الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کا عظیم مقام
ایک ہندو سکالر پروفیسر کے ایس رام کرشنا راؤ (Prof K. S. Ramkrishna Rao) میسور (بھارت) کی یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے نگران رہے ہیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اپریل 2013ء میں اُن کی ایک کتاب سے آنحضورﷺ کے بارے میں ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’Muhammad – The Prophet of Islam‘‘ میں لکھتے ہیں:
(ترجمہ) ’’میرے نزدیک آپؐ عرب کے بیٹوں میں سے سب سے زیادہ عظیم دماغی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آپؐ کا مقام آپؐ سے پہلے اور آپؐ کے بعد آنے والے تمام شعراء اور بادشاہوں سے بہت بڑھ کر ہے جو اس لق و دق سرخ ریت کے صحرا میں پیدا ہوئے۔ جب آپؐ مبعوث ہوئے تو عرب محض ایک صحرا تھا، ایک بےحیثیت (جگہ)۔ محمد(ﷺ) کی عظیم روح نے اس بےحیثیت (مقام) سے ایک نئی زندگی کو تراشا، ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو مراکش سے لے کر جزائر تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کا اثر تین براعظموں پر پھیلا ہوا تھا یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ۔‘‘ (صفحہ3)
………٭………٭………٭………
میرے والدین: حضرت امۃالباسط صاحبہ اور حضرت میر داؤد احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اپریل 2013ء میں محترم میر داؤد احمد صاحب اور محترمہ امۃالباسط صاحبہ (المعروف بی بی باچھی) کے صاحبزادے کے قلم سے اُن کے محترم والدین کی چند ایسی صفات کا ذکر کیا گیاہے جو عموماً گھر سے باہر کے لوگوں کے لیے اوجھل ہوتی ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارے ابّا کی وفات (1973ء) کے بعد امّی نے اپنی تمام دلچسپیاں لوگوں سے میل جول اور اُن کا خیال رکھنے پر مرکوز کردیں۔ عموماً آپ رات دو اڑھائی بجے اُٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتیں اور فجر کی نماز پڑھ کر سوجاتیں۔صبح نو بجے اُٹھ کر ناشتہ، ساتھ تلاوت اور الفضل کا مطالعہ ہوتا۔ پھر اشراق کے نوافل جو قریباً گیارہ بجے تک چلتے۔ پھر خواتین کی آمد کا سلسلہ دوپہر کے کھانے تک مسلسل جاری رہتا۔ ہر شخص کی گرمیوں میں کم از کم شربت سے آؤبھگت کی جاتی۔ حتیٰ کہ ڈاکیابھی روزانہ ٹھنڈے شربت کا ایک گلاس پیے بغیر نہ جاتا۔ اگر اس بارے میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوجاتی تو تنبیہ کرتیں۔جب تک صحت نے اجازت دی تو شام کو عزیزوں سے ملنے چلی جاتیں۔ صحت کمزور ہوگئی تو گھر کے برآمدے میں ٹہل لیتیں۔
ایک بار آپ کسی درویش کی صاحبزادی کی شادی سے واپس آئیں تو بہت پریشان تھیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ دلہن نے کوئی زیور نہیں پہنا ہوا تھا۔ اگلے روز صبح سویرے آپ اُن کے ہاں دوبارہ گئیں اور کچھ زیور بچی کو دے آئیں۔
ایک دفعہ ابّا نے گھر آکر بتایا کہ اُن کے ایک شاگرد کی اہلیہ اپنی پہلی بچی کی پیدائش کے دوران انتقال کرگئی ہیں اور نوزائیدہ بچی بےماں کے رہ گئی ہے۔ چنانچہ دونوں جاکر بچی کو لے آئے اور جب تک کوئی مناسب بندوبست نہ ہوا، وہ بچی ہمارے یہاں ہی پلتی رہی۔
میری اہلیہ اور امّی کا تعلق دوستانہ تھا۔ بعض دفعہ میری بیوی نے مجھ سے کوئی بات منوانی ہوتی تو امّی سے کہہ کر منوالیتی۔ یوں گھر میں کبھی روایتی ساس بہو کا سوال نہیں اُٹھا۔ میری اہلیہ نے بھی امّی کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
امّی بچوں سے بہت بےتکلّف تھیں۔ بچوں کے شور کرنے پر کبھی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ رات کو مطالعہ ضرور کرتیں۔ زیادہ کمزور ہوئیں تو میری بیٹی سے رسالہ پڑھواکر سنتیں اور اگر ضرورت ہوتی تو تلفُظ درست کرواتیں۔ آپ بتایا کرتیں کہ حضرت امّاں جانؓ اسی طرح ہم سے پڑھواکر تلفّظ درست کرواتی تھیں۔
سیروسیاحت کا شوق تھا۔ ہر سال لندن اور کبھی امریکہ بھی جاتیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوںمیں بھی گئیں۔ٹینٹ میں بھی رہیں۔ کئی کئی گھنٹے کا بس کا سفر کیا۔ ہر جگہ خوب لطف اٹھایا۔آپ امریکہ سے واپس آتے ہوئے لندن میں تھیں کہ گلے کے عضلات پر فالج کا حملہ ہوا۔ پاکستان آکر کچھ روز بعد ہی آپ کی وفات ہوگئی۔وفات کے بعد سب ملنے والوں کا کہنا تھا کہ بہت پیار کرنے والی، خوش باش اور لوگوں کا دکھ درد دُور کرنے کی کوشش کرنے والی خاتون تھیں۔ اختلافات ہوبھی جاتے لیکن اس کو لمبا نہیں چلایا۔ کبھی اخلاقیات پر آنچ نہیں آنے دی اور کبھی انتقامی کارروائی نہیں کی۔
امّی ابّا کے بارے میں بعض عزیز کہتے ہیںکہ نہایت خوبصورت جوڑی ہے۔ غریبوں کے ہمدرد، محنتی، توجہ سے کام کرنے والے اور مجسّم بشاشت۔ بچوں سے بےتکلّف۔ ابّا دفتر سے گھر آکر کھانا کھاتے۔ شام کو امّی کے ساتھ کسی سے ملنے چلے جاتے یا پھر دفتر۔مغرب کے بعد خلیفۃالمسیح کے دربار پر حاضری دینا روز کا معمول تھا۔ عشاء کی اذان کے بعد گھر۔ پھر رات کا کھانا۔ نماز اور پھر دفتر کا کام یا مطالعہ۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے آخری ایّام میں ابّا کو حضورؓ کی خدمت کا بہت موقع ملا۔ حضورؓ چلنے میں دقّت محسوس کرتے تو آپؓ کو کرسی پر اُٹھایا جاتا۔ حضورؓ اس سلسلے میں ابّا پر بہت اعتماد کرتے کیونکہ ذرا سے جھٹکے سے حضورؓ تکلیف محسوس کرتے۔ حضورؓ کو کوٹ پہنانا، کرسی پر بٹھانا۔ پھر عموماً حضورؓ شام کو احمدنگر تشریف لے جاتے اور باغ میں بعض احباب کے ساتھ مجلس ہوتی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی ابّا پر بہت شفقت فرماتے اور کئی ایسے کام آپ کے سپرد فرماتے جن سے آپ پر حضورؒ کا اعتماد ظاہر ہوتا۔ آخری بیماری میں حضورؒ نے آپ کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمایا۔
ابّا بہت خوش لباس تھے۔ سردیوں میں شلوار قمیص کے اوپر اچکن پہنتے یا سوٹ پہنتے۔ گرمیوں میں شرٹ اور پتلون یا شلوار قمیص۔ لیکن ہمیشہ صاف ستھرا بے شکن لباس ہوتا۔ خوشبو بھی عمدہ استعمال کرتے۔
ہر چیز کے لیے منصوبہ بندی کرتے۔ جلسہ کا کام سارا سال تو چلتا ہی رہتا لیکن آخری دو ماہ میں تو ابّا کم ہی گھر پر نظر آتے۔ لنگرخانوںمیں سوئی گیس کی فراہمی اور گیس کے تنور اور چولہے متعارف کروانے کے لیے بہت محنت کی۔ جامعہ کے طلباء کی علمی اور روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت پر زور دیتے تھے۔ جامعہ کے ساتھ دارالاقامہ کے طلباء کا بھی خیال رکھتے۔ یہ سب کام کرتے ہوئے کبھی خشکی کا شکار نہیں ہوئے۔ ایک مسکراہٹ ہمہ وقت آپ کے چہرےپر کھیلتی رہتی۔ اکثر ایوان محمود یا جامعہ میں بیڈمنٹن کھیلنے جاتے۔
آخری عمر میں بلڈپریشر بہت بڑھ گیا لیکن آپ کام سے کبھی نہیں رُکے۔ خون کا دباؤ بڑھنے سے آنکھ کا پردۂ بصارت بھی پھٹ گیا جس سے نظر پر اثر پڑا۔ علاج کے لیے راولپنڈی کے CMH میں بھی داخل رہے لیکن بلڈپریشر کم نہ ہوا بلکہ دیگر اعضاء بھی متأثر ہونے لگے۔ آپ کو اپنے آخری وقت کا اندازہ ہورہا تھا اس لیے خواہش کرکے ربوہ آگئے اور چند روز کے بعد خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔
مکرم ڈاکٹر نوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ اُن کی صاحبزادی کی شادی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؓ کے انتقال کے بعد ہوئی۔ میری والدہ نے انہیں شادی کے تحفے کے طور پر دو لفافوں میں کچھ رقم پیش کی۔ ایک اپنی طرف سے اور ایک لفافہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی طرف سے یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ آپ نے اُن کی بہت خدمت کی تھی اور اگر وہ حیات ہوتے تو ضرور اس سے بہت زیادہ آپ کو عطا فرماتے۔
بقول وصّی شاہ ؎
جہاں جہاں ہے مری دشمنی سبب مَیں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے
………٭………٭………٭………
مکرم چودھری طاہر احمد صاحب
مکرم چودھری طاہر احمد صاحب کا مختصر ذکرخیر اُن کی بیٹی مکرمہ الف۔طاہر صاحبہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اپریل 2013ء میں شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارے خاندان میں احمدیت ہمارے دادا محترم چودھری ناظر حسین صاحب (پٹواری) کے ذریعے قریباً 1926ء میں آئی۔ انہیں اپنے گھر اور خاندان میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ استقامت کے ساتھ ایمان پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نےانہیں تین بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔
مکرم طاہر احمد صاحب اگست 1947ء میں پیدا ہوئے۔ ایف اے کرکے ایئرفورس میں شمولیت اختیار کی۔ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر دو سال تک جنگی قیدی بھی رہے۔ رہائی کے بعد اپنے والدین کا بہت خیال رکھا۔ اپنے والد کی بیماری میں ہسپتال کے فرش پر بھی سوجاتے۔ 1974ء میں آپ کی شادی مکرمہ طاہرہ ناز صاحبہ دختر چودھری نادرعلی صاحب سے ہوئی۔ اسی سال فسادات کے دوران آپ کے گھر پر حملہ کرکے سارا سامان نذر آتش کردیا گیا۔ اور آپ بےگھر ہوکر ربوہ آگئے۔ کچھ عرصے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ارشاد پر آپ کے والد جو اُس وقت جماعت چک جھمرہ کے صدر اور امیر حلقہ تھے، اپنے اہل خانہ کو چک جھمرہ لے آئے۔ بعد میں خداتعالیٰ نے اُس سے کہیں بڑھ کر دیا جتنا نقصان مخالفین نے پہنچایا تھا۔ مکرم طاہر احمد صاحب بھی قریباً تیرہ سال تک صدر جماعت اور امیر حلقہ کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ خلافت کے عاشق تھے اور نظام وصیت میں شامل تھے۔ آپ نے چک جھمرہ میں مسجد بھی تعمیر کروائی جس کے لیے احمدیوں نے کئی وقارعمل بھی کیے۔
آپ بسلسلہ ملازمت ابوظہبی بھی گئے لیکن احمدیت کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کردیے گئے۔ آپ کو دو مرتبہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کا بھی موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ دو کم سن بیٹیوں کی وفات کا صدمہ آپ نے بہت ہمت سے برداشت کیا اور اپنی اہلیہ کو بھی حوصلہ دیا۔ دوستانہ ماحول میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے۔ 31؍دسمبر2010ء کی شام مختصر علالت کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍جون 2013ء میں مکرم محمودالحسن صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
اَور بھی کچھ ہیں محفلیں ، محفلِ یار کے سوا
ایک بہار اَور ہے ، عہدِ بہار کے سوا
عزمِ بلند ہی سے ہیں ماہ و نجوم خاکِ پا
ورنہ بشر ہے چیز کیا مشتِ غبار کے سوا
باغِ بہشت ہے کہیں ، باغِ بہشت ہے کوئی!
تیرے دیار سے الگ ، تیرے دیار کے سوا
عاشقِ جاں نثار نے کل سرِ دار یہ کہا
ہیچ ہیں سب بلندیاں رفعتِ دار کے سوا
تیرے شعور کے بغیر ، تیرے جمال کے بغیر
کچھ بھی نہیں ہے زندگی ، اِک شبِ تار کے سوا
آپ پہ جب نظر پڑی ، یہ بھی حسین ہوگئی
ورنہ میری آنکھ کیا ، گرد و غبار کے سوا
تجھ سے مَیں شرمسار ہوں ، نذر کروں تو کیا کروں
ہے مرے پاس اَور کیا ، اِک دلِ زار کے سوا