خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ دسمبر 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

٭… حضرت ابوبکرؓ نے بغیر کسی توقف اور تردد ّ کےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرکے آپؐ کی تصدیق کی

٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اُس نے ٹھوکر کھائی اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکرؓ کے

٭… حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ابو بکری فطرت کے رنگ میں رنگین ہوئے بغیر صدیقی کمالات حاصل نہیں ہوسکتے

٭… حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے مصدق ہونے کو اپنے افعال سے ثابت کردکھایا ،مرتے دم تک نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ دسمبر 2021ء بمطابق 10؍فتح1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 10؍ دسمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروزعالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکر ؓ کے قبول اسلام کی بعض باتیں مختلف زاویوں سےبیان کی گئی ہیں مگر واقعہ ایک ہی ہے۔ اسد الغابہ میں ذکر ملتا ہے کہ یمن میں ازد قبیلہ کے ایک بوڑھے شخص نے اپنے سچے علم کی روشنی میں حرم میں ایک نبی کے مبعوث ہونے اوراُس کے مددگار شخص کے پیٹ پر تِل ، بائیں ران پر ایک علامت ، بڑی عمر، پتلا جسم اور چند دیگر صفات کا حضرت ابوبکرؓ میں موجود ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے اُن کو خبر دارکیا کہ ہدایت سے انحراف نہ کرنا ، مثالی و بہترین راستے کو مضبوطی سے تھام کر خداکی طرف سے دیے گئے مال و دولت کے متعلق خدا سے ڈرتے رہنا۔حضرت ابوبکر ؓنے واپس مکہ آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کے دعویٰ کی تصدیق چاہی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یمن کے بوڑھے شخص سے ملاقات کا حوالہ دیا جس پر حضرت ابوبکر ؓنے آپؐ کے ہاتھ پر گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔

ریاض النضرۃ میں بیان کیا گیا کہ حضرت اُمِّ سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ قریش کے لوگوں نے حضرت ابوبکر ؓ کو کہا کہ تمہارا یہ ساتھی دیوانہ ہوگیا ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا اور خود کو نبی کہتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میں نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اور بغیر کسی توقف اور تردّ دکے آپؐ کی بیعت کرکے آپؐ کی تصدیق کی اور اقرار کیا کہ آپؐ جو لےکر آئے وہ حق ہے۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اُس نے ٹھوکر کھائی اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکرؓ کے۔

حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں کیونکہ آپؐ کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کےبعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ایک اور جگہ بیان کیاکہ حضرت ابوبکرؓ کا ایمان لانا عجیب طور تھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ پر کسی سوال کے بجائے نہ صرف آپؐ کی صداقت کی خود گواہی دی بلکہ سات اور نوجوان آپؓ کے سمجھانے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ کو بڑے بڑے ابتلا آئے، جائیدادیں اور وطن چھوڑنا پڑا ، عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر اُن کے پایہ ثبات میں کبھی لغزش نہیں آئی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کا خطاب دیا۔ اگر غور کیا جائے تو حضرت ابو بکرؓ کے صدق کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ کسی بھی شخص کو ممکن حد تک مجاہدہ کرنے، حتی المقدور دعا سے کام لینے اور ابو بکری فطرت کے رنگ میں رنگین ہوئے بغیر صدیقی کمالات حاصل نہیں ہوسکتے۔حضرت ابوبکر ؓنےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا مصدق ہونے کو اپنے افعال سے ثابت کردکھایا ،مرتے دم تک نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۂ رحمٰن کی آیت وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (اور جو بھی اپنے ربّ کے مقام سے ڈرتا ہے اُس کے لیے دو جنتیں ہیں )کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی مثال دیتے ہیں کہ سب سے زیادہ انہی کو دُکھ دیا گیا اور سب سےبڑھ کر وہی ستائے گئے تو سب سے پہلے تخت نبوت پر بھی وہی بٹھائے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کویہاں بھی انعام سے نوازتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ اوّل مقرر کیا اور اگلے جہان میں تو ہے ہی جنت۔

مؤرخین کے نزدیک مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔علامہ احمد بن عبداللہ لکھتے ہیں کہ پہلے بالغ عربی شخص جس نے اسلام قبول کرکے اُس کا اظہار کیا وہ حضرت ابوبکرؓ بن ابو قحافہ تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ابوبکرؓ وہی تو ہے جس نے غارِ ثور میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اور وہ اُن سب لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسولؐ پر ایمان لائے۔ یورپ کا مشہور مستشرق سپرنگر لکھتا ہے کہ ابوبکرؓ کا آغازِ اسلام میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھوکا دینے والے ہر گز نہیں تھے ۔سرولیم میور کو بھی سپرنگر کی اس رائے سے کلی اتفاق ہے۔

اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی محبت اور نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے ایک جماعت نے آپؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا یہاں تک کہ عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہ حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت زبیربن عوامؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعدبن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے آپؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی کتاب سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھتے ہیں کہ یہ سب کے سب ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب نکلے کہ چوٹی کے صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں اور اُن دس صحابہ میں سےہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے جنت کی بشارت دی تھی اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت مقرّب صحابی اور مشیر شمار ہوتے تھے۔

کفار مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے مظالم کیے ۔نہ صرف کمزور اور غلام مسلمان ہی ظلم و تشدد کا نشانہ بنے بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ بھی محفوظ نہ رہے۔ سیرت حلبیہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ قریش کا شیر کہلانے والےنوفل بن عدویہ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ کو اسلام کا اظہار کرنے پر دونوں کو پکڑ کر ایک ہی رسی سے باندھ دیا۔ اسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ کو قرینین بھی کہتے ہیں یعنی دو ساتھی ملے ہوئے۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے کپڑا آپؐ کی گردن میں ڈال کر آپؐ کا گلہ زور سے گھونٹا۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے اور انہوں نے عقبہ کو دھکیل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا یا اور کہا

اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ

کہ کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کروگے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ مسجد حرام میں مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع ہوئی تو وہ پہنچےاور آپؓ نےکہا

اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ۔

کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے۔ اس پرمشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑکر آپؓ کو مارنے لگے۔حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ آپؓ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپؓ اپنے بالوں کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپؓ کے ہاتھ میں آجاتے اور آپؓ کہتے جاتے تھے کہ

تَبَارَكْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ

کہ اے بزرگی اور عزت والے تو بابرکت ہے۔

حضرت علی ؓنے فرمایا: میرے ساتھ جس نے لڑائی کی مَیں نے اُسے مار گرایا مگر سب سے بہادر ابوبکر ؓہیں۔جنگ بدر میں حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار سونتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے کہ کوئی بھی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے اُن سے مقابلہ کرے گا۔پھر ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتنگ کرنے والے قریش کے لوگوں کو حضرت ابوبکر ؓنے مار بھگایا تو حضرت علی ؓنے فرمایا: اللہ کی قسم حضرت ابوبکرؓ کی ایک گھڑی آلِ فرعون کے مومن کی زمین بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ شخص اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اوریہ شخص یعنی حضرت ابوبکر ؓاپنے ایمان کا اعلان کرتا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ چند دشمنوں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کیا۔ قریب تھا کہ آپؐ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابوبکرؓ آ ئے اور آپؐ کو مشکل سے چھڑایا۔ اس پر ابوبکرؓ کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔

حضرت ابوبکرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو اُن کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ آپؓ نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور سات ایسے غلاموں کو آزاد کروایا جن کو اللہ کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی۔ان غلاموں میں حضرت بلالؓ، حضرت عامربن فہیرہؓ،حضرت زِنِیرہؓ، حضرت نھدیہؓ اور ان کی بیٹی، بنی مؤمل کی ایک لونڈی اور ام عبیس شامل تھے۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ ذکر آئندہ بھی انشاء اللہ چلے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button