متفرق شعراء

جو بوؤ گے سو کاٹو گے

(’م م محمود‘)

من جل جل کر ہے راکھ ہوا

جاں جیتے جی بے جان ہوئی

دل خون کے آنسو روتا ہے

اے کاش کہیں مَیں مر جاؤں

اس کرب سے دور میں ہو جاؤں

جو کرب کچوکے لگائے ہے

اور ہر پل کہتا جائے ہے

جسے جیتے جی کر ڈالا بھسم

جسے زندہ ہی سنگسار کیا

کوئی اور نہیں وہ میں ہی تھا

میں کون ہوں آؤ بتلاؤں

میں مسلم ہندو عیسائی

میں کافر مشرک جو بھی تھا

اُس خالق کی مخلوق تھا میں

جس خالق پر جاں وارتے ہو

سر جس کے آگے ٹیکتے ہو

دن رات ہی جس کا نام جپو

وہ کرب یہ مجھ کو کہتا ہے

اک بات بتاؤ سچ مُچ یہ

کیا تن میں من تم رکھتے ہو

کیا روح تمہاری جیتی ہے

کیا خون رگوں میں بہتا ہے

کس مٹی کی تخلیق ہو تم

کیا واقعتاً انسان ہو تم

وہ کرب یہ کھوج لگائے ہے

کس بستی کے رہنے والے ہو

کس دیس نگر سے آئے ہو

تم کون سی بولی بولتے ہو

کس عشق کے دعویدار ہو تم

کس کے عاشق اور یار ہو تم

کیا جی میں تم نے ٹھانی ہے

کیا نگری ویسی بنانی ہے

وہ دیس تو امن کا ملجا تھا

اُس نگری میں آشتی رہتی تھی

اُس دیس کا والی رحمت تھا

اِس ملک کے باسی زحمت ہیں

اے کرب تُو جان نہ پائے گا

کیا کارن ہے کیا باعث ہے

بے دردی کا سفّاکی کا

میں سبب آ تجھ کو بتلاؤں

جو چاہا تھا وہ پایا ہے

جو بوؤ گے سو کاٹو گے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button