ ہے جس کی آبادی غالباً تین ہزار آدمی کی ہوگی۔ اس میں ہر منش آدمی کی طبیعت اکتا جائے تو کچھ تعجب نہیں ۔شامی نے چند ماہ بعد ظاہر کیا کہ حج کا موسم قریب ہے ۔حج کو جانا چاہتا ہوں ۔حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک رقعہ لکھا اور کچھ روپے طلب کیے ۔اس کا نام محمد قدسی مشہور تھا ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے محمد قدسی کو مندرجہ ذیل جواب نصیحۃًلکھا جس کو ہم بعینہٖ یہاں درج کرتے ہیں۔ میں نے یہ خط محمد قدسی سے لے کر نقل کر لیا تھا (محمد فضل )

اس عربی خط کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

ترجمہ: السلام علیکم۔ مجھے تمہارا خط پہنچا۔ بڑا افسوس ہے جس بات کا ہم نے تمہارے لئے ارادہ کیا تھا تُو اس کو نہیں سمجھتا۔ تُو اسلام کا چھلکا طلب کرتا ہے اور ہم نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے اسلام کے مغز و روح سے بہرہ ور کیا جائے۔ اگر تجھے خوف خدا ہوتا تو ہمارے کام اور جس امر کے لیے ہمیں خداوند تعالیٰ نے بھیجا ہے اس میں فکر کرتا۔ میں خوب جانتا ہوں کہ آج کل کسی کو کوئی عمل فائدہ نہیں دے سکتا سوا اس کے کہ مجھے اور میرے دعوے اور میرے دلائل کو پہچانے اور سمجھے۔ تیرےلئے ساری بھلائی اس میں ہے کہ عید کے بعد جانے کے خیال کوچھوڑ دو اورہمارے پاس کچھ زمانہ رہ کراس علم کو سیکھو جو علم ہم کو خدا تعالیٰ نے دیا ہے ۔میں نہیں جانتا کہ صحت ایمان سے پہلے تجھے حج کو جانے میں کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ میں تجھے چار روپیہ بھیجتا ہوں جو ضرورت پیش ہے اس میں خرچ کرو۔اگر چاہو تو یہاں ہی رہو اور اگر جانا چاہو تو اسی خرچ کے ساتھ ہماری طرف سے رخصت ہو۔ تیرا یہاں سے جانا اچھا نہیں بلکہ سراسر نقصان و زیاں ہے۔ لیکن میں تجھے کس طرح سمجھاؤں۔ آنکھیں نابینا نہیں ہیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ نابینا ہیں۔ خدا سلامت رکھے ہر ایک ایسے شخص کو جو اسلام کا سچا تابعدار ہے۔

الراقم المتوکل علی اللہ الاحد

احمد عفی اللہ عنہ

(مکتوبات جلد پنجم، صفحہ 290تا 292)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button