حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہائر ایجوکیشن حاصل کرنے والی جرمنی کی طالبات سے (آن لائن) ملاقات

وقف کرنے کی اگر خواہش ہے ماں باپ کی۔ تو دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے، agreeکرنا ضروری ہے تبھی صحیح تربیت ہو سکتی ہے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے28؍نومبر 2021ء کو طالبات لجنہ اماء اللہ جرمنی سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضور انور نے اس ملاقات کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے فرمائی جبکہ 400 ہائر ایجوکیشن طالبات نے اس آن لائن ملاقات میں بیت السبوح کمپلیکس فرنکفرٹ (نیشنل ہیڈ کوارٹرز جماعت احمدیہ جرمنی) سے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا ، جس کے بعد طالبات کو حضور انور سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کے بارے میں سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ کیا کسی انسان یا جاندار کی تصویر ہاتھ سے بنانا جائز ہے یا نہیں؟

حضور انور نے فرمایاکہ ہمارا فقہ یہی ہے کہ جائز نہیں ہے کیونکہ وہ impression ایکسپریشن چہرے کے سارے تاثرات وہ انسان ہاتھ کے sketch سےدے ہی نہیں سکتا۔ کیمرے سے تصویر کھینچنا بالکل اَور چیز ہے اس میں ہر چیز آجاتی ہے۔ اس لیے بعض دفعہ بعض بچے بعض مائیں بڑے فخر سے لے کے آتی ہیں دیکھو جی آپ کی یا اپنی اس بچے نے بڑی تصویر بنائی ہے اور کتنا اچھا خوبصورت sketch بنایا ہے۔ مَیں کہتا ہوں یہ غلط چیز ہے اس کو پھاڑ دو میری تصویر کبھی نہ بنانا۔ بلکہ میں تو discourageکرتا ہوں بچوں کو ایسی چیزوں سے اس لیے ہاتھ سے بنانا بالکل غلط چیز ہے اور نہیں بنانی چاہیے۔ کیمرے کی تصویر بالکل اَور چیز ہے اور وہ بھی ایک بامقصد کسی مقصد کے لیے ہونی چاہیے بعض دفعہ تو بعض پیاروں کے اظہار کے لیے لوگ اپنے لیے تصویر کھنچوا لیتے ہیں پاسپورٹ کے لیے ویزہ کے لیے Identity card کے لیے یہ چیزیں ہوتی ہیں، مجبوری ہے آج کل کے زمانے میں۔ بہت ساری Identitiesکے لیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تو اپنی تصویر کھنچوائی ہے اس مقصد کے لئے کہ لوگ بعض دفعہ پہچانتے ہیں، شکل سے پہچان لیتے ہیں، دیکھ لیتے ہیں، ان میں اتنی زیادہ قیافہ شناسی ہوتی ہے آبزرویشن (observation)ان کی ایسی اچھی ہوتی ہے کہ وہ دیکھ لیتے ہیں کہ یہ شخص نیک ہے یا کون ہے۔ تو اس سے پھر ان پہ نیک اثر ہوتا ہے اور تبلیغ کا رستہ کھلتا ہے تو یہ مقصد تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی تصویر کھنچوانے کا اور یہی خلفاء کے لیے مقصد ہونا چاہیے۔ نہ صرف یہ کہ صرف سجاوٹ کے لیے رکھ لی جائے یا بعض لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں لگا لیتے ہیں کہ جی غیر لوگ آتے ہیں ان کے لیے تبلیغ کے رستے کھل جائیں۔ کوئی پوچھتے ہیں اچھا یہ کس کی تصویر ہے کون ہے پھرآہستہ آہستہ بات آگے چلتی ہے۔ تو نیک مقصد جو ہو اس کے لیے تصویر کھنچوانا بھی جائز ہے۔ بلا وجہ کسی بزرگ کی تصویر کھینچ لینا کہ یہ بزرگ ہے اور ہمارے گھر میں اس کی تصویر لگی ہوئی ہے اس سے ہمارے گھر میں برکت پڑ جائے گی یا یہ ہو جائے گا وہ غلط چیز ہے۔ برکت ہوتی ہے عمل سے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پہ عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے اللہ کے رسول کے حکموں پر عمل کرنے سے۔ نیک اعمال بجا لانے سے۔ عبادت کا حق اداکرنے سے۔ تب گھروں میں برکت پڑتی ہے۔ یہی حکم ہے حدیث میں بھی آیا ہوا ہے۔ اس لیے اس برکت کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے باقی جہاں تک یہ سوال ہے ہاتھ سے sketch بنانا یہ چیز غلط ہے نہیں بنانا چاہیے۔ ہاں کسی جانور کا ویسے sketch بنا دیا ۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن انسانوں کا بہرحال نہیں بنانا چاہیے۔

ایک اَور ممبر لجنہ نے پوچھا کہ بسا اوقات بچوں کی تربیت کے معاملے میں والدین کے خیالات نہیں ملتے مثلاً اگر والدہ اپنے بچے کو وقف کرنا چاہتی ہے اور والد نہیں یا والد چاہتے ہیں اور والدہ نہیں تو ایسی صورت میں کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟

حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اگر وقف نو میں پیش کرنا ہے تو دونوں کا آپس میں agree ہونا ضروری ہے۔ نہیں تو پھر وہ گھر میں چخ چخ پخ پخ رہے گی اور صحیح طرح بچے کی تربیت بھی نہیں ہو سکے گی ۔ اور پھر اگر ماں کی یہ شدید خواہش ہے کہ بچہ وقف ہو یا باپ کی خواہش ہے کہ بچہ وقف ہو تو پھر ان کی ایسی تربیت کریں کہ بچہ بڑا ہو کے خود وقف کرے۔ صرف وقف نو کا ٹائٹل لے کے شامل ہوجانا اور کہہ دینا کہ جی ہم وقف نو میں شامل ہیں اور پھر یہ کہ پڑھائی میں توجہ نہ دینا، نمازوں کی طرف توجہ نہ دینا، عبادتوں کی طرف توجہ نہ دینا، دینی علم سیکھنے کی طرف توجہ نہ دینا، باہر پھرتے رہنا آوارہ گردی کرتے رہنا، ایسے لڑکوں کو دوست بنانا یا لڑکیوں کو دوست بنانا جن کے اخلاق اچھے نہیں ہوتے جن کو دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا توپھر ایسے وقف نو کا فائدہ کیا ۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ وقف کرنے کی اگر خواہش ہے ماں باپ کی۔ تو دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے، agreeکرنا ضروری ہے تبھی صحیح تربیت ہو سکتی ہے۔ پھر جب وقف کر دیا تو پھر دونوں کا فرض بنتا ہے کہ اس کی تربیت بھی اس طرح کریں کہ اچھی اٹھان کریں۔ یہ نہیں کہ ہم نے وقف کر دیا اب جماعت کا کام ہے اس کو سنبھالے اور ان کی تربیت کرے۔ نہیں۔ بلکہ ماں باپ کا بھی کام ہے کیونکہ اکثر وقت تو بچہ گھر میں رہتا ہے۔ تو ماں باپ بچپن سے اس کی صحیح تربیت کریں گے تو باہر آکے اجلاسات میں یا جماعتی پروگرام میں وہ حصہ لے کے صحیح تربیت کرنے کی کوشش کرے گا۔ پھر سکولوں میں بھی اس کی توجہ ماں باپ کی طرف رہے گی۔ ماں باپ کی اس کی طرف توجہ رہے گی تو پھر نگرانی بھی رہے گی۔ تو پہلی چیز تو یہی ہے کہ وقف کیا تو پھر تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دو اور اگر نہیں agreeکرتے دونوں ماں باپ تو پھر جس کی خواہش ہے کہ وقف ہو میرا بچہ اس کی پھر تربیت ایسی کریں کہ وہ بچہ ایک ایسا خوبصورت پھول بن کے نکلے۔ خوشبو دار چیز ہو ایک فائدہ مند چیز ہو ایک ایسا asset ہو جماعت کے لیے جو فائدہ مند ہو تو جب بڑا ہو تو وہ کسی قابل بن کے خودوقف کرے بچہ یا بچی۔

ایک اَور لجنہ ممبر نے عرض کی کہ بعض دفعہ لوگ ارادتاً یا بلا ارادہ دوسروں کی اخلاقی برائیوں کا ذکر کرتے ہیں جس سے جس کی برائی کی جارہی ہوتی ہے اس کی دل شکنی ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے حضور انور سے راہنمائی کی درخواست ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر ایک لڑکا یا لڑکی یا مرد یا عورت کسی کی دل شکنی کا باعث بنتے ہیں اور ان کی نیت یہ نہیں کہ دل شکنی اس کی ہو بلکہ وہ ایک عمومی بات کر رہے ہوتے ہیں بعض برائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اتفاق سے وہ برائی اس شخص میں یا اس لڑکی میں اس لڑکے میں موجود ہے۔ وہ سمجھتی ہے میری اس برائی کو اجاگر کرنے کے لیے highlight کرنے کے لیے نشان دہی کرنے کے لیے میرے پر ٹانٹ (taunt)کیا گیا ہے اور اگر وہ عہدیدار ہے اس نے تقریر میں لجنہ کی صدر نے یا لجنہ کے کسی عہدیدار نے اپنی تقریر میں اپنے اجلاس میں ایسی کوئی حدیث پڑھ دی اور اس کے اوپر explainکر دیا تو وہ جو ایسی لڑکیاں یا عورتیں ہیں لجنہ میں جن میں وہ برائیاں پائی جاتی ہیں تو وہ کہیں گی دیکھو ہمارے اوپر ڈائریکٹ انہوں نے طنز کیا ہے اس لیے ہم آئیں گے ہی نہیں۔ تو یہ چیز غلط ہے۔ کہنے والے کی نیت یہ نہیں تھی۔ اگر کہنے والے کی نیت بد ہو تو اللہ تعالیٰ جو ہے اس کی بدنیت کا اس کو سزا دے دیتا ہے یا پکڑے گا جو بھی اللہ تعالیٰ کا طریق ہو گا یا معاف کرے گا جو بھی ہے لیکن جس نے سنا ہے اس کو بدظنی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی بدظنی ہے اور بدظنی سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ کیوں دل میں خیال آیا کہ اس نے صرف میرے لیے کہا ہے۔ ہاں اگر point outکر کے نام لے کے اور پکی بات ثابت ہو جائے کہ ہاںاسی کو کہا ہے تب بھی انسان کو چاہیے انسان غلطیوں کا پتلا ہے کہ ہاں اگر میرے میں یہ غلطی ہے تو میں اس کو دورکرنے کی کوشش کروں۔ اگر میرے بارے میں directlyبھی کہا گیا ہے اور میرے میں اگر یہ غلطی ہے تو میں اس کو دور کروں نہ کہ دین سے ہٹ جاؤں۔ دین کو سمجھا یا جانا یا ایک احمدی نے احمدیت قبول کی یا احمدیت پر قائم ہے یا اسلام پر قائم ہے تو وہ اس عہدیدار کی وجہ سے یا عورت کی وجہ سے یا مرد کی وجہ سے نہیں قائم۔ دین ہے دل کا معاملہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارا دین جو ہے وہ تمہارے دل کا معاملہ ہے تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہیے۔ یہ بھی ہم عہد کرتے ہیں یہی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھایا آ کے۔ تو اگر ہمارے دل کا معاملہ ہے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے تو پھر ان دنیاوی باتوں کو سن کے یا کسی اجلاس میں کسی عہدیدار کو سن کے اگر وہ دنیا دار بھی ہے وہی عہدیدار یا کہنے والا خود جس بات کو کہہ رہا ہے وہ برائی اس میں بھی موجود ہے تو تب بھی اس کا گناہ اس کے سر ہے لیکن اگر سننے والا اس کی وجہ سے دین کو چھوڑتا ہے یا جماعت سے پیچھے ہٹتا ہے یا اجلاسوں سے دور ہٹ جاتا ہے تو وہ خود بھی گناہگار بن جاتا ہے۔ جو کہنے والاہے وہ تو گناہگار بنا ہی لیکن سننے والا دین سے ہٹ کے اپنے آپ کو بھی گناہگار بنا لیتا ہے اس لیے وسعت حوصلہ ہونی چاہیے سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے اس لیے کہتے ہیں کہ اپنے دلوں کو وسیع کرو وسعت پیدا کرو خود انسان اپنا جائزہ لے اپنے نفس کا انسان خود جائزہ لے اگر انسان ایک صحیح مومن ہے صحیح مومنہ ہے ایمان مضبوط ہے تو وہ ہر وقت اپنے نفس کا خود جائزہ لیتا رہتا ہے میرے اندر کون کون سی برائیاں ہیں کیا یہ برائی میرے اندر ہے کیا یہ برائی میرے اندر ہے۔ اگر ہے تو میں نے اس کو دور کرنا ہے اور کس طرح دور کرنا ہے، اگرکوئی مجھے توجہ دلا دے تو میں نے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اگر کوئی نام لے کے کسی کی مجلس میں برائی کرتا ہے تو وہ مناسب نہیں ہے اس عہدیدار کو اس سے جو بڑا عہدیدار ہے اس کے ذریعہ سے توجہ دلوانی چاہیے کہ اس نے اس طرح کی حرکت کی ہے کسی کو مجلس میں disgraceکرنا بے عزت کرنا جائز نہیں ہے نام لے کے کہنا لیکن ایک جنرل بات غلطیوں کی طرف نشاندہی کر دینا اس میں کوئی حرج نہیں ہے اسی سے برائیاں دور ہوتی ہیں. اب میں اپنے خطبات میں بہت ساری باتیں کہتا ہوں تو پوری جماعت میں مجھے پتہ ہے کہ یہ یہ برائیاں پائی جاتی ہیں تبھی میں ان کو ایک جنرل صورت میں بیان کر دیتا ہوں۔ تو کیا ساری جماعت اب ناراض ہو کے جماعت چھوڑ دے گی ۔نہیں چھوڑے گی۔ اسی طرح عہدیداران ہیں عہدیدارات ہیں ان کو ایک تو یہ کہ نام نہیں لینا چاہیے اور اگر نام لیے بغیر ایک جنرل برائی دیکھ کے اپنے ماحول کو صاف کرنے کے لیے وہ بات کرتی ہیں تو سننے والے کو وسعت حوصلہ دکھاتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے لیکن سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ جو کہنے والا ہے وہ خود اپنے نفس کو بھی دیکھے کیا اس کا نفس ان برائیوں سے پاک ہے۔ کیا اس میں یہ برائی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ایسی بات نہ کہو جو تم خود کرتے نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ جو تم خود نہیں کہتے دوسروں کو کہو۔ تو دونوں طرف کا اصول دیکھنا پڑے گا۔ کہنے والا بھی نیک نیتی سے بات کرے اور اپنے نفس کا جائزہ لے کے بات کرے اور اصلاح کی خاطر بات کرےناں کہ کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے اور سننے والا وسعت حوصلہ سے کام لے اور اگر اس میں برائی ہے تو اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اس برائی کا خیال بھی کبھی آیا تو تب بھی اصلاح کی کوشش کرے اور اگر نہیں ہے تو ہمیشہ یہ عہد کرے پھر کہ میں ایسی برائیوں سے بچوں گی۔ ٹھیک ہے ناں سمجھ آ گئی۔ اس لیے پریشان نہ ہونا عہدیداروں کی باتوں سے۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ وہ بچے جن پر گھروں میں ظلم ہوتا ہے اور حکومت ان بچوں کو ماں باپ سے الگ گھروں میں بھیج دیتی ہے تو اسلامی تعلیم اس بارے میں کیا کہتی ہے اور کیا جماعت کو بھی ایسے چلڈرن ہومز (children homes)بنانے چاہئیں؟

حضور انور نے فرمایا بات یہ ہے کہ جن بچوں پہ ظلم ہوتا ہے وہ ماں باپ ظالم ہیں اور حکومت کا اپنا قانون ہے یا قاعدہ ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ ظلم ہو رہا ہے تو حکومت ان کو لے جائے گی اس پہ ہم تو کچھ نہیں کر سکتے ہمارے پاس تو حکومت نہیں ہے۔ ہم تو شہری ہیں اور جب ہم شہری ہیں کسی ملک کے تو اس ملک کے قانون پہ ہم نے عمل کرنا ہے۔ پہلی بات تو یہ قصور ماں باپ کا ہے کہ ماں باپ ظلم کیوں کرتے ہیں۔ وہ گناہگار ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی جواب دہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو بچے دیے، ایک نعمت دی، ایک انعام دیا اس کی ان کو صحیح طرح پرورش کرنی چاہیے، نگہداشت کرنی چاہیے، ان کو پیار سے محبت سے تربیت کرنی چاہیے، اور میں اپنے خطبات میں تقریروں میں کئی جگہ ایسی باتیں کہہ چکا ہوں۔ اگر آپ لوگ سنیں تو پتہ لگے کہ بچوں کی تربیت کس طرح کرنی ہے۔ میں کئی دفعہ اس بارے میں بیان کر چکا ہوں کہ بچوں سے دوستی کریں، ان سے دوستانہ تعلقات رکھیں ان کی باتوں کو برداشت کریں ان کے سوالوں کے جواب دیں اور ان پہ کسی بھی قسم کا ظلم نہ کریں کیونکہ بچے بگڑ جائیں گے اس ماحول میں آج کل کے ماحول میں جبکہ آزادی آزادی کا بہت زیادہ نعرہ لگایا جاتا ہے بچوں کو بھی غلط طریقے سے سکولوں میں اور ماحول میں آزادی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو بعض تو جائز آزادی کے حق ہیں بعض ناجائز بھی ہیں۔ اس لیے ایسے ماحول میں تو پھر ماں باپ کو بہت پھونک پھونک کے قدم اٹھانا چاہیے اور جو ماں باپ بچوں پہ ظلم کرتے ہیں ان کو اگر جماعت کے بس میں ہو تو سزا بھی ضرور دے۔ اگر میرے بس میں ہو ناں میں تو سزا بھی دوں۔ باقی رہ گئی حکومت لے جاتی ہے سوشل سروس والے لے جاتے ہیں سوشل سینٹر میں رکھ لیتے ہیں وہاں بھی ماں باپ کو پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب یہ لے جائیں گے حکومت تو پھر ان کو اس سے کوئی پرواہ نہیں کہ آپ مسلمان ہیں کہ احمدی ہیں احمدی مسلمان ہیں یا دوسرے مسلمان ہیں یا عیسائی ہیں یا یہودی ہیں یا ہندو ہیں کیا ہیں۔ انہوں نے تو وہاں رکھنا ہے سینٹر میں اور اپنی تعلیم دینی ہے اور تعلیم یہ دینی ہے کہ آج کل اس بات پہ زیادہ زور ہے کہ خدا ہے ہی کوئی نہیں۔ مذہب کوئی چیز نہیں ہے تم آزاد ہو تم جومرضی کرو۔ یہ اتنا ان کے دماغوں میں ڈالا جاتا ہے کہ بچے جب سوشل سینٹر سے باہر نکلتے ہیں اگر زیادہ لمبا عرصہ رہیں تو وہ atheist بنے ہوتے ہیں۔ خدا پہ یقین ہی نہیں ہوتا ان کو۔ تو یہ تو ماں باپ کے سوچنے والی بات ہے کہ ایک طرف تو ان ملکوں میں آئے کہ ہمارے بچے پڑھ لکھ جائیں، ہم ترقی کر جائیں، ہماری مذہبی آزادی ہمیں مل جائے اور کوئی اچھے شہری بن کے قوم کا ایک فعال حصہ کارآمد حصہ بن جائیں۔ دوسری طرف ان کی تربیت کرنے میں بالکل بے احتیاطی سے کام لے رہے ہیں اور پھر جب ماں باپ دیکھتے ہیں کہ یہ سوشل سروس والے لے گئے اور وہ اپنی مرضی سے بچوں کو ڈھال رہے ہیں پھر شور مچاتے ہیں کہ او جی یہ کر دیا سوشل سروس والوں نے وہ کر دیا۔ سوشل سروس والوںکا قصور نہیں یہ ماں باپ کا قصور ہے۔ انہوں نے تو اپنے مطابق جو قانون ہے قاعدہ ہے ان کے ملک کا اس کے مطابق انہوں نے جو کرنا ہے وہ کر رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ بچے ان کے تو نہیں ہیں۔ کہنے کو تو وہ اس درد میں لے کے گئے کہ ماں باپ نے بچوں پر ظلم کیا لیکن تربیت کے لحاظ سے ان میں وہ درد نہیں ہے جو ماں باپ میں اپنے بچے کے لیے ہو سکتا ہے۔ ماں کو اپنے بچے کے لیے جو درد ہے دل میں یا باپ کو بھی اگر ہے سوائے، الا ماشاء اللہ کہ بالکل کوئی بدبخت باپ ہو تو اس کو یا ماں ایسی ہو عموماً ان کے دل میں بچوں کے لیے زیادہ درد ہوتا ہے۔ بعض دفعہ وہ تربیت کے رنگ میں بھی بچے پر زیادہ سختی کر دیتے ہیں اور بچہ ماحول کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ میرے پہ سختی ہوئی اور مجھ پر ظلم ہوا اور وہ اپنے سکول میں سٹوڈنٹ سے ذکر کر دیتا ہے یا ٹیچر سے ذکر کر دیتا ہے پھر ٹیچر یا سٹوڈنٹ سوشل سروس والوں کو involve کر لیتے ہیں سوشل سروس والے اس کو observeکرتے ہیں کچھ دیر اور اگر بچہ کہے کہ ہاں ہاں میرے پہ ظلم ہو رہا ہے تو اس کو لے بھی جاتے ہیں۔ بعض نفسیاتی طور پہ ایسے بچے ہوتے ہیں جو نفسیاتی طور پہ بیمار ہوتے ہیں یا پوری طرح سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اور آج کل ان کا تو ماحول ہی یہی ہے کہ خاص طور پر مسلمانوں کے بچوں کو تو جتنی جلدی ان کے ماحول سے نکال کے اسلامی ماحول سے نکال کے دینی ماحول سے نکال کے دنیاوی ماحول میں ڈالا جائے اتنا بہتر ہے کہ یہی آج کل کی ترقی کی نشانی بتائی جاتی ہے۔ یہ کہنا ہو کہ قوم ترقی کر رہی ہے سمجھتے ہیں کہ قوم ترقی اسی طرح کرے گی کہ مذہب سے دور لے جاؤ۔ تو جماعتی موقف تو یہی ہے کہ ماں باپ اپنی اصلاح کریں نہیں تو سوشل سروس والے لے جائیں گے اور پھر جو وہ ظلم کریں گے دین سے دور ہٹانے کا اس ظلم کے ذمہ دار ماں باپ ہوں گے اور قصور وار ہوں گے اور گناہگار ہوں گے۔ اور جہاں گنجائش ہو جماعت کو وہاں مدد کرنی چاہیے۔ اب جرمنی میں ہی آپ نے بنائی ہے ‘‘النصرت’’ تنظیم۔ وہ پتہ نہیں کہاں تک کام کرتی ہے اس کا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ بچوں کے کیئر ہوم کھولے چلڈرن ہوم کھولے اور وہاں ایسے بچوں کو رکھے تا کہ وہاں دینی ماحول بھی رہے، تربیت بھی رہے اور ایک درد کے ساتھ ان کی دینی تربیت بھی کی جائے دنیاوی تربیت بھی کی جائے ان کا خیال بھی رکھا جائے اور پھر جب ماں باپ کی اصلاح ہو جائے تو ان کے سپرد کر دیے جائیں۔ اگر یہ گورنمنٹ سے منظور شدہ ہوں گے تو پھر کر سکتے ہیں نہیں تو گورنمنٹ کے جو اپنے ادارے ہیں وہ لے جائیں گے۔ تو یہ ملکی قانون کیا ہے یہ تو مجھے زیادہ نہیں پتہ آپ کے ملک میں کیا قانون ہے لیکن اگر کھل سکتے ہیں کھلنے کی گنجائش ہو privatelyتو ضرور کھولنا چاہیے جماعت کو بھی۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ اکثر انسان کسی صورتحال کو لے کر بہت زیادہ سوچ بچار میں پڑ جاتا ہے اور بہت نمازیں پڑھنے اور ذکر الٰہی کرنے کے باوجود اس کے دل میں بار بار ایک خیال یا خواہش ہوتی ہے۔ مثلاً ایک اچھے جیون ساتھی کے لیے دعا کرتے وقت اگر انسان کے دل میں کچھ خواہشات بار بار آتی ہیں تو ایسے میں انسان کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی کوئی خواہش یا خیال اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کے دل میں ڈالا گیا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک بڑا موٹا اصول بتا دیا specific کیس کو لے کے particularکیس کو لے کے جو آپ بیان کر رہی ہیں جیون ساتھی کی بات ہے کہ ہمیں کہہ دیا کہ جب انسان رشتہ تلاش کرتا ہے تو اس کی تین چار وجوہات ہوتی ہیں یا کسی اچھے خاندان کی لڑکی یا لڑکے کو دیکھا جاتا ہے یا دولتمند فیملی کو لڑکی یا لڑکے کو دیکھا جاتا ہے پیسے والی۔ یا مرد اگر دیکھ رہا ہے تو خوبصورت لڑکی کو دیکھتا ہے عورت بھی اگر دیکھتی ہے تو کسی اچھے سمارٹ لڑکے کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی آج کل کے ماحول میں دیکھا جاتا ہے ناں۔ یہ تین باتیں ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تین باتیں تو دنیاداری والی باتیں ہیں تم نے جو دیکھنا ہے وہ یہ دیکھنا ہے کہ دین۔ مردجو ہے وہ اپنا رشتہ تلاش کرے تو دین دیکھے اور لڑکی کو بھی مرد کا دین دیکھنا چاہیے اس لیے میں لڑکوں کو بھی کہتا ہوں کہ یہ حکم صرف عورتوں کے لیے نہیں ہے لڑکیوںکے لیے نہیں ہے کہ وہ دیندار ہوں اور مرد اپنا رشتہ تلاش کرتے ہوئے لڑکے اپنا رشتہ تلاش کرتے ہوئے دیندار لڑکی دیکھیں بلکہ لڑکوں کوخود بھی دیندار ہونا پڑے گا۔ اگر لڑکا دیندار نہیں تو اس کو دیندار لڑکی کہاں سے ملے گی اور اس کی توجہ کس طرح ہو گی دیندار لڑکی کی طرف۔ اس لئے اس ایک فقرے میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے اور لڑکی دونوں کی اصلاح فرما دی کہ لڑکا بھی دیندار ہو اور لڑکی بھی دیندار ہو۔ اب دعا کرتے ہوئے اگرآپ کے دل میں یہ خیال آتا ہے دنیاوی باتیں، سوچیں زیادہ آتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دعا میں اتنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنا اثر نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو ہمیشہ اس کا دین اور اس کی جو اچھی باتیں نیک اعمال ہیں ان کی طرف توجہ ہو۔ انسان دعا کرے کہ اچھا دیندار اور اچھے عمل کرنے والا انسان مجھے ملے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جب اپنے لیے دعا کرو رشتہ کے لیے تو نیک نصیب ہونے کی دعا کرو۔ ایسے خاوندکے لئے دعا کرو جو دیندار بھی ہو جس کے اعمال بھی اچھے ہوں جو پڑھا لکھا بھی ہو جو caring بھی ہو پیار محبت کا سلوک کرنے والا ہو اپنی بیوی سے۔ اعتماد قائم کرنے والا ہو یہ نہ ہو کہ دھوکا دے دے ایک شادی کرے،اپنی طرف سے ہاں کر لی اس کے بعد معاملے آ جاتے ہیں ،پتہ لگتا ہے کہ کہیں اور بھی دوستیاں چل رہی تھیں تو ایسے لڑکوں سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اس لیے یہ دعا کرنی چاہیے انسان کو، دعائیں بھی نیک ہوں دعاؤں کا بھی طریقہ ہے۔ نیک دعا کرو۔ صرف یہ نہ دیکھو کہ فلاں لڑکا بڑا خوبصورت ہے بڑا سمارٹ ہے بڑے اس کے پیسے ہیں تو وہ مجھے مل جائے بلکہ یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میرا نصیب نیک کرے اور جب نصیب نیک ہو گا تو اس میں ساری نیکیاں شامل ہو جائیں گی۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ جرمنی میں مسلمان نوجوان ہیں جن کے لیے مختلف ادارے این۔جی۔اوز (NGO’s)کام کرتی ہیں نوجوان کو ورکشاپس اور علمی سرگرمیاں فراہم کرتی ہیں۔ ہم اگر چاہیں تو ان کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں اور پروگرام تیار کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہم احمدیت کا پیغام بھی پھیلا سکتے ہیں۔ پیارے حضور کی اس بارے میں ہم احمدی خواتین کو کیا ہدایت ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ ورکشاپس ہوتی ہیں علمی سرگرمیاں ہوتی ہیں ان میں کام کرنا بڑی اچھی بات ہے۔ کر سکتی ہو تو کرو ۔لیکن ایک بات کا خیال رکھیں لڑکیاں احمدی لڑکیاں بھی عورتیں بھی کہ اپنے تقدس کا خیال رکھنا ہے ان کا ڈریس کوٹ جو ہے وہ ٹھیک طرح ہونا چاہیے۔ پورا اچھا لباس حیا دار لباس پہنا ہو اور حجاب پہنا ہو ۔ اس کے ساتھ، مل کے ان کے ساتھ کام کرو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کہیں کہ سپورٹس کِٹیں پہن کے اسی طرح نکل جاؤ باہر بغیر حجاب کے بغیر ڈوپٹے کے اور بعض سرگرمیاں ہیں کہہ رہی ہیں لوگوں کو attract کرنے کے لیے کر رہے ہیں یا واکس کر رہے ہیں ان کے حق میں بعض سپورٹ کرنے کے لیے تو وہ غلط ہے۔ ورکشاپس ہوتی ہیں ان میں آپ مدد کر سکتی ہیں۔ کس قسم کی ورکشاپس ہوتی ہیں؟ علمی باتیں مہیا کرنے کے لیے؟

(ممبر لجنہ نے بتایا کہ جی علمی باتیں۔ وہ اکثر ایسے سوشل ادارے ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف جو مخالفت ہوتی ہے اس کو کم کرنے کے لیے۔)

حضور انور نے فرمایا کہ ان کا ساتھ دے سکتے ہو لیکن اپنا جو روایت اور تقدس ہے اور حیا ہے اور لباس ہے اور حجاب ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے۔ کوئی حرج نہیں ان کے ساتھ مل کے آپ کام کر سکتی ہیں ۔ ایسی فیلڈ میں تو پھر لجنہ کو خود بھی آرگنائز کر لینا چاہیے ان کے ساتھ۔ کس طرح تعاون کرے گی۔ تو لجنہ اپنے طور پر بھی کر سکتی ہے۔ اور اگر آپ لوگوں کے علم میں آتا ہے کوئی ایسے ادارے ہیں جو تعاون کرنے والے ہیں جو اسلام کے حق میں بولنے والے ہیں یا بعض ورکشاپس کرتے ہیں یا سیمینار کرتے ہیں ان میں لوگوں کو بلاتے ہیں تاکہ awareness پیدا ہو لوگوں میں اسلام کے بارے میں یا دین کے بارے میں یا ویسے ہی ایک سوشل gathering ہو جہاں ہر مذہب کے لوگ اور لامذہب اکٹھے ہو کے بات کر سکیں تو اس میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے ان ورکشاپس میں ان کی مدد کرنے میں۔ لیکن اگر لجنہ بھی بیچ میں شامل ہو جائے official طور پہ تو زیادہ اچھا ہو جائے گا۔

آخر پر حضور انور نے صدر صاحبہ AMSAسے دریافت فرمایا کہ وہ کیا پڑھ رہی ہیں جس پر انہوں نے عرض کیا کہ وہ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں جس کا موضو ع ہے کہ حجاب لینے والی مسلمان عورت کو یہاں جرمنی میں مختلف عوامی مقامات پر کس طرح محسوس ہوتا ہے۔ یعنی عورتیں کیوں حجاب پہنتی ہیں اور عورتوں کو کون سی مشکلات درپیش ہیں اور کس طرح ہم ان مشکلات کو دور کر سکتی ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ پھر آپ نے اس کے حق میں کوئی دلیل نکالی ہے کہ حجاب کیوں ضروری ہے اور ہم کیا محسوس کرتی ہیں۔ عورتیں خود کیا محسوس کرتی ہیں۔ (انہوں نے بتایا کہ جی حضور میں نکال رہی ہوں۔)۔ فرمایا کہ ٹھیک ہے اپنا thesis جو لکھ رہی ہیں وہ لکھیں لیکن اخباروں میں بھی آرٹیکل لکھا کریں اس بارے میں۔

اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button