متفرق مضامین

خوف کے بعد امن کے نظارے (قسط سوم)

(مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج مرکزی پریس اینڈ میڈیا آفس کی ڈائری کا اردو ترجمہ)

اے پیارے طالع! میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر لیاہے۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)

قمر الانبیاء

میری اسی ملاقات میں حضور نے اس ڈاکیومنٹری کاذکرکیاجو طالع نے قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں تیار کی تھی کیونکہ جب میں نے وہ ڈاکیومنٹری حضور کے ملاحظہ کے لیےپیش کی تھی تب حضور نے فرمایا تھا کہ وہ موقع ملنے پر اسے دیکھ کر راہ نمائی فرمائیں گے۔

اب حضور نے اس ڈاکیومنٹری کی ڈی وی ڈی مجھے دی اور فرمایا کہ دفتر کے ڈی وی ڈی پلیئر میں لگا کر چلا دو۔

اگلا قریبا ًایک گھنٹہ حضور انور وہ ڈاکیومنٹری بھی دیکھتے رہے اور ساتھ ساتھ اپنی دفتری ڈاک کے خطوط بھی ملاحظہ فرماتے رہے۔ یہ بڑا ہی جذباتی موقع تھا کہ میں حضور کی معیت میں ڈاکیومنٹری بھی دیکھ رہا تھا اور طالع کی آواز بھی سن رہا تھا جو ڈاکیومنٹری کے ایک حصے کا دوسرے حصہ سے ربط ملانے کے لیے وہ جملے ادا کررہا تھااوریہ ڈاکیومنٹری بھی طالع کے اپنے ہی جد امجد کے بارے میں تھی۔

اس ڈاکیومنٹری میں طالع نے بعض ایسی تاریخی تصاویر کا استعمال بھی کیا تھا جو میرے لیے بالکل نئی تھیں۔

تین چار مواقع پر حضورنے بتایا کہ وہ تصاویر حضور کے والد حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی کھینچی ہوئی ہیں۔

پھر حضور نے ہر تصویر میں نظر آنے والے لوگوں کا تعارف کروایا اور اگر فوٹو میں نظر آنے والے کسی فرد کو پہچاننے میں مجھے دقت ہوتی تو حضور ان کا شجرہ بھی بتادیتے۔

اس ڈاکیومنٹری کے ایک حصہ میں حضورکے دادا جان حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

اوربتایا گیا کہ تب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے خود جاکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس افسوس ناک سانحہ کی اطلاع پہنچائی تھی۔

یہ حصہ دیکھ کر حضور نے فرمایا: ’’تب میں دس گیارہ سال کا نوعمر لڑکا تھاجب ابا جان (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ)کی وفات ہوئی تھی۔ اور مجھے ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو وفات کی اطلاع دینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ میں نے ان کو مطلع کیا تو وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو یہ افسوس ناک خبر دینے کے لیے گئے تھے۔‘‘

مجھے یہ دلچسپ بات سن کر حیرت بھی ہوئی کہ تب کس طرح ایک بالکل نوعمر لڑکے کو کہاگیا کہ وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے پاس جائے اورانہیں اپنے دادا کی وفات کی اطلاع دےکر آئے۔

جب یہ ڈاکیومنٹری مکمل ہوگئی تو میں نے عرض کیا کہ ’’طالع نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ اسے نہیں لگتا کہ یہ ڈاکیومنٹری اتنی اعلیٰ بن پائے گی کیونکہ اس کی بنائی ہوئی گذشتہ ڈاکیومنٹریز حضور کے بارے میں لوگ دیکھ چکے ہیں۔بہرحال اگرچہ اس ڈاکیومنٹری میں بھی بعض نہایت دلچسپ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں مَیں بھی طالع کا ہم خیال ہوں۔تاہم اب یہ ڈاکیومنٹری طالع کی شہادت کے بعد ایم ٹی اے پر چلائی جائے گی اس لیے میرا خیال ہے کہ ناظرین پر ایک گہرا اور خاص اثر چھوڑے گی۔ ان شاء اللہ۔‘‘

میری بات سن کر حضور نے فرمایا: ’’ہاں‘‘

تدفین سے قبل سرکاری محکمے کی کارروائی

اللہ کے فضل سے طالع کا جسد خاکی مورخہ یکم ستمبر 2021ء کو بخیریت لندن پہنچ گیا اور Epsomمیں واقع متعلقہ انتظام گاہ لے جایا گیا۔

گو یہ ہم سب کے لیے ایک تکلیف اور دکھ والا واقعہ تھا لیکن ایک گونا تسلی بخش امر بھی کہ شہید کا جسد خاکی باحفاظت پہنچ گیا ہے۔ حضور نے از راہ شفقت ہمیں ہدایت فرمائی کہ شہید کی نماز جنازہ آپ خود مورخہ 3؍ستمبر کو خطبہ جمعہ کے بعد پڑھائیں گے۔

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باوجود حضور نے ہمارے خاندان کے افراد، ایم ٹی اے اور پریس آفس کے عملہ سمیت سینکڑوں احمدیوں کو نماز جنازہ میں شرکت کے لیے اسلام آباد کے احاطے میں داخل ہونےکی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔

جنازے سے ایک روز قبل، جمعرات کے دن تک بعض قانونی پیچیدگیوں کا سامنا تھا اورغیر یقینی کیفیت درپیش تھی کہ غیر طبعی اموات کی صورت میں تحقیق کرنے والا مقامی محکمے کا افسر جمعہ کے روز تک تدفین کا اجازت نامہ بروقت جاری کربھی دے گا یا نہیں۔

کیونکہ غیر طبعی حالات میں موت کی صورت میں پوسٹ مارٹم کروانا لازمی ہوتا ہے۔ انگلستان جماعت کے متعلقہ کارکنان آغاز میں بہت پُرامید تھے کہ ہمیں اس بابت استثناء مل جائے گامگر جمعرات کے دن ہمیں بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔

عام حالات میں پوسٹ مارٹم کے لیے بھی کئی دن پہلے وقت لینا پڑتا ہے یوں ہمیں تدفین میں قریبا ًایک ہفتے کی تاخیر صاف نظر آنے لگی۔ لیکن دوسری طرف جب یہ دیکھتے تھے کہ طالع کی شہادت کو ہفتہ عشرہ پہلے ہی گزر چکا ہے تو سبھی کی خواہش تھی کہ اسی جمعہ کے دن ہی جنازہ اور تدفین ہوجانا نہایت مناسب ہوگا۔

پس جمعرات کے دن بعد دوپہر حضورسے اپنی ملاقات میں خاکسار نے یہ سارامعاملہ پیش کرکے ممکنہ تاخیر کا ذکر کیا اور خصوصی دعا کی درخواست کردی۔

الحمدللہ،کہ ہم نے خلافت احمدیہ کی دعاؤں کی غیر معمولی قبولیت کا فوری نظارہ ایک دفعہ پھر مشاہدہ کیا کیونکہ میں جیسے ہی ملاقات کے بعد باہر نکلا تو ڈاکٹر مظفر احمد صاحب جو جماعت انگلستان کی طرف سے متعلقہ سرکاری محکموں کی کارروائی میں مدد کررہے تھے، نے بتایا کہ متعلقہ سرکاری افسر جمعہ کے دن جنازہ اور تدفین کے لیے ضابطے کی کارروائی تیز رفتاری سے مکمل کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔

یوں اب جمعہ کے دن صبح سب سے پہلے پوسٹ مارٹم ہوگا اور طویل کارروائی کی تکمیل کا انتظار کیے بغیرمتعلقہ افسرصرف پوسٹ مارٹم کی بنیاد پرہی تدفین کے اجازت نامہ پر دستخط کردے گا۔

اللہ کے فضل سے اگلی صبح سارے مرحلے وقت کے عین مطابق آسان ہوتے چلے گئے یوں ساری ضروری کارروائیاں بروقت مکمل تھیں۔طالع کا جسد خاکی 20 سے زائد کاروں پرمشتمل ایک بڑے قافلے کی صورت میں لندن سے اسلام آباد لایا گیا۔

تب قافلے کا حصہ بننے والی ایک کار میں بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل اور جماعت کی وحدت کی برکت سے ہمارا طالع بہترین اور بروقت انتظام اور اعزاز کے ساتھ اپنے سفر آخر ت کے لیے روانہ ہورہا ہے۔

ایک طالع مند- طالع

مجھے یقین ہے کہ یہ ڈائری پڑھنے والے قریباً سب قارئین نے ہی حضور کا وہ خطبہ جمعہ سنا ہوگا جس میں آپ نے طالع کا ذکر خیر فرمایا تھا۔

اس لیے مجھے یہاں وہ باتیں دہرانے کی تو ضرورت نہیں ہے البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ تب حضور کاانداز اور بیان غیر معمولی اثر کرنے والاتھا۔

مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ حضورطالع کا تذکرہ بڑے پیار اور شفقت سے فرمائیں گے لیکن اس دن حضور کا انداز بیان اور پھرشہیدکے متعلق اپنے ذاتی تاثرات کا اظہارکرنا یقیناً تاریخ کا قیمتی اثاثہ رہے گا۔

بلاشبہ شہید اپنے نام طالع کے لفظی مطلب کی طرح اس دنیا سے بھی خوش نصیب وجود قرارپاکر ہی رخصت ہواہے۔

اپنے خطبہ جمعہ میں آپ نے فرمایا: ’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا…اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ وہ پیارا وجود وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اس عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا تھا جو اس نے کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی اسے دیکھ کر اور اب تک ہوتی ہے کہ کس طرح اس دنیاوی ماحول میں پلنے والے بچے نے اپنے وقف کو سمجھا اور پھر اسے نبھایا اور ایسا نبھایا کہ اس کے معیار کو انتہا تک پہنچا دیا۔ وہ بزرگوں کے واقعات پڑھتا تھا اس لیے نہیں کہ تاریخ سے آگاہی حاصل کرے اور ان کی قربانیوں پر صرف حیرت کا اظہار کرے بلکہ اس لیے کہ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے…۔

اور شہید ہو کر بتا گیا کہ میں خلافت کا حقیقی مددگار بنا ہوں۔

اے پیارے طالع! میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر لیاہے۔‘‘

نماز جنازہ اور تدفین

جمعہ کی نماز کے بعد حضورمسجد سے باہر تشریف لائے اور شہیدکی نماز جنازہ پڑھائی۔نماز جنازہ پڑھانے سے قبل حضور کچھ وقت کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی متبرک انگوٹھی شہید کے تابوت کے اوپر لگا کر دعا بھی کرتے رہے۔

نماز جنازہ کے بعد حضورنے مکرم امیر صاحب جماعت انگلستان سے Godalming کے قبرستانEashingمیں ہونے والی تدفین کا وقت دریافت فرمایا۔ میرے دل میں ایک عجیب خوشی کی لہر دوڑگئی جب حضور نے فرمایا کہ وہ تدفین پر بھی تشریف لارہے ہیں۔

کیونکہ ہمیں حضورکی بےپناہ مصروفیات کا خیال کرکے توقع نہ تھی لیکن حضور کی مہربانی اور شفقت کو دیکھ کر ہم سب بے حد شکرگزار تھے۔

جیسے ہی ہم لوگ تدفین کے لیے قبرستان پہنچے ، جلد بعد ہی حضور بھی تشریف لے آئےاور جب تابوت کو قبر تک لے جایا جارہا تھا تب حضور نے تابوت کو سہارا دیے رکھا۔

پھر حضور نے ہی تابوت قبر میں رکھے جانے کے بعد مٹی ڈالنی شروع کی اور پھر آخر پر حضور نے ہی دعاکروانے سے قبل شہید کے نام کی تختی اپنے ہاتھ سے قبر کے سرہانےلگائی۔

خلیفہ وقت کی یہ سب شفقتیں دیکھ کر میں سوچوں میں کھو گیا کہ اے طالع ! دنیا سے تو سب نے ہی ایک نہ ایک جانا ہےمگر بوقت رخصت جو اعزاز اور شفقت تجھے دربار خلافت سے نصیب ہوا ہے اس کے کیا ہی کہنے۔ الحمد للہ

ایک مثالی وجود

طالع کی وفات کے بعد اس کے ایک قریبی دوست نے مجھے بتایا کہ طالع کو اپنےسکول اور پھر کالج کے ابتدائی دَور میں سارے طالب علموں میں سے بطور نگران کلاس بھی چنا گیا تھا۔

طالع نے اپنے اس دوست کوبتایا کہ وہ سکول اور کالج میں طالب علموں میں سے Head boyبننا چاہتا تھا کیونکہ خاکسار (راقم ڈائری) بھی طالع سے چند سال قبل اپنے زمانہ طالب علمی میں اسی سکول اور اسی کالج بطور Head boyمنتخب کیا گیا تھا۔

اس دوست نے بتایا کہ طالع کہا کرتا تھا میں نے سکول اور کالج کے ادوار میں تو اپنے رول ماڈل کی طرح ساتھی طالب علموں کا نگران بننے میں کامیاب ہوگیا ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں زندگی کے اگلے مرحلوں میں بھی اپنے رول ماڈل جیسا بن پاؤں گا۔ میرا خیال ہے کہ طالع مجھے گذشتہ چند برسوں سے خلافت احمدیہ کی قربت میں رہنے اور ایک خادم کے طور پر کام کرتا دیکھ کر رشک کیا کرتا تھا۔

مجھے اندازہ ہے کہ طالع مجھے بعض لحاظ سے اپنا رول ماڈل سمجھتا تھا لیکن جس شان سے وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا ہے وہ مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کے لیے رول ماڈل بن گیا ہے۔

کیونکہ اب جب بھی میں اپنے بچوں کی راہ نمائی کرتا ہوں تو ان کو کہتا ہوں کہ آپ لوگ میری طرح نہیں بلکہ طالع کی طرح زندگی گزارو، جو بہادر بھی تھا اور خلافت کا وفادار بھی اور اپنی آخری سانس تک اسلام احمدیت کی خدمت میں وقف رہا۔

شہید کے بارے میں ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی ڈاکیومنٹری میں خاکسار نے تاسف کا اظہار کیا تھا کہ زندگی میں مختلف مواقع پر کام کے سلسلے میں خاکسار اس سے کسی قدر سختی سے پیش آتا رہا۔ یہاں تک کہ جلسہ سالانہ انگلستان سے چند روز قبل بھی ایک کام کے معاملے میں طالع سے سخت لہجے میں بات کی تھی لیکن یہ اس عاجز انسان کا ہی حوصلہ اورظرف تھا کہ اس کے کبھی کینہ اور منفی خیالات کو دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی بلکہ ایک دو دن میں ہی ایسے رابطہ کرتا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

اب روزانہ ہی کسی نہ کسی بات پر ،کسی نہ کسی معاملے پر مجھے طالع یاد آتا ہے، گو غم اور صدمہ بھی موجود ہے مگر مجھے اس پر فخربھی ہے اور میرا دل اس یقین سے بھرا ہے کہ وہ جنت الفردوس میں خدا تعالیٰ کے نعمتوں کے سائے میں ہوگا۔ ان شاء اللہ العزیز

حضور انور کی قربت میں چند قیمتی لمحات

طالع کی تدفین کے بعد میں اسلام آباد چلا آیا، اور میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ملاقات کے لیے اپنے باقاعدہ نوٹس تیار کرپاتالیکن میں نے ارادہ کیا کہ جلدی جلدی کوشش کرکے کم از کم کچھ تھوڑی بہت تیاری کرکے اندر ملاقات کے لیے حاضر ہوں خواہ چند منٹ لیٹ بھی ہوجاؤں ۔

لیکن میں جیسے ہی اسلام آباد کے احاطہ کے اندر داخل ہوا تو مجھے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا کہ اگر میں اسلام آباد پہنچ گیا ہوں تو فوراً ملاقات کے لیے حاضر ہوجاؤں۔

جیسے ہی مَیں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں داخل ہوا مکرم منیر احمد جاوید صاحب نے حضور کی خدمت میں اطلاع دی کہ خاکسار حاضر ہوگیا ہے اور حضورنے مجھے فوراًاپنے دفتر کے اندر بلالیا۔

میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو حضور نے فرمایا: ’’مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم آج آسکوگے۔ میرا خیال تھا کہ تم ابھی قبرستان میں ہی ہوگے۔‘‘

میں نے جواباً عرض کیا کہ ’’حضور ! آج میرے پاس کوئی نوٹس نہیں ہیں نہ پیش کرنے کو کوئی رپورٹ ۔ میں تو بس آپ کو جزاکم اللہ کہنے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’جزاک اللہ کس بات کا؟‘‘

میں نے عرض کی کہ ’’ہرچیز پر جزاکم اللہ۔ہم آپ کی آج سمیت گذشتہ سب شفقتوں پر ممنون ہیں۔ جس طرح حضور نے طالع کا ذکر خیر فرمایا۔ پھر حضورتدفین کے لیے بھی تشریف لائے۔آپ کی یہ شفقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی۔میں نے آج تدفین کے موقع پر اپنی بہن اور بہنوئی (شہیدمرحوم کے والدین) کو مسکراتے ہوئے، خوش اور مطمئن دیکھا، ہمارے خاندان کو بجائے تعزیت کے جملوں کے مبارک باد کے پیغام زیادہ ملتے رہے۔‘‘

آج چونکہ میرے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی بھی دفتری امور نہ تھے لیکن پھر بھی حضور نے اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور یوں میں قریباً ایک گھنٹہ حضور کی قربت کا فیض پاتا رہا اور حضور اپنے کام میں مصروف رہے۔

دراصل حضوربھی جنازہ اور تدفین کے تمام مراحل بخیر وخوبی مکمل ہونے پر مطمئن نظر آئے۔

میں نے حضور کے طالع کے بارے میں خطبہ جمعہ کے بعض نکات کا ذکر کیا اور میں نے غور کیا کہ حضورکس قدر احتیاط اور توجہ سے غمزدہ لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنے والے ہیں۔

پھر حضور نے طالع کے بہن بھائیوں کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’میری خواہش تھی کہ طالع کے تمام قریبی عزیزوں کے بھیجے گئے خطوط کا کچھ حصہ ضرور ذکر کردوں لیکن عادل کے خط کا ذکر نہ ہوسکا، امید ہے کہ وہ برا نہیں مانےگا۔اسی طرح میں نے ندرت کا نام لےکر ذکر کیا اور نورسحر کانام رہ گیا امید ہے کہ وہ بھی ناراض نہیں ہوگی۔‘‘

پھر حضور نے خطبہ جمعہ کے ایک دوسرے حصہ کے ذکر میں فرمایا: ’’اس خطبہ جمعہ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ کسی نیک انسان کے خاندان کافرد ہونے یا جسمانی رشتہ داری سے کوئی مقام نہیں ملتا۔اب یہ افراد خاندان پہ منحصر ہے کہ کس حد تک وہ اس نمونے پرعمل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے منسوب ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔‘‘

پھر حضور نے پوچھا کہ ’’تمہارا کیا خیال ہے۔ تمہیں لگتا ہے کہ وہ میرے پیغام سے نصیحت حاصل کریں گے؟‘‘

میں نے عرض کی کہ ’’حضور! ان شاء اللہ مثبت اور نیک اثر ہوگا اور حضور انور کی اس نصیحت کی شدید ضرورت بھی تھی‘‘

میری بات سن کر حضور نے فرمایا: ’’اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ایک پاکیزہ اور مثبت اثر پیدا ہوجو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے لیے راہ نمائی کا باعث بنے۔‘‘

آپ نے مزید فرمایا: ’’اسی طرح میرے خطبہ جمعہ میں جماعت کی طرف سے مختلف جگہوں پر متعین سب مربیان اور واقفین زندگی کے لیے بھی ایک پیغام تھا۔میں نے طالع کی مثال دی کہ اس نے کس طرح خلیفہ وقت کی تمام ہدایات کو اپنے لیے سمجھاخواہ وہ ہدایات اسے براہ راست مخاطب کر کےنہیں بھی دی گئیں۔تمام مربیان اور واقفین زندگی کو اس معیار تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

میں نے ذکر کیا کہ تدفین کے موقع پر آپ نے طالع کے والد بھائی ہاشم کو بڑی محبت سے بازو سے پکڑا اور انہیں ایک شعر بھی سنایا تھا۔

حضور نے فرمایا: ’’تم نے سن لیا تھا؟‘‘

میں نے عرض کی کہ ’’جی حضور، لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔‘‘

اس پر حضور نے فرمایا کہ یہ ایک مشہور شاعر کا کلام ہے۔

زندگی انساں کی ہے مانندِمرغ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا، کوئی دم چہچہایا، اُڑ گیا

مجھے کچھ کچھ تو سمجھ آئی لیکن حضور دیکھ رہے تھے کہ مجھے اس کلام کی پوری طرح سمجھ نہیں آرہی ہے۔

اس پر حضور نے از راہ شفقت مجھے ان اشعار کا مفہوم اور مطلب سمجھایا۔

رات سجدوں میں اپنے ربّ کے حضور

دوبارہ خطبہ جمعہ کے ذکر میں حضور نے فرمایا: ’’چند ایک مواقع ایسے آئے جہاں مجھے اپنے جذبات کو قابو کرنا پڑا۔ میری آواز بھی کچھ بھرّا گئی تھی لیکن میں نے خود کو سنبھال لیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم نے یہ محسوس کیا تھا یا نہیں البتہ منصور(حضور کےنواسے) کو پتہ چل گیا تھا۔‘‘

میں نے عرض کی کہ مجھے تو بس ایک موقع پرایسا کچھ محسوس ہوا تھا لیکن اگلے لمحے ہی حضور کی آواز اور انداز واپس پہلے جیسا ہوچکا تھا ۔

حضور کا اس کے بعد فرمایا ہوا غیر معمولی جملہ جہاں طالع کے لیے حضورکی شفقت اورمحبت پر گواہی دے رہا ہے وہاں حضور کے اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص تعلق اوراس کی محبت کے بے مثال معیار کا آئینہ دار تھا۔ فرمایا: ’’میں نے تو خطبہ جمعہ سے پہلے ہی (طالع کے بارے میں )اپنے ربّ کے سامنےدل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کر لیا تھا۔ اور یہی میرا طریق ہے۔‘‘

تب میں حضورکے انتخاب خلافت سے قبل اور بعد کی زندگی میں آنے والے مختلف دکھوں اور غموں کے بارے میں سوچنے لگا کہ حضور کا ضبط کا قلعہ کس قدر مضبوط اوراونچاہے۔ اےخدا! ترے اس بندے کا اصل حال تو ہمیشہ ہی اہل دنیا سے کس قدر اوجھل رہتا ہےاور اس کے دل پر جو گزرتی ہے وہ جاننے والا فقط تو ہے۔اور جیسا کہ حضور فرماچکے، آپ کا طرزعمل ہی یہی ہے کہ

رات سجدوں میں اپنے رب کے حضور

سب کے غم میں بھی آپ روتے ہیں

دراصل حضور کا خدا تعالیٰ پرپختہ توکل اور اس سے مضبوط ترین تعلق ہی اس قدر بلندو بالا ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی سب مشکلات اور ہم و غم بالکل ہیچ ہوجاتے ہیں۔

میری اس ملاقات کے چندروز بعد ناصرات الاحمدیہ کی ایک آن لائن کلاس کے دوران حضور سے یہی سوال کیا گیا کہ آپ زندگی میں پیش آمدہ مشکلات کا کوئی واقعہ سنا دیں تو آپ نے فرمایا: ’’اگر میں گننے بیٹھ جاؤں کہ میں نے زندگی میں فلاں فلاں مشکلات برداشت کی ہیں اس طرح تو پھر میں نے وقف کی روح کو سمجھا ہی نہیں ہے۔اس لیے میں مشکلات کا نہیں بتاسکتا ہوں کیونکہ میں نے کوئی مشکل دیکھی ہی نہیں ۔ میں نے تو ہمیشہ اللہ کا فضل ہی خود پر اترتا دیکھا ہے۔‘‘

اسی ملاقات کے بعد مجھے ملاقات میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو میں نےعرض کیا کہ ’’حضور اتنے برسوں سے خاکسار کو آپ کے پاس ملاقات کے لیے حاضر ہونے کا موقع مل رہا ہے ابھی تک میں آپ کی عاجزی اور صبر کے نئے سے نئے انداز ہی دیکھ رہا ہوں۔ مثلاً آج ہی آپ نے فرمایا کہ میں نے تو کبھی کوئی مشکلات نہیں دیکھی ہیں ۔ لیکن اگر کوئی ذرا بھی غور کرے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ انتخاب خلافت سے قبل بھی اور بعد میں بھی آپ نے بہت سی مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ مثلاً آپ افریقہ کے دور درازعلاقوں میں رہے ہیں۔ پاکستان میں آپ کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات میں پابند سلاسل رکھا گیا۔ اور انتخاب خلافت کے بعد طرح طرح کے غم اور صدمے آتے رہے۔ آپ ساری دنیا کے بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی مشکل نہیں دیکھی ہے۔‘‘

میری بات سن کر حضورمسکرائے اور وہی اظہار فرمایا جو قبل ازیں کلاس میں فرماچکے تھے۔فرمایا: ’’میں نے تو اللہ کے فضل ہی دیکھے ہیں۔‘‘

آج کی ملاقات میں اس کے بعد حضور نے اپنی گھڑی پر نگاہ ڈالی اور فرمایا: ’’آج میں نے تمہیں ایک گھنٹہ اپنے پاس روکے رکھااور تمہارے تاثرات سنتا رہا تا میرے کام کے دوران تم میرے پاس رہو۔ اچھا اب تمہیں جانا چاہیے کیونکہ تمہارے گھر والے تمہارا انتظار کررہے ہوںگے۔‘‘

حضور کے ان دلچسپ الفاظ نے مجھے شدید متاثر کیا اورمیرے دل میں جذبات کا ایک سیلاب امڈ آیا۔

مجھے اچھی طرح سمجھ ہے کہ میری موجودگی یا معیت کی حضور کو کبھی بھی کیا ضرورت ہوگی۔ دراصل یہ حضور کی ہی شفقت تھی کہ حضورنے خیال کیا کہ اس گھڑی ایک غلام کو اپنے آقا کی قربت کی حاجت ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button